عبداللطیف خالدچیمہ
جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے منصب رسالت و ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کی اساس اورمسلمانوں میں ’’وحدت اُمت‘‘ کی علامت ہے ،جھوٹے نبیوں کی ایک پوری تاریخ ہے اور انکار ختم نبوت پر مبنی فتنوں نے ظہور اسلام کے وقت ہی سراٹھانا شروع کردیا تھا ،ہندوستان میں انگریز سامراج نے مسلمانوں سے جذبۂ جہاد ختم کرنے اور باہمی انتشار و افتراق پیدا کرنے کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کو کھڑا کیا ،علماء اُمت کے علاوہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال مرحوم جیسی شخصیات نے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے مورچے کو سنبھالا، مجلس احرارا سلام نے شعبۂ تبلیغ تحفظ ختم نبوت قائم کرکے پورے ہندوستان میں اِس فتنے کی تباہ کاریوں سے اُمت کو محفوظ رکھا ،پاکستان بننے کے بعد جب قادیانی پاکستان کے اقتدار پر شب خون مارنے کی تیاریاں کرنے لگے تو احرار نے تمام مکاتب فکر اور ممتاز شخصیات کو ’’کُل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور حضرت مولانا ابو الحسنات قادری رحمتہ اﷲ علیہ کو مجلس عمل کا سربراہ بنایا گیا ۔تحریک مقدس تحفظ ختم نبوت 1953ء نے حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ مسٹر ظفر اﷲ خان کو وزارت ِخارجہ سے ہٹایا جائے،کلیدی عہدوں سے قادیانیوں کو الگ کیا جائے اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے، وقت کے حاجی نمازی لیگی حکمرانوں نے یہ مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے دس ہزار نفوس قدسیہ کے مقدس خون سے ہاتھ رنگے اور پھر یہ کہا گیا کہ ’’اگر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جاتا تو امریکہ ہماری گندم بند کردیتا‘‘۔
حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ نے تب فرمایا تھا کہ ’’میں اِس تحریک کے ذریعے ایک ٹائم بم فٹ کرکے جارہاہوں وہ اپنے وقت پر ضرور پھٹے گا‘‘۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ بھٹو مرحوم جن کو خود 1970ء کے الیکشن میں قادیانیوں کی حمایت حاصل رہی ،اُسی بھٹو کے دور اقتدار میں پارلیمنٹ نے 13 دن کی بحث اور فریقین کا مؤقف سننے کے بعد آئین میں ترمیم کرکے لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ بعدازاں حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمتہ اﷲ علیہ کی قیادت میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کی تحریک کے نتیجے میں 26 ؍اپریل 1984ء کو امتناع قادیانیت ایکٹ جاری ہوا، جس کی رو سے قادیانی اسلامی شعائر و علامات استعمال نہیں کر سکتے لیکن قادیانی اور قادیانی جماعت اِن دونوں فیصلوں کو ماننے سے مسلسل انکاری ہیں بلکہ اِن فیصلوں کو بنیاد بنا کر امریکہ اور مغربی دنیا میں پاکستان کو بری طرح بدنام کر رہے ہیں، قانون کی عمل داری میں اکھنڈ بھارت کا مذہبی عقیدہ رکھنے والی قادیانی جماعت کو اِستشناء دینا وطن عزیز کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں اور ملکی سلامتی کے حوالے سے ہرگزمناسب نہیں۔
قادیانی دہشت گردی کی پوری تاریخ رکھتے ہیں ،تحدیث نعمت کے طور پر عرض ہے کہ آج سے 31 سال قبل 7؍ستمبر کو ہم فقیروں نے مجلس احرار اسلام اور تحریک تحفظ ختم نبوت جو ہماری جولانگاہ ہے، کے پلیٹ فارم سے چھوٹے چھوٹے پروگراموں، خبروں اور مضامین سے اس کا مبارک آغاز کیا تھا ۔آج الحمد اﷲ ،ثم الحمد اﷲ ! نہ صرف ملک کے طول و عرض جبکہ بیرون ممالک میں بھی یوم ختم نبوت منایا جاتا ہے اور تمام مکاتب فکر میں اس حوالے سے جوش و خروش بڑھ رھاہے ،ہم نے صدا لگائی بھی اسی لیے تھی کہ اِس کی خوشبو پوری دنیا کو معطر کردے۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
7؍ ستمبر کے اس تاریخی فیصلے ،1984ء کے امتناع قادیانیت ایکٹ اور اعلیٰ عدالتی فیصلوں کے خلاف آج پھر ایک مہم زوروں پر ہے کہ ’’ریاست کو یہ حق حاصل نہیں تھا‘‘ اِس میں سیکولر لابیاں ، لبرل سیاستدان، این جی اوز کے ملفوف پردے میں قادیانی تنظیمیں اورا سلام ووطن دشمن عناصر پیش پیش ہیں کہ آئین کی اسلامی دفعات خصوصاََ تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت جیسے قوانین ختم ہونے چاہییں، اِس طرح ہمارا عقیدہ استعماری ایجنڈے کی زد میں ہے ،قادیانی سربراہ مرزا مسرور آئین پاکستان کو تبدیل کرنے کی باتیں کر رہا ہے وزیر اعظم عمران خان کے دورہٌ امریکہ سے چند روز پہلے چناب نگر (ربوہ) کے قادیانی عبد الشکور (چشمے والا) کی امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کروائی گئی اور اس نے وہاں پاکستان کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے کے بعد مجموعی طور پرقادیانی سرگرمیوں اور ریشہ دوانیوں میں بے حد اضافہ ہواہے اور قادیانی انفرادی اوراجتماعی طورپر آئین اور قانون سے نہ صرف انحراف برت رہے ہیں بلکہ دنیابھرمیں پاکستان کے خلاف مسلسل لابنگ اور پراپیگنڈہ کرکے ریاست کو چیلنج کر رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مسلسل خاموش ہیں۔ اِس لیے دینی جماعتوں کو مصلحت کی پالیسی کی بجائے حکمت و تدبیر سے آگے بڑھنا چاہئے اور اپنی جدوجہد کو بین الاقوامی حالات کے تناظر میں از سر نو مرتب کرنا چاہیے۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم تعلیم و تربیت ،لابنگ اور میڈیا کے محاذ پر زیادہ توجہ دیں اور مقتدر حلقوں تک اپنی آواز آج کے اسلوب میں پہنچا نے کا مناسب انتظام کریں، مرزا غلام احمد قادیانی اور انکار ختم نبوت پر مبنی فتنوں کی تعلیمات تمام بڑی زبانوں میں دنیا تک پہنچائیں، مجموعی طور پر دنیا بھر میں قادیانیت سے بیزاری تیزی سے بڑھ رہی ہے، مجلس احرار اسلام کے شعبہ دعوت وارشاد کے ناظم ڈاکٹر محمد آصف (سابق قادیانی) اور ان کی ٹیم کی مسلسل محنت سے اﷲ تعالیٰ نے گزشتہ چند سالوں میں متعدد قادیانیوں کو قادیانیت ترک کر کے مسلمان ہونے کی توفیق سے نوازا ہے اور یہ سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ ان نومسلم ساتھیوں کا کہناہے کہ دنیا میں انگریزی اور عربی میں مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابیں ترجمہ ہو کر سامنے آجائیں تو بڑی تعداد میں قادیانی گھرانے قادیانیت سے تائب ہونا شروع ہو جائیں گے۔
یہ امر واقعہ ہے کہ قادیانیوں کے مذہبی تعاقب کے ساتھ ساتھ ان کے سیاسی ومعاشرتی تعاقب کی بھی ضرورت ہے۔ یہاں ہم پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا ایک قول نقل کرتے ہیں، انہوں نے اپنی زندگی کے آخری اسیری کے دوران ڈیوٹی آفیسر کرنل رفیع الدین سے کہا تھا کہ
’’احمدیہ مسئلہ! یہ ایک مسئلہ تھا جس پر بھٹو صاحب نے کئی بار کچھ نہ کچھ کہا۔ ایک دفعہ کہنے لگے: رفیع! یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ان کو پاکستان میں وہ مرتبہ دیں جو یہو دیوں کو امریکہ میں حاصل ہے ۔یعنی ہماری ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے۔ایک بار انہوں نے کہاکہ قومی اسمبلی نے ان کو غیر مسلم قرار دے دیا ہے ۔اس میں میرا قصور ہے؟ ایک دن اچانک مجھ سے پوچھا کہ کرنل رفیع الدین! کیا احمدی آج کل یہ کہہ رہے ہیں کہ میر ی موجودہ مصیبتیں ان کے خلیفہ کی بد دعا کا نتیجہ ہیں کہ میں کال کو ٹھری میں پڑا ہوں؟ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ بھٔی اگران کے اعتقاد کو دیکھا جائے تو وہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو آخری نبی ہی نہیں مانتے اور اگر وہ مجھے اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھہرا تے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ پھر کہنے لگے میں تو بڑا گناہ گار ہوں اور کیا معلوم کہ میرا یہ عمل ہی میرے گنا ہوں کی تلافی کر جائے اور اﷲ تعالیٰ میرے تمام گناہ اس نیک عمل کی بدولت معاف کردے۔بھٹو صاحب کی باتوں سے میں اندازہ لگا یا کرتا تھا کہ شاید انہیں گناہ وغیرہ کا کوئی خاص احساس نہ تھا لیکن اس دن مجھے محسوس ہوا کہ معاملہ اس کے بر عکس ہے ‘‘۔) ’’بھٹو کے آخری 323 دن ‘‘از کرنل رفیع الدین(
ہم پیپلز پارٹی کی قیادت، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے درخواست کرنا چاہیں گے کہ 7؍ستمبر 1974ء کو قرار داد اقلیت کی منظوری کے بعد ایوان میں 27 منٹ کی ذوالفقاری علی بھٹو مرحوم کی تقریر اور مذکورہ بالا قول توجہ سے پڑھ لیں اور قادیانیوں پر اعتماد کرنا چھوڑ دیں، یہی درخواست ہماری حکمرانوں، مقتدر حلقوں اور تمام سیاستدانوں سے بھی ہے، کیونکہ اسلام اور پاکستان کے خلاف جو قوتیں بر سر پیکار ہیں، قادیانی ان کے مہر ے کے طور پر کام کررہے ہیں، قادیانیوں کے زیر اہتمام این جی اوز اور سکول بند کیے جائیں کیونکہ وہ ان کی آڑ میں تعلیم کے نام پر بچوں میں اسلام مخالف نظریات کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ بلوچستان میں موجودہ شورش کے پیچھے قادیانی ایلیمنٹ بھی کام کررہاہے اور اکھنڈ بھارت قادیانیوں کا مذہبی عقیدہ ہے ،ایسے میں تمام محب وطن حلقوں کو یکسو ہو کر اسلام ،پاکستان اور عقیدۂ ختم نبوت کے خلاف ہونے والی سازشوں کا ادراک بھی کرنا چاہیے اور سدباب بھی۔