مولانا محمد یوسف شیخو پوری
اﷲ تعالیٰ نے اس کائنات کے ذرّے ذرے کودو چیزوں سے مرکب فرمایا ہے۔ ایک روح ہے اور دوسرا جسم۔ ہر چیز میں خالق کائنات نے دونوں (روح ،جسم )رکھے ہیں روح کو اس چیز کی بقاء کے لیے بدن اور جسم کی ضرورت ہے۔اور جسم کوبقاء کے لیے روح کی ضرورت ہے الغرض ہر چیز تب باقی برہ سکتی ہے جب اس میں بدن اور روح ملے ہوئے ہیں خود اشرف المخلوقات انسان ہی کو دیکھ لیجیے۔ جب تک اس میں روح ہے تب تک تو انسان ہے وگرنہ لاشہ اور بے کار ہے اگر روح اور بدن الگ ہوجائیں تو اسی حقیقت کا نام موت ہے۔ اور ان کی علیحدگی سے تمام کائنات کی چیزیں ختم اور بے کار ہوجاتی ہیں۔ یہ اصول جیسے تکوینی ہے اس طرح تشریعی بھی ہے۔ حکیم الاسلام مولانا قاری محمدطیب قاسمی رحمتہ اﷲ علیہ نے بڑی تفصیل اور مدلّل انداز میں اسکی وضاحت فرمائی ہے۔
آئیے ذرا شریعت میں اس کے چند نمونے دیکھیں مثلا طہارت اور وضو ایک عمل ہے اس میں بھی یہی دو چیزیں ہیں ایک وضو کی صورت ہے، جسے بدن سمجھ لیں اور ایک اس کا مقصد ہے جسے روح سمجھ لیں۔ وضوکی صورت (بدن ) تو خاص ہیئت اور مخصوص افعال ہیں جن کو آدمی وضو کرتے وقت اختیار کرتا ہے۔ خاص طریقے سے آدمی کابیٹھنا اور اعضاء کودھونا وغیرہ البتہ ایک اس کی روح ہے جومقصود بھی ہے۔ یعنی پاکی اور طہارت کا حاصل کرنا۔ جس سے انسان بار گاہ ایزدی میں اپنی حاضری لگوا سکے۔ اسی طرح غسل ہے وہاں بھی یہی صورت حال ہے۔ سب سے بڑی عبادت نماز کو دیکھ لیں۔ مخصوص طریقے سے قیام رکوع سجدہ کرنا قراء ت کرنا وغیرہ وغیرہ نماز کی صورت ہے۔ البتہ نماز کی روح بندگی و عبدیت کی اظہار ہے اور تقربِ خدا حاصل کرنا ہے۔ الغرض حج روزہ اور زکوٰۃ ہر ایک کا یہی حال ہے کہ انھی بدن صورت اور روح دونوں سے مل کرہی وجود میں آسکتے ہیں۔
بالکل اسی طرح قربانی والا عمل ہے۔اس کی بھی ایک صورت ہے اور ایک روح ۔قربانی کی صورت تو جانور کا ذبح کرنا ہے اور اسکی حقیقت اور روح تقرب الی اﷲ کا حصول اور تقوٰی و ایثار وہمدردی کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔
یہ روح بغیر جانور کے ذبح کیے حاصل نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ ہر بدن وصورت میں اسی کی مناسبت سے روح ڈالی جاتی ہے۔ وضو میں اس کی صورت کے مطابق روح، نماز میں نماز کی روح…… حج ،زکوٰۃ اور روزہ میں ان کی روح ہے اور اسی طرح قربانی کے عمل میں قربانی کی روح ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کی جو صورت مقرر کی ہے وہی اختیار کرنا پڑے گی تب وہ روح ہمیں حاصل ہوسکتی ہے۔ آج کل کچھ روشن خیال طبقہ کے لوگ یہ کہہ کر لوگوں کی غلط رہنمائی کررہے ہیں کہ ’’جی قربانی کا مقصد ہمدردی کا جذبہ پید اکرنا ہے تو اسکا بہتر حل یہ ہے۔کہ اتنی رقم بجائے جانوروں کے ذبح کرنے میں لگانے کے کسی غریب کی مدد کردی جائے یا کسی رفاہی کام میں خرچ کردی جائے۔ جانوروں کو ذبح کرنا اور یوں یوں کرنا یہ رقم کو (نعوذ باﷲ ) ضائع کرنا ہے۔
عوام الناس کو سمجھ لینا چاہیے اگریوں ہی اعتراض کر کے کسی عمل کو اپنی اصلی حقیقی صورت سے ہٹایا جانے لگے تو کوئی عمل بھی اصلی صورت میں باقی نہیں رہے گا کیونکہ کل کونماز زکوٰۃ اور روزہ کے بارے میں کہا جائے گا انکا مقصد تقوٰی حاصل کرنا ہے۔ تو وہ ان اعمال کی صورت اختیار کیے بغیر حاصل ہوسکتا ہے۔لہذا نماز روزہ کی بھی ضرورت نہیں اس میں (نعوذبااﷲ ) وقت کا ضیاع ہے، اپنے آپ کومشقت میں ڈالنا ہے وغیرہ وغیرہ۔
یاد رکھیے اﷲ تعالیٰ نے ہر عمل میں اسی کے مناسب روح رکھی ہے جو کسی اور صورت سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ نماز کی روح روز ہ سے حاصل نہیں ہوسکتی اور روزہ کی روح نماز سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح قربانی کی روح صدقہ خیرات سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ صدقہ خیرات اچھی اور محمود صفت ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اسی سے ہمیں قربانی والی حقیقت اور روح حاصل ہوجائے۔
صدقہ کی روح دوسرے کی مدد اور انفاقِ مال ہے۔ صدقہ کے لیے کوئی وقت وتاریخ بھی متعین نہیں جب چاہیں ادا کریں مگر قربانی کے لیے یَومُ النَحرْاور عید الاضحٰی کادن متعین ہے اور قربانی کی روح جانثاری کا جذبہ پیدا کرنا ہے کہ بندہ اپنے مالک کے اﷲ اور اسکے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہر حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کوہروقت تیار رہے ہرحکم پر لبیک کہہ کر میدان عمل میں چوکس کھڑا ہو۔ یہی وہ مقام ہے کہ جس وقت سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام اپنے معصوم لخت جگر کو اﷲ کاحکم سنایاکہ : اِنِّیْ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنَّیْ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْمَاذَا تَرٰی؟(ترجمہ:میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمھیں ذبح کرتا ہوں اب تم بتاؤ کہ کیا رائے ہے؟)فرماں برداربیٹا بولااِفْعَلْ مَاتُؤْمَرْ(ترجمہ: جو آپ کو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے) پھرعملاً تیاری کر گھرسے باہر میدان میں لے جا کر اپنے معصوم بچے کولٹا کر اس کے ہاتھوں اور پاؤں میں باندھ لیں اپنی آنکھوں پہ پٹی باندھ ڈالی چھری حلقوم پر رکھ دی تو اﷲ تعالیٰ نے اس کو فَلَمَّا اَسْلَمَا وَتَلَّہٌ للْجَبِیْنِ فرما کراَسْلَمَاکے لفظ سے تعبیر فرمایا جس کاسادہ مطلب یہ ہے کہ ’’جب ان دونوں نے میرے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرلیا‘‘ ۔ قربانی کے عمل سے یہی جذبہ پیدا کرنا مقصود ہے جوقربانی کی روح ہے۔ اب جو روشن خیال لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جب روح مقصود ہے تووہ بھی حاصل ہوسکتی ہے قربانی والی صورت اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے تو ان سے سوال یہ ہے کہ کیا یہی کام تم اپنے اوپر جاری کرو گے کہ روح کو لے لیا جائے اور صورت چھوڑ دی جائے؟ لہذا پہلے اپنے اوپر اس کولا گو کرو بدن کوختم کردواور روح کوباقی رکھ کر دکھاؤ۔ اگر تمہاری ذات میں یہ ناممکن ہے کہ روح بدن کے بغیر رہ سکے تو سمجھ لو اعما ل شریعہ میں بھی یہ عمل جراحی نہ کرو کہ صورت کے بغیر روح حاصل ہوگی بلکہ روح کو حاصل کرنے کے لیے اس کی صورت کو حاصل کرنا ضروری ہے ۔ اسی عمل کے ذریعے یہ مقام حاصل کرنا کہ ہر چیز کو حق پر قربان کرنے کا حوصلہ اور جذبہ پیداہوجائے اسی پر سلفاًو خلفا ً اجماع امت کا انعقاد ثابت ہو چکا ہے ۔ حضرت صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے لے کر موجودہ دور کے اہل علم تک، پوری امت کے اخیار اسی پرمتفق ہیں کہ ہمیں احکام شریعت کا مخاطب اس لیے بنایا گیا ہے تا کہ ہمیں ان کے مقاصدحاصل ہوجائیں۔
ملحوظ رہے کہ جب تک قربانی کا مقصود یعنی حق کے تقاضوں پر ہر شے قربان کرنے کاجذبہ اور ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی ہمت اگر پید انہ ہواتوا س عمل کاخاص فائدہ نہیں ہوا۔ احکام شریعت کے ذریعے شارع کے مقاصد کی حقیقت اگر دیکھنی ہوتو اس طبقہ کو دیکھیے جنھوں نے موت وحیات کا فرق نظر انداز کر کے جان کو ہتھیلی پر رکھ ہرچیزقربان کرنے کی داستانیں رقم کیں اوراپنی جرأت وبہادری جانفروشی اور جان سپاری کی وہ داستانیں رقم کیں کہ انھیں ’’ڈرنے والے ،بھاگنے والے ، لوٹ مارکرنے والے‘‘ جیسے الزامات لگانے والے خوداس کی زبان ومنہ خوداسی قائل پرملامت کرتے ہیں کہ یہ قربان ہونے والے ہیں ہرچیز قربان کرنے والے ہیں قربانی توشروع ہی یہاں سے ہوئی سرتسلیم خم کرنا جومزاج یار میں آئے اسکی بنیادپڑی ہی یہاں سے۔ اس طبقہ سے میری مراد ……:معیا رِ ایمان حضرات اصحاب کرام علیہم الرضوان ہیں۔
تاریخ ابن عساکر اور کنزالعمال واصحابہ میں حضرت عبداﷲ بن حذافہ سہمی رضی اﷲ عنہ کامشہور قصہ ہے جو اسی مضمون سے مطابق رکھتا ہے۔ دور فاروقیؒ میں روم کی طرف گئے ہوئے اسلامی لشکر کے کچھ مجاہدین کو کفار روم نے گرفتارکرلیا۔حضرت عبد اﷲ بن حذافہ بھی ان اسیران میں شامل تھے۔ جب دشمن کے فوجی ان مقدس قیدیوں کو اپنے طاغیہ کے پاس ان کو لے گئے۔ توبادشاہ نے متاثرہو کر ان سے کہا: ہل لک فی أن تنصَّر وأشرکک فی ملکی وسلطانی؟ (ترجمہ: کیا اگر میں تمھیں اپنے ملک و بادشاہت میں شریک کروں تو تم عیسائیت قبول کر لوگے؟) یہ جذبہ تھا کہ جواب میں حضرت نے فرمایا: لو اَعْطَیْتَنِیْ جَمِیْعَ مَا تَمْلِکُ وَجَمْیِعَ مَا مَلَکَتْہُ الْعَرَبُ‘‘اے بادشاہ تُو تو مجھے اپنی بادشاہ وسلطنت دینے کی بات کرتاہے اگراپنی تمام بادشاہت کے ساتھ عرب کی تمام بادشاہت بھی مجھے ملے اوریہ کہے کہ آنکھ جھپکنے کی دیر کے لیے میں دین اسلام چھوڑکر نصرانیت قبول کرلوں یہ محال ہے ناممکن ہے۔ اس پر بادشا ہ نے غصے میں آ کر سولی پرلٹکا نے کاحکم دے دیا اور کہا تیراندازوں کو کہو کہ اس کو خوف زدہ کرنے اور ڈرانے کے لیے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان سے تیرچلاؤ۔ جب پھر بھی کامیا ب نہ ہوئے اورآ پ کے جذبہ حق پرستی کی آتش کوبجھانہ سکے توحکم دیاکہ ایک کڑاہی یا دیگ لاؤ اور نیچے آگ جلاو جب اس میں موجود پانی یاتیل اُبلنے لگا توپہلے دو اور مسلمان قیدی اس میں ڈالے پھر حضرت کی باری آئی توآپ رونے لگے۔ وہ سمجھے شاید ہم ان سے قربانی والا جذبہ ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ لیکن جب حضرت عبداﷲ بن حذافہ سے رونے کا سبب پوچھا تو آپ ؓ نے فرمایا کُنْتُ اَشتَھِیْ اَنْ یَّکُوْنَ بِعَدَدِکُلِّ شَعْرَۃٍ فی جَسَدِیْ نَفْسٌ‘‘ کہ اب توقربان ہونے کا قربانی دکھا نے کا وقت آیا ہے۔ کاش میرے جسم میں جتنے بال ہیں ہر بال کے بدلے ایک ایک جان ہوتی تو میں سب کو راہ خدامیں قربان کردیتا۔
یہی قربانی کے عمل کی روح ہے کہ قربانی کا جذبہ پیدا ہو جائے۔ قربانی کرنے والا مسلمان اپنے اندر یہ جذبہ پیدا کرے جیسے جانور کی گردن پر چھُری چلا رہا ہوں ایسے اپنی ہر ہر نا جائز خواہش پر چھری چلا کر نفس وشیطان کی بجائے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری میں لگوں گا۔ ان کی پسند کو اپنی پسندان کی چاہت کو اپنی چاہت بناؤں گا ظاہر بات ہے روح کے بغیر بدن و صورت کسی کام کے نہیں رہتے۔