مولانا زاہدالراشدی
چیف آف آرمی اسٹاف محترم جنرل قمر جاوید باجوہ، وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود اور وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر پیر نور الحق قادری کے ساتھ مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کی ۱۶؍ جولائی کو ہونے والی ملاقات کی تفصیلات مختلف خبروں اور کالموں میں قارئین کی نظر سے گزر چکی ہوں گی، راقم الحروف بھی اس ملاقات میں شریک تھا اور ایک خاموش سامع کے طور پر پوری کاروائی کا حصہ رہا۔ مجھے جب اس میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی اور بتایا گیا کہ یہ دینی مدارس کے سلسلہ میں ہونے والی گزشتہ ملاقاتوں کے تسلسل میں ہے تو میں نے مولانا قاری محمد حنیف جالندھری سے رابطہ کر کے کہا کہ میں ان معاملات میں خود کو وفاق المدارس کے دائرے میں سمجھتا ہوں اس لیے وفاقوں کی قیادتوں کی موجودگی میں میری شرکت کی زیادہ ضرورت شاید نہیں ہے۔ خیال تھا کہ وہ کچھ ڈھیلی بات کریں گے تو گنجائش مل جائے گی مگر انہوں نے اصرار کیا کہ مجھے ضرور حاضر ہونا چاہیے، اس لیے میں پہنچ گیا۔
دینی مدارس کے ساتھ حکومتوں کے معاملات کئی عشروں سے چل رہے ہیں اور بہت سے معاہدات اب تک ہوئے ہیں جو ریکارڈ پر ہیں، لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ ان مذاکرات و معاہدات میں جو باتیں دینی مدارس کے وفاق مان لیتے ہیں ان پر عملدرآمد کے لیے رسمی اور غیر رسمی سب ادارے الرٹ اور متحرک ہو جاتے ہیں، مگر جو امور حکومتی ادارے اپنے ذمہ لیتے ہیں وہ ’’خلا‘‘ کی نذر ہو جاتے ہیں بلکہ ان میں سے کوئی بات دوبارہ معلوم کرنی پڑ جائے تو پرانی فائلوں کی ورق گردانی کے بغیر اس کا سراغ نہیں ملتا۔ میں نے اس سلسلہ میں ایسے ہی ایک موقع پر گزارش کی تھی کہ ایک مشترکہ ورکنگ گروپ ان معاہدات کے حوالہ سے بنایا جائے جو اب تک ہونے والے معاہدات کو جمع کرے، طے شدہ امور کی نشاندہی کرے، ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے اسباب کا تعین کرے، اور اس کے بعد کسی نئے معاہدہ یا فیصلہ کی بات کی جائے۔ مگر اس طرح کی باتیں سنجیدگی کے ساتھ سننے کا ہمارے ہاں ابھی تک ماحول نہیں بن سکا۔
اس پس منظر میں یہ ملاقات واقعتاً بہت اہمیت رکھتی تھی اور اس میں ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ‘‘ اور دینی مدارس کے وفاقوں کی قیادتوں کے ساتھ ملک بھر سے مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کی بھرپور شرکت نے اس کی اہمیت و وقعت میں اضافہ کر دیا تھا۔ جبکہ سب سے زیادہ اہمیت کی بات یہ تھی کہ وفاقی وزیر تعلیم اور وزیر مذہبی امور کے ساتھ چیف آف آرمی اسٹاف کی شرکت اور کئی گھنٹے پوری توجہ کے ساتھ بحث و مباحثہ میں حصہ لینا سابقہ معمول سے ہٹ کر تھا جس کو سبھی شرکاء نے سراہا اور اسے دینی مدارس کے نظام تعلیم کے ساتھ ان کی گہری دلچسپی اور دینی حلقوں کے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے ان کے عزم پر محمول کیا گیا۔
اجلاس میں چیف آف آرمی اسٹاف کے علاوہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا مفتی منیب الرحمان، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور علامہ ریاض حسین نجفی نے تفصیلی گفتگو کی۔ جبکہ وزیر تعلیم، وزیر مذہبی امور، مولانا یاسین ظفر، صاحبزادہ حامد رضا، حافظ طاہر محمود اشرفی اور دیگر حضرات نے بھی بحث میں حصہ لیا۔ جنرل باجوہ کی گفتگو میں زیادہ زور ان امور پر تھا:
٭ دینی مدارس سے لاکھوں کی تعداد میں فارغ التحصیل ہونے والے حضرات کی معاشرہ میں کھپت اور مختلف شعبوں میں ان کی باوقار ایڈجسٹمنٹ کا نظم بننا چاہیے۔
٭ دینی مدارس کے فضلاء کو صرف ایک شعبہ میں محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ قومی زندگی کے تمام شعبوں میں مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔
٭ معاشرہ کے تمام شعبوں میں دینی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور حضرات کی ضرورت ہے اور اسی سے ان شعبوں کی اصلاح ہو سکتی ہے، اس خلا کو پر کرنے کے لیے دینی مدارس کے فضلاء کو آگے لانا چاہیے۔
٭ دینی مدارس کے سب فضلاء کے لیے سند اور ڈگری میں یکسانیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے، سب کو مختلف درجات میں ایک ہی سند ملنی چاہیے تاکہ ان کے بارے میں عمومی ماحول میں تعلیمی معیار اور فرقہ وارانہ شناخت کے حوالہ سے پائے جانے والے منفی تاثرات کو ختم کیا جا سکے۔
محترم باجوہ صاحب کا کہنا تھا کہ یہ بحیثیت آرمی چیف ان کی ذمہ داری نہیں ہے، یہ وفاقی محکموں اور متعلقہ ریاستی اداروں کا کام ہے، وہ صرف اس لیے اس میں دلچسپی لے رہے ہیں کہ دینی مدارس کے وفاقوں کو شکایت رہتی ہے کہ ان کے ساتھ کیے گئے معاہدات پر عملدرآمد نہیں ہوتا اور بہت سے امور میں ان کے ساتھ نا انصافی روا رکھی جاتی ہے، وہ ان شکایات کی تلافی کے لیے ضامن کے طور پر درمیان میں آئے ہیں اور طے ہونے والے امور پر عملدرآمد کی گارنٹی دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلہ میں عملی تجویز یہ سامنے آئی ہے کہ دینی مدارس کی آزادی و خودمختاری کو چھیڑے بغیر اور ان کے نصاب و تربیتی نظام میں کسی قسم کی مداخلت کیے بغیر ان کے امتحانات کے نظام کو وفاقی تعلیمی بورڈ کی نگرانی میں دے دیا جائے اور اس کے لیے ملک بھر میں ایک درجن کے لگ بھگ دفاتر قائم کر کے مدارس کو ان کے ساتھ ملحق کر دیا جائے۔ نیز میٹرک کے بعد انٹرمیڈیٹ کو بھی دینی مدارس کے لیے لازم کیا جائے تاکہ سب کو ایک ہی طرز کی سند ملے اور اسناد کے بارے میں پایا جانے والا کنفیوژن ختم ہو جائے۔
دوسری طرف دینی مدارس کے وفاقوں کی طرف سے ایک مشترکہ موقف اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے سیکرٹری جنرل مولانا مفتی منیب الرحمان نے تحریری شکل میں پیش کیا اور پڑھ کر سنایا جس میں مندرجہ بالا امور میں سے اکثر کے ساتھ اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے آخری شق یعنی دینی مدارس کے امتحانات کے نظام کو وفاقی تعلیمی بورڈ کے کنٹرول میں دینے کی تجویز سے اختلاف کیا گیا اور اس پر تحفظات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ قابل قبول نہیں ہے۔
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا مفتی منیب الرحمان، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، علامہ ریاض حسین نجفی اور دیگر حضرات کی تفصیلی گفتگو کے اہم پہلو یہ ہیں:
٭ دینی و عصری تعلیم کے امتزاج اور یکسانیت سے کوئی اختلاف نہیں ہے اور دینی مدارس میں عصری تعلیم کے مضامین کی تعلیم و تدریس بتدریج آگے بڑھ رہی ہے۔ البتہ امتحانات کے طریق کار اور میکنزم پر ابھی تک کوئی متفقہ بات طے نہیں ہو سکی اور اس سلسلہ میں تحفظات بدستور موجود ہیں جنہیں باہمی مذاکرات کے ذریعے رفتہ رفتہ دور کیا جا سکتا ہے۔
٭ دینی مدارس کے وفاقوں کے ساتھ مختلف حکومتوں کے معاہدات موجود ہیں مگر معاہدات میں طے شدہ امور کو نظر انداز کر کے ہر بار نئے سرے سے زیرو پوائنٹ سے بات شروع کی جاتی ہے جو مسائل کے حل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس لیے اب تک ہونے والے معاہدات کو تسلیم کرتے ہوئے طے شدہ امور سے آگے کے معاملات پر گفتگو کی جائے اور ہر بار متفقہ طور پر طے ہو جانے والے امور کو ری اوپن کرنے کا رویہ ترک کیا جائے۔
٭ حکومتوں کی پالیسیاں اور ترجیحات بدلتی رہتی ہیں، اس لیے ان کے ساتھ دینی تعلم کے معاملات کو منسلک کرنے سے دینی تعلیم کا تسلسل اور ماحول عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ چنانچہ دینی مدارس کسی سرکاری مداخلت کے بغیر اپنا تعلیمی نظام آزادانہ ماحول میں جاری رکھنے پر اس لیے بھی مصر ہیں تاکہ بار بار بدلتی ہوئی حکومتی پالیسیاں ان کے نظام کو ڈسٹرب نہ کر سکیں اور وہ دلجمعی کے ساتھ اپنا کام کرتے رہیں۔
٭ دینی مدارس کے امتحانی نظام کو کسی ایک بورڈ کے ساتھ ملحق کرنے کی بجائے ان کے منظم و مربوط وفاقوں کو تعلیمی بورڈز کی شکل میں تسلیم کیا جائے جیسا کہ پرائیویٹ سیکٹر میں اور بھی بہت سے تعلیمی بورڈوں کو تسلیم کیا گیا ہے اور وہ آزادی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
٭ دینی مدارس عصری مضامین کو خود اپنی ضرورت سمجھتے ہیں اور ہر سطح پر انہیں ایڈجسٹ کرنے کے لیے تیار ہیں بلکہ وہ عملاً ایسا کر بھی رہے ہیں مگر اس شرط کے ساتھ کہ ان کے تعلیمی نظام کا بنیادی مقصد، ماحول اور نیٹ ورک متاثر نہ ہو اور اس معاملہ میں ان کی طرف سے کسی کمپرومائز کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔
٭ دینی مدارس اس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کر رہے ہیں کہ تعلیمی اصلاحات کو ’’مدرسہ تعلیمی اصلاحات‘‘ کے نام سے متعارف کرا کے تبدیلی کے لیے صرف انہی کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، حالانکہ تعلیمی نصاب و نظام میں یکسانیت اور اصلاحی عمل کے لیے ریاستی اداروں اور پرائیویٹ سیکٹر کے دیگر تعلیمی نظاموں میں بھی بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے مگر ان کے ماحول میں اس قسم کی کوئی تجویز یا سرگرمی سامنے نہیں آرہی، جس سے یہ سارا عمل یکطرفہ دکھائی دیتا ہے۔ اس تاثر کو دور کرنے کے لیے اسے مجموعی تعلیمی نظام میں اصلاحات کا عنوان دیا جائے اور ملک میں رائج تمام تعلیمی نظاموں کو نصاب اور تربیتی و نظریاتی ماحول کے حوالہ سے ہم آہنگ کرنے کے لیے مؤثر عملی اقدامات کیے جائیں۔
٭ چیف آف آرمی اسٹاف کی طرف سے طے شدہ معاملات پر عملدرآمد کی ضمانت اور یقین دہانی بہت خوش آئند امر ہے جو دینی تعلیم اور علماء و طلبہ کے ساتھ ان کی ہمدردی کی علامت ہے اور ان کی موجودگی میں اس پر ہم اعتماد رکھتے ہیں، مگر دیگر ریاستی اداروں کی طرح فوج کے محترم اور مؤقر ادارے کو بھی حکومتوں کی تبدیلیوں اور پالیسیوں کے تغیرات سے محفوظ تصور نہیں کیا جا سکتا، اس لیے صرف اس بنیاد پر ہم دینی مدارس کے نظام اور پالیسیوں میں کسی جوہری تبدیلی کو قرین قیاس نہیں سمجھتے۔
اس موقع پر بعض حضرات کی طرف سے یہ بات سامنے آئی کہ دینی مدارس کے نظام پر پانچ وفاقوں کی اجارہ داری ضروری نہیں ہے، دوسرے اداروں کو بھی سامنے آنا چاہیے۔ جس کے جواب میں کہا گیا کہ اجارہ داری کی بات تو تب ہو کہ وفاقوں کی طرف سے مدارس کے الحاق میں کوئی جبر کیا جاتا ہو۔ ایسی کوئی صورت موجود نہیں ہے، کوئی بھی مدرسہ اپنی مرضی کے ساتھ کسی بھی وفاق کے ساتھ اس کی شرائط کے مطابق الحاق کر سکتا ہے اور اسے ایسا نہ کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔ چنانچہ ملک میں بے شمار ایسے مدارس موجود ہیں جو کسی وفاق کے ساتھ الحاق کے بغیر اپنا کام کر رہے ہیں اور ان پر کسی طرف سے کسی قسم کا دباؤ موجود نہیں ہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ دینی مدارس کے ان وفاقوں سے ہٹ کر سرکاری اور غیر سرکاری دائروں میں بہت سے بورڈ قائم ہوئے ہیں اور انہوں نے دینی مدارس کو اپنے ساتھ جوڑنے کی مسلسل کوشش کی ہے، مگر ملک کا عمومی دینی ماحول انہیں قبول نہیں کر رہا۔ اب اگر دینی مدارس کے پانچ وفاقوں سے ہٹ کر بننے والا کوئی وفاق یا بورڈ طلبہ اور اساتذہ کو اپنے ساتھ مانوس کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تو اسے پانچ وفاقوں کی اجارہ داری قرار دینا بہرحال انصاف کی بات نہیں ہے۔
ان سب امور اور دیگر متعلقہ باتوں پر اس اجلاس میں کھل کر بات ہوئی اور تینوں شخصیات جنرل قمر جاوید باجوہ، جناب شفقت محمود اور ڈاکٹر پیر نور الحق قادری نے پورے حوصلہ اور تحمل کے ساتھ سب کی باتیں سنیں، البتہ بعض مواقع پر گرماگرمی اور جذباتیت کی فضا پیدا ہوئی جسے آخر میں مولانا قاری محمد حنیف جالندھری موقع کی مناسبت سے اپنی معتدل گفتگو کے ساتھ پھر سے توازن کی راہ پر لے آئے۔ اور نشست کا اختتام اس اصولی فیصلے پر ہوا کہ وفاقی وزیر تعلیم کے ساتھ وفاقوں کی قیادتوں کی فوری نشست ہونی چاہیے جس میں سابقہ فیصلوں بالخصوص اسی سال ۶ مئی کو طے ہونے والے امور پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جائے اور ان میں عملی پیشرفت کا اہتمام کیا جائے۔ یہ ملاقات اس سے اگلے روز ۱۷ جولائی کو ہو چکی ہے جس کے فیصلے وفاقی وزیر تعلیم کے حوالہ سے سامنے آگئے ہیں۔
مجموعی طور پر یہ ملاقات بہت اچھی اور مفید رہی اور اگر یہ تسلسل اسی طرح جاری رہا تو اس کے نتیجہ خیز ہونے کی توقع بھی کی جا سکتی ہے۔ البتہ ایک دو باتیں اس دوران مجھے ذاتی طور پر بہت کھٹکیں جن میں سے ایک کا تعلق تو شاید حساس معاملات کے ساتھ سمجھا جائے اس لیے اس کا ذکر نہیں کروں گا، مگر دوسری بات کا تذکرہ میرے خیال میں مناسب ہوگا، وہ یہ کہ مولانا مفتی منیب الرحمان نے پانچوں وفاقوں کی طرف سے جو متفقہ تحریری موقف پڑھ کر سنایا اس کے آخر میں دینی مدارس کو درپیش اس مشکل کا ذکر تھا جو انہیں قربانی کی کھالوں کے حوالہ سے گزشتہ چند سالوں سے درپیش ہے۔ لیکن اس پر مجلس میں جو ردعمل دیا گیا اسے کم از کم الفاظ میں غیر سنجیدہ ہی کہا جا سکتا ہے جس کی مجھے بہرحال توقع نہیں تھی۔ ملک کے مختلف حصوں کے دینی مدارس کو اس عملی مشکل کا کئی سالوں سے سامنا ہے کہ عید الاضحٰی کے موقع پر قربانی کی کھالوں تک ان کی رسائی میں رکاوٹیں بڑھتی جا رہی ہیں جو ان کی آمدنی کا ایک معقول اور جائز ذریعہ ہے۔ اور عملی صورتحال یہ ہے کہ ہر سال بہت سے اضلاع میں عید کی چھٹیوں کے باوجود ضلعی انتظامیہ کو الرٹ اور متحرک کر دیا جاتا ہے، چھاپے مارے جاتے ہیں، گرفتاریاں ہوتی ہیں اور مقدمات درج ہوتے ہیں جس سے خوف و ہراس کا ماحول قائم ہو جاتا ہے۔ جبکہ دینی مدرس کی قیادتوں کی طرف سے اعلٰی سطحی اجلاس میں یہ شکایت پیش کرنے پر اسے جس ’’خندہ استہزا‘‘ کا نشانہ بننا پڑا وہ قطعی طور پر غیر متوقع اور غیر سنجیدہ بات تھی جو میرے جیسے شخص کو بھی ہضم نہیں ہو رہی، اور میں اس وقت سے ورطۂ حیرت میں ہوں کہ اگر دینی مدارس کی عملی اور جائز شکایات کو اسی قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا ہے تو ان کے نظام کو بہتر بنانے، انہیں تعاون و سرپرستی فراہم کرنے، ان کو تمام قومی شعبوں میں شریک کرنے اور ان کی مشکلات و مسائل کے حل کے لیے کیے جانے والے دیگر وعدوں اور ضمانتوں کو کس کھاتے میں شمار کیا جائے گا؟