ڈاکٹر عمرفاروق احرار
سوال یہ ہے کہ یورپی یونین ہو یا امریکہ،انسانی حقوق کی تنظیمیں ہوں، یا مذہبی آزادی کی علمبردار اَین جی اوز، اِن سب کی آواز صرف قادیانیت ہی کے حق میں کیوں بلند ہوتی ہے، حالانکہ پاکستان میں ایک درجن کے لگ بھگ دیگر اقلتیں بھی بستی ہیں، جن کے حقوق اور مسائل کو اُجاگر کرنے میں اِن بیرونی قوتوں کو اِس طرح کیوں دل چسپی نہیں ہے، جس طرح وہ قادیانیوں پر مبینہ مظالم اور زیادتی کا نوٹس لیتی ہیں؟
قادیانیت کے موضوع اور تحفظ ختم نبوت سے دل چسپی رکھنے والے احباب پر یہ حقیقت واضح ہے کہ برطانوی استعمارنے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے قادیانیت کوجنم دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قادیانیت اور استعماریت میں آج بھی چولی دامن کا ساتھ ہے۔ امریکی سامراج ہو، یا برطانوی استعمار دونوں کا لطف وکرم قادیانی کمیونٹی کو ہمیشہ سے حاصل رہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اور قادیانی عبد الشکور چشمے والے کی ملاقات ابھی کل کی بات ہے۔ قادیانیت نے وجود میں آتے ہی مذہب کا لبادہ اوڑھا اور مناظروں اور مذہبی مناقشوں کا بازار گرم کیا، جس کا مقصد اپنی مذہبی حیثیت کو نمایاں کر کے سیاسی عزائم کو چھپانا تھا۔ اِس طرح قادیانیت ایک مذہبی فریق کے طور پر منظر عام پر آئی۔ علماء کرام نے عوام کو قادیانیت کے اثرات سے بچانے کے لیے قادیانیوں سے علمی سطح پر مناظرے بھی کیے اور قادیانیت پر اسلام کی برتری اور حقانیت ثابت کی، لیکن ابھی تک اُن کا برطانوی جاسوس اور ایجنٹ ہونے کا کردار پس پردہ تھا۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان نے اپنے اخبار روزنامہ ’’زمیندار‘‘ لاہور میں قادیانیت کے سیاسی تعاقب کا آغاز کیا اور نظم ونثر کے ذریعے قادیانیوں کے استعماری مہرے ہونے کا پردہ چاک کیا۔ 1929ء میں مجلس احرار اسلام کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی گئی۔ جس میں محدث العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ کا اُصولی مشورہ بھی کار فرما تھا، کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ قادیانیت کے مقابلہ کے لیے ایک ملک گیر جماعت بنائی جائے۔ خود احرار کے بانی رہنما امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ بھی احرار کے قیام سے کئی برس پہلے قادیانی جماعت کے مقابلہ کے لیے ایک جماعت کی ضرورت کا اظہار فرما چکے تھے۔ احرار رہنماؤں کی بصیرت کی داد دینی چاہیے کہ اُنہوں نے قادیانیت کے سیاسی ارادوں اور منصوبوں کا ادراک کرتے ہوئے اُس کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کا پروگرام بنایا۔ مفکر احرار چودھری افضل حق نے قادیانیوں کے خلاف احرار کے صف آرا ہونے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا تھا کہ: ’’مرزائیت میں اگر فاش خامیاں نہ بھی ہوتیں او روہ غلط دعووں کا عبرت انگیز مرقع نہ بھی ہوتی تو بھی نبوت کا دعویٰ بجائے خود اِسلام پر ضرب کاری اور مسلمانوں میں انتشارِ عظیم پیدا کرنے کا سبب ہے۔ اس دعوے کے ساتھ ہی یہ گروہ انسانوں کی کڑی نگرانی کا سزاوار ہوجاتا ہے۔ پس ہم نے دیکھا کہ مرزائی لوگ 1:برٹش امپیریلزم کے کھلے ایجنٹ ہیں۔ 2:وہ مسلمانوں میں ایک نئی گروہ بندی کے طلب گار ہیں جو مسلمانوں کی جمعیت کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں بانٹ دے گی۔ 3: وہ مسلمانوں میں بطور فِفتھ کالم کام کرتے ہیں۔‘‘ قادیانیوں کی اصلیت آشکارا کرتے ہوئے مجلس احرار اسلام میدان میں اتری اور تحریک کشمیر 1931ء سے لے کر ربوہ (چناب نگر) میں فاتحانہ داخلہ 1976ء تک قادیانیوں کی سیاسی تخریب کاریوں کی نقاب کشائی کرتے ہوئے انہیں ناکوں چنے چبواتی رہی اور الحمد ﷲ سرخ پوشانِ احرار کی یہ مبارک جدوجہد تادمِ تحریر جاری ہے۔
علماء کرام نے جب قادیانیوں کو مناظرانہ میدان میں علمی شکست فاش سے دو چار کیا تو قادیانیوں نے فرار کی راہ نہ پا کر پینترا بدلا۔ سر ظفر اﷲ خان قادیانی تقسیم سے پہلے وائسرائے ہند کی ایگزیکٹو کونسل کا رُکن تھا اور اُسے برٹش امپیریلزم کے ایک وفادار کل پرزے کی حیثیت سے استعماری قوتوں کا اعتماد حاصل تھا۔ اس لیے اُنہی قوتوں نے پاکستان بن جانے پر یہاں اپنا عمل دخل رکھنے کے لیے اُسے پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ کے منصب پر لا بٹھایا۔ سر ظفر اﷲ کی بدولت بے شمار قادیانی مختلف اہم اداروں میں بھرتی ہوئے۔ پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین ایم ایم احمد سے لے کر ڈاکٹر عبد السلام تک سینکڑوں قادیانیوں کو ہر اِدارے میں داخل کیا گیا۔ اِسی کے ساتھ ہی بیرونی پاکستانی سفارت خانوں میں قادیانیوں کو ملازمتیں فراہم کی گئیں، جنہوں نے مختلف ممالک میں وہاں کے اعلیٰ افسران، گروہوں اور تنظیموں سے تعلقات استوار کیے اور پاکستان کے ملازم ہوتے ہوئے پاکستان کے مخالفین کے ساتھ ساز باز میں اُن کے شریک ومعان بنے۔ استعماریت کے ایجنٹ ہونے کی بِناپر اُنہیں ہاتھوں ہاتھ لیاگیا۔اب صورت حال یہ ہے کہ قادیانی مناظروں کے بجائے اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ بیرونی ممالک میں مختلف لابیوں، سیاست دانوں، حکومتی ذمہ داروں اوراین جی اوزکے ساتھ اُن کا مستقل رابطہ ہے۔ اب وہ وہاں اپنے آپ کو ایک مذہبی جماعت کے بجائے فلاحی وخیراتی ادارے کے طورپر رجسٹرڈ کراتے ہیں۔ رفاہی کاموں اور چیرٹی شوز کے ذریعے اپنی شناخت پیدا کرتے ہیں اور در پردہ استعماری ایجنڈہ کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ مذہبی کام کے لیے قادیانیوں کے الگ افراد کام کرتے ہیں۔ جب وہ لوگ اپنا سالانہ جلسہ کرتے ہیں تو مختلف لابیوں اور سرکاری حکام سے جڑے ہوئے قادیانی اپنے تعلقات کے ذریعے اعلیٰ حکام اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کو اپنے سالانہ جلسوں میں شمولیت کے لیے لے آتے ہیں۔ امریکہ ،کینیڈا اور برطانیہ وغیرہ میں یہ کام شدو مد سے ہوتا ہے۔ جن کے ذریعے وہ پاکستان میں قادیانی کمیونٹی کے ساتھ ’’امتیازی سلوک‘‘ اور پاکستانی آئین کی ’’ظالمانہ ‘‘شقوں کو ہدفِ تنقیدبناتے ہیں اور عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔
قادیانی اب کھل کر سامنے نہیں آتے، بلکہ وہ اپنے مقاصد کو رُوبہ عمل لانے کے لیے لبرل اور سیکولر عناصر اور اِنسانی حقوق کی تنظیموں کا سہارا لیتے ہیں جو قادیانیوں کی مظلومیت اور اُن کے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر بیان بازی کرتے اور فرضی رپورٹیں جاری کرتے ہیں۔ 1973ء کا آئین جس میں قادیانیوں کی مذہبی حیثیت متعین کی گئی ہے اور قانون توہین رسالت ان عناصر کا خصوصی ہدف ہیں۔ اب تو قادیانی سربراہ مرزا مسرور کا یہ وڈیو بیان بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے کہ ’’ہمارا مرکز تو قادیان ہی رہے گا، مگر پاکستان کا آئین ضرور بدلے گا۔‘‘ جبکہ امسال جون میں اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے اجلاس میں قانون توہین رسالت کے خاتمہ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
قادیانیوں کی اِس بدلتی ہوئی سٹریٹجی کو مد نظر رکھتے ہوئے تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر سرگرم جماعتوں کے کاندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قادیانیت کے خلاف جاری کردہ روایتی طریقہ کار پر نظر ثانی کریں۔ ملک میں جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو قادیانی کلٹ سے آگاہی دیں۔ انتظامیہ ،عدلیہ اور مقننہ تک ختم نبوت کا پیغام پہنچائیں۔ دنیا بھر میں قادیانیوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں اور اُن کی تخریب کاریوں پر مبنی سالانہ رپورٹ جاری کریں۔ غیر ملکی سفارت خانوں کو قادیانی جارحیت اور اُن کی ریشہ دوانیوں سے آگاہ کریں۔ جدید اسلوب میں لٹریچر تحریر کر کے اُسے مختلف ممالک میں پھیلائیں۔ ہر عالمی فورم پر اپنا نقطہ نظر پہنچانے اور قادیانیوں کے جھوٹ کو واضح کرنے کی اشد ضرورت جتنی آج ہے، اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ یہی وقت کا اصل تقاضا اور اِس دور کی اہم ضرورت ہے۔