حبیب الرحمن بٹالوی
وادی کشمیر خوں رنگ خوں ریز ہے…… ماؤں کے کئی لال ……وطن پر اپنی جان قربان کر چکے ہیں…… کئی جیلوں میں پڑے ہیں …… کوئی پرُسانِ حال نہیں …… آزادی کے ان متوالوں نے ……ایثار وقربانی کی انمٹ یادیں اپنے خو ن سے رقم کی ہیں ……بھارتی درندے ……آراہیں ایس کے غنڈے ……روز انہ سرچ کے نام پر …… نہتے مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں…… جوانوں کوشہید کرتے …… دکانوں کو آگ لگاتے ہیں ……مائیں بہنیں بین کرتی رہ جاتی ہیں…… گولیاں سسکیاں، ہچکیاں اُن کا مقدر بن چکی ہیں۔ وادی میں پندرہ دن سے کرفیو نافذ ہے…… کئی جاں بلب بیمار…… دوا کو ترس رہے ہیں بچے بھوکے سے نڈھال ہیں…… بڑے بوڑھے نحیف حال ہیں ……کھانے کی کوئی چیز میسر نہیں ……کسی کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں…… جمعے کی نماز کاوقت ہے اتنے میں ……ایک مسلمان جان ہتھیلی پر رکھ کر مسجد میں آتا ہے ……اذان شروع کردیتا ہے…… ابھی اس نے اﷲ اکبر کہا تھا کہ زن سے ایک گولی اُسے ڈھیر کردیتی ہے…… دوسر امسلمان آتا ہے…… اگلا کلمہ کہہ پاتا ہے…… کہ دوسری گولی اُس کے جسم کے آرپار ہو جاتی ہے…… اس طرح تیسرا مسلمان حی علی الفلاح کہتا ہے کہ بھارتی درندوں کی گولی اُسے چھلنی کر دیتی ہے…… اس طرح کوئی گیارہ مسلمان …… موت کو گلے لگاتے ہیں مگر اذان کے اظہار پر آنچ نہیں آنے دیتے اﷲ اکبر !…… اﷲ اور اﷲ کے رسول ؐ کے نام کی عظمت اور بلندی پر جان دینے والوں پر اُن اذان کے شہیدوں پر سلام اور کروڑو ں رحمتیں اور برکتیں!
جناب احسان دانش کی یہ نظم ‘‘کرفیو میں اذان‘‘ اس واقعہ پر کتنی صادق آتی ہے
اے مؤذن اے خداوند و محمدؐ کے نقیب کرفیو میں ہیں تیری آواز کی موجیں عجیب
مضمحل لہجہ، لرزتے لفظ، بھرائی صدا جس طرح دوشِ ہوا پر سسکیوں کا قافلہ
دل تڑپ اُٹھا ہے اور پلکیں ہوئی جاتی ہیں نم یہ مسلمانوں پر ’’مودی حکومت‘‘ کا ستم
دے رہا ہے اب بھلا دعوت کسے ُسوئے فلاح ہر قدم پر جب یہاں خونِ مسلماں ہے مباح
مسجدوں کے فرش پر خون کے ڈوروں کا جال کون جانے کس قدر مغموم ہے رُوحِ بلالؓ
ہے اندھیرے سے لبالب شہر کا ہر راستہ گاہے گاہے کچھ مسلّح خود فروشوں کی صدا
جاں بلب بیمار، محرومِ دوا ہیں جابجا کل کے ترشے بت بزعمِ خود خدا ہیں جابجا
بندچوراہو ں یہ لاشے ، زخمیوں کی ریل پیل حاکموں نے ڈال رکھی ہے ،رعایا کے نکیل
بے خطا لوگوں پہ یہ ظلم وتعّدی الاماں گولیوں کی سیٹیو ں کے ساتھ اشک آوردھواں