(ماہنامہ ’’انجمن تائید اسلام‘‘ کی رپورٹ)
مولاناسیدعطاء اﷲ شاہ بخاری قادیانیت کے خلاف مسلسل نبردآزماتھے،حتیٰ کہ وہ قادیانیت کے تعاقب کے لیے قادیان میں تشریف لے گئے اوروہاں پہلی بارآپ نے مسلمانوں سے خطاب بھی کیا۔ انجمن اسلامیہ قادیان کا تین روزہ پانچواں سالانہ جلسہ 3,2,1؍اپریل 1924 ء کو قادیان میں منعقدہوا۔جلسہ سے ایک روزپہلے( 31؍مارچ) کو دیوبندکے ممتازعلماء کرام کا ایک وفدمحدث العصرعلامہ محمدانورشاہ کشمیری کی قیادت میں بٹالہ پہنچ گیاتھا، جن کی رہائش کا انتظام حاجی عبدالغنی رئیس بٹالہ کی قیام گاہ پر کیاگیاتھا۔ ان علما کرام نے رات کو بٹالہ میں انجمن شباب المسلمین کے زیراہتمام مسلمانوں کے عظیم الشان اجتماع سے بھی خطاب فرمایا۔
یکم اپریل کو تمام علما قادیان تشریف لے گئے۔ قادیان میں تین روزہ جلسہ علامہ انور شاہ کشمیری کی صدارت میں منعقد ہوا، جس سے مولانا بدر عالم، مولانا نور احمد امرتسری(۱)،مولانا سید مرتضیٰ حسن (چاند پوری)، مولانا ثناء اﷲ امرتسری، مولانا عبدالعزیز گورداس پوری، مولانا مفتی محمد نعیم لدھیانوی، بابو حبیب اﷲ امرتسری، مولانا ابو تراب عبدالحق ایڈیٹر’’ اہل سنت‘‘ امرتسر، مولانا بہاء الحق قاسمی (امرتسری) اور مولوی امام الدین امرتسری نے بھی خطاب کیا۔
جلسہ کی دوسری نشست 2؍اپریل کی رات بارہ بجے ختم ہوئی۔اکثرعلما اورسامعین اپنی رہائش گاہوں پرچلے گئے اورچندمسافرسائبان کے نیچے آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے۔ ساڑھے بارہ بجے کے قریب قادیانی آئے اورآتے ہی گیس کے جلتے ہوئے لیمپ توڑ ڈالے، میز اورکرسیاں الٹ دیں اورمحوآرام مسافروں کوتشددکانشانہ بنایا۔مستری محمدابراہیم بٹالو ی کو جنہوں نے علماکو بٹالہ سے قادیان لانے کے لیے موٹروں کا انتظام کیاتھا،سرمیں شدید ضربات لگاکرزخمی کر دیا۔شرپسندقادیانیوں نے علما کی رہائش گاہوں پر بھی حملہ کرنے کی کوشش کی ، لیکن وہ منتظمین کی بروقت کارروائی کی وجہ سے ایسا کرنے میں ناکام رہے ۔پولیس کے پہنچنے پر قادیانی بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔قادیانیوں کا یہ شدت پسندانہ اقدام علماء کرام کو قادیانیت کے خلاف جلسہ کی مزید کارروائی جاری رکھنے سے روکناتھا،لیکن اس کے باوجوددینی رہنماؤں نے خوف زدہ ہونے کے بجائے جلسہ کو جاری رکھا۔
جلسہ کی تیسری اورآخری نشست3؍اپریل کی صبح کو شروع ہوئی۔9؍بجے مولاناسیدعطاء اﷲ شاہ بخاریؒ بٹالہ سے قادیان تشریف لائے اورفوراًآپ کا بیان شروع ہوگیا۔آپ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایاکہ
’’حضرات! اِس ’’مقدس‘‘ اور ’’پیغمبر زا‘‘ سرزمین پر میری حاضری کا یہ پہلا موقع ہے، جہاں ایک (جعلی ) ’’نبی‘‘ گزر چکا ہے۔ مسلمانوں پر یہ عجب مصیبت کا وقت ہے۔
(۱) حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کے استاد
میں بے وقت پہنچاہوں اورآپ لوگ مجھ سے پہلے بہت کچھ کہہ چکے ہیں،میں مختصرہی کہوں گا،اس لیے کہ (رات کی مارپیٹ کی طرف اشارہ کرکے)بہت کچھ تو آپ کو ’’سمجھا‘‘دیاگیا ہے اورباقی آئندہ سمجھادیے جاؤگے۔
مسئلہ خلافت عرصہ سے معرض خطرمیں تھا۔مسلمانوں کی باہمی تفرقہ اندازی میں مخالفین کامیاب ہوگئے تھے۔مجھے مرزائی اخبار’’الحکم‘‘کے حوالہ سے کہاگیاہے کہ جس خلافت ِ[عثمانیہ]پر عطا ء اﷲ شاہ مرمٹناکہتاتھا،وہ تواَب خودمٹ گئی ہے۔لہٰذا اُس کو اب یہاں قادیانی خلیفہ کی خلافت میں آجانا چاہیے۔اﷲ ،اﷲ
نہ من برآں گلِ عارض غزل سرایم وبس
(ترجمہ: صرف میں ہی اس گلاب جیسے عارض کا مدح سراح نہیں ہوں)
حرمِ محترم بیت اﷲ شریف اورمدینۃ الرسول میں جہاں جُوں تک مارنامنع ہے،وہاں مسلمانوں کا خون بہایاجائے،بندگانِ خداگولیوں کا نشانہ بنائے اورشہیدکیے جائیں اورسینکڑوں قیدہوں تو یہ جماعتِ مرزائیہ قاتلوں سے اظہار دوستی کرے،مگر ہم مسلمانوں سے دشمنی۔ میں اورکیاکہوں
بت کریں آرزو خدائی کی
شان تیری ہے کبریائی کی
ہم میں سے کسی کوچھینک آجائے،زکام یاکھانسی ہوجائے یابے وقت حاجت ہونے لگے تو مرزاصاحب کی پیشین گوئی پوری ہونے سے تعبیرکیاجاتاہے۔
پہلے ابا جان اپنی نبوت منوانے کے لیے دنیا جہاں کی خرابیوں کو دلیل بناتے تھے اب صاحبزادے بھی اپنی خلافت منوانے کے لیے دوسروں کی غلطیوں کو معیار ٹھہراتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان دونوں باپ بیٹا کے پاس پیش کرنے کے لیے اپنا بھی کوئی کارنامہ ہے؟ سعدی کیسے بر محل یاد آیا ہے
کس نیاید بزیر سایۂ بوم
در ہما شود از جہاں معدوم
(ترجمہ: اگرچہ دنیاسے ’’ہما‘‘ کا خاتمہ بھی ہوجاے کوئی ’’الو‘‘ کے زیر سایہ پھر بھی نہیں آ ئے گا)
قادیان میں وہ آئے جو کچھ لے کر آئے،کیونکہ یہاں پیٹ پوجاہوتی ہے اورہم خداپوجا کرتے ہیں۔ہمارایہاں کیاکام؟(غالباً یہ جملہ ’’الحکم‘‘ کا جواب تھا۔)اس موقع پر مولانا نوراحمد امرتسری نے کہا کہ ’’مرزائی کہتے ہیں کہ ہم نے یورپ میں اسلام پہنچایا۔‘‘جس کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایاکہ
ضرور!کچھ تو یہاں ہی پہنچادکھایاہے(رات کے تشدد کی طرف اشارہ کرکے)اورآج رات تو گلی کوچوں میں بھی بہتا رہا ہے۔ پھر آپ نے اخبار’’زمیندار‘‘ کے حوالہ سے ایک مضمون بیان کیاجوترکی اخبارات سے لیاگیاتھاجواسلام آباد(ہندوستان)کی کسی مرزائیوں کی عبادت گاہ کے امام نے بھیجاہے۔اِس میں ترکی کی خلافت مٹنے پر مبارک باددی گئی ہے۔آپ نے فرمایاکہ سات کروڑ مسلمانانِ ہندوستان تو خلافت کو مانتے ہیں،سوائے قادیانیوں کے۔میں اس کے سواکیاکہہ سکتاہوں کہ’’ڈھائی ٹوٹرو تے ڈیرہ ڈپھرایاں دا‘‘ (ترجمہ: خوراک تھوڑی اور کھانے والے زیادہ) کے مصداق ہیں۔
میں نے گوجرانوالہ کے جلسہ میں علماسے کہاتھاکہ میں مرزاکو مجدد،امام،نبی اوررسول ماننے کو تیارہوں،بشرطیکہ قرآن و حدیث میں کوئی جواز ہو، مرزا میں نبی اورمجددوغیرہ کی کوئی ایک صفت تو ہو۔کیامیں’’کُڑیاں دے مگر پھرن والے نوں نبی من لاں‘‘۔(یعنی کیامیں لڑکیوں کے پیچھے پھرنے والے کو نبی مان لوں؟غالباً یہ اشارہ محمدی بیگم کی طرف ہے۔)
میں دعاکرتاہوں کہ اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو اِس گمراہی(مرزائیت)سے بچائے۔ مرزا مرگیاہے۔اُس کامعاملہ اب خداسے ہے۔آپ لوگوں نے جواینٹ یہاں رکھی اورجوبُوٹا لگایا ہے، اُس کوسرسبزرکھنا۔یہ نہایت مبارک تجویزاورمیرااِیمان ہے کہ مرزائیت کی بیخ کنی کے لیے آپ نے یہاں انجمن قائم کی ہے اوربیرون جات میں جہاں جو کچھ ہورہاہے تووہ بعینہ ’’کھوتا مویاکھاریاں تے مکانڑ وزیرآباد‘‘کا مصداق ہے۔
مسلمانو! مرزائیت سے بچنا۔اُن کو گالی مت دینا۔اُن کی طرف ہاتھ نہ اٹھانا۔اکالی صاحبان سے بھی میری درخواست ہے کہ ضرورت کے وقت وہ قادیان کے اِن غریب مسلمانوں کی ضرورمددکریں۔مسلمانو! اس انجمن کو ضرورقائم رکھو۔آج رات کے خون سے یہ بُوٹا اوربھی اچھا بارآورہوگا اورعمدہ پھل لائے گا۔آپ لوگ جبروتشددسہیں اوراپنے کام میں لگے رہیں۔‘‘
پونے دس بجے سیّدصاحب اپنی پُرزوراورمؤثرتقریر ختم کرکے بذریعہ موٹربٹالہ کو واپس ہوگئے۔1
1 ماہنامہ’’انجمن تائیداسلام‘‘،لاہور15؍مئی1924ء،صفحہ19,18,17