ابن امیر شریعت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمۃ الله عليه
اسلام امن و سلامتی کا ہی نام ہے اسلام کے ہر عمل سے سلامتی پیدا ہوتی اور امن پھیلتا ہے ہر باشعور آدمی غور و فکر کی نعمت سے اس حقیقت کو پاسکتہے ۔ نبی کریم ا کی آمد سے قبل انسانوں کے اعمال جس برائی ، خباثت اور شیطنت سے آشنا ہو چکے تھے اسلام نے انہی اعمال کو اسوۂ حسنہ میں پابند کرکے محبت، آدمیت ، امن ، سلامتی اور عا فیت پیدا کردی ۔ غور فرمائیے قبائل کے سردار اور ان کے ساتھی کھاناکھارہے ہیں ہمہ قسم نعمت ان کے سامنے چن دی گئی ہے مگر کیا مجال کہ غلام اس کی طرف دیکھ بھی جائے۔ روساء و بزرجمہر کھا پی کے فارغ ہوں گے ۔ تو بچا کھچا ان کے منہ میں بھی پہنچ جائے گا جو غلام ہونے کا طعنہ سینے پر سجائے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں ۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے آکر مکارم اخلاق پیدا کئے ۔اسی معاشرے میں غلام کو آقا کے برابراور فقیر کو امیر جیسا کردیا۔ من و تو کی تمیز ختم کردی۔ معاشرے میں حسن پیدا کیا ۔ جو نہ کلیوں میں نہ غنچوں میں‘ نہ پھولوں میں نہ بہاروں میں ہے ۔دنیا کے کسی نظام میں بھی یہ حسن و خوبی‘ یہ برابری وبرادری نہیں ہے ۔دنیا ئے فکر میں انقلاب بپا کیجئے اور چودہ سو برس کی الٹی زقند لگائیے۔ چشم خرد کھولیے اور ملاحظہ کیجئے کہ مولائے کائنات سیدنا محمد رسول اﷲ ا اور حضرت بلال رضی اﷲ عنہ لکڑی کے ایک پیالے میں لقمے لگا لگا کر کھارہے ہیں ۔ غلام آقا کے رو برو ہے نظر و توجہ کی نعمتوں سے بھی مالا مال ہو رہا ہے اور معاش و معاد کے لمحے بھی سنواررہا ہے ۔ جی ہاں یہ وہی بلال ہے جسے کفارِ مکہ کا جمہوری نظام او ر جمہوری گماشتے اپنے برابردیکھنا نہیں چاہتے تھے اور اسے غلام ہی مارنا چاہتے تھے ، اسی طرح قربانی کا عمل بھی معاشرے میں امن و سلامتی اور بلندی پیدا کرتا ہے ۔
قربانی تو زمانہ ء جاہلیت میں بھی امن و سلامتی اور سفر کے خطرات سے بچاتی تھی۔ عرب کا معمول تھا کوئی شخص اگر حج کے لیے آمادہ سفر ہے تو اسے اپنے قربانی کے جانوروں کے گلے میں پٹے ڈال کر ساتھ رکھنا پڑتا ۔ اور یہ قربانی کا پٹہ ہی راستے کے خطرات و مشکلات کے بچنے کی علامت ہوتا۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ ایسا مسافر اپنے سازو سامان سمیت منزل مراد پر پہنچ جاتا۔ حج کرتا ،قربانی دیتااور رضاء الہی کی نعمتیں سمیٹتا واپس لوٹ جاتا۔ قربانی کے اس جانور کو ہُدی کہا جاتاہے۔ ویسے عربوں میں یہ دستور تھاکہ دین ابراہیمی کے مطابق وہ چار مہینوں کا بہت احترام کرتے یعنی رجب ، ذی قعد، ذی الحج ، اور محرم…… یہ مہینے پر امن اور عافیت و سلامتی کے مہینے تھے قرآن کریم نے بھی ان مہینوں کے باعزت و باوقار ہونے کا ذکر فرمایا ہے مِنھا اربعۃٌ حُرم ان میں سے چار بہت معزز ہیں۔
انہی چارماہ کے اعزازو اکرام میں عرب اپنی جاہلیت کی عادتیں‘ لڑائی جھگڑے ختم کردیتے تھے۔ ذی الحجہ کا مہینہ بھی انہی مکرم و محترم مہینوں کا حصہ ہے ۔ جس میں قربانی‘ حج اور عبادات اس کا جزو لاینفک ہے ۔ اس لیے بھی یہ امن و امان اور عافیت و سلامتی کا پیغام سرمدی ہے ۔امن عامہ کی نوید الٰہی ہے ۔ مگر ہمارے معاشرہ میں چونکہ اسلام کو ثانوی حیثیت دیدی گئی ہے اور جمہوریت کو پہلی پوزیشن اس لیے موجودہ معاشرے پر پھٹکار پڑرہی ہے ۔عرب جہلا تو پٹے والے قربانی کے جانوروں کی لوٹ مار نہیں کرتے تھے ۔ ’’یہ جمہوریت زادے ‘‘اور ’’روشن خیال ‘‘ تو وہ بھی نہیں چھوڑتے ۔ اس عمل خبیث میں یہ اُن سے بھی آگے نکل گئے ۔ لوگوں نے مہندی ، جھانجر ،زنجیر اور پٹے قربانی کی تمام نشانیوں سے اپنے قربانی کے جانوروں کو مرصع کیاہوتا ہے مگر یہ فرزندانِ ناہموار اسے بھی چوری کرنے سے باز نہیں آتے اگر ’’لبرل اسلام‘‘ کے ماننے والے منافقین اپنے رویے تبدیل کرکے حقیقی اسلام کے پیروکار بن جائیں یعنی مکمل مومن بن جائیں تو امت کو یہ روز سیاہ دیکھنا نصیب نہ ہو! اس پر مستزادیہ کہ ان چوروں اور حرام خوروں کو پاکستان کی رسوائے زمانہ تعزیرات سزا نہیں دیتی بلکہ ’’لبرل اسلام‘‘ کی نمائندہ کمیونٹی جو حدود اﷲ کو ’’وحشیانہ ‘‘ سزائیں کہتی ہے وہ وحشی اور جنگلی بھی اس درندگی پر بہت پریشان ہیں مگر امن قائم نہیں کرسکے ۔ جو دن بھی طلوع ہوتا ہے ،وہ فسق و فجور کی تماز ت بڑھادیتا ہے ۔ خود کو ترقی یافتہ کہنے والے یورپ کے اندھے مقلد پاکستان میں خیر پیدا نہیں کرسکے ۔ پاکستان کی سیکو لر سیاسی قوتیں ‘شر ، فتنہ و فساد اور تباہی کی نمائندگی کرتی، اسے پھیلاتی اور حکومت کرتی ہیں ۔ یہ چار پانچ فیصد جو امن کے روح پرور مناظر دیکھنے میں آتے ہیں ۔یہ صرف ان دینی اعمال کی وجہ سے ہیں جو مسلمان انفرادی اور ذاتی ذوق کی بنیاد پر کرتے ہیں ورنہ ریاست کے قانون ِبَد نے تو انکارِاعمال کی کھلی آزادی دے رکھی ہے ۔ اﷲ کی پناہ ۔
قربانی اپنے شاندار ماضی ، امن و سلامتی پر سچی تاریخی روایت و شہادت رکھتی ہے ۔ دورِ حاضرمیں قربانی نہ صرف یہ کہ امن کا پیغام ہے بلکہ مسئلہ معاش کا عظیم پہلو بھی اپنے جلو میں رکھتی ہے کہ اس عمل صالح کی بدولت معاشی بدحالی ختم ہوتی اور معاشی امن پیدا ہوتا ہے ۔سینکڑوں غریب امیر ہوجاتے ہیں ۔ قرآن کا حکم ہے: فکلو ا منھا واطعمو البائس الفقیر۔ (پ۷الحج آیت ۲۸) سو کھاؤ اس میں سے اور کھلاؤ محتاج بے حال کو ۔ فکلوا منھا و اطعموالقانع والمعتر۔ (پ ۱۷۔الحج آیت ۳۶) سو کھاؤ اس میں سے اور کھلاؤ صبر سے بیٹھنے والے کو او ر بیقراری کرنے والے کو ۔
ہمارے معاشرہ میں سرمائے کی غیر منصفانہ تقسیم اور یورپ کے معیار ِ زندگی کی نقالی نے معاشرہ کوطبقات میں تقسیم کردیاہے ۔ اعلی طبقہ کہلانے والے لوگ اخلاق سے عاری ، ہمدردی سے محروم ، اخوۃ ، برادری اور برابری کے شائستہ جذبات کو خیر باد کہہ کر دوسرے تیسرے اور چوتھے طبقہ کے لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں کہ اﷲ کی پناہ ۔ ہمارے معاشرے کا دوسرا تیسرا اور چوتھا طبقہ زندگی کی راحتوں سے مہجوراور معاشی حالات سے رنجور ہے اور سفید پوشی ، ظاہرداری اور برادریوں کے جذبۂ تقابل میں اس قدر چُور چُور ہے کہ توبہ ہی بھلی ۔معاشرے کے جن لوگوں کے پاس مال و منال زرو جواہر اور دھن دولت موجود ہے ۔ پھراُن میں سے جو اس دولت کو دین کے احکام کے مطابق صرف کرتے ہیں ۔زکوٰۃ دیتے ہیں صدقات دیتے ہیں انفاق عام کرتے ہیں وہ جب قربانی دیں گے تو معاشرہ کے ایسے افراد جوبے چارے مال کی کمی کے سبب ہفتوں اور مہینوں تک گوشت کی شکل سے نا آشنا اور اس کی لذت سے محروم رہتے ہیں ۔ قربانی کرنے والاخود کھائے تو اس کی اجازت ہے اس لیے کہ ’’فکلوا منھا ‘‘ امَرِ استحباب ہے امَرِ وجوب نہیں یعنی اجازت ہے حکم نہیں جیسے واذا حللتم فاصطادوا ۔ (پ۶۔المائدہ ۔آیت ۲) او رجب احرام سے نکلو تو شکار کرسکتے ہو۔
اپنے گھر کے لیے رکھ لے تواجازت ہے اگر نہ رکھے تو بہتر ہے اور واجب ہے کہ وہ قربانی کا گوشت بے حال ، محتاج ،نادار ، بے یارومددگار او رایسا مسکین جو قانع صابر محروم ہو اور ایسا مسکین بھی جو سائل اوربے قرار ہو بھوک کے ہاتھوں تنگ آکر مانگنے لگ جائے سب کو تلاش کرکے پہنچایا جائے ۔ایسے ضرورت مندوں کو زکوٰۃ صدقات وغیرہ کی طرح قربانی کا گوشت پہنچانے سے ان کی طبعی تندی ترشی اور حالات سے پیدا شدہ نفرتیں کم ہوں گی ۔ غضب وانتقام کی جگہ محبت و احترام پیدا ہوگا ۔ لوٹ مارقتل و غارتگری کی بجائے حفاظت و خدمت کے نیک جذبات ظہور پذیر ہوں گے۔ معاشرہ میں امن و سلامتی غالب آئے گی یعنی خیر طالب اور شرمغلوب ہوگا ۔ رودے اور کھالیں بھی معاشرے کے انہی پسے ہوئے لوگوں کا حق ہے ۔ قصاب قطعاً کھال رودے اُجرت میں نہیں لیجاسکتے قربانی کے جانوروں پر ڈالے گئے کپڑے گھنٹیاں زنجیریں جھانجریں وغیرہ سب چیزیں غرباء کا حق ہیں۔ جب غرباء کو ان کا شرعی حق مال کی صورت میں پہنچے گا تو معاشی ناہمواری دور ہوگی اور معاشی ناہمواری کے دور ہونے سے جذبہ ٔحسدو رقابت بھی دور ہوگا جس کانتیجہ ہے خوشحالی مختصر اً ملاحظہ کریں۔
قربانی کے فوائد:
(۱) ایک طبقہ میں گردش زر قائم ہوئی ۔قربانی کے لیے جانور خریدے گئے ۔ بیچنے والے کو مال منتقل ہوا۔
اُسے کچھ روز گھر میں رکھا ، خدمت کی ، گھاس دانہ کھلایا
(۲) دوسرے طبقہ میں گردشِ زر قائم ہوئی ۔ قصاب نے ذبح کیا اور مزدوری لی ۔
(۳) تیسرے طبقہ میں گردشِ زر قائم ہوئی، کھال فروخت ہوئی یا خیراتی اداروں میں تقسیم ہوئی ۔
(۴) چوتھے طبقہ میں گردشِ زر قائم ہوئی ۔ رودے ،زنجیر ،کپڑا، جھانجر فروخت ہوئی۔ان کی قیمت مساکین یتامیٰ،
بیوگان ، محتاج، غریب ، دینی کارکن ، دینی مدارس کے مسافر طلباء و اساتذہ میں مختلف صورتوں میں تقسیم ہوئی۔
(۵) پانچویں طبقہ میں گردش زر قائم ہوئی ۔ سرمایہ انجماد سے بچا ۔ ایک ہاتھ میں نہ رہا مختلف ہاتھوں میں پہنچا ملک و
قوم کو فائدہ پہنچا۔ ایسا اہم اور عظیم عمل جس سے معاشرے کے پانچ طبقوں کو فیض ، نفع اور فائدہ پہنچتا ہو اس کی
مخالفت کرنا کہاں کی خدمت ِ انسانی اور خدمتِ حیوانی ہے ۔ یادانشمندی ہے؟بجز اس کے کہ
بک رہے ہیں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
ہاں یہ سیکولرسٹوں کا ’’روشن اور لبرل اسلام‘‘ تو ہو سکتا ہے حقیقی دین اسلام نہیں ۔
قربانی اور قربانی کے جانور :
قربانی اور قربانی کے جانور شعائر اﷲ میں سے ہیں ۔ (پ۱۷۔الحج آیت ۳۶)
ایسے لوگ جوبے رحمی اور حیوانات کے انسداد کی ذیل میں قربانی کے عمل کو رد کرتے ہیں یامال کے ضیاع کی نام نہاد حکمت کی بنیاد پر اس کو غلط قرار دیتے ہیں وہ لوگ بنیادی طور پر جاہل وظالم ہیں۔ اس لیے کہ قرآن حکیم نے قربانی اور قربانی کے جانوروں کی حیثیت دین اسلام کی علامتوں میں سے دوعلامتیں قراردی ہیں ۔ دین کی علامتوں کی تعظیم دلوں کے تقویٰ کی علامت ہے۔ ان شعائر کاا حترام نہ کرنے والے لوگ خلوص سے محروم ہیں ۔ شعائر اﷲ کی باقاعدہ و باضابطہ شرعی حیثیت و عظمت ہے۔ اس عمل کی ایک مذہبی ،شرعی اور قانونی تاریخ ہے اس کی تردید،تغلیط اور توھین ،احکام و مسائل اور قوانین قرآنی سے بے خبری ،لا علمی اور جہالت پر مبنی ہے۔ پھر ایسا آدمی جو قربانی جیسے عمل خیر کو روکتا ہے، اس کے خلاف ذہنوں کو ہموار کرتا ہے اور فضول قسم کی باتیں جویا وہ گوئی اور ہرزہ سرائی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں ‘کرتا رہتا ہے۔ وہ معاشرے کو باہم ایک دوسرے سے کاٹناچاہتا ہے ۔ قربانی کے عمل سے معاشرہ کے تمام طبقات باہم مربوط ہوجاتے ہیں اور یہ حیوانات پررحم کرنے والا نام نہاد مہربان انسانوں کو محبت، موّدت ، ارتباط، معاشرتی ترقی سے محروم کرنے والا ظالم، سفاک اور خود غرض ہے کہ انسانوں پر رحم نہیں کرتا !
احکام و فضائل:
قربانی جدُّالانبیاء اور مجدّد الانبیاء سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ اور سیدنا اسماعیل ذبیح اﷲ علیہم السلام اور سید الاوّلین، قائد المرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد رسول اﷲ ا کی مقدس یادگار اور ابدی سنت ہے ……حضور ا کا ارشاد ہے کہ ایام قربانی میں اﷲ تعالیٰ کو اپنے نام پر بہائے ہوئے خون ِ قربانی سے زیادہ کوئی چیز اور عمل پسند نہیں ۔ ذبح کے وقت خون کا ہر قطرہ زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی خدا کے ہاں مقبول ہوجاتاہے ۔ نیزفرمایا : ذبیحہ کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ‘ان میں سے ہر ہربال کے بدل میں ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿لَنْ یَّنَا لَ اﷲَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاءُ ہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْویٰ مِنْکُمْ﴾
’’اﷲ کو نہیں پہنچتے ‘ان کے گوشت اور نہ لہو۔لیکن اس کو پہنچتا ہے تمہارے دلوں کاادب (خلوص)۔‘‘(سورۃ حج‘۳۷۔پارہ ۱۷)
بعض اسلام دشمن عناصر جن کو مخلوق خدا کی فلاح کا بہت زیادہ’’ درد ‘‘اٹھتا ہے ‘وہ اس نظریاتی مملکت میں برسوں سے زہرپھیلارہے ہیں او رخصوصیت کے ساتھ جدید تعلیم سے روشناس مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ قربانی ’’مولوی ازم‘‘کی ایجادہے ، کتنا بڑا ظلم ہے کہ ہزاروں لاکھوں روپے کا خون بہاد یا جائے ، اس میں انسانیت کی کیا خدمت ہے ؟ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ تو صرف ’’مکہ ‘‘ میں ہی فرض ہے اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ حضور ا نے مدینہ منورہ میں قربانی نہیں دی۔ کوئی شخص بھی اس بات کامجاز نہیں کہ دین متین میں ایک حرف کی بھی تبدیلی کرسکے ۔ قربانی انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے اور ہر صاحب نصاب مسلمان پر واجب ہے ۔ جو چودہ سوسال سے ادا کی جارہی ہے۔ خود حضور ا نے اور ان کے بعد ان کے صحیح جانشین خلفائے راشدین نے اور صحابہ کرام ثنے اور امت کی مسلّمہ شخصیتوں نے ادا کی اور کروائی ۔ یہ کہنا کتنا بڑادجل ہے کہ ختم المرسلین انے صرف مکہ میں قربانی کی ۔ حالانکہ احادیث ِ صحیحہ میں اس کا ثبوت موجود ہے کہ مدینہ میں بھی قربانی ہوئی اور لاکھوں مربع میل میں پھیلی ہوئی اسلامی سلطنت میں بسنے والے مسلمانوں نے اس سنت کو ادا کیا ۔
حضور ا نے مدینہ میں قربانی کی :
﴿ عن ابن عمر ‘قال اقام رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بالمدینہ عَشَرسِنِیْنَ یُضَحِّیْ﴾
حضرت ابن عمر صفرماتے ہیں کہ حضور انے دس برس مدینہ میں قیام فرمایا اور قربانی دی:(ترمذی ص۱۸۲،مسند احمد ج۷ص۵۷)
﴿ عن ابن عباس قال کنّا مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی سفر فحضر الا ضحی فاشتر کنا فی البقرۃ سبعۃ وفی البعیر عشرۃ﴾ (ترمذی ص۱۸۱)
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ا سفرمیں تھے کہ سفر میں ہی قربانی کا دن آگیا تو ہم قربانی کی گائے کے سات حصوں اور اونٹ کے دس حصوں میں شریک ہوئے ۔
جمہور علماء کے نزدیک اونٹ میں دس حصوں والا حکم منسوخ ہوگیا اور سات حصوں والا حکم قیامت تک کے لیے جاری ہے۔اسے شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ نے ذکر کیا ہے ۔(حاشیہ مشکوٰۃ ۔ص۱۲۸)
ان ہر دو روایات کی روشنی میں یہ بات قطعیت کے ساتھ واضح ہوگئی کہ حضور ا نے سفر میں بھی قربانی کی اور مدینہ میں بھی ، اس کے بعد اس قسم کی لغو اور بے بنیاد باتوں کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور یہ حدیث ان کے قول کے بطلان کے لیے دلیل کا ایک طمانچہ ہے ۔
اہل اسلام سے التماس ہے کہ وہ اس قسم کی لغویات پر دھیان نہ دیں اور دین متین کی حفاظت کرتے ہوئے اور محبت رسول ا سے سرشار ہوکر اس سنت کو خوب ذوق و شوق سے ادا کریں تاکہ روزِ محشر بارگاہِ رب العزت میں نجات کا سبب اوراﷲ کے محبوب اکی شفاعت کے مستحق بنیں۔ خدا وند ِقدوس ہم سب کو دلجمعی سے اسلام کے اصولوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین ،ثمّ اٰمین