ڈاکٹرعمرفاروق احرار
ابوالبیان مولاناشہزادہ آزادسمبڑیالویؒ کا شماربرصغیرکی اُن بے لوث شخصیات میں ہوتاہے جوذاتی مفادات اورشخصی نمائش سے بالاترہوکرقوم وملک کی فلاح وتعمیرکے لیے سرگرمِ عمل رہے۔ اُن کا اصل نام برکت علی تھا،جبکہ ایک روایت کے مطابق ابوالبیان کا خطاب اُنہیں اما م الہندمولاناابوالکلام آزادؒنے دیاتھا۔ آپ کی ولادت17؍فروری 1898ء میں ضلع سیالکوٹ کے علاقہ سمبڑیال میں ہوئی۔ سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد دیوبندسے فارغ التحصیل ہوئے۔ تحریک خلافت سے سیاسی زندگی کی ابتداہوئی اورآزادیٔ وطن کی خاطر1922ء میں آل انڈیاکانگریس میں شامل ہوگئے اورمدتوں قیدوبندکے مراحل سے گزرتے رہے۔ بعداَزاں مجلس احراراسلام میں شمولیت اختیارکی اور1931ء میں مجلس احراراسلام کی جاری کردہ تحریک کشمیرمیں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا اورپس دیوارِزنداں بھیج دیے گئے۔ آپ پونچھ(کشمیر)میں طویل عرصہ قیام پذیررہے،آزادیٔ کشمیرکے لیے اِنفرادی محنت وجدوجہدجاری رکھی اور1934ء میں وہاں سے ایک اخبار’’ترجمانِ پونچھ‘‘بھی جاری کیا۔ قادیانیت کے خلاف احرارکی تحریک تحفظ ختم نبوت (1934ء )میں مصروفِ جہادہوئے اورمنکرین ختم نبوت کی ریشہ دوانیوں کے سدباب کے لیے احراررہنماؤں کی سرپرستی میں تحفظ ختم نبوت کا فریضہ انجام دیا۔ جنگ عظیم دوم میں فوجی بھرتی کے خلاف مہم میں احرارکارکنوں کے شانہ بشانہ حصہ لیا اوردارورسن کی آزمائش سے گزرے۔
مولاناشہزادہ آزادسمبڑیالوی کا نام پہلی بارماموں جان جناب رفیق غلام ربانی رحمہ اﷲ کی زبانی سناجو خودحضرت امیرشریعت سیدعطاء اﷲ شاہ بخاریؒ اورمولانامحمدگل شیرشہیدرحمہ اﷲ کے جانبازسپاہی اورمجلس احرارکے بے باک رہنماتھے، اُنہوں نے بتایاتھاکہ ’’قیام پاکستان سے قبل میری اوائل عمری میں ’’سرائے ہیرانند‘‘(نزد بلدیہ،تلہ گنگ، ضلع چکوال)میں تحریک آزادی کے سلسلہ میں ایک جلسہ منعقدہواتھا،جس میں ہندو،مسلم رہنماؤں نے شرکت کی تھی،اس جلسہ میں مولاناآزادسمبڑیالوی نے بھی تقریرکی اورمیری سیاسی زندگی کی ابتدا اُن کی پُرجوش تقریرسن کرہی ہوئی تھی۔ ‘‘بعدمیں کتابوں اورپرانے اخبارات وجرائدمیں شہزادہ آزادؒکے تذکرے پڑھنے کو ملے اوراُن کی انتھک جدوجہد، اخلاص اوربے غرضی نے بہت متاثرکیا۔ وہ تمام عمروطن عزیز کی خدمت اورمسلمانوں کی فلاح کے لیے کوشاں رہے،اُن کی ذات نام ونمودسے بے نیاز اورصلہ وستائش سے بے نیازتھی۔ وہ ایک ایسی بے چین روح کے حامل تھے کہ جس نے تادمِ آخراُنہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیا،بلکہ جب تک اُن کے جسم وجاں میں سکت رہی،اُنہیں متحرک اورپابہ رکاب رکھا۔
مولاناشہزادہ آزادسمبڑیالویؒ نے آزادیٔ وطن اورتحریک ختم نبوت کے علاوہ ہندوستان کی پسماندہ اورپِسی ہوئی قوموں کو اُن کا مقام دلانے کے لیے طویل جدوجہدکی۔ وہ اس محاذپر شروع ہی سے دادِ شجاعت دے رہے تھے۔ اُن کی تحقیق کے مطابق معاشرے کی دھتکاری ہوئی ذات یعنی میراثی دراصل وہ قوم ہے جو علم میراث اورعلم الانساب کی وارث تھی اوراُس کا سلسلہ نسب قوم قریش سے جاکرملتاہے۔ اُن کی اس رائے سے اُن کی زندگی میں بھی شدیداختلاف کیا گیا اوراَب بھی اختلاف کی گنجائش موجودہے،مگر اُنہوں نے معترضین کے اٹھائے ہوئے نکات پر مشتعل ہونے کی بجائے ٹھوس دلائل وبراہین سے اُن کا جواب لکھا۔ 1928ء میں اس موضوع پر اُن کی پہلی کتاب’’تاریخ القریش‘‘شائع ہوئی۔ 1928ء اور1933ء کے دوران اُن کی پانچ کتابیں ’’آئینہ قریش‘‘،’’ردِ الزام‘‘،’’میراورپیر‘‘،’’نسب دانی‘‘ اور’’ طبقاتی قومیں ‘‘شائع ہوئیں اوراِسی عنوان ہی پراُن کے قلم سے آخری کتاب’’تاریخ آزاد‘‘الموسوم ’’تاریخ القریش‘‘ نکلی۔ اپنی برادری کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے 1920ء جمعیت القریش کے نام سے ایک جماعت قائم کی،جس کی ہندوستان بھر میں شاخیں قائم ہوئیں۔ ’’القریش ‘‘کے نام سے ایک اخباربھی سیالکوٹ سے جاری کیا۔ مولانا آزادسمبڑیالوی نے اپنی قوم کے حقوق کی بحالی کے لیے نہ صرف تحریری اورتحقیقی مساعی سے کام لیا،بلکہ انہوں نے اس کے لیے قانونی جنگ بھی لڑی۔
قیام پاکستان کے بعدمولاناآزادسمبڑیالوی محکمہ تعلقات عامہ پنجاب کے پہلے آنریری سیکرٹری مقررہوئے۔ اس دوران بھی آپ کی قومی وفلاحی سرگرمیاں جاری رہیں،یہاں تک1952ء میں فالج کے حملہ نے آپ کی متحرک شخصیت کو جامدکردیا اورپندرہ برس تک اپنے آبائی علاقہ سمبڑیال میں بسترعلالت پر رہے۔ بالآخرساری زندگی طاغوتی قوتوں سے پنجہ آزمارہنے والی یہ بیباک شخصیت26؍جون1967ء کو موت کے ہاتھوں جان ہارگئی۔ سمبڑیال ضلع سیالکوٹ کاقبرستان’’وڈاباغ‘‘آپ کامسکن ہے، دعاہے کہ اﷲ تعالیٰ اُن کی قبرکو اَپنی رحمتوں سے معموررکھے اوراُن کی خدمات کو اَپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت بخشے،آمین۔