(قسط: ۱۱)
چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ
یورپی اور ہندستانی قیدی کا امتیاز:
نسل اور خون کے امتیاز نے دنیا بھر کو زیر پا رکھا ہے۔ ہندوستان اس معاملے میں بطور خاص یورپین تنگ خیالی سے نالاں ہے۔ جہاں ادنیٰ سے ادنیٰ گورا بھی اعلیٰ سے اعلیٰ ہندوستانی پر حقِ حکومت سمجھتا ہے۔ کالے پر گورے کا تفوق، اثبات جرم کے بعد جیل میں مزید نمایاں ہوتا ہے۔
ہندوستانی قیدی کی کیفیت اور اس کی ذلیل حیثیت آپ کے پیش نظر ہو چکی ہے۔ البتہ جیل میں یورپین قیدی کا جاہ و جلال تفصیل طلب ہے۔ ہندوستانی قیدی خواہ خاندانی لحاظ سے ممتاز کیوں نہ ہو، جب تک یورپین طرزِ رہائش کا سپرنٹنڈنٹ کو یقین نہ دلا دے اور وہ خوش قسمتی سے باور نہ کرے تب تک کسی امتیازی حقوق کا سزاوار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ برخلاف اس کے ایک یورپین جس کا جرم خواہ کس قدر قبیح اور قابل نفرت کیوں نہ ہو، امتیاز خاص کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ ہندوستان کی بدقسمتی ملاحظہ ہو۔ شریف سے شریف ہندوستانی قیدی جب احاطہ جیل میں قدم رکھتا ہے تو ہندوستانی عملہ اس کی ذلت اور رسوائی کو فرض منصبی سمجھ کر تذلیل و تحقیر میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ ایک یورپین قیدی کے داخلہ جیل خانہ پر سب ملازمین کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ گویا کوئی افسر اعلیٰ معائنہ و محاسبہ کے لیے آیا ہے۔ داروغہ جیل جس کا دماغ ہر وقت بالائے آسمان رہتا تھا، ذرا ہوش کے ناخن لینے لگتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ ایسا قیدی اس کے چارج میں آج آیا ہے، جس کی آسائش و ضروریات روزانہ پر ہمدردانہ توجہ اس کا فرض ہے۔ وہی جیلر جو ہر وقت رعب و سیاست کی وجہ سے ہندوستانی قیدی کی التجا اور عاجزانہ درخواست پر بھی ماتھے پر سو شکن ڈالتا تھا، آج یورپین قیدی کی خوشنودیٔ مزاج حاصل کرنے کے لیے خندہ پیشانی سے مزین نظر آتا ہے ، بڑھ کر معذرت پیش کرتا ہے، باقی ماتحتان ادنیٰ اس کو صاحب بہادر کہہ کر پکارتے ہیں اور ہر صبح سلام کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں۔ قصہ کوتاہ جیل میں یورپین کی قدر بالا تر از انسان، ہندوستانی کی کم تر از حیوان ہوتی ہے۔ ذرا ہندوستانی اور یورپین قیدی کے لباس و پوشاک پر غور فرمائیں گے تو اس امر کی تصدیق ہو جائے گی۔ ہمارے ہندوستانی بھائی کے لیے بازو کٹا کرتا، لنڈا پاجامہ، ایک ٹوپی، دوسری لنگوٹی۔ صاحب بہادر کے لیے کوٹ پتلون، نکٹائی، سونے کے لیے الگ الگ سوٹ۔ ایک جوڑا بوٹ تین سوتی قمیص، ایک جوڑا جراب، ایک صاحبانہ ٹوپی، دیگر سامان آسائش اور کنگھی چوٹی، تولیہ، ایک پلنگ اور شطرنجی۔ ہندوستانی بے چارے کے لیے بجائے پلنگ کے کھڈی۔ مونج ٹاٹ کا بستر، اپنا ہی بازو اس کا سرہانہ۔ یورپین قیدی کے سامان آسائش و آرم کے اس سرسری ذکر کے بعد خوردنی اشیاء کا مختصراً ذکر مناسب ہو گا۔ ہندوستانی بے چارے کی عام خوراک ادنیٰ قسم کی سبزی، گندم، جو جوار کی روٹی، مونگ، مسور کی دال پر مشتمل ہے۔ ان کھانوں کو لذت بخشنے کے لیے 0.25چھٹانک تیل کا تڑکا لگا دیا جاتا ہے۔ یورپین کو ہر قسم کی خوراک بقدر ضرورت مل جاتی ہے۔ گوشت، گھی، مکھن، شکر، چینی، مٹر، آلو، کدو، سوجی اور شکر ڈال کر فیرنی بنا کرکھلائی جاتی ہے۔ نظر بحالاتِ بالا آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ یورپین بدمعاش کس طرح آپ کے صوبہ کانفرنس کے صدر سے زیادہ محترم و معتبر تصور کیا جاتا ہے۔ وہ کولہو اور کنواں چلانے، مونج کوٹنے اور دیگر قسم کے ذلیل ترین کاموں پر لگایا جاتا ہے، مگر یورپین قیدی کے متعلق ایسا خیال کرنا بھی تمدن و تہذیب کی ہتک سمجھی جائے گی۔
وہ سماں قابلِ دید ہو گا جب کہ وزیر زراعت کو جیل کا لباس پہنایا جا چکا ہو گا۔ اس دیدہ زیب لباس سے انسان کو ایک دم کی کسر چھوڑ کر باقی بالکل لنگور کی شکل نکل آتی ہے۔ جیل مینول میں ہندوستانی قیدیوں کے تجویز شدہ لباس پر ان مسخروں کی جماعت کی ذہنی قابلیت کی ضرور داد دینی پڑتی ہے، جنھوں نے موجود جیل مینول کو مرتب کیا۔ کیونکہ اس سے زیادہ ناموزوں اور مضحکہ خیز لباس کسی کے وہم میں نہیں آ سکتا۔
نوٹ:
قیدیوں سے کام لینا تو ہوا۔ مگر حوالاتیوں سے مشقت لینا کس قدر بے انصافی ہے۔ یہ بے انصافی جیل میں عین انصاف ہے۔ غریب ہندوستانی اپنے حقوق کو جیل کے باہر کیا سمجھتے ہیں، جو اندر ان سے توقع کی جائے۔ بے چاروں کو سارا سارا دن کام پر لگائے رکھا جاتا ہے۔ اور عموماً بعض حوالاتی کام سے انکار کرتے ہیں، مگر وارڈر کوٹھڑی میں بند کر کے قفل لگا دیتا ہے۔ بندش سے تنگ آ کر مشقت پر راضی ہو جاتے ہیں۔ ملازمین صرف ’’دو باروں‘‘ سے دبتے ہیں۔
’’دوبارہ‘‘ اس قیدی کو کہتے ہیں، جو ایک بار سے زیادہ سزایاب ہو۔ ایک بار سے دو بار کا امتیاز اس طرح کر دیا جاتا ہے کہ اس کی ٹکٹ پر بجائے اے کے بی لکھ دیا جاتا ہے۔ جس کے معنی عادی مجرم کے لیے جاتے ہیں۔ اس کے ہاتھ میں ایک اور زیور کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایک لوہے کا پتلا سا کڑا پہنا کر جتنی بار کا سزایاب ہو۔ اتنے ہی تعداد لکیر کھودی جاتی ہے۔ کسی ذمہ داری کے کام یا قیدیوں کی نگرانی پر نہیں لگایا جاتا۔ دوبارہ قیدیوں سے حکام ہمیشہ خوف کھاتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس گھر کا بھیدی ہو چکا ہوتا ہے۔
جگنی:
جیل میں قیدی دعا مانگا کرتے ہیں کہ جگنی ملے ۔ مجھے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ جگنی جوبلی سے بگاڑا ہوا لفظ ہے، تخت نشینی یا ایسی دیگر قسم کی مراسم شاہی پر قید میں تخفیف ہو جاتی ہے۔
نئی صورتِ کشمکش:
جب جیل میں ہر قسم کی جدوجہد کا خاتمہ کر دیا گیا اور ہر طرف امن و امان نظر آیا تو شیطان نے نئے سپرنٹنڈنٹ کے کان میں پھونک ماری کہ صاحب یہ لوگ جوتے کے یار ہیں۔ رضا خان نرمی سے پیش آئے تو یہ لوگ سخت ہو گئے۔ مسٹر کنگ نے کان اینٹھے تو ڈھیلے پڑ گئے۔ یہ نرمی اس لیے ہے کہ ان کی گرمی مسٹر کنگ نے نکال دی ہے، یہاں سیدھی انگلی گھی نہ نکلے گا۔ مسٹر چارٹر سادہ لوح تھے، یہ بات پلے باندھ لی۔ اپنی طبیعت اور مزاج کے خلاف سختیاں شروع کر دیں۔ جو مسٹر کنگ نے کسر چھوڑی تھی وہ مسٹر چارٹر نے پوری کر دی۔ سزاؤں پر تو صبر کیا، اب مذہب میں بھی دست اندازی شروع ہوئی۔ ملازمین سید رضا علی کے وقت عزت و احترام سے نام لیتے تھے، مسٹر کنگ قیدی اور ملازم دونوں پر سخت گیر تھا۔ مگر اب ملازم آزاد، قیدی لاچار تھے۔ انھوں نے سپرنٹنڈنٹ کی شرافت پر بھروسہ کیا، مگر افسوس کہ اس کے غلط معنی سمجھے گئے۔ ایک نو عمر سیاسی قیدی چراغ محمد کو روزے کے ہوتے چکی پسوائی گئی، رام پرتاب سے شری بھگوت گیتا اور مولوی غلام نبی سے قرآن شریف اس گناہ پر چھینا گیا کہ سپرنٹنڈنٹ کی آمد پر وہ کیوں مصروف تلاوت رہا اور تعظیم کے لیے کھڑا نہ ہوا۔ تمام سیاسی قیدی ملازموں کی بدسلوکی سے تنگ آ گئے تھے۔ کیونکہ اب وہ اکثر بدزبانی بھی کیا کرتے تھے، جبر صبر سے بڑھ رہا تھا۔ اسی عرصے میں سپرنٹنڈنٹ نے گندم کی روٹی کی جگہ مسی روٹی کے استعمال کا حکم دیا۔ اب صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ سیاسی قیدیوں نے سمجھا کہ یہ سب ہمیں ذلیل اور دق کرنے کی منصوبہ بازیاں ہیں۔ انھیں یہ بھی صاف معلوم ہو گیا کہ حکام و ملازم ہماری سابقہ بزدلی و عدم برداشت سے یقین کر چکے ہیں کہ ہمارے اندر ہمت و حوصلہ نہیں کہ ہم کسی سے احترام کر ا سکیں۔
سٹرائیک(بھوک ہڑتال):
جیل میں بات منوانے کا بجز سٹرائیک کے کوئی طریقہ نہیں۔ عرض داشتوں کو کوئی سنتا ہی نہیں مگر پچھلے تلخ تجربے پیش نظر تھے اور خیال تھا کہ اگر اب کہ سٹرائیک میں ناکامی ہوئی اور بزدلی کا اظہار ہوا تو جیل میں جینے کی صورت نہ رہے گی۔ اس لیے سب کو کہہ دیا کہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے، اوّل یہ تجویز ہوئی کہ ایک وقت فاقہ ہو دوسرے وقت کھانا لو، مگر یہ غیر مؤثر سمجھی گئی۔ اس لیے درمیانی راہ یہ نکالی کہ روٹی چھوڑ کر چنوں پر گزارا کرو۔ چنانچہ اسی سمجھوتہ پر سٹرائیک شروع ہو گیا۔
حکام جیل نے بزعم خود ہماری کمزوریاں پالی تھیں، ان کا خیال تھا کہ بھوک کی ہم تاب نہیں لا سکتے ہیں، اس لیے کمزروں کا دلیا اور تندرستوں کے چنے بھی بند کر دیے۔ ہمارے ارد گرد پہرہ مضبوط کر کے ہمارے صبر کا امتحان لینے لگے۔ دو دن گزرے، نہ کسی افسر نے بات پوچھی، نہ کسی قیدی نے کی۔ تیسرے روز کچھ اِدھر بے کلی، کچھ اُدھر اضطراب ہوا، حکام نے صرف دو دن کے دم کا اندازہ لگایا تھا، تیسرے روز بھی فاقہ کشوں کے اسی مزاج، دم خم کو دیکھ کر افسران جیل پریشان ہوئے۔ نو عمر قیدی باوجود منع کرنے کے سٹرائیک میں شامل ہو گئے تھے، وہ دوسرے دن ہی بے تاب ہو گئے۔ درختوں کے پتے کھانے شروع کر دیے۔ ادھر سپرنٹنڈنٹ نے درخت کٹوا دیے کہ نہ دہی باقی بچے، نہ کتا کھائے۔ ادھر پتوں کی تلاشی کا حکم دیا۔ نو عمر فاقہ کشوں نے سنا تو باقی پتے بکری کی طرف چبا گئے۔ ڈکار مارا اور شیر ہو گئے۔ یہ تو بچوں کے کھیل، کرتب تھے۔ مگر دوسرے گروہ کی حالت زبوں ہونے لگی، اٹھتے سر میں چکر اور بیٹھتے آنکھوں سامنے اندھیرا آنے لگا۔ کوئی کمزوری کا اظہار نہ کرتا تھا۔ کیونکہ ہر ایک کو خیال تھا کہ پہلے فاقہ کو ناکام چھوڑا کر اس حالت کو پہنچے۔ اب خدا جانے کیا گت بنے۔ مسلمانوں پر خدا کی اور عنایت تھی۔ ایک فاقہ دوسرے رمضان کے دن، مئی کا مہینہ۔ فاقہ تو کٹے۔ پیاسا کیونکر کاٹے۔ گرمی سے پیشاب تیزاب کی طرح تیز ،خون کی طرح سرخ ہو گیا۔ ٹانگوں اور بازوؤں میں درد شروع ہوا اور بے ہوشی سی طاری ہونے لگی۔ آنکھیں خود بخود بند ہوئی جاتی تھیں۔ فاقہ کا تیسرا روز گزارا، چوتھا دن آیا، دوپہر گزری، شام ہونے کو آئی۔ اب موت کا انتظار تھا کہ چیف وارڈر آ پہنچا۔ داروغہ صاحب آپ کو اور غازی کو بلاتے ہیں۔ میں نے اطمینان کی سانس لی اور کہا چلیے، ہم آتے ہیں۔ میں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھا کہ دشمن مار لیا۔ کیونکہ چار روز بلانا تو درکنار داروغہ اور سپرنٹنڈنٹ کی شکل دیکھنے کے چور ہو گئے تھے۔ ہم دونوں کے ہونٹوں پر پپڑی جمی اور منہ پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، اس کی ندامت کے باعث اور ہماری فاقہ مستی کی وجہ سے۔ ہم نے اس کی صورت کی جس پر شکست جلی طور سے تحریر تھی، دیکھ کر تبسم اور انھوں نے ہماری طرف دیکھ کر زہر خندہ کیا۔ مسٹر گورداس رام بی اے وکیل، سردار بھگت سنگھ جتھ دار امرتسر پہلے ہی موجود تھے۔ داروغہ صاحب نے پوچھا، اب کیا کیا جائے؟ جواب دیا، جو سمجھ میں آئے۔ آخر جیلر کو تسلیم کے سوا کچھ بن نہ آئی کہ مذہبی کتب کا چھیننا اور روزہ سے چکی پر لگانا غلطی تھی۔ اس نے وعدہ کیا کہ اگر سٹرائیک ختم کر دو تو کتب واپس کر دی جائیں گی اور جو سزا بھگت رہے ہیں، ان سے سزا اٹھا دی جائے گی۔ اب داروغہ دبے اور ہم اکڑے۔ صاف کہا کہ ہم اکیلے کچھ نہیں کر سکتے، جب تک تمام سیاسی قیدی ایک جگہ مل کر مشورہ نہ کر لیں۔ داروغہ نے اجازت دی۔ ساتھیوں سے مل کر معلوم ہوا کہ بعضوں کی حالت نہایت خراب ہے۔ یہ جھگڑا جلدی چکا دینا اور فاقہ ختم کرا دینا ہی مصلحت تھی۔ مگر فاقہ مستوں نے نہایت سخت شرائط صلح پیش کیں۔ یعنی یہ کہ ایک سب کمیٹی بنائی جائے، جس کا فیصلہ سب منظور کریں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، غازی عبدالرحمن ہماری طرف سے شرائط صلح طے کرانے لگے۔
مگر سب کمیٹی کے مطالبات کے ایک جزو کو داروغہ ماننے پر پورے طور سے تیار نہ تھا۔ بظاہر انکار تھا، مگر معلوم ہوتا تھا وہ معاملہ کو ختم کر دینے کو بہت ہی بے تاب تھا۔ اس وقت کوئی فیصلہ نہ ہو سکا، رات بھر فاقہ سے کٹی، مگر ہمیں پورا یقین تھا کہ صبح تک حکام ہتھیار ڈال دیں گے۔ اسی امید پر زیادہ کمزوری یا بے تابی نہ بڑھی۔ صبح سویرے جیلر جیل میں آیا، سیاسی قیدیوں کے حسب منشا معاملہ فیصلہ کا کرنے کا یقین دلایا۔ آج تو داروغہ کے دم خم ایسے نکل چکے تھے کہ ہم جو چاہتے منواتے، روٹی کے متعلق سپرنٹنڈنٹ نے وعدہ کیا کہ جلدی سے جلدی منظوری انسپکٹر سے منوائی جائے گی۔ غرض حکام کے سر سے خیال خود سری نکل گیا۔ آئندہ محتاط رہنے کا وعدہ کیا۔ قرآن پاک شریمد بھگوت گیتا واپس کی گئی۔ جو زیر عتاب تھے، ان سے حکم سزا اٹھایا گیا۔ اس لیے قیدیوں نے پانچویں روز فاقہ کھول دیا۔
لالہ بینی پرشاد وکیل، خان عبدالغفار اور میر غلام بھیک نیرنگ کی نیرنگئی قلم نے اس واقعہ کے متعلق اخبارات میں مؤثر انداز میں رنگ آفرینی کی ہے۔ جو تحریر انھوں نے اخبار ’’بندے ماترم‘‘ میں شائع کی، اس کا نقل کرنا یہاں خالی از دل چسپی نہ ہو گا۔
’’لاہور، ۷ مئی۔ انبالہ جیل میں پولیٹکل قیدیوں کا معاملہ بدستور کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ اور ان کی حالت بہت خراب ہے۔ ۷ مارچ تک ایک ہندوستانی مجسٹریٹ یہاں پر سپرنٹنڈنٹ جیل تھا، اس کا نتیجہ یہ تھا عملی طور پر پولیٹکل قیدیوں کے حق میں یا برخلاف کوئی خاص شکایت نہ تھی۔ البتہ یہ کہا جاتا ہے کہ حاکموں کے نقطہ نظر سے پولیٹکل قیدی آنند منا رہے ہیں۔
۷ مارچ کو انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات نے انبالہ جیل کا معائنہ کیا۔ اس کی ملاقات کے وقت بہت سے نا خوش گوار واقعات رونما ہوئے۔ جن کو کوئی شخص بھی حق بجانب ٹھہرانے کو تیار نہیں اور ان واقعات کی حمایت نہیں کر سکتا۔ لیکن کوئی بھی منصف مزاج شخص تمام واقعات کا بوجھ قیدیوں کے کندھے پر نہیں پھینکے گا۔ ان تمام واقعات کی تفصیلات زیر تحقیقات ہیں۔ مقامی جیل سے رہا شدہ بہت سے قیدیوں کی شہادت لی گئی ہے اور ان کے بیانات درج کیے گئے ہیں۔ ہم فی الحال تمام واقعہ کے حق اور مخالف امور کے افشا کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ ہم فی الحال تمام واقعہ کے حق اور مخالف امور کے افشا کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ صرف اتنا ہی کہنا کافی ہوگا کہ ۷۔ مارچ کے واقعات سے جیل کے سپرنٹنڈنٹ کی تبدیلی ہوگئی۔ او رمسٹر کنگ کے۔ سی۔ ایس۔ نے جیل کا چارج لے لیا۔ ان کے قدوم مبارک خاص اہم واقعات سے پر ثابت ہوئے کہ گورنمنٹ پنچاب نے وزیر مال کو برائے تحقیقات انبالہ جیل میں ملاحظہ کے لیے بھیجا۔ اس معائنہ کا نتیجہ کیا ہوا۔ ابھی معلوم نہیں۔ اب مسڑکنگ کی جگہ میجر چارٹر سپرنٹنڈنٹ جیل مقرر ہوئے۔ چارٹر کو ایک ماہ سے زیادہ چارج لئے ہوگیاہے۔ لیکن ان کی اس تقرری سے معاملات بجائے سلجھنے کے زیادہ خطرناک صورت اختیار کر گئے ہیں۔ مسٹرکنگ کی سختی اور میجر چارٹر کی ناقابل فہم خاموشی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ گزشتہ دو روز سے پل پل یہ افواہ گشت کررہی تھی۔ کہ انبالہ قیدی دوبارہ فاقہ کشی پر مجبور ہوگئے ہیں۔ آج ضلع امر تسرکا ایک سپیشل قید ی مندرجہ ذیل درست واقعات کی اطلاع لایا ہے۔ کہ حالات سے مجبور ہو کر ۱۰۰ کے قریب قیدیوں نے ۳مئی کی صبح کو خوراک کھانے سے انکار کردیا۔ اسی طرح فاقہ کشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے اور آج سوائے چالیس آدمیوں کے باقی تمام بیمار پڑے ہیں ۔ اورفاقہ کشی کے باعث بہت کمزور اور دبلے ہوگئے ہیں۔ جیل کے سلوک کے حق یہ ایک دلچسپ تشریح ہے کہ جب قیدیوں نے کھانا کھانے سے انکارکردیا۔ توادھر سے افسران جیل نے بھنے ہوئے چنے دینا بھی بندکردیا ہے۔ اس پر بھی اکتفا نہیں ۔بلکہ احاطہ ورکشاپ میں دو لسوڑے کے درخت ہیں ۔ جن پر کچے پھل لگے ہوئے تھے ۔ کچھ بھوکے قیدی ان کے کچے لسوڑوں اور پتوں کو کھانے پرمائل ہوئے ۔ تو افسران کو یہ بھی ناگوار گزرا۔ اور انہوں نے ان درختوں سے تمام پتے اور پھل اترواکر باہر پھینکوادئیے۔تاکہ قیدی انہیں کھا نہ سکیں ۔ معلوم ہو اکہ مندرجہ ذیل اصحاب بہت کمزور ہوگئے ہیں۔
(۱) چوہدری افضل حق عدم تعاونی سب انسپکٹر پولیس(۲) خان عبدالرحمٰن خان غازی ایم ۔ اے لاپلوری ۔ (۳) سردار بھگت سنگھ علاوہ ازیں سردار ٹھا کر سنگھ ۔ کرپاسنگھ اور میاں چراغ الدین فاقہ کشی سے بے ہوش پڑے ہوئے بیان کئے جاتے ہیں۔جس وقت ہمیں رپورٹ دینے والے سردار ذیل سنگھ کی رہائی آج صبح ہوئی ۔ تو اس وقت بھوک کے باعث کرپال سنگھ سرجیت سنگھ اور میاں چراغ الدین کی حالت بہت نازک تھی۔ وہ کمزوری کے کارن بالکل بے ہوش پڑے تھے۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں افسران جیلر نے گندم کی روٹی دینا بند کر کے یہ نازک حالت پیدا کردی ہے۔ اس نوٹ کو ختم کرنے سے پہلے ہم یہ ظاہر کردینا چاہتے ہیں کہ اس سے متعلق کافی شہادت ہے۔ کہ قیدیوں سے باقاعدہ طور پربد سلوکیا ں کرکے انہیں گرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ چوہدری افضل حق۔ خواجہ عبدالرحمن غازی۔ چوہدری اکھے رام۔ لچھورام اور بہت سے دیگر اصحاب کے حالات جو تفصیلاً ہمارے پاس موصول ہوئے۔ ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح کا نامناسب سلوک ان سے روارکھا گیا تھا۔
۸۔ مارچ سے چوہدری افضل حق کو قید تنہائی میں دیا گیا ہے۔ ۱۳دن تک ان کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں اور کھڑی ہتھکڑی تک بھی لگا دی گئی۔ لیکن یہ بہت دیر تک نہ رکھی گئی۔ ان کی جسمانی بناوٹ بہت کمزور ہے۔ عام لوگوں کو تو وہ تپ دق کے مریض بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اب تازہ رپورٹ ہے۔ کہ وہ بالکل لاغراوردبلے پتلے ہوگئے ہیں۔ ان کی بدقسمتی کی وجوہات ابھی تک معلوم نہیں۔ البتہ وہ پولیس کی سب انسپکٹر شپ چھوڑ کر نان کوآپریشن کی فوج میں بھرتی ہوگئے تھے۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے دلیری کا ثبوت دیتے ہوئے نہایت دیانت داری سے انبالہ جیل کے حالات کے متعلق کئی سچائیوں کااظہار کردیا تھا۔ لیکن یہ واقعات اتنے ہی قابل اعتراض تھے کہ ضوابط جیل سے بد تر سلوک روارکھا جاتا۔ ابھی تک یہ بھی ایک پوشیدہ راز ہے۔ انہوں نے سپیشل کلاس کی تمام مراعات سے فائدہ اٹھانے سے انکار کرکے معمولی قیدیوں کے ساتھ شامل کئے جانے کے لئے درخواست کی تھی۔ غالباً ان کی یہ درخواست جیل کی ضابطہ شکنی متصور کی گئی اوران کو ایک ساتھ تین سزائیں دی گئیں۔ (۱) سپیشل کلاس کی مراعات ضبط کیا جانا۔ (۲) قید تنہائی کی کوٹھڑی میں بند کیا جانا (۳) جیل کی وردی پہنایاجانا۔ حلانکہ مسڑ غازی کو محض قید کی سزاملی ہوئی ہے ۔ اس کے مطابق انہیں ذاتی کپڑے پہننے کا حق حاصل ہے۔ اس فاقہ کشی۔ بیماری۔ گرمی اور قلت پانی کے باوجودوہ شیر مردماہ رمضان میں روزے رکھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ وہ یہ اچھی طرح جانتے ہوئے جیل میں گئے کہ جیل کی زندگی کوئی پھولوں کی سیج نہیں۔ افضل حق، غازی، اکھے رام، بھگت سنگھ اور درجنوں ہی دیگر اشخاص اپنے مشن کے لئے بہادرانہ قربانی اورنہ دیکھنے والی عقیدت کا ایک شاندار ریکارڈلے کر واپس آئیں گے۔ اور نان کو آپریشن کی فوج کے معمولی سپاہی میں تپسیا کے لئے فخر کرنے کا حق رکھیں گے۔
آپ غرق حیرت ہوں گے کہ اے کلاس کے وہ قیدی جودو دن کا فاقہ برداشت نہ کر سکے تھے ۔ انہوں نے پانچ روز صبر کیسے کیا۔ اگر اے کلاس کی بے ادبی نہ ہو تو کہوں کہ پہلی ٹکر میں منہ کی کھا کران کا پیٹ پھر چکا تھا۔ اب کے انہوں نے فاقہ کا حوصلہ نہ کیا تھا۔ ہماری کامیابی کا راز بھی اسی بات میں مضمر تھا کہ آرام طلب وخوش خور حضرات اس جدوجہد میں شامل نہ ہوئے تھے۔ میں جیل اورجیل کے تمام حالات کا اندازہ لگا کر افسوس ناک نتیجہ پر پہنچا ہوں۔ کہ تعلیم یافتہ طبقہ میں وہ سچائی اور برادشت نہیں جو رہنما طبقہ میں ہونی چاہئے۔ ایسے سخت فاقہ کو کامیابی کی حدتک پہنچا طبقہ اولیٰ سے ممکن نہ تھا۔یہ صرف طبقہ ادنیٰ ہی کا حوصلہ اور ہمت تھی کہ یہ قیامت کے دن کاٹ گزارے۔ سابق سپرنٹنڈنٹ نے، کیونکہ یہ جلدی دب جاتے تھے، اے کلاس کا شاید ہی ایک آدھ قیدی ہو جسے اس نے سزادے کر ذلیل نہ کیا ہو۔ مگر وہ ذلت اٹھا کر دن بدن بے حس ہوتے گئے ۔
فاقہ کھولنے کے بعد سپرنٹنڈنٹ ملے۔شکوہ کیا کہ اگر میرے طرز عمل سے قیدی ایسے نالاں تھے۔ تو مجھے بتادیا ہوتا یا سٹرائک جلدی ختم کرادیا ہوتا۔ میں نے جواب دیا کہ نہ بتانا چاہے میری غلطی ہو، سٹرائیک کا ختم کرانا آپ کے بس کی بات تھی۔ اس حقیقت کے اظہار میں ترود نہیں کہ مسٹر چارٹر کا رویہ میرے ساتھ نہایت شریفانہ تھا۔ قید تنہائی میں رہنے والے غازی عبدالرحمن ولالہ چیت رام صاحب کو بھی کوئی وجہ شکایت نہ تھی۔ مگر ہم شامل سٹرائک اس لئے تھے کہ ہمارے بی کلاس والے بھائیوں کے ساتھ ان کا سلوک قابل اعتراض تھا۔
پانچ روز کے فاقہ کے بعد بجائے ہلکی غذا کے وہی بیسنی روٹی ملی۔ کسی نے عذرنہ کیا۔ نتیجہ یہ ہواکہ جس قدر کمزور معدہ تھے۔ وہ اسہال سے نڈھال ہوئے۔ باوجود احتیاط کے مجھے بھی ساتھیوں کا ساتھ دینا پڑا۔ کیا کہوں کہ میری کیا حالت ہوگئی۔ دم نکل کر آیا۔ زندگی روٹھ منائی۔اگرچہ اب تک بقید حیات ہوں۔ مگر میری صحت کا یہ عالم ہے کہ رعشہ کی سی کیفیت ہوگئی اور انگلیوں سے قلم تھامنی مشکل ہے۔ کو ٹھڑی میں سوائے غازی عبدالرحمن لالہ چنت رام اور میرے تمام سیاسی قیدی حسب الوعدہ نکالے گئے۔ اب چند دن کے بعد غازی صاحب کو بھی کوٹھڑیوں سے نکالا گیا۔ میجر چارٹر کو میرے بارے میں تذبذب تھا۔ کیونکہ ڈپٹی کمشنر کی مجھ پر نظر عتاب ،سابق سپرنٹنڈنٹ مجھ سے ناراض…… کرتے تو کیا کرتے؟ آخر قسمت نے پلٹا لیا، اڑھائی ماہ کی قید تنہائی کے بعد کال کوٹھڑی سے آزادی ملی اور بارک کی کھلی ہوا نصیب ہوئی۔ اتنی مدت کے بعد پھر دوستوں سے مل بیٹھنے کا موقعہ پاکر طبیعت نہال ہوگئی۔ (جاری ہے)