(قسط: ۲)
شورش کاشمیری رحمۃ اﷲ علیہ
چودھری افضل حق علیہ الرحمۃ احرار کے شہ دماغ تھے۔ انھوں نے اپنے مختلف خطبوں میں قادیانیت کا سیاسی تجزیہ کیا۔ تاریخِ احرار (طبع ثانی) کے صفحہ ۱۷۶ تا ۱۸۷ پر ’’فتنہ قادیان‘‘ کے زیر عنوان نہایت شرح و بسط سے روشنی ڈالی۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
(۱) ملت اسلامیہ کی تشکیل محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم نے کی ہے۔ ان کے بعد کسی نبی کے مبعوث ہونے کا سوال ہی نہیں۔ ان کے بعد کسی بھی شخص کے دعویٰ نبوت سے ملت اسلامیہ تقسیم ہو جاتی اور اس کی وحدت قائم نہیں رہتی۔ دین خدا کا ہوتا ہے، لیکن ملت پیغمبر اٹھاتے ہیں۔ مرزا قادیانی خود کوئی ملت پیدا کرنے سے قاصر تھا۔ اس کا وجود استعماری خواہش کا نتیجہ تھا۔ اس نے ملت اسلامیہ میں نقب لگائی اور وحدت اسلامی کو دو لخت کرنا چاہا، اس طرح اپنے پیروؤں کی ایک ایسی جماعت پیدا کی جو ہندوستان اور ہندوستان سے باہر اسلامی ملکوں میں برطانوی عملداری کی ہر نوعی خدمات انجام دے رہی ہے اور اپنی اس مسلسل غداری پر قادیانی اُمت نے ہمیشہ فخر و ناز کیا ہے۔ مرزا بشیر الدین محمود اس سلسلہ میں کرنل لارنس ثابت ہو رہا ہے اور اپنے اس کردار کو اپنے والد کے ملہمانہ ارشادات کی متابعت قرار دیتا ہے۔
(۲) قادیانی نبوت نے انگریزی حکومت کی الہامی تائید کر کے برطانوی اقتدار کا اعتماد حاصل کیا، نتیجتاً وہ کئی ایک سرکاری محکموں میں بہت زیادہ اثر و رسوخ کے مالک ہیں۔ بعض جگہ سارے کا سارا ضلع ان کے اثر و رسوخ میں ہے، کئی ایک ملازمت کے خواہاں اور روزگار کے متمنی لوگ قادیانی امت کی سفارشات حاصل کرتے اور ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہر ضلع کے قادیانیوں کا شعار ہے کہ انتظامیہ کو مختلف تحریکوں کے احوال و وقائع سے مطلع رکھتے اور اس طرح حکام ضلع کا اعتماد حاصل کرتے ہیں۔
(۳) ایک معمولی اقلیت ہونے کے باوجود قادیانی اثرات کا یہ حال ہے کہ اسمبلی کے امیدوار،ان کے خلیفہ سے رجوع کر کے قادیانی ووٹ حاصل کرتے اور اس طرح قادیانی احتساب کی تحریک سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے بالائی طبقے کو احساس و اندازہ ہی نہیں کہ مرزائی کس مقصد کی تخلیق اور کس فن کے اہل کار ہیں اور ان کی بدولت اسلام اور مسلمانوں پر کیا بیت رہی ہے۔ فی الجملہ قادیانی برطانوی سرکار کی خوشنودی کے حصول کا ایک ذریعہ ہیں۔
(۴) مسلمانوں کی ملازمتوں پر قبضہ کرنے اور ان کی سیاست کو ہاتھ میں رکھنے کے لیے قادیانی عامۃ المسلمین کی سیاسی وحدت میں رہتے ہیں ورنہ ان کے نزدیک تمام مسلمان کافر ہیں۔
چودھری صاحب علیہ الرحمۃ نے اعلان کیا کہ:
(۱) قادیانی برٹش امپریلزم کے کھلے ایجنٹ ہیں۔
(۲) وہ استعماری ذہن رکھتے ہیں، ارد گرد کی غریب آبادی کا بائیکاٹ کرنا اور دوسرے ذرائع سے انھیں مرعوب کرنا،
ان کا دھندا ہے۔
(۳) وہ مسلمانوں میں بطور ففتھ کالم کام کرتے ہیں۔
مرزائیوں نے علماء کی احتسابی تحریکوں کے باوجود قادیاں کو اپنی ریاست بنا رکھا تھا۔ مرزا بشیر الدین محمود نے صوبہ کے مختلف اضلاع سے اپنی اُمت کے افراد بلوا کر قادیان میں بسا لیے تھے۔ علماء فتاویٰ جاری کرتے یا وعظ فرماتے، لیکن خم ٹھونک کر مقابلہ میں نہیں آتے تھے۔ حاجی عبدالرحمن اور حاجی عبدالغنی بٹالہ میں ’’شبان المسلمین‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی۔ دونوں بھائی مقامی رئیس اور ختم الرسل صلی اﷲ علیہ وسلم کے فدائی تھے۔ ان سے مرزائی امت اس طرح پسپا ہو چکی تھی کہ مرزا بشیر الدین کی سازش سے حاجی عبدالغنی شہیدکیے گئے۔ شبان المسلمین کے ارکان مختلف علماء کو بلوا کر سالانہ اجلاس منعقد کرتے اور قادیانیت کی خبر لیتے اور یہی ان کا دائرہ کار تھا۔ ایک سال اجتماع ختم ہونے پر بعض علماء قادیاں دیکھنے لگے تو قادیانی شہ زوری کا حال یہ تھا کہ مرزا بشیر الدین کے ایما پر مرزائی نوجوانوں نے ان علماء پر ہلہ بول دیا۔ انھیں اس بری طرح پیٹا کہ پناہ بخدا، چونکہ مقامی پولیس اور دوسرے حکام مرزا بشیر الدین کی مٹھی میں تھے اس لیے کسی نے رپٹ تک نہ لکھی اور نہ کوئی داد رسی کی۔ اس کے بعد کئی ایک سال تک صحیح العقیدہ مسلمان قادیان جاتے ہوئے ڈرتے۔ مجلس احرار نے اس دہشت کو توڑنے کے لیے اپنے چند رضا کار قادیان بھیجے کہ وہاں جا کر مسلمانوں کی مساجد میں اذان دیں، کیونکہ مرزائی اپنے سوا کسی کو اذان بھی دینے نہ دیتے تھے۔ رضا کار وہاں پہنچے، اذان دی، لیکن قادیانی ڈنڈے لے کر پل پڑے اور ان مؤذن رضاکاروں کو اتنا مارا کہ زخمو ں سے چور ہو گئے۔ وہ مدت تک ہسپتال میں زیر علاج رہے، اس بہیمانہ تشدد کے خلاف مجلس احرار نے بٹالہ کانفرنس کی اور حکومت کو پہلی دفعہ للکارا کہ وہ اپنی چہیتی امت کے منہ میں لگام دے، ورنہ نتائج خطرناک ہوں گے۔ لیکن حکومت کے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی اور نہ قادیانی ٹس سے مس ہوئے، وہ گویا قادیان کی ریاست کے راجواڑے تھے اور وہاں قانون ان کے اشارہ ابرو پر حرکت کرتا تھا۔
جب پانی سر سے گزر گیا اور قادیانی سرکش ہوتے گئے تو احرار نے جولائی ۱۹۳۵ء میں ورکنگ کمیٹی کے اجلاس منعقدہ امرتسر میں فیصلہ کیا کہ قادیانیں میں احرار کا مستقل دفتر کھولا جائے جو قادیانی امت کے اعمال و افکار کی نگرانی کرے۔ اس غرض سے مولانا عنایت اﷲ چشتی (چکڑالہ) کو دفتر کا انچارج مقرر کیا گیا، یہ وہ زمانہ تھا جب مسٹر ڈی جی کھوسلہ سیشن جج گورداس پور کے الفاظ میں قادیانیوں کا تمرد اور شورہ پشتی اپنی معراج کو پہنچی ہوئی تھی، جو لوگ قادیانی جماعت میں شامل ہونے سے انکار کرتے، انھیں نہ صرف قادیان سے نکال دیا جاتا بلکہ بعض اوقات مکروہ تر مصائب کی دھمکیاں دے کر دہشت انگیزی کی فضا پیدا کی جاتی۔ مرزا محمود نے عدالتی اختیار اپنے ہاتھ میں لے رکھے تھے۔ قادیان میں دیوانی اور فوجداری مقدمات کی سماعت کی جاتی، جو لوگ مخالف تھے ان کے مکانوں کو جلایا گیا۔ کئی ایک افراد قتل کیے گئے۔ مسٹر کھوسلہ نے اپنے فیصلہ میں اس کی مثالیں بھی دی ہیں۔ ان کے رو برو مرزا بشیر الدین محمود نے تسلیم کیا کہ قادیان میں عدالتی اختیارات استعمال ہوتے ہیں اور ان کی عدالت سب سے آخری اپیل کی عدالت ہے۔ اس غرض سے قادیانیوں نے اپنے اشٹام بھی چھاپ رکھے تھے۔ مولوی عبدالکریم ایڈیٹر ’’مباہلہ‘‘ شروع میں قادیانی تھے، جب انھیں قادیانیت کی صداقت کے متعلق شکوک پیدا ہوئے تو اس سے تائب ہو گئے، ان پر ظلم و ستم شروع ہوا۔ مرزا محمود نے مولوی عبدالکریم ایڈیٹر ’’مباہلہ‘‘ کی موت کی پیشین گوئی کی جو ’’الفضل‘‘ میں چھپی۔ نتیجتاً عبدالکریم پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ وہ بال بال بچ گئے لیکن ان کا ضامن محمد حسین قتل کر دیا گیا۔ اس کے قاتل کو پھانسی کی سزا ہوئی، وہ پھانسی پا گیا تو اس کی نعش قادیاں لائی گئی اور نہایت اعزاز کے ساتھ اسے بہشتی مقبرے میں دفن کیاگیا۔ اس کی تعریف میں ’’الفضل‘‘ کے صفحات سیاہ کیے گئے۔ مرزا بشیر الدین محمود نے اعلان کیا کہ اس کی روح پھانسی پانے سے پہلے ہی خدائے عادل کے حکم سے پرواز کر گئی تھی۔ مولوی عبدالکریم مباہلہ قادیاں سے اٹھ کر امرتسر آ گئے، ان کا مکان نذر آتش کر دیا گیا۔
ایک دوسرا قتل مرزائی مبلغ محمد امین کا تھا، جس کو کلہاڑی سے قتل کیا گیا۔ ہلاک اس لیے کیا گیا کہ مرزا بشیر الدین محمود اس سے ناراض ہو گیا تھا، پولیس نے اس سلسلہ میں کوئی کارروائی نہ کی۔ اس کے قاتل فتح محمد نے عدالت میں اقرار کیا کہ اس نے محمد امین کو کلہاڑی سے ہلاک کیا تھا۔ تب قادیان میں مرزائیوں کی طاقت کا یہ حال تھا کہ ان کے خلاف کوئی شہادت دینے کی جرأت ہی نہ کر سکتا تھا۔ مسٹر کھوسلہ کے الفاظ میں سرکاری حکام قادیانیت کے مقابلے میں غیر معمولی حد تک مفلوج ہو چکے تھے، اس ہولناک فضا میں احرار کا خیال تھا کہ مولانا عنایت اﷲ چشتی قادیان میں زندہ نہیں رہ سکتے، انھیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ سرد مہر ہے اور بعض دنیاوی اغراض کی خاطر مرزائیت کی خوشنودی کو مقدم رکھتا ہے۔ احرار نے مولانا عنایت اﷲ جانشینوں کی ایک فہرست تیار کر لی اور ہر چہ بادا باد کے تحت کمر بستہ ہو گئے، مرزا بشیر الدین محمود نے قادیانی ہائی کمان کی میٹنگ بلا کر احرار پر ہاتھ اٹھانے سے اجتناب کا فیصلہ کیا۔ وہ جانتا تھا کہ مرزائی امت کے لیے یہ سودا مہنگا ہو گا، مرزائی امت کے بڑے بڑے افسر انگریز حکام کے پاس پہنچے اور فریاد کی کہ انھیں احرار سے بچایا جائے۔ ادھر احرار قادیان میں پہلی تبلیغی کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کر چکے اور صوبہ بھر کے مسلمان اس میں شمول کی دھڑا دھڑ تیاری کر رہے تھے۔ وائسرائے نے صوبائی گورنر کو لکھا۔ گورنر نے بعض اعلیٰ افسروں کی معرفت احرار سے کہا کہ وہ قادیان میں کانفرنس نہ کریں۔ وہاں مرزائیوں کی اکثریت ہے اور اقلیت کو حق نہیں کہ ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے، احرار نے جواب دیا، قادیان کے سوا مرزائیوں کی اکثریت کہاں ہے؟ ان کی تبلیغ دوسرے تمام مقامات پر بند کر دی جائے تو حکومت کی خواہش پر غور کیا جا سکتا ہے، مرزا بشیر الدین کی حواس باختگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے کانفرس کے عرصہ بعد جب چودھری ظفر اﷲ خاں وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر ہوئے تو انھیں آمادہ کیا کہ وہ اپنی والدہ کو لے کر وائسرائے سے ملیں اور احرار کے چنگل سے نجات دلائیں۔
پہلی احرار تبلیغ کانفرنس ۲۱۔ ۲۲۔ ۲۳ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو بصدارت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ قادیاں میں منعقد ہوئی۔ ’’اس کانفرنس میں ہندوستان بھر سے علماء و مشائخ، سیاست دان اور ہر طبقہ فکر کے نمائندے شریک ہوئے۔ علماء میں مولاناسید حسین احمد مدنیؒ، حضرت مفتی محمد کفایت اﷲؒ، حضرت مفتی محمد حسن امرتسریؒ، مولانا ظفر علی خانؒ، مولانا ابوالوفا شاہجہان پوریؒ اور دیگر کئی اہم شخصیتیں کانفرنس میں شریک تھیں۔ مرزا بشیر الدین محمود کی خوشنودی کے لیے حکومت نے قادیان کے میونسپل حدود میں دفعہ ۴۴۱ نافذکر دی۔ احرار نے میونسپل حدود سے باہر کانفرنس کا ایک عظیم الشان پنڈال بنا دیا۔ پشاور سے دہلی تک ہزار ہا لوگوں نے شمول کا اعلان کیا، اس غرض سے سپیشل ٹرینیں چلائی گئیں۔ جب سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ قادیان کے ریلوے اسٹیشن پر سپیشل ٹرین سے پہنچے تو ہزارہا رضاکاروں نے ان کا استقبال کیا۔ تقریباً دو لاکھ افراد شریک اجلاس ہوئے۔ شاہ جی نے دس بجے رات تقریر کا آغاز کیا اور صبح کی اذان تک تقریر جاری رکھی۔ اس تقریر سے قادیانی امت کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی، مرزا بشیر الدین نے حکومت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ چودھری سر ظفر اﷲ خاں نے وائسرائے اور گورنر سے فریاد کی تو شاہ جی کے خلاف دفعہ ۱۵۳۔الف کے تحت وارنٹ جاری کر دیے گئے اور انھیں شروع دسمبر ۱۹۳۴ء کو مسوری سے گرفتار کر لیا گیا۔ دیوان سکھانند مجسٹریٹ گورداس پور کی عدالت میں دو ماہ مقدمہ چلتا رہا۔ مرزا بشیر الدین محمود نے بھی چار دن تک شہادت دی۔ آخر مجسٹریٹ نے ۲۰ اپریل ۱۹۳۵ء کو ۶ ماہ قید بامشقت کا حکم سنایا۔ اس فیصلے کے خلاف سیشن جج گورداس پور کی عدالت میں اپیل کی گئی، انھوں نے ابتداً شاہ جی کو ضمانت پر رہا کر دیا۔ پھر ۶ جون ۱۹۳۵ء کو ایک تاریخی فیصلہ لکھا، جس سے قادیانی امت بے نقاب ہو گئی۔ مسٹر کھوسلہ نے شاہ جی کے جرم کو محض اصطلاحی قرار دے کر تا اجلاس عدالت قید محض کی سزا دی، اس فیصلے نے عوام کے احتساب کو ثبات دے کر خواص کو بیدار کیا۔
مسٹر کھوسلہ کا تاریخی فیصلہ عوام میں لوک گیت کی طرح پھیل گیا، مرزائی اس کے مندرجات کی صداقت سے کپکپا اٹھے۔ اب وہ اس جستجو میں تھے کہ احرار کی پکڑ سے کیوں کر نکل سکیں، لیکن انھیں کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا، ادھر ایک دو سال میں صوبائی خود مختاری کا آغاز ہو رہا تھا۔ جن صوبوں میں مسلمان اکثریت میں تھے، وہاں سرکاری مسلمان جتھہ بند ہو کر انتخاب جیتنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ پنجاب کا صوبہ مسلمانوں کے اکثریتی صوبوں میں سب سے اہم تھا، ہندوستان کے دوسرے صوبوں میں انتخابات ہندوؤں اور مسلمانوں کے دوائر میں منقسم تھے، لیکن پنجاب واحد صوبہ تھا۔ جہاں ہندو اور مسلمانوں کے علاوہ ایک تیسری طاقت سکھ تھی جو آپس میں کسی حد تک منقسم تھے۔ لیکن اکالی رہنما تمام سکھ نشستوں پر قبضہ کرنے کے متمنی تھے، اس انتخابی کشمکش کے استعماری پس منظر میں ’’مسجد شہید گنج لاہور‘‘ گرائی گئی، جس سے صوبہ کی سیاست یکسر پلٹ گئی، اس سے جو تحریک پیدا ہوئی، اس میں احرار نے اس خیال سے حصہ نہ لیا کہ اس کے مضمرات میں استعماری اغراض کارفرما ہیں اور باہمی تصادم یا قانون شکنی سے شہید گنج کی بازیابی ناممکن ہے۔
احرار محسوس کرتے تھے کہ انگریز کے آلہ کار مسلمانوں نے شہید گنج کے انہدام کا کھڑاگ اس لیے رچایا ہے کہ ان کے لیے انتخاب کی راہیں مسدود کر دیں۔ احرار تحریک میں حصہ لیتے تو قید ہو جاتے اور انتخاب سرکاری مسلمانوں کے ہاتھ میں رہتا۔ احرار نے حصہ نہ لیا تو مسلمانوں کے قہر و غضب کا شکار ہوگئے اور انتخاب کے نتائج ان کی نفی کر گئے۔ اس تحریک کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس میں کئی ایک مخلص رہنماؤں نے حصہ لیا۔ ان کی طاقت احرار کے خلاف استعمال ہوئی اور اس کا فائدہ سرکاری مسلمانوں کے علاوہ مرزائی امت نے اٹھایا۔ مرزا بشیر الدین محمود نے کئی ایک سیاسی مسلمانوں کو خرید کیا۔ انھوں نے احرار پر تابڑ تور حملے کیے، جس سے کچھ عرصہ کے لیے مرزائیت کے خلاف مسلمانوں کا زور مدھم پڑ گیا اور قادیانیوں کے اعمال و افکار کی نگرانی میں جوش و خروش نہ رہا۔ احرار کے خلاف مسلمانوں کی اس ناراضی سے مرزائیت قدرے مصؤن ہو گئی، لیکن تابہ کے؟ ادھر ۱۹۳۷ء میں انتخابات ختم ہوتے ہی سکندر وزارت قائم ہوئی۔ ادھر شہید گنج کا طلسم ٹوٹ گیا۔ عامۃ المسلمین کو پتہ چل گیا کہ انہدام مسجد کا پس منظر کیا تھا اور انھیں کیونکر فریب دیا گیا۔ احرار نے بعض دوسری سیاسی مصروفیتوں کے باوجود قادیانی محاذ کی توانائی برقرار رکھی اور مسلمانوں کے ذہن سے مرزائی امت کو نکال دیا۔ گو احرار الیکشن میں نتیجتاً ہار گئے اور جو لوگ ان کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے، وہ یونی نسٹ پارٹی سے جا ملے۔ صرف مولانا مظہر علی اظہر اور چودھری عبدالرحمن راہوں احرار میں رہ گئے۔ لیکن احرار کا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ ایک قادیانی بھی منتخب نہ ہو سکا۔
مرزا بشیر الدین محمود اس صورت حالات سے سخت پریشان تھا۔ اس نے احرار کے خلاف کئی سازشیں کیں۔ ایک طرف برطانوی سرکار کو بھڑکاتا رہا۔ دوسری طرف مسلمانوں میں احرار کے خلاف فضا پیدا کرنے میں لگا رہا۔ اس غرض سے پانی کی طرح روپیہ بہایا۔ اس نے امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کے قتل کا منصوبہ تیار کیا کہ ان کا وجود قادیان کے لیے پیغامِ اجل تھا اور وہ اس سلسلہ میں ایک ادارہ اور ایک تحریک تھے۔ ان کی تقریروں نے ایک ایسی تحریک پیدا کی کہ اس سے پہلے قادیانی امت کو اس طرز کے عوامی محاسبہ سے کبھی واسطہ نہ پڑا تھا۔ غرض شاہ جی تمام علماء کے احتساب کا مجموعہ تھے، جو، اب تک قادیانی محاذ پر لڑتے رہے اور اس سلسلہ میں اپنی عمریں بِتا دیں تھیں۔
مرزا بشیر الدین محمود نے راجندر سنگھ آتش نام کے ایک سکھ کو (یہ نوجوان راقم کے ساتھ ہی منٹگمری سنٹرل جیل میں رہا تھا) کو دس ہزار روپے کے عوض شاہ جی کے قتل پر تیار کیا۔ اس غرض سے پانچ ہزار روپے پیشگی دیے اور پانچ ہزار قتل کے بعد ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن راجندر سنگھ نے شاہ جی کو دیکھا، ان کی تقریر سنی تو اپنے ضمیر کو تیار نہ کر سکا۔ مرزا محمود، راجندر سنگھ کے انکار سے پریشان ہوا، اس کو سازش کے منکشف ہو جانے کا خطرہ تھا۔ اس نے سی۔ آئی۔ ڈی سے سازش کر کے راجندر سنگھ کو کلکتہ میں گرفتار کرا دیا اور اس پر الزام عائد کیا کہ وہ انقلابی پارٹی کا ممبر ہے۔ جب اس کو پنجاب لایا گیا تو اس نے مرزا محمود کی سازش کے انکشاف کا ارادہ کیا کہ وہ اس حقیقت حال سے عدالت کو مطلع کرے گا اور بتائے گا کہ اس کی گرفتاری مرزائی امت کی سازش سے ہوئی ہے، مرزا بشیر الدین کو خطرہ تھا کہ وہ شاہ جی کے قتل کی سازش آشکار کرے گا، جب راجندر سنگھ کا ارادہ پولیس کے علم میں آیا تو صوبائی گورنمنٹ کے حکم پر اس کو فی الفور رہا کر دیا گیا، لیکن شاہ جی کے خلاف مرزائی افسروں کی پخت و پنر سے بغاوت وغیرہ کے جرم میں کئی مقدمات تیار کیے گئے۔ ادھر ستمبر ۱۹۳۹ء میں دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہو گیا، احرار نے برطانیہ کی جنگی اعانت کے خلاف تحریک فوجی بھرتی بائیکاٹ ۱۹۳۹ء کا آغاز کیا تو ایک دوسرا محاذ کھل گیا اور تمام احرار رہنما سنگین سے سنگین مقدمات میں گرفتار کر لیے گئے، حتیٰ کہ بعض نمایاں کارکن بھی جیل میں ڈال دیے گئے، بعض کو نظر بند کیا گیا، بعض کو طویل سزائیں دی گئیں۔ اس طرح جنگ کے دوران تمام نقشہ بدل گیا۔ شاہ جی کے مقدمہ میں سرکاری رپورٹر لدھا رام منحرف ہو گیا، اس نے عدالت کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ شاہ جی کی تقریر، اس نے وزیر اعظم سکندر حیات کی ہدایت اور مسٹر برار سپرنٹنڈنٹ پولیس کے ایماء پر وضع کی ہے تاکہ انھیں بڑی سے بڑی سزا دی جا سکے۔ اس انحراف و انکشاف سے شاہ جی کا مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں چلا گیا، چیف جسٹس سرڈگلس ینگ اور جسٹس رام لال پر مشتمل ڈویژن پنچ نے سماعت کی اور شاہ جی کو بری کر دیا۔ اس کے بعد حکومت کو کان ہو گئے اور اس نے دوران جنگ شاہ جی کے خلاف کوئی مقدمہ قائم نہ کیا۔ دوسرے تیسرے سال کئی ایک احرار رہنما قید گزار کر رہا ہو گئے، جنگ کا زمانہ تھا، لیکن احرار نے قادیانی محاذ کو شدت سے قائم رکھا اور مرزائی امت کی اس طرح نگرانی کی کہ وہ اپنے طور سے کوئی سا ناٹک نہ رچا سکی۔
ادھر مسلم لیگ نے اوائل ۱۹۴۰ء میں پاکستان کا نصب العین اختیار کیا۔ احرار اس سے متفق نہ تھے، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ احرار مسلمانوں میں سیاسی طور پر کمزور ہو گئے تا آنکہ مسلمان ان سے برگشتہ ہو گئے۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو ہندوستان کے سیاسی مستقبل سے متعلق برطانوی حکومت کے نمائندوں سے گفتگو شروع ہوئی۔ اس کا ایک مرحلہ جنرل انتخابات تھے۔ سید عطاء اﷲ شاہ بخاری اس کے خلاف تھے کہ احرار انتخابات میں حصہ لیں، لیکن مرزا بشیر الدین محمود نے اس سے پورا فائدہ اٹھایا۔ اس نے احرار کے خلاف اس غرض سے لاکھوں روپے صرف کیے کہ انھیں مسلمانوں میں جماعتی حیثیت سے ختم کرا دیں۔ گو اپنی جماعت کے لیے مسلمانوں میں وہ کوئی جگہ پیدا نہ کر سکے، لیکن سیاسی مسلمانوں میں انھیں قدم رکھنے کا موقع مل گیا اور جو لوگ آزادی کے وارث ہو رہے تھے، ان کے نزدیک قادیانی سیاسۃً مسلمان ہی تھے، لیکن عوام احرار سے ناراضی کے باوجود قادیانیت کو مسترد کر چکے تھے۔ اور مذہبی مسلمان منبر و محراب کی معرفت احرار ہی سے متاثر تھے۔
پاکستان قائم ہوا تو احرار دو حصوں میں بٹ گئے، مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ ہندوستان کے ہو گئے۔ سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ، ماسٹر تاج الدین انصاریؒ، مولانا محمد علی جالندھریؒ اور شیخ حسام الدینؒ وغیرہ پاکستان آ گئے، احرار نے حالات کو محسوس کرتے ہوئے سیاست سے ہاتھ اٹھا لیے، شاہ جی عملاً سبکدوش ہو گئے، مرزا بشیر الدین محمود نے ہاتھ پاؤں پھیلانے شروع کیے،وہ قادیان سے اٹھ کر لاہور آ گیا اور یہاں جو دھامل بلڈنگ (نزد میو ہسپتال) میں قیام کیا۔ اس نے مختلف اخبار نویسوں سے ناطہ باندھا۔ کئی ایک کو رام کیا اور لاء کالج لاہور کے مینارڈ ہال میں پاکستان کے بعض سیاسی مسائل پر تقریریں شروع کیں۔ بالخصوص مسئلہ کشمیر پر اس نے شرح و بسط سے اظہار خیال کیا، ظاہر ہے کہ سرکاری مسلمان تو پہلے ہی فراخ دل تھے، ان تقاریر سے بعض سیاسی مسلمان بھی متاثر ہوئے۔ ادھر عوام میں قادیانی امت نے رسوخ حاصل کرنا چاہا۔ احرار اس وقت منتشر تھے، ان کا ترجمان روزنامہ ’’آزاد‘‘ راقم کی ادارت میں (لاہور سے) نکل رہا تھا۔ راقم نے آزاد میں میں مرزا بشیر الدین محمود کی ان حرکات کا نوٹس لیا۔ اس کے علاوہ شروع ۱۹۴۸ء میں احرار کے زیر اہتمام کوئی تبلیغی جلسہ تھا، راقم نے اس میں مرزائیت کے کفر کا اعلان کرتے ہوئے ظفر اﷲ خاں کے تقرر پر احتجاج کیا اور یہ پاکستان میں اس سلسلہ کی پہلی آواز تھی۔ مولانا غلام غوث ہزاروی (نائب صدر، مجلس احرار اسلام پاکستان) نے راقم کو خط لکھا کہ پاکستان میں اﷲ تعالیٰ نے اس عنوان سے اعلاءِ کلمۃ الحق کا سہرا تمھارے سر باندھا ہے۔ یہ خط ۱۹۴۹ء کے چٹان میں شائع کیا گیا۔
مرزا بشیر الدین محمود پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے پہلے پاکستان کو اپنے مسلک کی موت سمجھتے۔ لیکن سیاستاً گومگو کی حالت میں تھے۔ جسٹس منیر کی رپورٹ (اردو ایڈیشن) کے صفحہ ۱۱۷ ، پر بھی اس کا ذکر موجود ہے کہ وہ (مرزا بشیر الدین محمود) قیامِ پاکستان کے خلاف تھے۔ مرزا نے اپنی ایک تقریر میں علی الاعلان کہا تھا ’’موجودہ ملکی تقسیم غلط ہوئی ہے۔ وہ تقسیم ختم کرانے اور دونوں ملکوں کے باہمی افتراق دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے، اس عارضی تقسیم کو کسی نہ کسی طرح ختم کیا ہی جائے گا اور ہندوستان اور پاکستان پھر سے اکھنڈ ہندوستان بنایا جائے گا۔ مرزا کی یہ تقریر ان کی جماعت کے آرگن ’’الفضل‘‘ میں چھپی۔ اس کے علاوہ مرزا نے منیر انکوائری کمیٹی کے روبرو تسلیم کیا کہ اس نے ۱۱ جون ۱۹۴۴ء کو اپنی ایک تقریر میں پاکستان کے مطالبہ کو غلامی مضبوط کرنے والی زنجیر قرار دیا تھا۔ اسی طرح ۳ جون ۱۹۴۷ء کو مرزا نے بعنوان ’’سکھ قوم کے نام درد مندانہ اپیل‘‘ ایک پمفلٹ شائع کیا، جس میں یہ الفاظ تھے کہ ’’میں دعا کرتا ہوں اے میرے رب، میرے اہل ملک کو سمجھ دے، اوّل تو یہ ملک بٹے نہیں اور اگر بٹے تو اس طرح بٹے کہ پھر مل جانے کے راستے کھلے رہیں۔ اللّٰھم آمین‘‘۔
چودھری سر ظفر اﷲ خاں کے بھتیجے کا نکاح ۳؍ اپریل ۱۹۴۷ء کو تھا۔ مرزا محمود نے اس تقریب میں بھی اسی طرز کے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’انھیں کوشش کرنی چاہیے کہ یہ حالت جلد دور ہو اور اکھنڈ ہندوستان بنے، جہاں ساری قومیں شیر وشکر ہو کر رہیں‘‘۔ (ملاحظہ ہو: الفضل، ۵اپریل ۱۹۴۷ء)
اسی طرح ۱۴ مئی ۱۹۴۷ء کو مرزا محمود نے اپنی مجلس علم و عرفان میں کہا کہ ’’اﷲ تعالیٰ کی مشیت ہندوستان کو اکٹھا رکھنا چاہتی ہے۔ ہندوستان کی تقسیم پر اگر ہم راضی ہوئے تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے، پھر یہ کوشش کریں گے کہ جلد سے جلد تر متحد ہو جائیں‘‘۔
یہ تو خیر قبل از تقسیم کی باتیں تھیں، لیکن پاکستان میں قادیانی امت نے ’’تاریخ احمدیت‘‘ کی تدوین شروع کی تو اس کی دسویں جلد کے صفحہ ۲۷۶ پر لکھا کہ ’’ہم دل سے پہلے ہی اکھنڈ ہندوستان کے قائل تھے، جس میں مسلمان کا پاکستان اور ہندو کا ہندوستان برضا و رغبت شامل ہوں اور اب بھی ہمارا عقیدہ یہی ہے‘‘۔
مرزا محمود کے خیالات ان کے مبینہ تقدس کی آواز تھے اور تمام قادیانی بہ دل و جان اس کے موید تھے، مرزا محمود کے بھائی اور مسٹر ایم ایم احمد کے والد مرزا بشیر احمد نے بھی ان ہی خیالات کا اظہار کیا اور اپنے کئی پمفلٹوں میں اس خیال کا اعادہ کیا کہ وہ تقسیم سے راضی نہیں، اکھنڈ ہندوستان کی طرف جانا چاہتے ہیں۔ لیکن پاکستان بن گیا تو مرزا بشیر الدین محمود نے پینترا بدلا اور پاکستان کو اپنے نرغہ میں لینے کا عزم کیا۔ سر ظفر اﷲ خاں پہلے دن سے وزیر خارجہ تھا، اس کے سپرد دو کام تھے، ایک مختلف مقامات کے مرزائی افسروں کا تحفظ، دوسرا وزارت خارجہ میں مرزائی افسروں کی بھرتی، اس طرح مختلف ممالک کے سفارت خانوں میں قادیانی عہدیداروں کی بھرمار ہو گئی، انھوں نے مختلف اسلامی ملکوں میں نہ صرف اپنے تبلیغی مشن قائم کیے بلکہ بعض عرب ملکوں میں خفیہ اہلکار متعین کیے جو عالمی سامراج کی ہدایات پر کام کرتے اور دوہری تنخواہ پاتے۔ چودھری ظفر اﷲ خاں کا خفیہ کام، کابینہ کے اندرونی راز اور بعض اہم سرکاری فیصلے مرزا بشیر الدین محمود تک پہنچانا تھا۔
(جاری ہے)