مولانا ڈاکٹر مفتی عبد الواحد رحمۃ اﷲ علیہ
قربانی کس پر واجب ہے:
جس پر صدقہ فطر واجب ہے، اس پر بقر عید کے دنوں میں قربانی بھی واجب ہے اور اگر اتنا مال نہ ہو کہ جس پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہو، تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے، لیکن پھر بھی اگر کر دے تو ثواب ہے۔
مسئلہ: اگر پہلے اتنا مال دار نہ تھا، اس لیے قربانی واجب نہ تھی، پھر بارہویں تاریخ کے سورج ڈوبنے سے پہلے کہیں سے مال مل گیا تو قربانی کرنا واجب ہے۔ قربانی مقیم پر واجب ہوتی ہے، مسافر پر نہیں۔
مسئلہ: قربانی کے تینوں دن اقامت کا ہوناشرط نہیں ہے۔ دسویں، گیارہویں تاریخ کو سفر میں تھا، پھر بارہویں تاریخ کو سورج ڈوبنے سے پہلے گھر پہنچ گیا یا پندرہ دن کہیں ٹھہرنے کی نیت کر لی تو اب قربانی کرنا واجب ہو گیا۔
مسئلہ: جو شخص حج پر گیا اور حساب سے شرعی مسافر بنتا ہوتو اس پر قربانی واجب نہیں مثلا ایک شخص ۲۵ ذی قعدہ کو مکہ مہ پہنچا۔ اب چونکہ منیٰ عرفات جانے میں پندرہ روز سے کم ہیں اس لیے یہ شخص مکہ مکرمہ میں اقامت کی نیت بھی کرلے تب بھی مقیم نہیں مسافر ہی رہے گا۔ اس لیے خواہ یہ شخص حج سے پہلے مدینہ منورہ جائے یا نہ جائے بارہ ذی الحج تک یہ مسافرر ہے گا اور اس پر قربانی واجب نہ ہوگی۔
قربانی کاوقت:
مسئلہ ٍذوالحجہ کی دسویں تاریخ سے لے کر بار ہویں تاریخ کے سورج ڈوبنے سے پہلے تک قربانی کا وقت ہے چاہے جس دن قربانی کرے لیکن قربانی کا سب سے بہتر دن دسویں کا ہے۔ پھر گیار ہویں تاریخ پھربار ہویں تاریخ۔
مسئلہ: دسویں تاریخ کو شہر والوں کے لیے قربانی کا مستحب وقت عید کی نماز اور خطبہ کے بعد ہے جب کہ گاؤں والوں کے لیے کہ جس میں عید کی نماز نہیں ہوتی سورج طلوع ہونے کے بعد ہے۔
مسئلہ: گاؤں والوں کے لیے دسویں تاریخ کو فجر کی نماز کے بعد بھی قربانی کرنا جائز ہے۔
مسئلہ: امام عید کی نماز پڑھا چکا لیکن ابھی خطبہ نہیں پڑھا کہ کسی نے قربانی کردی تو قربانی جائز ہے۔
مسئلہ: امام کے نماز پڑھانے کے دوران میں قربانی کی تو قربانی نہیں ہوگی۔
مسئلہ: اگر عید کی نماز ہوئی اور پھر لوگوں نے قربانی کی۔ بعدمیں بات ظاہر ہوئی کہ وہ دن دسویں کا نہیں نویں ذی الحجہ کا ہے اور چاند دیکھنے میں غلطی ہوگئی تھی تو اگر با قاعدہ گواہی سے چاند کے ہونے کا اعلان کیا گیا تھا تو نماز اور قربانی دونوں جائز ہیں اعادہ کی ضرورت نہیں۔
مسئلہ: اگر کوئی شہر کا رہنے والا اپنی قربانی کا جانور کسی گاؤں میں بھیج دے تو وہاں اس کی قربانی عید کی نماز سے پہلے بھی درست ہے اگرچہ وہ خود شہر ہی میں موجود ہو۔ ذبح ہو جانے کے بعد چاہے تو اس کو منگوالے اور گوشت کھائے۔
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍمسئلہ: بکر ا،بکری، بھیڑ، دنبہ، گائے، بیل، بھینس، بھینسا، اونٹ، اونٹنی، ان جانوروں کی قربانی درست ہے۔ ان کے علاوہ کسی اور جانو رکی قربانی درست نہیں۔
مسئلہ: بکری سال بھر سے کم کی درست نہیں۔ جب پورے سال بھر کی ہوتب قربانی درست ہے۔ اور گائے، بھینس، دو برس سے کم کی درست نہیں۔ پورے دو برس کی ہو چکے تب قربانی درست ہے۔ اونٹ پانچ برس سے کم کا درست نہیں ہے۔
تنبیہ: بکری جب پورے ایک سال کی ہو جاتی ہے اور گائے جب پورے دو سال کی ہوجاتی ہے او راونٹنی جب پورے پانچ سال کی ہوجاتی ہے۔ تواس کے نچلے جبڑے کے دودھ کے دانتوں میں سے سامنے کے دو دانت گر کردو بڑے دانت نکل آتے ہیں۔ نر اورمادہ دونوں کا یہی ضابطہ ہے۔ تو ان دو بڑے دانتوں کی موجودگی جانور کے قربانی کے لائق ہونے کی اہم علامت ہے لیکن اصل یہی ہے کہ جانور اتنی عمر کا ہو اس لیے اگر کسی نے خود بکری پالی ہو اور وہ چاند کے اعتبار سے ایک سال کی ہوگئی ہو لیکن اس کے دودانت ابھی نہ نکلے ہوں تواس کی قربانی درست ہے۔ لیکن محض عام بیچنے والوں کے قول پر کہ یہ جانور پوری عمر کا ہے اعتماد نہیں کرلینا چاہیے اور دانتوں کی مذکورہ علامت کو ضرور دیکھ لینا چاہیے۔
مسئلہ: دنبہ یا بھیڑ اگر اتنا موٹا تازہ ہو کہ سال بھر کے جانوروں میں رکھیں تو سال بھر کا معلوم ہوتا ہو توسال بھر سے کم لیکن چھ ماہ سے زائدعمر کے دنبہ اور بھیڑ کی قربانی بھی درست ہے اور اگر ایسا نہ ہو توسال بھر کا ہونا چاہیے۔
مسئلہ: جو جانور اندھایا کانا ہویا ایک آنکھ کی تہائی روشنی سے زیادہ جاتی رہی ہوتو اس کی قربانی درست نہیں۔
مسئلہ: جس جانور کاایک کان تہائی سے زیادہ کٹ گیا ہویا دم تہائی سے زیادہ کٹی ہوتو قربانی درست نہیں۔
مسئلہ: جو جانور اتنا لنگڑا ہے کہ فقط تین پاؤں سے چلتا ہے چوتھا پاؤں رکھا ہی نہیں جاتایا چوتھا پاؤں رکھتا ہے اس سے چل نہیں سکتا اس کی بھی قربانی درست نہیں اور اگرچلتے وقت وہ پاؤں زمین پر ٹیک کر چلتا ہے اور چلنے میں اس سے سہارا لگتا ہے۔ لیکن لنگڑاکر چلتا ہے تو اس کی قربانی درست ہے۔
مسئلہ: اتنا دبلا بالکل مریل جانور جس کی ہڈیوں میں بالکل گود انہ ہو اس کی قربانی درست نہیں اور اگر اتنا دبلا نہ ہوتو دبلے ہونے سے کچھ ضرر نہیں۔ اس کی قربانی درست ہے۔ لیکن موٹے تازے جانور کی قربانی کرنا زیادہ بہتر ہے۔
مسئلہ: جس جانور کے دانت بالکل نہ ہوں اس کی قربانی درست نہیں او راگر کچھ دانت گرگئے لیکن جتنے باقی ہیں ان سے اگر وہ چارہ کھا سکتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔
مسئلہ: جس جانورکی پیدائش ہی سے سینگ نہیں ہیں یا سینگ تو تھے لیکن ٹوٹ گئے یا اوپر سے خول اتر گیا تو اس کی قربانی درست ہے۔ البتہ اگر سینگ جڑ سے یعنی دماغ کی ہڈی کے سرے سے ٹوٹ گئے ہوں یا اکھڑے گئے ہوں اور چوٹ کا اثر دماغ تک پہنچ گیا ہوتو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں۔
مسئلہ: رسولی والے جانور کی قربانی درست ہے۔
مسئلہ: بکری کا اگر ایک تھن یا اس کا سراکسی آفت سے جاتا رہا ہو یا پیدائش سے ہی نہ ہو تواس کی قربانی درست نہیں۔ اونٹنی او رگائے کے اگردو تھن یا ان کے سرے نہ ہوں تو قربانی نہ ہوگی او راگر صرف ایک نہ ہوتو قربانی ہو جائے گی۔
مسئلہ: بکری کے ایک تھن اور گائے یا اونٹنی کے دوتھنوں سے دودھ اتر نا بند ہوگیا ہو یعنی وہ سوکھ گئے ہوں اور باقی سے دودھ آتا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں۔
مسئلہ: بانجھ جانور کی قربانی درست ہے خواہ وہ ابتداء ہی سے بانجھ ہو یا بعد میں ہو گیا ہو۔
مسئلہ: حاملہ جانور کی قربانی ہوجاتی ہے لیکن جس کی دلادت قریب ہواس کو ذبح کرنا مکروہ ہے۔ بچہ جو پیٹ میں سے نکلے وہ اگر زندہ ہوتو اس کوبھی ذبح کرلیا جائے او راس کابھی کھانا حلال ہوگا اور اگر وہ مردہ نکلے تواس کوکھانا جائز نہیں۔
مسئلہ: خصی جانور کی قربانی درست ہے بلکہ رسول اﷲ ﷺ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ نے دوسینگ دار اور چتکبر ے خصی مینڈھوں کی قربانی کی۔
مسئلہ: اگر جانور قربانی کے لیے خریدلیا تب کوئی ایسا عیب پیدا ہوگیا جس سے قربانی درست نہیں تواس کے بدلے دوسرا جانور خرید کرقربانی کرے۔ ہاں اگر غریب آدمی ہو جس پر قربانی کرنا واجب نہیں تواس کے واسطے درست ہے کہ اسی جانور کی قربانی کردے۔
مسئلہ: اگر ذبح کرتے وقت کوئی عیب لگ جائے تووہ معاف ہے اور قربانی درست ہوجاتی ہے۔
مسئلہ: گائے، بھینس، اونٹ، میں اگر سات آدمی شریک ہو کر قربانی کریں تو بھی درست ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کسی کا حصہ ساتویں سے کم نہ ہو اور سب کی نیت قربانی کرنے کی یا عقیقہ کی ہو صرف گوشت کی نیت نہ ہو۔ اگرکسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم ہو گا تو کسی کی قربانی درست نہ ہوگی۔ مثلا آٹھ آدمیوں نے مل کر ایک گائے خریدی اور اس کی قربانی کی تو درست نہ ہوگی کیونکہ ہر ایک کاحصہ ساتویں سے کم ہے۔ اسی طرح ایک بیوہ اور اس کے لڑکے کو ترکے میں گائے ملی اور انھوں نے اس مشترکہ گائے کی قربانی کی تو درست نہیں کیونکہ اس میں بیوہ کا حصہ ساتویں سے کم ہے۔
مسئلہ: گائے اونٹ میں بجائے سات حصوں کے صرف دو حصے ہوں یعنی د وآدمی مل کر ایک گائے یا اونٹ ذبح کریں اور اس طرح اگر دونوں میں سے ہر ایک کے حصہ میں ساڑھے تین حصے ہوتے ہوں تویہ جائز ہے۔ کیونکہ دونوں میں سے کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہیں ہے۔ اسی طرح اگر تین یاچاریا پانچ یا چھ آدمی مل کر ایک گائے کی قربانی کریں تو جائز ہے۔
مسئلہ: کسی نے قربانی کے لیے گائے خریدی اور خریدتے وقت یہ نیت کی کہ اگر کوئی او رمل گیا تو اس کوبھی اس گائے میں شریک کرلیں گے او رقربانی کریں گے۔ اس کے بعد کچھ اور لوگ گائے میں شریک ہوگئے تویہ درست ہے۔
مسئلہ: ایک شخص نے اپنی قربانی میں پوری گائے یا اونٹ ذبح کیا تو کل کا کل واجب قربانی میں شمار ہوگا اور اگر ایک شخص نے اپنی قربانی میں دو بکریاں ذبح کیں تو ان میں سے ایک واجب اورایک نفلی ہوگی۔
مسئلہ: کوئی شخص اپنے مال میں سے بطور ایصال ثواب میت کی طرف سے قربانی کرے تو اس میں دوصورتیں ہیں ایک یہ کہ اپنی طرف سے ایک حصہ قربانی کرکے اس کا ثواب میت کو پہنچا دے۔ دوسرے یہ کہ اپنی میت کا نام قربانی کے حصہ پر قرار دے کر قربانی کرے۔ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں اور دونوں صورتوں میں قربانی کرنے والے کواختیار ہے جتنا چاہے خود کھائے اور جتنا چاہے فقراء کودے۔
مسئلہ: جوقربانی دوسرے کی طرف سے بطور ایصال ثواب کی جائے چونکہ وہ قربانی کرنے والے کی ملکیت ہوتی ہے اور دوسرے کوصرف ثواب پہنچتا ہے اس لیے قربانی کا ایک حصہ ایک سے زائد لوگوں کی طرف سے کیا جاسکتا ہے۔
قربانی کا گوشت اور کھال:
مسئلہ: یہ افضل ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرے۔ ایک حصہ اپنے لیے رکھے ایک حصہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے اور ایک حصہ فقراء پرصدقہ کرے۔ اگر کوئی زیادہ حصہ فقراء پر صدقہ کردے تویہ بھی درست ہے اور اگر اپنی عیال داری زیادہ ہے اس وجہ سے سارا گوشت اپنے گھر میں رکھ لیا تو یہ بھی جائز ہے۔
مسئلہ: قربانی کا گوشت فروخت کرنا جائز نہیں۔ اگر کسی نے فروخت کردیا ہوتو اس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے۔
مسئلہ: قربانی کی کھال یا تو یونہی خیرات کردے یا اس کوفروخت کرکے اس کی قیمت صدقہ کردے۔
مسئلہ: گوشت یا کھال کی قیمت کو مسجد کی مرمت یا کسی اور نیک اورر فا ہی کام میں لگانا جائز نہیں۔ صدقہ ہی کرنا چاہیے۔
مسئلہ: جس طرح قربانی کا گوشت غنی کو دینا جائز ہے۔ اسی طرح کھال بھی غنی کودینا جائز ہے جب کہ اس کوبلاعوض دی جائے اس کی کسی خدمت وعمل کے عوض میں نہ دی جائے۔ غنی کی ملک میں دینے کے بعد وہ اگر اس کو فروخت کرکے اپنے استعمال میں لانا چاہے تو جائز ہے۔
مسئلہ: قربانی کا گوشت چربی یا کھال کافر کو دینا جائز ہے بشرطیکہ کسی کام کی اجرت میں نہ دی جائے۔
مسئلہ: گوشت یا چربی یا کھال قصائی کو مزدوری میں نہ دے بلکہ مزدوری اپنے پاس سے الگ دے۔
مسئلہ: سات آدمی گائے میں شریک ہوئے اور آپس میں گوشت تقیم کریں تو تقسیم میں اٹکل سے کام نہ لیں بلکہ خوب ٹھیک ٹھیک تول کر بانٹیں کیونکہ کسی حصہ کے کم یا زیادہ ہونے میں سود ہوجائے گاخواہ شریک اس پر راضی بھی ہوں۔ اور جس طرف گوشت زیادہ گیا ہے اس کا کھانا بھی جائز نہیں۔ البتہ اگر گوشت کے ساتھ سری پائے اور کھال کو بھی شریک کرلیا توجس طرف اگر گوشت ہوتو درست ہے چاہے جتنا کم ہو۔ جس طرف گوشت زیادہ ہو اس طرف سری پائے بڑھائے گئے تو اب بھی سود رہا۔
مسئلہ: اگر ایک جانور میں کئی آدمی شریک ہیں اور وہ سب آپس میں تقسیم نہیں کرتے بلکہ ایک ہی جگہ کچا یا پکا کر فقراء واحباب میں تقسیم کریں تو یہ بھی جائز ہے۔
مسئلہ: تین بھائی یا زیادہ یعنی سات بھائی تک ایک گائے میں شریک ہوں اور کہیں کہ اپنی اپنی ضرورت کا گوشت لے اور باقی فقراء پر تقسیم کر دو تو یہ جائز نہیں بلکہ یا تو پہلے کچھ فقراء کودے کر پھر باقی کو برابر برابر تقسیم کرلیں یا پہلے برابر برابر تقسیم کریں پھر ہر ایک اپنے حصہ میں سے فقراء کودے۔