(آخری قسط)
شیخ راحیل احمد رحمۃ اﷲ علیہ (سابق قادیانی)
(۳)وعدہ خلافی:
منافق کی تیسری نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ ’’وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے‘‘۔
براہین احمدیہ کی پچاس جلدیں لکھنے کا وعدہ کر کے قیمت پیشگی وصول کر لی تھی، چار جلدیں لکھ کر پیسے کو بغیر ڈکار مارے ہضم کر گئے، اور ۲۲؍ ۲۳ برس تک مطالبہ کرنے والوں کو کوستے اور گالیاں دیتے رہے۔ آخر ۲۲؍ ۲۳ برس کے بعد پانچویں جلد لکھی اور اس میں یہ لکھا کہ پانچ جلدوں سے ہی پچاس جلدوں کا وعدہ پورا ہو گیا، (اور الہامی حساب یوں بتایا کہ) کیونکہ پانچ اور پچاس میں ایک نقطے کا ہی تو فرق ہے، اس لیے پانچ جلدوں سے ہی پچاس کا وعدہ پورا ہو گیا، اور جن تین سو کے قریب عظیم الشان دلائل کا وعدہ کیا، ان کے اپنے بیٹے کے مطابق ان میں سے ایک بھی دلیل پوری نہیں لکھی گئی، یہ ایک تفصیلی موضوع ہے، جو یہاں ممکن نہیں۔ اکیلی براہین احمدیہ کی کہانی ہی خدا تعالیٰ کے نام کی ضمانت کے ساتھ کی ہوئی وعدہ کی خلاف ورزیوں کی کلاسیکل کہانی ہے۔
لیکن مرزا صاحب کی ایک اور وعدہ خلافی کی مختصر کہانی وہ ہے جو حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے ساتھ مرزا صاحب کے جھگڑے میں پیش آئی۔ مرزا صاحب اور پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کے درمیان مرزا صاحب کے دعاوی کی وجہ سے علمی بحث چلی، مرزا صاحب نے اپنی عادت کے مطابق بڑھ بڑھ کر باتیں شروع کر دیں اور پیر صاحب کو تفسیر نویسی کا چیلنج دے دیا، مرزا صاحب فرماتے ہیں:
’’اگر میرے خدا نے اس مباحثہ میں مجھے غالب کر دیا اور مہر علی شان کی زبان بند ہو گئی۔ نہ وہ فصیح عربی پر قادر ہو سکے اور نہ وہ حقائق و معارف سورۃ قرآنی میں سے کچھ لکھ سکے یا یہ کہ اس مباحثہ سے انھوں نے انکار کر دیا تو ان تمام صورتوں میں ان پر واجب ہو گا کہ وہ توبہ کر کے مجھ سے بیعت کریں…… یاد رہے کہ مقام بحث بجز لاہور کے جو مرکز پنجاب ہے اور کوئی نہ ہو گا اور اگر میں حاضر نہ ہوا تو اس صورت میں، میں بھی کاذب سمجھا جاؤں گا‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات، جلد: ۳، ص: ۳۳۰، ۳۳۱)
اور مرزا صاحب کی بات کہ اس چیلنج میں دوسرے بہت سے علماء کو بھی مخاطب کیا اور ان کو بھی پیر صاحب کے ساتھ ہی چیلنج دے دیا۔ اب اس عظیم الشان چیلنج کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اور یہ (خود ساختہ) ’’خدا کا پہلوان نبیوں کے حلہ میں‘‘ کس طرح کامیاب و کامران اور سرخرو ہو کر اس امتحان سے نکلتا ہے؟ مرزا صاحب کے اپنے الفاظ میں:
’’یہ ایام ابتلا کے ایام ہیں، پھر فرمایا: اس وقت جو بولتا ہے، یہی بولتا ہے اور بیسیوں خط اطراف سے اس مضمون کے آتے ہیں کہ مہر علی شاہ نے مرزا صاحب کی ساری شرطیں منظور کر لیں، پھر وہ مقابلہ کے لیے کیوں نہ آئے‘‘۔
اور دوسری جگہ خود ہی لکھتے ہیں کہ:
میری نسبت کہتے ہیں کہ دیکھو اس شخص نے کس قدر ظلم کیا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب جیسے مقدس انسان بالمقابل تفسیر لکھنے کے لیے صعوبتِ سفر اٹھا کر لاہور میں پہنچے، مگر یہ شخص اس بات پر اطلاع پا کر اپنے گھر کے کسی کوٹھے میں چھپ گیا‘‘۔
(مجموعہ اشتہارات، جلد: ۳، ص:۳۶۹،۳۷۰)
اب اس خود ساختہ خدائی پہلوان کے عذرات سنیے، لیکن مرزا صاحب کے عذرِ لنگ پڑھنے سے پہلے اُن کی ایک پیش گوئی کو ذہن میں رکھیے، مرزا صاحب فرماتے ہیں:
’’براہین احمدیہ میں میری نسبت خدا تعالیٰ کی یہ پیش گوئی ہے کہ قتل وغیرہ کے منصوبوں سے بچایا جاؤں گا‘‘۔ (حقیقت الوحی، رخ جلد: ۲۲، ص: ۲۳۴)
اور اس پیش گوئی کے ساتھ مرزا صاحب کا ایک دعویٰ (یا بڑھک) یہ بھی سامنے رہے:
’’ہم خدا کے مرسلین اور مامورین کبھی بزدل نہیں ہوا کرتے، بلکہ سچے مومن بھی بزدل نہیں ہوتے، بزدلی ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے‘‘۔
(ملفوظات، جلد: ۷، ص: ۳۷۱)
اب مرزا صاحب کا عذر پڑھیے:
’’میں بہرحال لاہور پہنچ جاتا مگر میں نے سنا ہے کہ اکثر پشاور کے جاہل سرحدی، پیر صاحب کے ساتھ ہیں اور ایسا ہی لاہور کے اکثر سفلہ اور کمینہ طبع لوگ گلی کوچوں میں مستوں کی طرح گالیاں دیتے پھرتے ہیں اور نیز مخالف مولوی بڑے جوشوں سے وعظ کر رہے ہیں کہ یہ شخص واجب القتل ہے، تو اس صورت میں لاہور میں جانا بغیر کسی احسن انتظام کے کس طرح مناسب ہے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات، جلد: ۳، ص: ۳۵۰)
اس موضوع پر تفصیل کسی اور آرٹیکل میں بیان کروں گا، اس وقت میرا سوال صرف یہ ہے کہ کیا جن انسانوں کی زبان پر خدا کا کلام جاری ہوتا ہے، وہ ایسے ہی بے تکے وعدے کر کے اور اس کے بعد اس سے بھی زیادہ بے بنیاد عذر پیش کر کے ان وعدوں سے بھاگتے ہیں اور خلاف ورزیاں کرتے ہیں؟۔ نہیں ایسا نہیں ہوتا۔
(۴) گالیاں:
منافق کی چوتھی نشانی یہ ہے کہ ’’جب کسی سے جھگڑے تو گالیاں دے‘‘۔
مرزا صاحب سے قبل بھی اور بعد میں بھی کئی لکھنے والے اپنے مخالفین کو اپنی تحریروں میں گالیاں دیتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا، لیکن مرزا صاحب جس مقام کا دعویٰ کر رہے ہیں، اس مقام کے دعوے داروں سے دنیا نے اس سے قبل ایسی فنکارانہ گالیاں نہیں سنی تھیں، اور اپنے مخالفین پر لعنت ڈالنے میں، اور ان کو گالیاں دینے میں اگر مرزا صاحب امام الزماں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، تو ان کا یہ دعویٰ، خاکسار نہ صرف بسر و چشم قبول کرے گا بلکہ آپ کو بھی مشورہ دے گا کہ قبول کر لیں اور دیر نہ کریں۔ میری بات کے ثبوت کے لیے انتہائی ہلکا نمونہ پیش خدمت ہے، مرزا صاحب فرماتے ہیں:
’’اور کتا ایک صورت ہے اور تو اس کی روح ہے۔ پس تیرے جیسا آدمی کتے کی طرح بھونکتا ہے اور فریاد کرتا ہے، میں نے تجھے تنبیہ کے لیے طمانچہ مارا مگر تونے طمانچہ کو کچھ نہ سمجھا۔ پس کاش ہمارے پاس مضبوط اونٹ کے چمڑے کا جوتا ہوتا، اور جو گالی دینا چاہے گا وہ ہم سے سنے گا۔ اور اگر تو بات اور حملہ میں نرمی کرے گا تو ہم بھی نرمی کریں گے، اور میں تیرے نفس میں علم اور عقل نہیں دیکھتا۔ اور تو خنزیر کی طرح حملہ کرتا ہے اور گدھوں کی طرح آواز کرتا ہے، اور تونے بدکار عورت کی طرح رقص کیا اور مجھے فاسق ٹھہرایا حالانکہ تو سب سے زیادہ فاسق ہے، اے شیح شقی! سوچ۔ اور انسان کی طرح فکر کر اور گدھے کی طرح آواز کر، پس میں قسم کھاتا ہوں کہ اگر خدا کا خوف اور حیا نہ ہوتا تو میں قصد کرتا کہ گالیوں سے تجھے فنا کر دیتا‘‘
(حجۃ اﷲ، رخ جلد: ۱۲، ص: ۲۳۱ سے ۲۳۶)
اور اگر آپ آخری مصرع پر غور کریں تو مرزا صاحب کا بھی دعویٰ ہے کہ وہ گالیوں سے ہی جس کو چاہیں فنا کر سکتے ہیں اور میں ببانگ دہل اعلان کرتا ہوں کہ میں مرزا صاحب کے گالیوں سے مخالفین کو فنا کر دینے والے دعوے پر یقین رکھتا ہوں۔
نہ صرف اسلامی تحریروں بلکہ ان کے اپنے تحریری تسلیم شدہ اصولوں کی روشنی میں، مرزا صاحب کی ساری زندگی ایک منافق کی زندگی کے طور پر گزری ہے، اگر ہم مرزا صاحب کو جھوٹا، گالیاں دینے والا، امانت کا خیال نہ کرنے والا، وعدہ خلاف نہ بھی کہیں تو کم از کم ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی طبیعت میں دو رنگی تھی اور ایسی فطرت والے کو مرزا صاحب کیا کہتے ہیں۔
’’یاد رکھو منافق وہی نہیں ہے جو ایفائے عہد نہیں کرتا یا زبان سے اخلاص ظاہر کرتا ہے، مگر دل میں اس کے کفر ہے بلکہ وہ بھی منافق ہے، جس کی فطرت میں دو رنگی ہے‘‘۔
(ملفوظات، جلد: ۶، ص: ۱۷۴)
تب بھی مرزا صاحب اپنی تحریر سے اپنے آپ کو منافق قرار دیتے ہیں اور ایک منافق چاہے ادنیٰ درجہ کا بھی کیوں نہ ہو، کیا اس مقام پر فائز ہو سکتا ہے، جس مقام کا دعویٰ مرزا صاحب کو ہے؟
مرزا صاحب پر ایمان لانے والو!
آپ نے مرزا صاحب کو صرف اور صرف اس لیے تسلیم کیا ہے کہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحیح پیروی کا راستہ دکھاتے ہیں، اب خود دیکھ لو کہ کیا مرزا صاحب کا راستہ واقعی پیروی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہے یا منافقت کا؟ مجھے یہ امید ہے کہ (چاہے آپ کھلے عام اس کو تسلیم کریں یا نہ کریں) کہ خاکسار کی گزارشات پڑھنے کے بعد آپ کے ذہن میں بھی یہ سوال پیدا ہو گا۔
’’اے ستمگر تجھے کیا کہیں؟ نبی یا منافق‘؟‘
(فقط والسلام آپ کا خیر خواہ، شیخ راحیل احمد (سابق احمدی؍ قادیانی)از جرمنی مورخہ ۱۵؍ جون ۲۰۰۵ء)