حبیب الرحمن بٹالوی
برادرِ عزیز خلیل الرحمن! السلام علیکم
میں لہلہاتی شاخ کو سمجھا تھا زندگی
پتّا گرا تو درسِ فنا دے گیا مجھے
آپ کی رفیقۂ حیات اور ہماری بھاوج اس دنیائے فانی سے کُوچ کر گئیں کہ قدرت کا یہی دستور چلا آ رہا ہے۔ جو بھی آیا ہے، اسے جانا ہے۔ مرحومہ دل کے عارضے، شوگر، سانس اور گردوں کی تکلیف میں مبتلا تھیں۔ ان عوارض نے اُن کی صحت کافی مضمحل کر دی تھی۔ کئی دفعہ گوجرانوالہ، لاہور ہسپتال میں داخل ہوئیں۔ دو چار دن کے علاج کے بعد گھر آ جاتیں، مگر اب کی بار
سر بسجدہ تھا مسیحا کہ میری بات رہے
ملک الموت کو یہ ضد تھی کہ جاں لے کے ٹلوں
اور آخر ملک الموت جیت گیا کہ اسے ٹالا تو نہیں جا سکتا۔ بڑے بڑے پیغمبروں پر یہ ضابطہ پورا ہوا۔ مرحومہ کے الفاظ: ’’اب میں گھر نہیں جا سکوں گی۔ اب مجھے سکون کی نیند آ جائے گی‘‘۔ بچے برداشت نہیں کر پا رہے تھے، اندر سے ٹوٹ رہے تھے۔ رات بھیانک ہو رہی تھی۔ ایک بے بسی تھی، لاچارگی تھی۔ رنج و غم کا ایک پہاڑ تھا جو بچوں پر گر پڑا تھا۔ ایک حشر بپا تھا کہ اس کی سانس کی ڈوری کاٹ دی گئی۔
میرے بھائی! نہیں معلوم! آپ نے کتنی دعائیں مانگی ہوں گی۔ کتنی تدبیریں کی ہوں گی، مگر جب دعائیں تھک جاتی ہیں، تدبیریں بے بس ہو جاتی ہیں تو تقدیر غالب آ جایا کرتی ہے اور
دیکھ فانی ! یہ تیری تدبیر کی میت نہ ہو
اک جنازہ جا رہا ہے دوش پر تقدیر کے
اور یہی وہ لمحہ ہے جو ہمارے اختیار میں نہیں۔ اس پر سوائے صبر کے چارہ نہیں۔ یہی زندگی ہے اور زندگی کے پیالے بھرتے اور چھلک جاتے ہیں
یہ کیا دستِ ازل کو کام سونپا ہے مشیت نے
چمن سے پھول چننا اور ویرانے میں رکھ دینا
زندگی کا دورانیہ کیا ہے میرے بھائی! انسان مسافر کی طرح دنیا میں آیا، کچھ دیر کے لیے درخت کے نیچے بیٹھا، سانس لیا اور چل دیا۔ بس یہی حیثیت ہے زندگی کی۔ اﷲ تعالیٰ، اندر کی ہوا باہر نہ آنے دے یا باہر کی ہوا، اندر نہ جانے دے۔ انسان ختم۔ پھر اسے دنیا،چودھری صاحب، شاہ صاحب، شیخ صاحب، ملک صاحب نہیں کہتی۔ میت کہتی ہے۔ کہتی ہے، جنازہ کب اٹھایا جائے گا؟ دنیا کی بس یہی وفا ہے اور لوگ تو دفن کر کے قبر تک بھول جاتے ہیں۔
او مٹی کے ماتے تجھے کتنا گماں ہے!
اور سب سے زیادہ تعجب کی بات یہی ہے کہ ہم روز دوسروں کو مرتے ہوئے دیکھتے ہیں، مگر خود زندگی اس طرح بسر کرتے ہیں، جیسے خود کبھی نہیں مریں گے۔ نہیں، نہیں۔ ہر مرنے والے کی طرح، ایک دن مساجد سے ہماری موت کا بھی اعلان ہو رہا ہو گا۔ ’’بورڈ کے ملازم حبیب الرحمن بٹالوی، جو آج کل رائز کالج میں پڑھا رہے تھے، بقضائے الٰہی وفات پا گئے ہیں۔ اُن کی نماز جنازہ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا‘‘۔
ایک جنازہ جا رہا تھا۔ ایک نوجوان نے ایک بزرگ سے پوچھا، یہ کس کا جنازہ جا رہا ہے؟ بزرگ نے جواب دیا: ’’اپنا سمجھ لو میرا کہ ایک دن لوگ اسی طرح مجھے یا تجھے چارپائی پر ڈال کر قبرستان لے جا رہے ہوں گے‘‘۔
امام غزالیؒ نے اپنے شاگر د کے سوالوں کے جواب میں تحریر کیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ میت کو اٹھانے سے لے کر قبرستان لے جانے تک، اس سے خود چالیس سوال کرتا ہے، جن میں ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ تو دنیا کو دکھانے کے لیے تو صاف ستھرا بنا رہتا تھا، کبھی میرے لیے صاف ستھرا بنا تھا؟
حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ ملک الموت ہرگھر میں تین مرتبہ روزانہ چکر لگا کر دیکھتے ہیں کہ کس کا رزق پورا ہو گیا اور کس کی عمر پوری ہو گئی۔ جس کا رزق پورا ہو جاتا ہے، اس کی روح قبض کر لیتے ہیں اور جب اس کے گھر والے اس کی موت پر روتے ہیں تو ملک الموت دروازے کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کر کہتے ہیں: ’’میرا کوئی گناہ نہیں، مجھے تو اس کا حکم دیا گیا تھا۔ واﷲ! نہ تو میں نے اس کا رزق کھایا اور نہ اس کی عمر گھٹائی۔ میں تمھارے گھروں میں بار بار آتا رہوں گا، یہاں تک کہ تم میں سے کوئی بھی باقی نہ رہے‘‘۔ حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ اگر میت کے گھر والے ملک الموت کا کھڑا ہونا دیکھ لیں اور اس کی گفتگو سن لیں، تو وہ میت کی موت سے غافل ہو جائیں اور اپنے اوپر روئیں۔
ایک دفعہ لوگوں نے حضرت ابراہیم بن ادھمؒ سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے اﷲ تعالیٰ ہماری دعائیں قبول نہیں کرتا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم خویش و اقربا کو اپنے ہاتھوں زمین میں دفن کرتے ہیں مگر عبرت نہیں پکڑتے۔ موت کو برحق مانتے ہیں، مگر عاقبت کا کوئی سامان نہیں کرتے بلکہ دنیا کا سامان جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
حالانکہ
دشت و در میں ، بحر میں ، گلشن میں ، ویرانے میں موت
Sکلبۂ افلاس میں ، دولت کے کاشانے میں موت
Iموت ہے ہنگامہ آرا قلزمِ خاموش میں!
Iڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں!
بہرکیف! ماں، بچوں کا چھتنار، ایک سائبان، ایک گھنا درخت کہ سارے دن کے مصائب کے ستائے ہوئے بچے، اس کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر، ماں سے دکھ سکھ کر لیتے تھے۔ اپنی کلفتیں دور کر لیتے تھے اور وہ اُن کی ساری تکالیف کو اپنے دامن میں سمیٹ کر بہت خوش ہوتی تھی اور یہی وہ ایک دیوار ہے جس سے ہر دکھتی کمر ٹیک لگا سکتی ہے۔ جس کے سائے میں ہر آبلہ پا سستا سکتا ہے اور اپنے زخموں کو سہلا سکتا ہے۔ اور یہی وہ گھنا درخت ہے جس کی خنک آسودگی کا احساس، اُس کی موجودگی میں نہیں ہوتا۔ آج وہ درخت کاٹ دیا گیا تھا۔ اور روتے ہوئے بچوں کے جسم تھے مگر جان نہ تھی کہ آج اُن کو دلاسہ دینے والی ماں نہ تھی۔
مائیں جب مر جاتی ہیں
ریت سے آنکھیں بھر جاتی ہیں
اور
کٹ گیا درخت مگر تعلق کی بات تھی
بیٹھے رہے زمیں پر پرندے تمام رات
پتہ نہیں! اﷲ تعالیٰ اتنی بڑی نعمت دے کر چھین کیوں لیتا ہے؟ وہ بے نیاز ہے، بے پروا ہے۔ وہ سب سے پوچھ سکتا ہے، اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ وہ بہتر جانتا ہے۔ کیا اچھا ہے، کیا برا ہے۔ اسی سے آسانیاں مانگتے رہنا چاہیے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس سے ڈرتے رہنا چاہیے، ہم کمزور ہیں، بے بس ہیں، لاچار ہیں۔ وہ طاقت ور ہے، زبردست حکمت والا ہے، ہمیں آزمائش میں نہ ڈالے۔
بہرحال زندگی ایک امتحان ہے، ہر ایک کو یہاں سے جانا ہے۔ جو چیز بنتی ہے، اسے بگڑنا ہے۔ سوائے اﷲ کے کسی کو بقا نہیں۔ یہاں کے ہر مکان پر فنا کی تختی لگی ہوئی ہے اور مرحومہ، مغفورہ اپنی زبانِ حال سے کہہ رہی ہے کہ میں الحمد ﷲ اچھی جگہ پر ہوں، آپ اپنا خیال کریں، میں ملک الموت کا منہ دیکھ چکی ہوں…… آپ نے ابھی دیکھنا ہے۔ میں موت کا مزہ چکھ چکی ہوں، آپ نے ابھی چکھنا ہے اور قبرستان کی طرف نگاہ دوڑاؤ۔ کیسے کیسے حسینوں کی مٹی خراب ہو رہی ہے۔ مجھ سے پہلے میرے ماں باپ، بہن بھائی، بہت سے لوگ یہاں آ چکے ہیں۔ جہاں نہ کوئی صدر بازار ہے، نہ مال روڈ، نہ حسین آگاہی ہے، نہ ہال روڈ۔ یہاں صرف ایک ہی روڈ ہے جو اچھے برے اعمال سے شروع ہو کر جزا و سزا کے موڑ پر ختم ہو جاتا ہے ہے اور
راہِ مرگ سے کیوں گھبراتے ہیں لوگ
=بہت اس طرف کو تو آتے ہیں لوگ
Ì ہمیں اس جہان کی تیاری کرنی چاہیے جو اَبَدی ہے۔ یہ جسم، ہم رات دن جس کی پرورش میں لگے ہوئے ہیں، ایک دن مٹی میں مٹی ہو جائے گا۔ ہمیں اندر کے انسان کی پرورش کرنی چاہیے۔ ہمیں روح کی بالیدگی کی فکر کرنی چاہیے۔ جو مستقل ہے، ہمیشہ رہے گی، جس کی غذا کی نیکیاں ہیں، حسنِ سلوک ہے، نیابتِ الٰہی ہے، ضبطِ نفس ہے۔ اﷲ اور رسول کی اطاعت ہے، اس طرف ہمارا دھیان ہی نہیں۔
برادرِ عزیز! مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ اس دل دوز صدمے پر آپ کو کیا لکھوں! بس صبر ہی سب سے بڑا مرہم ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہی طبیعت میں ٹھہراؤ آئے گا۔
اﷲ تعالیٰ آپ کو مرحومہ کی جدائی اور بچوں کو، ماں کی موت کے صدمے کے بدلے، اچھا اجر و ثواب عطا کرے! دنیا جہان میں عافیت سے نوازے! ہر معاملے میں آسانیاں پیدا کرے!
آپ کے غم میں برابر کا شریک
آپ کا بھائی
حبیب الرحمن