منصور اصغر راجہ
جنگ عظیم اول میں ترکی کی شکست کے بعد جب استعماری قوتوں نے خلافت ِ عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے شروع کئے تو برصغیر کے مسلمانوں نے خلافت عثمانیہ کے تحفظ کے لئے تحریک ِ خلافت کا آغاز کیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔پنجاب میں مولانا داؤد غزنوی ؒ تحریک خلافت کا پیغام عامۃ الناس تک پہنچانے کے لئے سرگرم ِ عمل تھے ۔اپنی سیاسی سرگرمیوں کے دوران میں انہوں نے محسوس کیا کہ امرتسر شہر کے کوچہ جیل خانہ کی ایک مسجد کا نوجوان خطیب کبھی کبھار ان کی راہ میں حائل ہوتا ہے ۔اگرچہ اس ابھرتے ہوئے خطیب کی گفتگو کا مرکزی موضوع عام طور پر اصلاح عقائد ، رد شرک و بدعت اور غیر اسلامی رسوم و رواج کی مخالفت ہوتاتھا لیکن وہ کبھی کبھار مولانا داؤد غزنوی ؒ کی تقاریر کا رد بھی کرتا ۔نوجوان خطیب اگرچہ ابھی خود بھی طالب علم تھا اور مفتی محمد حسن امرتسری ؒ کے حلقہ درس میں تعلیمی مدارج طے کر رہا تھا لیکن اس کی خطابت نے ابھی سے خلقت کو اپنا اسیر بنا رکھا تھا ۔مولانا داؤد غزنوی ؒ کی جوہر شناس نگاہ نے تاڑ لیا کہ وہ نوجوان خطیب درحقیقت ایک ہیرا ہے جسے ذرا سی تراش خراش کی ضرورت ہے ۔یہی سوچ ایک روز انہیں امرتسر میں ابھرتے ہوئے خطیب صاحب کے دولت کدے پر لے گئی ۔دوران ِ ملاقات میں انہوں نے خطیب صاحب کے سامنے خلافت ِ عثمانیہ کا مقدمہ اور عالمِ اسلام پر گورے حاکم کی چیرہ دستیوں کی داستان کچھ ایسی دل سوزی سے پیش کی کہ مدمقابل کی سوچ کا دھارا ہی بدل گیا ۔مولانا داؤد غزنوی ؒ جب کوچہ جیل خانہ کی اس مسجد سے رخصت ہوئے تو وہ نوجوان خطیب تحریک خلافت میں ان کے شانہ بشانہ چلنے کا فیصلہ کر چکا تھا ۔اُس زمانے میں برصغیر کے اردو پریس میں خلافت عثمانیہ اور ترک مسلمانوں کا سب سے بڑا ترجمان مولانا ظفر علی خانؒ کا روزنامہ ’’زمیندار ‘‘تھا ۔خطیب صاحب نے حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنے کے لئے ’’زمیندار ‘‘کا مطالعہ شروع کیا تو گورے حاکم کے خلاف من میں سلگتی چنگاری کو مزید ہوا ملی اور ان کا جذبہ ِ حریت دو آتشہ نہیں بلکہ سہ آتشہ ہو گیا ۔اس طرح مولانا داؤد غزنویؒ کی فکر اور مولانا ظفر علی خانؒ کے ’’زمیندار‘‘نے اس نوجوان خطیب کو امرتسر کی ایک چھوٹی سی مسجد کے حجرے سے اٹھا کر میدان ِ سیاست میں لا کھڑا کیا ۔تاریخ اس خطیب کو امیر شریعت سید عطا اﷲ شاہ بخاریؒ کے نام سے جانتی ہے ۔برصغیر پاک و ہند کی تاریخ شاہد ہے کہ امیر شریعت ؒ اس خطے کی ایسی عہد ساز شخصیت تھے ،جن کی دینی و سیاسی جدوجہد ،قربانیوں اور صلاحیتوں کا اک زمانہ معترف تھا ۔ان کی آتش نوائی نے پشاور سے کلکتہ تک اور سری نگر سے راس کماری تک ہر خاص و عام کو اپنا اسیر بنائے رکھا۔شورش ؒ کے بقول ،’’مولانا محمد علی مرحوم نے انہیں ساحر پنجاب کہا ،مولانا ابوالکلام آزادؒنے شعلہ نوا ،اقبال ؒ نے فقیر بے گلیم اور انور شاہ ؒ نے ان کی بیعت کی ‘‘۔برصغیر کے عہد ساز اخبار نویس مولانا غلام رسول مہر ؔ،امیر شریعت ؒ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ،’’قریباً چالیس سال پیشتر کی بات ہے ،ترک موالات یا لاتعاون کی تحریک نے پاک و ہند کی بوقلموں وسعت کے چپے چپے میں وہ کیفیت پیدا کر رکھی تھی کہ طوفانی سمندر کی سطح کو بھی شاید ہی نصیب ہوئی ہو ۔ہر ملت و قوم کی آبادی کے مختلف طبقات جوش و خروش سے تحریک میں شامل ہو رہے تھے ۔میں اخبار نویسی کے میدان میں قدم رکھنے کی تیاریاں کر رہا تھا ۔اس وقت پہلی مرتبہ سید عطااﷲ شاہ بخاری کا نام سنا ۔لوگ ان کے بیان و خطابت کی سحر انگیزی اور زورو تاثیر کی ستائش ایسے انداز میں کرتے تھے کہ خیال ہوتا تھا کہ اس میں حقیقت کی جگہ افسانے کا رنگ غالب ہے ۔میں نے 1922ء میں اخبار نویسی شروع کی تو اکثر بڑے بڑے لیڈر اور کارکن قید ہو چکے تھے ۔ان میں خود شاہ صاحب بھی شامل تھے ۔سالکؔ مرحوم 1921ء کے اواخر میں قید ہوئے تھے ۔انہیں بھی میانوالی جیل بھیج دیا گیا تھا ۔وہ نومبر 1922ء میں رہا ہو کر آئے تو ان کے ساتھ اخوت و رفاقت کا وہ پیمان استوار ہوا جو عملاً زندگی بھر کا پیمان بن گیا ۔وہ اکثر اپنے رفیقانِ اسیری کے احوال و وقائع اور لطائف و ظرائف سناتے رہتے تھے ،مثلاً مولانا احمد سعید مرحوم ناظم جمعیت العلما ،صوفی اقبال احمد پانی پتی مرحوم ،مولانا سید محمد داؤد غزنوی ،مولانا لقا اﷲ عثمانی پانی پتی وغیرہ ۔ہم رفیقوں میں سے جس شخصیت کے ذکر پر مرحوم سالکؔ کے انداز میں محبت و والہیت کی خاص شان پیدا ہو جاتی تھی ،وہ سید عطا اﷲ شاہ بخاری تھے ۔اس طرح میرے دل میں شاہ صاحب کے متعلق محبت و عقیدت کے مخلصانہ جذبات پیدا ہوئے اور اس مشہور شعر کی حقیقت کا عملی تجربہ پہلی مرتبہ ہوا کہ :
نہ تنہا عشق از دیدار خیزد
بسا کیں دولت از گفتار خیزد
شاہ صاحب قید کی مدت پوری کرکے رہا ہوئے تو کئی سال تک سیاسی دائرے میں ہم نے اکٹھے کام کیا اور خاصا وقت یکجائی میں گزرتا رہا ۔مجھے وہ اپنے دور کے بہت بڑے انسان نظر آئے کیونکہ وہ بہت بڑے مسلمان تھے ۔اول و آخر ،ظاہر و باطن مسلمان تھے ،ان کے وجود کی مادیت و معنویت کا ذرہ ذرہ اسلامیت اور صرف اسلامیت سے سرشار تھا ۔ان کی تمام دوسری خصوصیتیں اسلامیت ہی کے پرتو تھیں،جن کی وجہ سے وہ عمر بھر ہر حلقے میں محبوب و ہر دلعزیز رہے ۔وہ میدان ِعمل میں مصروف ِ مجاہدات تھے تو لوگ ان کی زیارت کو باعثِ صد سعاد ت سمجھتے تھے ۔انہوں نے ہزاروں لاکھوں کے مجمعوں کو اپنے دلآویز خطبات سے سراپا عمل و حرکت بنا دیا ۔انہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ حریت و اسلامیت کے لئے جانبازانہ جہاد میں گزار دیا ۔عمر کا خاصا بڑا جزو قید و بند میں گزارا ۔جو صلاحیتیں قدرت نے انہیں عطا کی تھیں ،وہ سب بے دریغ اسی راہ میں صرف کردیں۔اپنی ذات کے لئے کچھ بھی نہ کیا ۔عمر بھر فقر ان کے لئے سرمایہ فخر رہا ۔فقر ہی ان کی سب سے زیادہ قیمتی خاندانی میراث تھا اور آج بھی ان کے فقر کا طرہ آسمان بوس ہے ۔شاہ صاحب کی تمام عمر اس قاہر حکومت سے لڑنے میں بسر ہوئی جس نے ہماری ہر مادی اور معنوی ثروت غصب کرکے اپنی رگوں کے لئے زندگی کا خون مہیا کیا تھا ۔پھر ان کا پورا جہاد صرف آزادی کے لئے نہیں تھا بلکہ اسلامیت و آزادی کے لئے تھا۔وہ اپنے وطن کو بھی آزاد دیکھنا چاہتے تھے اور یہاں مسلمانوں کو بھی آزاد تر ،خوددار تر ،خوشحال تراور مخلص تر مسلمان دیکھنے کے آرزو مند تھے ۔اپنی عمر انہی مقاصد کے لئے ایسی مصیبتوں اور دلگیریوں میں گزاری جن کا معمولی سا تصور بھی بڑے بڑے مدعیانِ ہمت و جرات کو رعشہ براندام کر دینے کے لئے کافی ہے ،مگر کیا کسی خدمت کے لئے کوئی صلہ طلب کیا ؟۔۔۔طلب کرنا تو رہا ایک طرف ،کبھی کسی خدمت کا بھولے سے ذکر بھی نہیں کیا ۔خوب سوچو ،خوب غور کرو،پھر بتاؤ کہ ہمارے وطن عزیز میں آج ایسی بلند پایہ شخصیتیں کتنی ہیں؟‘‘(انہی سے رنگِ گلستاں از مولانا غلام رسول مہرؔ ۔ص 480تا 484)
امیر شریعتؒ کا سیاسی سفر :
یہ ایک بیّن حقیقت ہے کہ میدانِ سیاست میں نام اور جگہ بناتے عمر بیت جاتی ہے لیکن امیر شریعت ؒ پر قدرت کچھ اس طرح مہربان تھی کہ تحریک خلافت ،تحریک عدم تعاون اور سانحہ جلیانوالہ باغ جیسے ہنگام پرور حالات میں انہوں نے کارزارِ سیاست میں قدم رکھتے ہی مولانا محمد علی جوہر ؒ ،مولانا آزادؒ اور حضرت مدنیؒ سے پنڈت موتی لال نہرو اور گاندھی جی تک برصغیر کی سیاسی قیادت کا اعتماد حاصل کر لیا جو کہ اس دور میں بلاشبہ غیر معمولی بات تھی ۔ دسمبر 1919ء میں گول باغ امرتسر میں مولانا شوکت علی ؒ کی زیر صدارت ہونے والی خلافت کانفرنس میں امیر شریعت ؒ نے اپنی زندگی کی پہلی سیاسی تقریر کی ۔مولانا محمد علی جوہر ؒ جیسے عبقری بھی سٹیج پر رونق افروز تھے ۔انہوں نے امیر شریعت ؒ کی تقریر پر نہ صرف داد دی بلکہ اپنے قافلے میں اس نئے کارکن کی شمولیت پر مسرت کا اظہار بھی فرمایا ۔اُن دنوں ہندوستان کے شہر شہر ،قریہ قریہ خلافت کمیٹیاں قائم ہو رہی تھیں لیکن لاہور شہر میں قائم کی گئی خلافت کمیٹی گورنر پنجاب سر مائیکل اوڈائر کے خوف سے اگلے ہی روز تحلیل کردی گئی ۔تحریک خلافت کی قیادت نے اسے اپنے لئے چیلنج خیال کرتے ہوئے لاہور میں خلافت کمیٹی کے قیام کی ذمہ داری امیر شریعت ؒ کو سونپ دی ۔امیر شریعت ؒ نے تحریک خلافت کے مقامی رہنما حکیم عبد المجید عتیقی ؒ کے ہمرا ہ لاہور پہنچ کر باغ موچی دروازہ میں دوپہر کے وقت جب پہلی تقریر کی تو ان کے سامنے چند سو لوگ بیٹھے تھے ۔لیکن اسی روز بعد از نماز عشاء وہ جب دوبارہ تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ان کو سننے کے لئے بیس ہزار کا مجمع اکٹھا ہو چکا تھا ۔امیر شریعت ؒ صبح تین بجے تک بولتے رہے ۔انہوں نے فرمایا کہ کون ہے جو کہتا ہے کہ لاہور میں خلافت کمیٹی نہیں بن سکتی ۔میں کہتا ہوں کہ کس مائی کے لال کی ہمت ہے کہ اس کو توڑ کر دکھائے ۔چنانچہ اسی اجلاس میں انہوں نے سید حبیب کی صدار ت میں خلافت کمیٹی لاہور قائم کی ۔چندے کی اپیل کی تو گھروں سے خواتین تک نے اپنا زیور اتارکر بھیج دیا ۔بلاشبہ میدانِ سیاست میں امیر شریعت ؒ کی یہ پہلی بڑی کامیابی تھی ۔
امیر شریعت ؒ نے آغازِ سفر ہی میں آزادی وطن کی خاطر کچھ ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے جن کے باعث نہ صرف انگریز سرکار بلکہ اس عہد کی سیاسی قیادت بھی آپ کی طرف متوجہ ہو گئی ۔تحریک ترکِ موالات کے دوران میں آپ نے اپنے آبائی ضلع گجرات میں آزاد ہائی سکول کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا جس کا افتتاح مولانا ابو الکلام آزاد ؒ نے کیا ۔آپ کی محنت و کوشش سے صرف ایک ضلع گجرات میں 1300خلافت کمیٹیاں قائم ہوئیں ۔انگریز سرکار کے اشارے پرسوامی شردھانند اور پنڈت مدن موہن مالویہ جیسے متعصب ہندورہنماؤں نے شدھی و سنگھٹن جیسی فرقہ وارانہ تحریکیں شروع کیں جن کا اصل مقصد برصغیر میں ہندو مسلم فساد کو ہوا دینا تھا ۔دوسری طرف مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑانے کے لئے انگریز سرکار نے والی حجاز سلطان عبد العزیز بن سعود کے خلاف تحریک قبہ شروع کرادی ۔اس وقت امیر شریعت ؒ وہ واحد سیاسی رہنما تھے جو خم ٹھونک کر میدان میں نکلے اور انگریز سرکار کی ان ناپاک سازشوں کا پرد ہ چاک کیا ۔23ستمبر 1929ء کو ایک ہندو رکن مسٹر ہربلاس شاردا کا پیش کردہ بل منظور کرتے ہوئے مرکزی اسمبلی دہلی نے شاردا ایکٹ بنا دیا جس کے تحت اٹھارہ برس سے کم عمر لڑکی اور اکیس برس سے کم عمر لڑکے کی شادی قانوناً جرم قرار پائی ۔علمائے کرام نے اس نئے قانون کو مداخلت فی الدین قرار دیا ۔چنانچہ جمعیت علمائے ہند کے طے کردہ نظم کے تحت دوسرے علماکے ساتھ امیر شریعت ؒ بھی اس قانو ن کے خلاف متحرک ہو گئے۔انہیں پنجاب اور سرحد کی ذمہ داری سونپی گئی ،جہاں انہوں نے نہ صرف شب وروزتقاریر کرکے اس قانو ن کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیئے بلکہ ہزاروں مسلمان بچے بچیوں کے نکاح پڑھا کر اس قانون کو عملی طور پر بھی ناکام بنا دیا ۔امیر شریعتؒکو قدرت نے بے پناہ سیاسی بصیرت ودیعت فرمائی تھی ۔قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید کا فارسی محاورہ ان پر صادق آتا تھا ۔شورشؒ کے بقول ’’مجھے شاہ صاحب کی جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا،وہ ان کے ’’ پولیٹیکل اندازے ‘‘ہیں۔میں اپنی اس کمزوری کا اعترا ف کرتا ہوں کہ ان کے دماغ نے مجھے کبھی قائل نہیں کیا۔میں نے ان کی باتوں کو ہمیشہ دلائل سے تہی پایا ،لیکن جب حالات کا سفر منزل تک پہنچاتو عموماً وہی نتائج سامنے آگئے جو ان کی دلائل سے تہی باتوں میں تھے ۔معلوم ہوتا ہے ،گو یہ بھی ایک جذباتی چیز ہے اور دماغ اس کو تسلیم نہیں کرتا کہ وہ ہواؤں میں نتیجوں کو تاڑ لیتے اور حالات کی دھڑکنوں سے مستقبل کا پتا چلا لیتے ہیں ‘‘(قلم کے چراغ ۔ص 280)۔1936ء میں جمعیت علمائے ہند اور مسلم لیگ میں اتحاد قائم ہوا جس پر امیر شریعتؒ نے حضرت مدنی ؒ کے سامنے ان الفاظ میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ ’’حضرت! آپ مسلم لیگ سے اشتراک کئے ہوئے ہیں لیکن آنے والے کل کو آپ اپنے فیصلے پر خود نادم ہونگے ۔مسلم لیگ سے آپ کا اشتراکِ عمل سمجھ نہیں آیا ،جبکہ کل تک آپ خود ہمیں درس دیتے رہے ہیں کہ مسلم لیگ سرکار پرستوں کی ٹولی ہے ‘‘۔اس پر حضرت مدنیؒ نے خاصی ناراضی کا اظہار بھی فرمایا لیکن بعد ازاں جب مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں رجعت پسند عناصر کی شمولیت اور ایکٹ 1935ء کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کی ہڑتال کے موقع پر مسلم لیگ کی عہدشکنی سامنے آئی تو جمعیت علمائے ہند نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی ۔اس طرح مسلم لیگ کے سلسلے میں امیر شریعتؒ کے تحفظات درست ثابت ہوئے ۔
امیر شریعت ؒنے کارزارِ سیاست میں قدم رکھنے کے بعد اپنی زندگی کے جو کلیدی اہداف مقرر کئے ،ان کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا غلام رسول مہرؔ لکھتے ہیں کہ ،’’سید عطا اﷲ شاہ بخاری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ راہِ حق میں ایثار و فدویت کا وہ ایک نادر پیکر تھے ۔ان کی ہوشمندانہ زندگی کا ایک ایک لمحہ جہاد فی سبیل اﷲ میں بسر ہوا ۔میرے علم کے مطابق ان کی زندگی کے دو اہم مقصد تھے ۔اول یہ کہ ان کا وطن اجنبی تسلط کی ہر آلائش سے بالکل پاک ہو جاتا اور سامراج کا وجود مٹ جاتا ۔وہ سامراج کے دشمن تھے مگر برطانوی سامراج کی مخالفت خصوصیت سے ان کی زندگی کا نصب العین بنی رہی ،کیونکہ برطانیہ ہی پاک و ہند پر قابض تھا اور برطانیہ ہی کے قبضے میں اسلامی دنیا کے وسیع ترین اور بہترین خطے تھے ۔دوسرا اہم مقصد یہ تھا کہ مسلمان دنیا میں بالعموم اور پاک و ہند میں بالخصوص آزاد تر ،خوددارتر اور خوشحال تر زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جائیں اور عقیدہ و عمل کے لحاظ سے سچے مسلمان بن جائیں۔تفصیلات پر گفتگو کرتے ہوئے آپ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں معاملے میں ان کی رائے صحیح نہ تھی اور فلاں معاملے میں ان سے اندازے کی غلطی ہو گئی مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ جن مقصدوں کے لئے انہوں نے اپنی زندگی وقف کئے رکھی ،ان کی سعی و کوششِ جہاد ،ایثا ر یا فداکاری میں کبھی تامل کیا یا کبھی یہ سوچا کہ قدم آگے بڑھایا تو انہیں قید و بند سے سابقہ پڑے گا اور اہل و عیال کے گزارے کی کوئی صورت نہ رہے گی ۔ان مقصدوں کے لئے لڑنا ان کے نزدیک اسلامی زندگی کا ایک گراں بہا فرض تھا اور فرض اس لئے ہوتا ہے کہ اسے بے چون و چرا خوشدلی سے ادا کیا جائے ۔اس لئے نہیں ہوتا کہ اسے پورا کرنے کے لئے قدم اٹھانے سے پیشتر ذاتی رنج و راحت کا موازنہ کر لیا جائے ۔چنانچہ اسلامیت و آزادی کے ہر معاملے میں انہوں نے اولیت و سبقت کا شرف برابر قائم رکھا ۔پھر یہ معاملہ دو چار دن ،دو چار مہینے یا دو چار برس کا نہ تھا ،حکومتِ برطانیہ اٹل معلوم ہوتی تھی ۔سید عطااﷲ شاہ کا عنفوانِ شباب تھا جب انہوں نے اس میدان میں قدم رکھا ،اور وہ اسی میدان میں میرے سامنے بوڑھے ہو گئے ۔‘‘(انہی سے رنگِ گلستاں از مولانا غلام رسول مہر ؔ۔ص 490-491)
امیر شریعت کا اعزاز:
1929ء کا اواخر اور 1930ء کا اوائل امیر شریعت ؒ کے لئے دو بڑے اعزازات کا سندیسہ لایا ۔1929ء میں نہرو رپورٹ کی ناکامی کے بعد گاندھی جی اور کانگرس کے طرز سیاست کو مسلمانوں سے ناانصافی قرار دیتے ہوئے کچھ مسلمان رہنماؤں نے اپنی الگ سیاسی جماعت قائم کرنے کا فیصلہ کیا ۔چنانچہ دسمبر 1929ء میں لاہور میں مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی تجویز پر چوہدری افضل حق ؒ کی صدارت میں ایک اجلاس ہوا جس میں امیر شریعتؒ کے علاوہ مولانا ظفر علی خانؒ،مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ،شیخ حسام الدینؒ،مولانا مظہر علی اظہرؒ اور کچھ دیگر مسلمان رہنما شریک ہو ئے اور مجلس احرار کی بنیاد رکھی جس کا پہلا صدر امیر شریعت ؒ کو منتخب کیا گیا۔چونکہ ہندوستان میں ایک طرف سیاسی ابتری کے باعث امن و امان کی غیر یقینی صورتحال پیدا ہو چکی تھی اور دوسری طرف تحریک شاتم رسول کی وجہ سے مسلمان شدید غم و غصے میں مبتلا تھے ۔اس موقع پر مارچ 1930ء میں انجمن خدام الدین کا لاہور میں سالانہ اجلاس ہوا جس کی صدارت دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مولانا انور شاہ کاشمیریؒ نے فرمائی ۔علما ء کے اس تاریخی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا انور شاہ کاشمیریؒ نے فرمایا کہ ،’’دین کی قدریں بگڑ رہی ہیں ۔کفر چاروں طرف سے یلغار کرچکا ہے ۔اس وقت مسلمانوں کو اپنے لئے ایک امیر کا انتخاب کرنا چاہئے ۔اس کے لئے میں سید عطااﷲ شاہ بخاری کو منتخب کرتا ہوں ۔وہ نیک بھی ہیں اور بہادر بھی ۔اس وقت تک انہوں نے فتنہ شاتم رسول اور شاردا ایکٹ کے سلسلے میں جس جرات اور دلیری سے دین کی خدمات انجام دی ہیں ،آئندہ بھی ان سے ایسی ہی توقع ہے ‘‘۔یہ کہہ کر بیعت کے لئے مولانا انور شاہ کاشمیریؒ نے دونوں ہاتھ امیر شریعتؒ کی طرف بڑھائے تو انہوں نے زاروقطار روتے ہوئے یہ کہہ کر اپنے ہاتھ مولانا انور شا ہ کاشمیریؒ کے ہاتھوں میں دے دیئے کہ ’’آپ یہ نہ سمجھیں کہ حضرت نے میرے ہاتھ پر بیعت کی بلکہ حضرت نے مجھے اپنی غلامی میں قبول فرما لیا ہے ‘‘۔اس موقع پر مولانا ظفر علی خان ؒ ،مولانا احمد علی لاہور یؒ اور مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ سمیت پانچ صد علما ء نے امیر شریعت ؒ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔مجلس احرار کی صدارت اور امیر شریعت کا خطاب اکابر کی طرف سے امیر شریعت ؒ کی قائدانہ صلاحیتوں اوردینی و سیاسی خدمات کا بلاشبہ واضح اعتراف تھا ۔
ختم نبوت زندہ باد :
ختم نبوت کے قزاقوں کا تعاقب امیر شریعت ؒ کی زندگی کی اولین ترجیح تھی جس پر وہ عمر بھر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہ ہوئے ۔وہ تحفظ ختم نبوت کی خدمت کو اپنے لئے توشہ آخرت خیال کرتے تھے ۔سیاسی میدان میں مصروفِ عمل ہونے کے باوجود گستاخانِ رسالت کے تعاقب کے لئے وہ ہمہ وقت تیار رہتے تھے ۔وہ دجال ِ قادیان ہو ،تحریک شاتم رسول ہو یا فتنہ راجپال ،امیر شریعت ؒ کی شمشیر گفتار سارقینِ ختم نبوت پر برق بن کر گرتی تھی۔اس سلسلے میں وہ حدِ سو د وزیاں سے بالا ہو کر خو د کو ہر قربانی کے لئے ہر وقت تیاررکھتے تھے ۔1934ء میں قادیان میں ہونے والی تاریخی احرار تبلیغ کانفرنس میں تقریر کرنے کی پاداش میں امیر شریعتؒ کے خلاف ہونے والے مقدمے کی سماعت ابھی گورداسپور کی ماتحت عدالت میں جاری تھی کہ انہوں نے 24اپریل 1935ء کو مسجد خیر الدین امرتسر میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’قادیان کانفرنس کے خطبے کی بنا ء پر جس دفعہ 153کے تحت مجھے گرفتار کیا گیا ہے ،اس کی سزا زیادہ سے زیادہ دو سا ل ہے ۔میرا جرم یہ ہے کہ میں محمد رسول اﷲ ﷺ کا خادم ہوں۔اس جرم میں یہ سزا بالکل کم ہے ۔میں خاتم الانبیاﷺ کے ناموس پر ایسی ہزاروں جانیں قربان کرنے کو تیار ہوں۔مجھے شیروں اور چیتوں سے ٹکڑے ٹکڑے کرا دیا جائے اور پھر کہا جائے کہ تمہیں بجرم عشق ِ محمد ﷺ تکلیف دی جا رہی ہے تو میں خندہ پیشانی سے اس سزا کو قبول کروں گا ۔میرا آٹھ سالہ بچہ عطا المنعم اور اس جیسے ،خدا کی قسم ،ہزار بچے رسول اﷲ ﷺ کی حرمت پر سے نچھاور کردوں ‘‘۔(حیات امیرشریعت ۔ص 183)فتنہ قادیان کی سرکوبی کے سلسلے میں وہ کسی لاگ لپیٹ کے قائل نہ تھے ۔یہ فریضہ وہ ہر خوف و جھجھک سے بالاتر ہو کر انجام دیتے تھے ۔ 1942ء کے تاریخی مقدمہ بغاوت کی لاہور ہائی کورٹ میں سماعت جاری تھی ۔کچھ ہی دیر تک جج صاحبان فیصلہ سنانے والے تھے ۔امیرشریعت ؒ کو سزائے موت بھی ہو سکتی تھی اور کالے پانی بھی بھیجا جا سکتا تھا ۔ایسے نازک موقع پر جب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سر ڈگلس ینگ نے براہ راست سوال کیا کہ کیا آپ نے اپنی تقریر میں مرزا غلام احمد کو کافر کہا تھا ؟ ۔۔۔تو امیر شریعتؒ نے لمحہ بھر کی تاخیر کئے بغیر جواب دیا کہ ’’جناب ! میں نے ہزاروں مرتبہ مرزا غلام احمد کو کافر کہا ،کہتا ہوں اور کہتا رہوں گا ۔یہ میرا مذہب ہے ۔‘‘(حیات امیر شریعت ۔ص 263)تحفظ ختم نبوت کی خاطر قربانی کے جذبے کا یہ عالم تھا کہ 1953ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران جب امیر شریعت ؒ سکھر جیل میں قید تھے تو انہی ایام میں ایک شب پولیس نے ملتان میں ان کے گھر پر چھاپہ مارا ۔گھر میں صرف ان کی اہلیہ اور صاحبزادی تھیں۔اس موقع پر ایک پولیس افسر نے ماں بیٹی سے خاصی بدتمیزی بھی کی۔رہائی کے بعد جب امیرشریعت ؒ گھر پہنچے تو ایک روز ان کے بڑے صاحبزادے سید ابوذر بخاری ؒ نے پولیس کی اس بدتمیزی پر غصے کا اظہار کیا تو انہوں نے فرمایا،’’میاں صاحبزادے! کیا تمہیں صرف اس بات پر غصہ ہے کہ پولیس نے تمہاری ماں اور بہن کوگالیاں دیں۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر پولیس والے ان دونوں ماں بیٹی کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے گلی میں لے جاتے تو شاید تحفظ ختم نبوت کا کچھ تھوڑا سا حق ادا ہو جاتا ‘‘۔(بحوالہ سیّدی وابی از بنتِ امیر شریعت سیدہ ام کفیل بخاری ؒ۔ص254)امیر شریعت ؒ صرف اپنی ذات کی حد تک ہی تحفظ ختم نبوت کے لئے سر گرم ِ عمل نہیں رہے بلکہ انہوں نے بلا مبالغہ لاکھوں دلوں میں عشق رسول کی شمع روشن کی اور اپنے نانا کی عفت و ناموس کے تحفظ کا جذبہ بیدار کیا ۔شورش ؔ کے بقول ،’’راجپال کا فتنہ بھی اسی زمانے میں جاگا ۔بخاری کی شمشیر گفتار جو ہمیشہ نیام سے نا آشنا رہی ہے ۔ذوالفقار کی طرح بے خوف ہو گئی ۔پنجاب کے طول و عرض میں کہرام مچ گیا ۔جب بخاری نے کہا کہ ’’مسلمانو! میرے چہرے کی طرف کیا دیکھتے ہو ۔وہ دیکھو تمہارے دروازے پر آج میری ماں حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہؓ فریاد بلب کھڑی ہیں کہ میرے شوہر اور تاجدار کائنات کی عزت کے محافظ کس کنج غفلت میں سو گئے ہیں‘‘۔تو وہ دل بھی جنہیں معصیتوں نے چاٹ لیا تھا ،حمیت کا آتشکدہ بن گئے ۔میکدوں میں آگ لگ گئی ،حجروں میں شعلے بھڑکے ،بادہ خواروں اور مصلّٰے بدوشوں میں سبقت لے جانے کے سوال پر ٹھن گئی ‘‘(بحوالہ قلم کے چراغ۔ص283)۔تاریخی حقائق کے مطابق برصغیر میں شروع ہونے والی تحریک شاتم رسول سراسر مرزا غلام قادیانی اور اس کے چیلوں کی شرارت کا نتیجہ تھی ۔’’ستیارتھ پرکاش ‘‘نامی کتاب کے مصنف پنڈت دیانند سرسوتی کی موت کے بعد مرزا غلام قادیانی نے 1884ء میں شائع ہونے والی ’’براہین احمدیہ ‘‘کی چوتھی جلد میں آنجہانی پنڈت کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا جس کے جواب میں اگلے ہی سال ’’ستیارتھ پرکاش ‘‘کے دوسرے ایڈیشن میں دو نئے ابواب شامل کر ذاتِ رسالت ِ مآب پر براہِ راست رکیک حملے کئے گئے ۔اسی اثنا میں قاسم علی مرزائی نے پنڈت دیانند کے خلاف ’’انیسویں صدی کا مہارشی دیانند ‘‘لکھی جس کے جواب میں ڈی اے وی کالج لاہور کے پروفیسر چمپا وتی کی وہ رسوائے زمانہ کتاب منظر پر آئی جس کا پبلشر راجپا ل تھا ۔تحریک شاتم رسول نے ملک کی فضا مسموم کردی ۔مسلمانوں کے دل بُری طرح زخمی ہوئے ۔دوسری طرف انگریز سرکار کا قانون بھی گستاخانِ رسالت کی پشت پناہی کرنے لگا ۔ملک میں جہاں کہیں کسی شاتم رسول کے خلاف کوئی مضطرب مسلمان ردعمل ظاہر کرتا تو انگریزی قانون اس کے خلاف حرکت میں آجاتا ۔اس موقع پر بھی امیر شریعت ؒ آگے بڑھے اور گستاخانِ رسالت کی سرکوبی اور توہین رسالت کا انتقام لینے پر مسلمانوں کو آماد ہ کرنے کے لئے پنجاب کا دورہ شروع کیا اور دہلی ،لدھیانہ ،امرتسر اور لاہور کے اضلاع میں مسلمانوں کو ایک ہی پیغام دیا کہ ’’عزیز نوجوانو! تمہارے دامن کے سارے داغ صاف ہونے کا وقت آ پہنچا ہے ۔گنبد خضر اکے مکین تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں۔ان کی آبرو خطرے میں ہے ۔ان کی عزت پر کتے بھونک رہے ہیں ۔اگر قیامت کے دن محمد ﷺ کی شفاعت کے طالب ہو تو پھر نبی کی توہین کرنے والی زبان نہ رہے یا سننے والے کان نہ رہیں‘‘(حیات امیر شریعت ۔ص 115)۔امیر شریعت ؒ کی اس تحریک سے متاثر ہو کر ہی غازی علم الدین ؒنے 6اپریل 1929ء کو لاہور میں راجپال کو قتل کیا جس کے بعد گستاخیوں کا یہ سلسلہ تھم گیا ۔
تحفظ ختم نبوت کے لئے امیر شریعت ؒ صرف تقاریر ہی نہیں کرتے تھے بلکہ جہاں کہیں فتنہ قادیان کے خلاف عملی میدان میں نکلنے کا موقع آتا تو وہاں بھی وہ سب سے آگے نظر آتے ۔سر ظفر اﷲ خاں جب وائسرے ہند کی ایگزیکٹوکونسل کے رکن منتخب ہو ئے تو 1935ء میں مجلس احرار کے ایک وفد نے دہلی میں وائسرے ہند سے ملاقات کے دوران میں اس بابت اپنا احتجاج ریکا رڈ کرایا تو وائسرئے ہند نے جواباً کہا کہ ’’سر ظفر اﷲ خان مسلمانوں کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتا ہے‘‘ چنانچہ 1936ء کے انتخابات میں امیر شریعتؒ اور ان کی جماعت نے سرظفر اﷲ کی ڈسکہ کی آبائی نشست پرانہیں ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کر لیا جہاں اس بار ان کے بھائی چوہدر ی اسد اﷲ خان ایڈووکیٹ الیکشن لڑ رہے تھے ۔چونکہ سر ظفر اﷲ کے گھرانے کو علاقے کی جاٹ برادری کی حمایت اور انگریز سرکار کی پشت پناہی بھی حاصل تھی ،اس لئے علاقے کا کوئی بھی سرکردہ شخص ان کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا ۔امیر شریعتؒ نے اپنی تمام تر توجہ اس حلقے پر مرکوز کرتے ہوئے علاقے کے ایک معزز ،بارسوخ اور معاشی طور پر مضبوط جاٹ چوہدری غلام رسول ستراہ کو چوہدری اسد اﷲ کے مقابلے میں مجلس احرار کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے لئے تیار کیا ۔الیکشن سے ایک ماہ قبل امیر شریعت ؒ نے ڈسکہ میں مجلس احرار کے امیدوار کی انتخابی مہم کا آغاز کیا اور گھر گھر جا کر جاٹ برادری کو ناموس پیغمبر ﷺ کی خاطر مجلس احرار کے امیدوار کو ووٹ دینے کی اپیل کی ۔چنانچہ امیر شریعت ؒ کی محنت رائیگاں نہ گئی اور چوہدری اسد اﷲ کے مقابلے میں چوہدری غلام رسول ہزاروں ووٹوں سے جیت گئے ۔اس انتخابی شکست کے ساتھ ہی ڈسکہ میں سر ظفر اﷲ فیملی کا رعب ،دبدبہ اور وقار بھی خاک میں مل گیا ۔
قیام پاکستان کے بعد امیر شریعت ؒ نے اپنی تمام تر توانائیاں تحفظ ختم نبوت اور فتنہ قادیان کی سرکوبی کے لئے وقف کر دیں۔ان کی ایمانی غیرت حضورﷺ کی ختم المرسلینی پر ایک لمحے کے لئے بھی آنچ گوارا نہیں کر سکتی تھی ۔ستمبر 1951ء میں کراچی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ،’’تصویر کا ایک رخ تو یہ ہے کہ مرزا غلام قادیانی میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے ۔اس کے نقوش میں توازن نہ تھا ۔قدوقامت میں تناسب نہ تھا۔اخلاق کا جنازہ تھا ۔کریکٹر کی موت تھی ۔سچ کبھی نہ بولتا تھا ۔معاملات کا درست نہ تھا ۔بات کا پکا نہ تھا ۔بزدل اور ٹوڈی تھا۔تقریر و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے ۔لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی کمزوری بھی نہ ہوتی ۔وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا ۔قویٰ میں تناسب ہوتا ۔چھاتی 45انچ کی ،کمر ایسی کہ سی آئی ڈی کو بھی پتا نہ چلتا ،بہادر بھی ہوتا ،مردِ میدان ہوتا ۔کریکٹر کا آفتاب اور خاندان کا مہتا ب ہوتا ۔شاعر ہوتا ،فردوسیِ وقت ہوتا ،ابوالفضل اس کا پانی بھرتا ،خیام اس کی چاکری کرتا ،غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا ،انگریزی کا شیکسپئر ہوتا اور اردو کا ابوالکلام ہوتا ،پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا اسے نبی مان لیتے ؟۔میں تو کہتا ہوں کہ اگر سیدنا علیؓ دعویٰ کرتے کہ جسے تلوار حق نے دی اور بیٹی نبی نے دی ۔سیدنا ابوبکر صدیقؓ، سیدنا فاروق اعظمؓ اور سیدنا عثمان غنیؓ بھی دعویٰ کرتے تو کیا بخاری انہیں نبی مان لیتا ؟۔نہیں اور ہر گز نہیں۔۔۔میاںﷺ کے بعد کائنات میں کوئی انسان ایسا نہیں جو تختِ نبوت پر سج سکے اور تاجِ امامت و رسالت جس کے سر پر ناز کرئے ‘‘۔امیرشریعتؒ صرف گفتار ہی نہیں بلکہ کردار کے بھی غازی تھے ۔انہوں نے صرف تقریریں کرکے لوگوں کو تحفظ ختم نبوت کے لئے نہیں ابھارا بلکہ اس راہ میں خود قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے علاوہ دوسروں کی قربانیوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ۔اس بابت انہیں کوئی ابہام نہیں تھا بلکہ پوری طرح شرحِ صدر تھا کہ اس راہ میں چبھنے والا کانٹا بھی رائیگاں نہیں جائے گا ۔تحریک ختم نبوت 1953ء کے موقع پر مختلف شہروں میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ،’’جہاں کہیں کوئی شخص اس تحریک میں شہید ہوا ہے ،اِس جہان میں اور آخرت میں اس کا ذمہ دار میں ہوں۔اے اﷲ! میں ذمہ دار ہوں۔میں نے لوگوں کو ابھارا ہے کہ وہ ناموسِ رسالت پر جانیں قربان کردیں‘‘۔(سیّدی و ابی ۔ص92)
احرارتبلیغ کانفرنس قادیان :
جنگ عظیم اول کے دوران میں مرزابشیر الدین محمود نے اپنے داد ا مرزا غلا م مرتضیٰ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے نا صرف انگریز سرکار کے لئے فوجی بھرتی کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کے حکم پر قادیانی مبلغین جنگ زدہ علاقوں میں برطانیہ کے جاسوسی کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ،جس کے نتیجے میں قادیانی جماعت پر فرنگی سامراج کی نوازشات مزید بڑھ گئیں۔مرزا محمود نے سرکار کی طرف سے ملنے والی اس چھوٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیان میں ریاست کے اندر ریاست قائم کردی جہاں مرزا محمود کی اجازت کے بغیر پرندہ پَر نہیں مار سکتا تھا ۔امیر شریعت ؒ اور ان کے ساتھیوں کا یہ خیال تھا کہ مجلس احرار اپنے مرکزی شعبہ تبلیغ کو مضبوط کرنے کے علاوہ قادیان میں اراضی خرید کروہاں اپنا ہائی سکول ،تبلیغی کالج ،مسجد اور مہمان خانہ تعمیر کرئے ۔جس روز یہ کام ہو گیا ،اس روز مرزائیت کی ماں مر جائے گی ۔اکتوبر 1934ء میں قادیان میں ہونے والی احرار تبلیغ کانفرنس اسی سلسلے کی کڑی تھی ۔،کانفرنس میں رد مرزائیت کے موضوع پر امیر شریعت ؒ کا کلیدی خطاب اور اس کی پاداش میں ان کے خلاف مقدمے کا اندراج درحقیقت فتنہ قادیان پر ایسا تازیانہ ثابت ہوا جس نے پہلی بار قادیانیوں کے مکروہ چہرے سے نقاب نوچ کر دنیا کو دکھایا کہ قادیان میں مرزا قادیانی کی ذریت نے جعلی نبوت کے پردے میں دجل و فریب ،تشد د اور دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ قادیانیوں کے چہرے سے نقاب نوچنے والا کوئی مولوی نہیں بلکہ سیشن جج گورداسپور مسٹر جی ڈی کھوسلہ تھے ۔احرار تبلیغ کانفرنس میں تقریر کرنے پر امیر شریعتؒ کو 153الف کے تحت 7دسمبر 1934ء کو مسوری سے گرفتار کیا گیا اور اگلے روز ضمانت پر رہائی ملی ۔یہ مقدمہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور دیوان سکھا نند کی عدالت میں چلا جنہوں نے 20اپریل 1935ء کو فیصلہ دیتے ہوئے قادیانیوں اور مسلمانوں میں نفرت پیدا کرنے کے الزام میں امیر شریعت ؒ کو چھ ماہ قید کی سزا سنادی ۔مجلس احرار نے سزا کے خلاف سیشن کورٹ گورداسپور میں اپیل دائر کردی ۔سیشن جج مسٹر جی ڈی کھوسلہ نے اپنے فیصلے میں قادیان میں مرزائی رائل فیملی کی بدمعاشیوں ،جبرو تشدد ،قتل و غارت اور مخالفین کے گھروں کو آگ لگوانے تک کے واقعات کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے ماتحت عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے امیر شریعتؒ کو عدالت برخواست ہونے کے بعد رہا کرنے کا حکم صادر کردیا ۔سیشن جج گورداسپور کا یہ فیصلہ درحقیقت مرزائیت کے چہرے پر ایک زوردار طمانچہ تھا ۔مفکر احرا ر چوہدری افضل حق ؒ کے بقول ،’’اگرچہ ابتدائی عدالت نے سید عطا اﷲ شاہ صاحب کو چھ ماہ کی سزا دے دی ،جس پر مرزائیوں کے گھروں میں گھی کے چراغ جلائے گئے ۔لیکن سیشن جج مسٹر کھوسلہ نے مرزائیوں کی خوشیوں کو اپنے فیصلہ اپیل میں ماتم سے بدل دیا ۔اس نے وہ تاریخی فیصلہ لکھا جس سے اسے شہرتِ دوام حاصل ہو گئی ۔اس فیصلہ کا ہر حرف مرزائیت کی رگِ جان کے لئے نشتر ہے ۔اس فیصلہ میں مسٹر کھوسلہ نے چند سطروں میں مرزائیت کی ساری اخلاقی تاریخ لکھ دی ۔اس کے فیصلے کا ہر لفظ دریائے معانی ہے ۔اس کی ہر سطر مرزائیت کی سیاہ کاریوں اور ریاکاریوں کی پوری تفسیر ہے ۔مسٹر کھوسلہ کے قلم کی سیاہی مرزائیت کے لئے قدرت کا انتقام بن کر کاغذ پر پھیلی اور مرزائیت کے چہرے پر نہ مٹنے والے داغ چھوڑ گئی ۔ہر چند انہوں نے ہائی کورٹ میں سر سپرو جیسے مقنن کی معرفت چارہ جوئی کی تاکہ مسٹر کھوسلہ کے فیصلے کا داغ دھویا جائے مگر انہیں اس میں کامیابی نہ ہوئی ۔مرزائی آج تک یہی سمجھتے تھے کہ قدرت ظلم ناروا کا انتقام لینے سے قاصر ہے مگر اس فیصلہ نے ثابت کر دیا کہ خدا کے حضور میں دیر ہے اندھیر نہیں۔اس فیصلہ کو تاریخ احرار میں خاص اہمیت حاصل رہے گی ۔دراصل یہ فیصلہ مرزائیت کی موت ثابت ہوا ۔جس غیر جانبدار نے اس کو پڑھا ،وہ مرزائیت کے نقش و نگار کو دیکھ کر اس سے نفرت کرنے لگا ‘‘۔(ہم نے قادیان میں کیا دیکھا ؟(جلد اول ) از محمد طاہر عبد الرزاق ۔ص 120-121)
فرنگی حاکم نامنظور:
آغا شورش کاشمیری ؒ کے بقول ،’’امیر شریعتؒ نے تمام زندگی میں صرف دو گروہوں سے دشمنی کی ہے ،ایک انگریز ،دوسرے قادیانی ۔اول الذکر کو وہ ابلیس کا جانشین خیال کرتے اور ثانی الذکر کو اول الذکر کا خود کاشتہ پودا ۔(قلم کے چراغ ۔ص 278)یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ برصغیر میں فرنگی سامراج کے قبضے کو مضبوط کرنے کے لئے جہاں مقامی زمینداروں ،جاگیر داروں ،ذیل داروں اور نمبرداروں نے اپنی غیرت گورے حاکم کے پاس گروی رکھ دی تھی ،اسی طرح کئی مذہبی گدّیوں کے سجادہ نشین بھی انگریز سرکار کے قدموں کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ خیال کرتے تھے ۔سانحہ جلیانوالہ باغ کے اصل ذمہ دار گورنر پنجاب سر مائیکل اوڈائر کی اپنے وطن واپسی کے موقع پر پنجاب کے سجادہ نشینوں کی طرف سے اس کی خدمت میں پیش کیا گیا سپاسنامہ اس کا واضح ثبوت ہے ۔اس سپاسنامے کا ایک ایک لفظ بے حمیتی ،خوشامد اور کاسہ لیسی کا مظہر ہے جس میں سلطنت برطانیہ کو ہندوستان کے لئے ابرِ رحمت قرار دیا گیا ،پنجاب میں لگائے گئے مارشل لا ء کو ہندوستانی فتنہ پردازوں کی شرارت کا نتیجہ کہا گیا،شاہی مسجد لاہور کو انگریز سرکار کے خلاف سیاسی امور کے لئے استعمال کرنے پر اہالیان ِ لاہور کو کوسا گیا ،انگریز سرکار کے خلاف ڈٹ جانے پر والی افغانستان امیر امان اﷲ کو ملاحیاں سنائی گئیں ،ترک مسلمانوں کے خلاف کف اُڑائی گئی اورمائیکل اوڈائر اور اس کی میم صاحب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے ۔اس کے ساتھ ہی ان قبر فروش سجادہ نشینوں نے ہندوستان میں فرنگی حاکم کے خلاف سیاسی جدوجہد کرنے والوں کو ملک کے کوتاہ اندیش دشمن کہتے ہوئے مائیکل اوڈائر کی خدمت میں یہ درخواست بھی پیش کی کہ ’’ہم حضور سے درخواست کرتے ہیں کہ جب حضور وطن کو تشریف لے جائیں تو اس نامور تاجدارِ ہندوستان کو یقین دلائیں کہ چاہے کیسا ہی انقلاب کیوں نہ ہو ،ہماری وفاداری میں سرِ مُو فرق نہ آیا ہے اور نہ آسکتا ہے۔اور ہمیں یقین ہے کہ ہم اور ہمارے پیروان اور مریدان فوجی وغیرہ جن پر سرکاری برطانیہ کے بے شمار احسانات ہیں،ہمیشہ سرکار کے حلقہ بگوش اور جانثار رہیں گے‘‘(حیاتِ امیر شریعت ۔ص 92)۔
یہ سپاسنامہ جب امیر شریعتؒ کی نظر سے گزرا تو انہیں بے حد صدمہ پہنچا ۔چنانچہ انہوں نے ملتان کے باغ لہنگے خاں میں مسلسل تین روز تک پنجاب کے ان سجادہ نشینوں کے خلاف خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اے پیرانِ طریقت!یہ سپاسنامہ فرنگی کے حضور پیش کرکے آپ نے اپنے آباء و اجداد کی تعلیم ،ان کے اصول ،ان کی روحانی زندگی پر وہ کالک مل دی ہے کہ قیامت تک یہ داغ نہیں دھویا جا سکتا اور نہ یہ سیاہی مٹ سکتی ہے۔اگر میں ابنِ سعود کی حمایت کروں تو کافر اور تم ترکوں کے قتل پر دستخط کرو تو مومن ۔تم فتح بغداد پر چراغاں کرو تو مسلمان اور میں فرنگی سے آزادی کے لئے لڑوں تو مجرم ۔تمہارے تعویز ،تمہاری دعائیں کافر کی فتح کی آرزومند رہیں اور میں سلطنت برطانیہ کی بنیاد اکھاڑنے کے درپے رہا ۔تم نے انسانوں سے زیادہ کتے اور سوروں کی قدر کی اور گناہ کو ثواب کا درجہ دیا ۔تمہاری قبائیں خونِ مسلم سے داغدار ہیں۔اے دُم بریدہ سگانِ برطانیہ !صورِ اسرافیل کا انتظار کروکہ تمہاری فردِ جرم تمہارے سامنے لائی جائے اور تم اپنے نامہ اعمال کو ندامت کے آئینے میں دیکھ سکو‘‘(حیات امیر شریعت ۔ص95,96)۔واضح رہے کہ امیر شریعتؒ صرف فرنگی سامراج ہی نہیں بلکہ اس کے دیسی گماشتوں سے بھی شدید نفرت کرتے تھے ۔مائیکل اوڈائر کو سپاسنامہ پیش کرنے والوں میں امیر شریعت ؒ کے مرشد اول حضرت پیر مہرعلی شاہ ؒ کے صاحبزادے بابوجی غلام محی الدین بھی شامل تھے لیکن امیر شریعتؒ نے اس کی قطعاً پروا نہ کرتے ہوئے انگریز سرکار کے کاسہ لیس سجادہ نشینوں کو کھری کھری سنائیں۔
1930ء میں ستیہ گرہ تحریک کے دوران گاندھی جی کی گرفتاری کے بعد کانگرس نے فرنگی حاکم کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کیاتوپنجاب میں نہ صرف امیر شریعت ؒ کو سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعزازحاصل ہوا بلکہ آپ نے جمعیت علمائے ہند کو بھی اس تحریک کا حصہ بننے پر آمادہ کیا ۔آپ چھ ماہ تک سول نا فرمانی کی تحریک کی کامیابی کے لئے انٹیلی جنس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر امرتسر اور لدھیانہ سے امروہہ ،آگرہ ،بمبئی اور کلکتہ تک جلسوں سے خطاب کرتے رہے اور پولیس وارنٹ گرفتاری لئے آپ کے پیچھے پیچھے بھاگتی رہی ْ۔اسی دوران میں گھر پر آپ کی ڈیڑھ سالہ بیٹی سیدہ ام کلثوم انتقال کر گئی لیکن اس مرد قلندر کے پائے استقامت میں لغزش آئی نہ زبان پر حرف ِشکایت ۔ دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران میں فوجی بھرتی کے خلاف چلائی گئی مجلس احرار کی تحریک بھی انگریز سرکار کے خلاف نفرت کا واضح اظہار تھا ۔اس تحریک کے دوران میں امیر شریعت ؒ اور ان کے ساتھیوں نے پنجاب کے فوجی بھرتی والے اضلاع خصوصاً اٹک اور میانوالی میں دن رات تقریریں کرکے عوام میں شعور بیدار کرنے کی سعی کی جس کی پاداش میں انہیں مقدمہ بغاوت کا سامنا کرنا پڑا ۔برطانوی سامراج سے امیر شریعت ؒ کی نفرت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے 23مارچ 1939ء کو لاہور میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میں ان سوروں کا ریوڑ چرانے کو بھی تیار ہوں جو برٹش امپریلزم کی کھیتی کو ویران کرنا چاہیں ۔میں کچھ نہیں چاہتا ،ایک فقیر ہوں ،اپنے نانا کی سنت پر مرمٹنا چاہتا ہوں اور کچھ چاہتا ہوں تو صرف اس ملک سے انگریز کا انخلا ۔دو ہی خواہشیں ہیں کہ میری زندگی میں یہ ملک آزاد ہو جائے یا پھر میں تختہ دار پر لٹکا دیا جاؤں ۔میں ان علمائے حق کا پرچم لیے پھرتا ہوں جو 1857ء میں فرنگیوں کی تیغِ بے نیام کا شکار ہوئے تھے ۔ربِ ذوالجلال کی قسم مجھے اس کی کچھ پروا نہیں کہ لوگ میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔لوگوں نے پہلے ہی کب کسی سرفروش کے بارے میں راست بازی سے سوچا ہے ۔وہ شروع سے تماشائی ہیں اور تماشا دیکھنے کے عادی ۔میں اس سرزمین پر مجددِ الف ثانیؒ کا سپاہی ہوں،شاہ ولی اﷲ ؒ اور ان کے خاندان کا متبع ہوں،سید احمد شہیدؒ کی غیرت کا نام لیوا اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی جرات کا پانی دیوا ہوں،میں ان پانچ مقدمہ ہائے سازش کے پابہ زنجیر صلحائے امت کے لشکر کا ایک خدمت گزار ہوں جنہیں حق کی پاداش میں عمرقید اور موت کی سزائیں دی گئیں۔ہاں ہاں !میں انہی کی نشانی ہوں۔انہی کی صدائے بازگشت ہوں۔میری رگوں میں خون نہیں آگ دوڑتی ہے ۔میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ میں محمد قاسم نانوتویؒ کا علم لے کر نکلا ہوں۔میں نے شیخ الہند محمود حسن ؒ کے نقشِ قدم پر چلنے کی قسم کھا رکھی ہے ۔میں زندگی بھر اسی راہ پر چلتا رہا ہوں اور چلتا رہوں گا۔۔۔میرا اس کے سوا کوئی موقف نہیں۔میرا ایک ہی نصب العین ہے اور وہ برطانوی سامراج کی لاش کو کفنا نایا دفنانا‘‘۔(ہفت روزہ ’’چٹان‘‘لاہور ،سالنامہ جنوری 1962ء ) ۔
پسِ دیوارِ زنداں :
امیر شریعت ؒ کا یہ ایمان و عقیدہ تھا کہ جب حق کے لئے آواز بلند کی جائے تو پھر مصائب و تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تحریک تحفظ ختم نبوت اور تحریک آزادی ہند کے دوران راہ میں آنے والی ہر تکلیف اور مصیبت کو انہوں نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا ۔نظربندی اور گرفتار ی کبھی بھی ان کے حوصلے پست نہ کرسکی ۔ہتھکڑیاں اور جیلیں دیکھ کر کبھی بھی ان کی پیشانی عرق آلود نہیں ہوئی ۔وہ خود فرمایا کرتے تھے کہ فرنگی سامراج سے آزادی اور فتنہ قادیان کی سرکوبی کی جدوجہد میں میری آدھی زندگی ریل میں گزر گئی اور آدھی جیل میں۔ایک موقع پر اپنے صاحبزادے سید عطا المنعم بخاری کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ،’’اﷲ کے دین کے کام میں سختیاں اور امتحانات نہ آئیں،اور مار نہ پڑے ،یہ ہو نہیں سکتا ۔دین کا کام کرو گے تو مار بھی پڑے گی ۔اس کے لئے اپنے آپ کو ہر وقت تیار رکھو ۔‘‘(سیّدی و ابی۔ص 254)امیر شریعت کے دورِ اسارت کی بابت جانباز مرزاؒ نے ’’حیات امیر شریعت ‘‘میں جو تفصیل بیان کی ہے ،اس کے مطابق تحریک ترک موالات کے دوران قابض انگریز سرکار کے خلاف تقاریر کرنے پر حکومت نے امیر شریعت ؒ کو پہلی بار27مارچ 1921ء کو امرتسر سے دفعہ 124الف کے تحت گرفتا رکیا .۔8اپریل 1921ء کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر ایف اے کانر نے آپ کو اس مقدمے میں تین سال قید بامشقت کی سزا سنا دی جس میں تین ماہ کی قیدِ تنہائی بھی شامل تھی۔امیر شریعت ؒ کی عمر اس وقت تیس برس تھی اور یہ ان کی زندگی کی پہلی گرفتاری اور سزا تھی ۔شدھی تحریک کے پردے میں چھپی انگریز سرکار کی سازش کو بے نقاب کرنے پر حکومت نے دہلی کی ایک تقریر کو بنیاد بنا کر جنوری 1925ء میں امیر شریعت ؒ کو دفعہ 108کے تحت گرفتار کر لیا ۔اس کیس میں انہیں چھ ماہ قید بامشقت یا پانچ صد روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ۔چنانچہ ان کے چاہنے والوں نے جرمانہ ادا کردیا ۔تحریک شاتم رسول کے دوران متحرک ہونے پر ڈپٹی کمشنر لاہور مسٹر اوگلوی کے ایما پر 10جولائی 1927ء کو لاہور سے امیر شریعت ؒ کو گرفتار کرکے ان پر دفعہ 108کے تحت مقدمہ چلایا گیا جس کے نتیجے میں انہیں ایک سال قید ِ بامشقت کی سزا سنائی گئی ۔انگریز سرکار کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک کے دوران میں امیر شریعت ؒ پنجاب سے بنگال تک چھلاوہ بنے چھ ماہ تک پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے ۔ان کی تقاریر پر صرف پنجاب اور یوپی کے مختلف اضلاع سے 20وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے ۔بالآخر 30اگست 1930ء کو انہیں بنگال کے علاقے دیناج پور سے گرفتار کیا گیا ۔بنتِ امیر شریعت ؒ کے مطابق یہ گرفتاری کسی مسلمان مخبر کی مخبری کے نتیجے میں ہوئی تھی ۔اس مقدمے میں انہیں چھ ماہ قید بامشقت کی سزاہوئی ۔تحریک ِکشمیر کے دوران میں امیر شریعت ؒ کو 15اکتوبر 1931ء کو دہلی میں دفعہ 124الف کے تحت گرفتار کیا گیا ۔اس مقدمے میں انہیں ڈیڑھ سال قید بامشقت کی سزا دی گئی ۔1934ء میں احرار تبلیغ کانفرنس قادیان میں تقریر کرنے پر انہیں گرفتار کر کے گورداسپور کی مقامی ماتحت عدالت کی طرف سے چھ ماہ قید کی سزا دی گئی جسے بعد ازاں سیشن کورٹ گورداسپور نے کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کر دیا ۔دوسری جنگ عظیم کے دوران میں فوجی بھرتی کے خلاف تحریک چلانے پر سر سکندر حیات حکومت نے لالہ موسٰی کی ایک تقریر کو بنیاد بنا کر امیر شریعت ؒ کے خلاف دفعہ 121,302,153اور 124الف کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے انہیں 8 ستمبر 1939ء کو مظفر گڑھ سے گرفتار کر لیا گیا ۔یہ مقدمہ ،مقدمہ بغاوت کے نام سے مشہور ہوا جو دراصل سر سکندر حکومت کی سازش تھی ۔لیکن بعد ازاں مقدمے کے سرکاری گواہ لدھا رام نے عدالت میں بھانڈا پھوڑ دیا کہ وزیر اعظم پنجاب سر سکندر حیات کی طرف سے ایس پی گجرات کو ہدایت کی گئی کہ فوجی بھرتی کے خلاف متحرک مجلس احرار کے رہنما عطا اﷲ شاہ بخاری کو کسی مقدمے میں پھنسایا جائے ۔چنانچہ ایس پی گجرات نے اس سلسلے میں لدھا رام کی ڈیوٹی لگائی ۔لدھا رام نے لالہ موسٰی والی تقریر کے جو نوٹس لئے ،انہیں ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹنگ انسپکٹر گجرات کی رہائش پر جلا کر نئی جعلی ڈائری تیار کی گئی جس کی بنیاد پر امیر شریعت ؒ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بنایا گیا ۔پول کھل جانے پر پنجاب حکومت نے ایک طرف لدھا رام کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے اور دوسری طرف مقدمہ بغاوت کو اٹھا کر لاہور ہائی کورٹ لے گئی ۔ہائی کورٹ میں دوبارہ لدھا رام کی شہادت ہوئی جس کے بعد ہائی کورٹ نے5اپریل 1940ء کو امیر شریعتؒ کو باعزت بری کردیا ۔اس مقدمے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ انہیں راولپنڈی میں زیر سماعت ایک دوسرے مقدمے کے سلسلے میں گرفتار کرلیا گیا ۔یہاں بھی الزامات وہی پرانے تھے ،حکومت کے خلاف بغاوت ،ترغیبِ قتل وغیرہ ۔لیکن سیشن جج لاہور نے 7جون 1940ء کو اس مقدمے میں بھی امیر شریعت ؒ کو باعزت بری کرنے کا فیصلہ دے دیا ۔امیر شریعت ؒ کی آخری گرفتاری تحریک ختم نبوت 1953ء کے دوران ہوئی ۔27فروری 1953ء کو انہیں اور ان کے رفقا کو کراچی سے گرفتار کرکے پہلے کراچی جیل ، پھر سکھر اور لاہور جیل میں رکھا گیا جہاں لیگی حکمرانوں نے ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جس کا جیل مینول بھی اجازت نہیں دیتا ۔اس کے نتیجے میں امیر شریعت ؒ کی صحت بُری طرح متاثر ہوئی ۔بالآخر 18فروری 1954ء کو امیر شریعت ؒ اور ان کے رفقا کی رہائی عمل میں آئی ۔
سیاست کا آخری دور :
امیر شریعت ؒ کو قدرت نے وسعت قلبی کی دولت سے بھی مالا مال کیا اور وسعت فکرو نظر سے بھی نواز ا۔انگریز سے ٹکر ،قید و بند کی صعوبتیں اور بھر پور سیاسی جدوجہد کے بعد جب قیام پاکستان کے مسئلے پر ان کی رائے ہار گئی اور مسلمان قوم نے قائد اعظم ؒکے حق میں فیصلہ دے دیا تو امیر شریعت ؒ نے اس فیصلے کو کھلے دل سے قبول فرمایا ۔ان کی سیاسی جدوجہد کسی دنیوی منفعت کے لئے نہیں بلکہ اخلاص پر مبنی تھی،اسی لئے انہوں نے اپنی رائے کی شکست کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا ۔شورشؒ کے بقول ’’آج کل سیاست میں جھوٹ بولنا گویا قومی روزمرہ ہے لیکن شاہ جی کے بارے میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے زندگی بھر جھوٹ نہیں بولا ۔ان کے دماغ نے فیصلوں میں غلطی کی ہو گی ،آخر وہ انسان تھے ،۔لیکن ان کا دل ہمیشہ سچا رہا اور غالباً یہی سبب تھا کہ وہ کڑی سے کڑی افتاد میں بھی صحیح نکل آتے تھے‘‘(قلم کے چراغ۔ص 270)۔ البتہ قیام پاکستان کے معاً بعد منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے کے مناظر دیکھ کر شورش کاشمیریؒ نے قوم اور رہنمایان ِ قوم سے یہ شکوہ ضرور کیا کہ ،
ہم نے اُس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں
سرفروشوں کے لئے دارورسن قائم تھے
خان زادوں کے لئے مفت کی جاگیریں تھیں
بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں
خونِ احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں
از افق بہ افق خوف کا سناٹا تھا
رات کی قید میں خورشید کی تنویریں تھیں
جانشینانِ کلائیو تھے خداوندِ مجاز
سبز توحید کی برطانوی تفسیریں تھیں
حیف ! اب وقت کے غدار بھی رستم ٹھہرے
اور زنداں کے سزاوار فقط ہم ٹھہرے
آخری بات:
امیر شریعت ؒ نے بھر پور سیاسی و تحریکی زندگی گزاری ۔وہ عمر بھر برطانوی سامراج ،اس کے دیسی ٹاؤٹوں اور خودکاشتہ پودے قادیانی جماعت کے سینے پر مونگ دلتے رہے ۔تحریک آزادی ہند اور تحریک ختم نبوت میں ان کے تاریخی کردار کا تذکرہ آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے ۔انہوں نے اپنی سیاسی جدوجہد کو جزوی طور پر ان معنوں میں کامیابی سے ہمکنا ر ہوتے دیکھا کہ فرنگی سامراج ان کی آنکھوں کے سامنے برصغیر سے رخصت ہوا ۔تحریک ختم نبوت 1953ء کی صورت میں انہوں نے فتنہ قادیان کی بنیادوں میں ایسا بارود بھرا کہ جس کے نتیجے میں 1974ء میں قادیانیوں کو پاکستانی پارلیمان نے غیر مسلم قرار دیا ۔امیر شریعت ؒ کو اپنے سیاسی افکار اور جدوجہد پر کوئی ندامت تھی نہ پشیمانی ،جبکہ ختم نبوت پر اپنی تقاریر کو تو وہ وسیلہ نجات سمجھتے تھے ۔اگرچہ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے سیاست سے کنارہ کر لیا لیکن مجلسِ احرار کی سرخ قمیص کو مرتے دم تک حرزِ جاں بنائے رکھا کہ مجلسِ احرار ان کی پہلی اور آخری محبت تھی ۔1946ء میں لاہور میں جماعتی مجلس مشاورت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ،’’خواہ ساری دنیا مجھے چھوڑ جائے مگر میں مجلس احرار اسلام کا علم بلند رکھوں گا ۔میں شہر چھوڑ کر جنگل میں چلا جاؤں گا اور وہاں ایک کٹیا بنا کر اس پر سرخ پرچم لہرا کر سب کو دعوت دوں گا کہ یہ ہے مجلس احرار کا دفتر !جس کو آنا ہو یہاں میرے پاس آجائے ۔بقاء احرار مجھے اپنی جان سے بھی عزیز ہے ۔خواہ کچھ بھی ہو جائے ،یہ سرخ ہلالی پرچم لہراتا رہے گا :
جو عدوِ باغ ہو برباد ہو
چاہے گُل چیں ہو یا صیاد ہو
بالآخر 21اگست 1961ء کو تحریک آزادی ہند کا وہ سرخیل اور تحریک تحفظ ختم نبوت کا وہ سالار اعلیٰ یہ کہتا ہوا ملتان کے جلال باقری قبرستان میں مٹی کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سو گیا کہ :
چھوڑی نہیں غیروں نے کوئی ناوکِ دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرزِ ملامت
اِس عشق نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ملامت
امیر شریعت ؒ کی زندگی کے حاصل کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا غلام رسول مہرؔ رقم طراز ہیں کہ ،’’جس عطااﷲ شاہ بخاری نے راہِ حق کے لئے قربانیوں میں کبھی ایک لمحے کے لئے بھی توقف نہ کیا ،وہ اپنی ذات یا اہل و عیال کے لئے کبھی کسی اجر یا معاوضے کا طلبگار نہ ہوا ۔یہاں تک کہ زندگی کے بالکل آخری اوقات میں بھی وہ چُپ چاپ کرائے کے ایک مکان میں مقیم ہو گیا اور کبھی کوشش نہ کی کہ اسے کوئی درمیانے درجے کا مکان ہی الاٹ ہو جائے ۔حالانکہ اس کے گردو پیش بارہ تیرہ سال تک الاٹ منٹوں کا ایک ہنگامہِ عظیم بپا رہا ۔وہ غیر معروف فرد نہ تھے ۔ہزاروں آدمیوں کے دل فرطِ عقیدت سے اس کے لئے برابر تڑپتے رہے ۔اربابِ حل و عقد میں بھی اس کے شناساؤں بلکہ عقیدت مندوں کی کمی نہ تھی مگر اس نے اپنے لئے زندگی کا جو سانچہ تجویز کر لیا تھا ،اس میں ایسی باتوں کے لئے کوئی جگہ نہ تھی ۔اہل حق اپنی ہر متاع اہلِ عالم کی فلاح و بہبود کے لئے لٹاتے رہتے ہیں مگر خود کبھی کوئی چیز لینے کے روادار نہیں ہوتے ۔سید عطا اﷲ شاہ بخاری کے لئے عزیز ترین متاع اس کی درویشی تھی ۔وہ اسی متاع پر اس طرح قانع اور مطمئن رہا کہ اربابِ اقتدار کو اپنی بلند پایہ مسندوں پر بیٹھ کر بھی کبھی وہ اطمینان شاید ہی نصیب ہوا ہو ‘‘۔(انہی کے رنگِ گلستاں از مولانا غلام رسول مہرؔ ۔ص 492)
آغا شورش کاشمیریؒ ،امیر شریعت ؒ کو یوں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کہ ،’’دوہری قامت کا رعنا انسان ،چہرے پر شجاعانہ خندہ ،ماتھے پر نمایاں سلوٹیں،آنکھوں میں ایک گہری دلکشی اور ہاتھ میں ڈنڈا ۔۔۔اب سوچتا ہوں تو قیاس ہوتا ہے کہ قرنِ اول کے غزوات کا ایک مجاہد تھا ،جسے تاریخ نے تیرھویں صدی کے بعد ایک کروٹ لے کر ہندوستان بھیج دیا ۔‘‘(قلم کے چراغ ۔ص 281)
تحریک آزادی اور تحریک ختم نبوت کے لئے امیر شریعتؒ کی خدما ت کے متعلق حضرت ماہر القادریؒ لکھتے ہیں کہ ،’’شاہ صاحب ایسے واعظ تھے ،جو منبر کی زینت بھی تھے ،اور معرکہِ تیغ و سناں میں بھی کسی سے پیچھے نہ تھے ۔انگریز کے مستبد دور میں حق گوئی کی بدولت جوانی کا آخری زمانہ اور اس کے بعد کے چند سال قید و بند کی مصیبت میں بسر کئے ،چھوٹتے اور پھر گرفتار کرکے بند کر دیئے جاتے ۔یہ سلسلہ ایک دو نہیں اٹھارہ سال تک چلتا رہا ۔توپ ،بندوق اور بم کے گولے تو گاندھی جی اور جواہر لال نہرو نے بھی نہیں چھوڑے ،انگریز کی مخالفت اور اس کی پاداش میں جیل خانہ ،تمام آزادی پسند لیڈروں کا یہی حال رہا ہے ۔عطااﷲ شاہ بخاری مرحوم قربانی اور آزادی کی جدوجہد کی منزل میں ’’مقدمۃ الجیش‘‘ سے بھی آگے نظر آتے ہیں۔عشق رسول ان کی سیرت و کردار کا سب سے بڑا نمایاں وصف ہے ۔حضور خاتم النبیینﷺ کی محبت ان کے مزاج و طبیعت میں رچی ہوئی تھی ۔قادیان کی جھوٹی نبوت کے خلاف انہوں نے ’’لسانی جہاد ‘‘کیا ہے ۔بس یہی عملِ خیر اُن کی مغفرت کے لئے کافی ہے ‘‘۔(یاد رفتگاں از ماہر القادری۔جلد دوم ۔ص 138-139)
کتابیات :
1۔انہی سے رنگِ گلستاں (مولانا مہرؔ کے مضامین کا مجموعہ )مرتب:امجد سلیم علوی
2۔قلم کے چراغ (آغا شورش کاشمیری کی غیر مدوّن تحریروں کا مجموعہ )مرتب : پروفیسر محمد اقبال جاوید
3۔حیاتِ امیر شریعت از جانباز مرزا ؒ
4۔سیّدی و ابی از بنت امیر شریعت سیدہ ام کفیل بخاری ؒ
5۔یادِ رفتگاں (ماہنامہ ’’فاران‘‘میں چھپنے والے مختلف شخصیات کے خاکوں کا مجموعہ )از ماہر القادریؒ۔مرتب:طالب الہاشمی
6۔تحریک ختم نبوت ،یادداشتیں ،آپ بیتی از ماسٹر تاج الدین انصاریؒ
7۔ہم نے قادیان میں کیا دیکھا ؟۔مولف: محمد طاہر عبد الرزاق
8۔ آزادی کی انقلابی تحریک از ڈاکٹر محمد عمر فاروق