سید محمد کفیل بخاری
وزیر اعظم عمران خان امریکہ کا دورہ مکمل کر کے وطن واپس پہنچ گئے۔ یہ فیصلہ تو آئندہ مؤرخ ہی کرے گا کہ وزیر اعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں امریکہ تشریف لے گئے یا آرمی چیف وزیر اعظم کی قیادت میں۔ لیکن اس دورے میں یہ بات واضح طور پر محسوس کی گئی کہ آرمی چیف ہرجگہ ایک پروفیشنل فوجی کی حیثیت سے نظر آئے، جبکہ وزیر اعظم ایک نان پروفیشنل پالیٹیشن اور سلیکٹڈ وزیر اعظم کے طور پرایکٹ پلے کرتے رہے۔ آرمی چیف نے پاکستان کی نمائندگی کی اور وزیر اعظم نے تحریکِ انصاف کی۔ انھیں امریکہ پہنچ کر بھی اپنے منصب کا احساس تک نہ رہا۔ وہ ِڈی چوک اور کنٹینر پر ہی کھڑے نظر آئے۔ یہ پاکستان کے کسی وزیر اعظم کا پہلا غیر ملکی دورہ ہے، جس میں کسی معاہدے پر دستخط ہوئے اور نہ ہی کوئی مشترکہ بیانیہ جاری ہوا۔ موصوف ایک بَلّا اور آئزن ہاورڈ کی تصویر لے کر وطن واپس لوٹے۔
’’بعد دورے کے تیرے گھر سے یہ ساماں نکلا‘‘
البتہ پریس بریفنگ میں بعض باتیں مثبت بھی ہوئیں، اُن میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کے بدلے شکیل آفریدی کی حوالگی کی پیشکش قابلِ تحسین ہے۔ وزیر اعظم کے دورۂ امریکہ کے مقاصد جو میڈیا کے ذریعے واضح ہوئے، اُن میں مسئلہ افغانستان، امریکہ طالبان مذاکرات اور افغانستان میں یرغمال امریکی شہریوں کی رہائی اہم ترین نکات تھے۔ قطر میں طالبان ،امریکہ مذاکرات کو کامیاب یا نتیجہ خیز بنانا اور ان تمام حساس معاملات پر پاکستان کو امریکی خواہشات کے مطابق کردار ادا کرنے پر مجبور کرنا مقصود تھا۔
پاکستان ان معاملات پر کس حد تک کامیاب ہوتا ہے، یہ مستقبل کے حالات پر موقوف ہے۔ البتہ طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ ’’اگر پاکستان نے دعوت دی تو طالبان مذاکرات کے لیے تیار ہیں‘‘۔ طالبان نے پہلے بھی مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا، یہ دروازے انھوں نے ہمیشہ کھلے رکھے ہیں۔ لیکن انھوں نے اسلام اور اپنے وطن کی آزادی پر کبھی مفاہمت کی، نہ سودے بازی۔ وہ ہمیشہ امن کے خواہش مند رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ انھیں کامیابی دے اور افغانستان میں امن قائم ہو۔
پاکستان کو بھی ایک مخلص ہمسائے اور پُرامن افغانستان کی ضرورت ہے۔ مسئلہ کشمیر پر صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش اور چین کی حمایت خوش آئند ہے لیکن اس پربھارتی رد عمل اس کی روایتی ڈھٹائی کا مظہر ہے۔ بھارت کنٹرول لائن پر اور کشمیر میں دہشت گردی اور جارحیت کا مسلسل مرتکب ہو رہا ہے اور الزام پاکستان کو دے رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ جس طرح کلبھوشن کیس کو عالمی عدالتِ انصاف میں پاکستان نے پیش کر کے زبردست کامیابی حاصل کی، اسی طرح عالمی فورم پر کشمیر میں بھارتی مظالم اور جارحیت کو بھی طشت از بام کیا جاتا۔ لیکن وزیر اعظم تو وہاں بھی کنٹینر پر کھڑے ہو کر پاکستان میں اپنی حزبِ مخالف کو کوستے رہے۔ جو اُن کے منصب کے سراسر منافی تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران کی نفسیات تقریباً ایک ہی ہے۔ وہ ریسلنگ کے اکھاڑے میں غل غپاڑہ اور مار دھاڑ کرتے ہوئے ایک سپر پاور کے صدر بن گئے اور عمران کرکٹ کے میدان میں چوکے چھکے لگاتے ہوئے حادثاتی طور پر پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ غیر ذمہ دارانہ اور جذباتی بیانات دونوں کی قدر مشترک ہے۔ خان صاحب نے آسیہ ملعونہ کی رہائی کی ذمہ داری قبول کی، اسامہ بن لادن آپریشن کے حوالے سے آئی ایس آئی کو معلومات شئیر کرنے کا ذمہ دار قرار دیا اور پاکستانیوں کو جہادی ٹریننگ دے کر افغانستان میں لڑانے کی ذمہ داری فوج پر ڈالی۔ یہ باتیں واشنگٹن میں کرنے والی نہیں تھیں۔ معلوم نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اس بیانیے کو ٹھنڈے پیٹوں قبول کرے گی یا نہیں؟
ایک طرف حکومت ملک سے فرقہ وارانہ سرگرمیوں کو ختم کرنا چاہتی ہے اور ’’پیغام پاکستان‘‘ بیانیے پر تمام مسالک کے ذمہ داران کے دستخط لے کر ملک میں امن قائم کرنا چاہتی ہے، دوسری طرف وزیر اعظم نے اپنی گفتگو میں سنی شیعہ مسئلہ چھیڑ کر فرقہ وارانہ فضائم قائم کرنے کی نہایت بودی حرکت کی۔ کیا ایکشن پلان کا اطلاق وزیر اعظم پر نہیں ہوتا؟ چند ماہ قبل انہوں نے دورۂ ایران کے موقع پر کہا کہ پاکستان سے ایران میں دہشت گردی ہوتی ہے۔
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے
عمران خان کے دورہ امریکہ سے قبل اور بعد پاکستان اور امریکہ میں مقیم قادیانیوں کی ملک دشمن سرگرمیاں محل نظر ہیں۔ اس دورے سے قبل چناب نگر کے رہائشی ایک سزا یافتہ قادیانی کی رہائی اور وائٹ ہاؤس تک رسائی، ٹرمپ کے سامنے پاکستان کے خلاف گفتگو اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے شان تاثیر کی طرف سے اس کی ترجمانی ایسے معاملات ہیں، جن سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ قادیانیوں نے سوشل میڈیا پر اور عملی طور پر عمران خان کے دورۂ امریکہ کو بہت سراہا اور خوشی کا اظہار کیا۔ ایجنڈا واضح ہے کہ دال میں کالا ہے۔ واشنگٹن کے ارینا ہال میں عمران خان کے خطاب کا حاصل مستعار حاضرین کی فرمائشی تالیوں کی گونج میں تھڑے اور چوک میں کھڑے ہو کر غیر سنجیدہ گفتگو کے سوا کیا تھا؟ میڈیا رپورٹس کے مطابق کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ سے قادیانیوں کی بڑی تعداد اس اجتماع میں شریک ہوئی۔ اُدھر قادیانی سربراہ مرزا مسرور کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی، جس میں پاکستان کا آئین تبدیل کرنے کی دھمکی دی گئی۔
عمران خان سن لیں کہ تحفظ ختم نبوت پر پوری قوم یک جان ہے۔ آئین میں کسی تبدیلی کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ 25؍ جولائی کو ملک بھر میں متحدہ اپوزیشن کی پارٹیوں نے یومِ سیاہ منایا۔ اُدھر پشاور میں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پہلے اپوزیشن کے اجتماع میں تقریر کی اور پھر جمعیت علماء اسلام کے تیرہویں تحفظِ ناموس رسالت کے تاریخی ملین مارچ میں جرأت مندانہ خطاب کیا۔ مولانا کے ملین مارچ، جبر اور گھٹن کے ماحول میں بادِ نسیم کے جھونکے ہیں۔ جب عمران خان ارینا ہال واشنگٹن میں مولانا کو برا بھلا کہہ رہے تھے، تب عمران حکومت کا وفد مولانا کے گھر چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک واپس لینے کی بھیک مانگ رہا تھا۔ متحدہ اپوزیشن حکومت کی معاشی و اقتصادی اور سیاسی پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ بات آگے بڑھ رہی ہے، اس سے پہلے کہ خان صاحب ’’سرپرستی‘‘ سے محروم ہو جائیں اور پی ٹی آئی کا کوئی سٹینڈ بائی پلئیر آگے آ جائے، انھیں اپنی زبان اور رویوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اپنے وعدے پورے کریں، قوم کو مہنگائی کے شکنجے سے نکالیں، سیاسی اخلاقیات کے رویوں کو فروغ دیں اور ملک کی نظریاتی بنیادوں کو منہدم کرنے سے باز رہیں