تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

میرا افسانہ

قسط:۱۰
مفکر احرار، چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ
پیشی:
سپرنٹنڈنٹ کوقیدی کے سزاوانعام کااختیارعام ہے۔ انعام پرآے توایام قید کو جتناچاہے گھٹادے۔ انتقام پرآئے تو تمام رعایتوں پرقلم پھیردے۔ قیدی کے ایام قیدکوکم کرنااس کوجاگیربخشناہے۔ کیونکہ آزادی کی قدرقیدی کوہی ہوتی ہے۔ اس لیے قیدی تمام سزاؤں کوہیچ سمجھتا ہے، البتہ قیدکے دنوں کی چھوٹ کٹ جانے پرسخت مضطرب ہوتاہے۔ سپرنٹنڈٹ کسی لمبی چوڑی تحقیق و تفتیش کی ضرورت نہیں سمجھتا، بلکہ من مانی کرتاہے۔ وہاں دلیل اپیل کام نہیں دیتی۔ اکثر داروغہ کے منشاء کے مطابق سزاملتی ہے۔ اسی کوڈسپلن کے قرین خیال کیاجاتاہے سپرنٹنڈنٹ کاخداجوکرے ہوتاہے اور قید ی کے جوقسمت میں ہوتاہے بھگتنا پڑتاہے۔ ہلکی مشقت سے سخت مشقت دی جاتی ہے۔ بارک سے نکال کرقید تنہائی میں ڈالاجاتاہے۔ تعزیری خوراک، ڈ نڈ ا بیڑی، کھڑی ہتھکڑی، رات کی ہتھکڑی،ٹاٹ وردی…… پہنائی جاتی ہے۔ جیلوں کے اندرجاکردیکھو، درختوں کے ساتھ زنجیروں میں بندھے ہوئے قیدی لٹکتے پاؤگے۔ شاید شکرکرو کہ ٹھنڈے سایہ میں سزاملتی ہے ورنہ حکام جیل میں گرم مزاجی اس امرکی مقتضی ہے کہ قید یوں کودھوپ میں سکھایاجائے اور تپتی ریت پر لٹایا جائے۔ اس حسن سلوک پروجہ شکرکی صرف ایک ہی صورت ہے کہ قید ی سے حکام کوذاتی پرخاش نہ ہو۔ اگر کوئی گستاخی کر بیٹھے تو اس کاخداحافظ۔ ایک پربیس آدمی لگاکرتکلے کی طرح جوتوں سے سیدھاکردیاجاتاہے۔ جیل میں کوئی اس کی فریاد کوسننے والا نہیں ہوتا۔ اگرڈاکٹر اور جیلرکی آپس میں ناچاقی ہو تو ملازمین قیدی پر تشد د میں احتیاط بر تتے ہیں۔ جہاں یہ شیرو شکرہوں وہاں بے دریغ انسانوں کا خون نچوڑاجاتاہے۔ یہ ضروری نہیں کہ تشدد کسی شد ید غلطی یاگستاخی پرکیاجائے۔ بلکہ بعض اوقات معمولی معمولی باتوں پر افسران جیل کی آنکھوں میں خون اترآتاہے۔ اور ایسی جابرانہ کاروائیاں کربیٹھے ہیں۔ کہ انسان کاکلیجہ پھٹ جاتاہے۔
میرے ایام قید میں بعض ایسے ناخو شگوار واقعات ظہور پذ یرہوئے۔ جن کے بیان سے میں اس لیے معذور ہوں کہ ان دورنا ک واقعات کاکوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ تاہم ایک واقعہ انسان کی شقاوت قلب پرآنسو رونے کوتحریرکرتاہوں۔ ہم چارسیاسی قیدی حکام کے غصہ و غضب کاشکار ہوکر تنہائی کی قید کاٹ رہے تھے۔ صبح کاوقت تھا۔ مشقت ابھی تقسیم ہی ہوئی تھی۔ کہ چیف وارڈ ر معہ دیگردوعہدہ دار قیدیوں کے ایک اور قید ی کومارتے پیٹتے لائے۔ ایک کوٹھڑی میں زمین پرلٹاکرنہایت بے دردی سے زدو کوب کرنے لگے، اس کی آواز سن کرسب کانپ اٹھے۔ حسن اتفاق سے ابھی تک ہمیں کوٹھڑیوں میں بند نہ کیاگیاتھا۔ اس کی آہ وبکاسن کرکوٹھڑیوں سے سب نکل آئے اور اس طرف بڑھے۔ جہاں یہ بے دردی کاکام سرانجام دیاجارہاتھا۔ ہم نے قیدیوں کی سی انکساری سے چیف وار ڈرکواس دست درازی سے بازرہنے کی استدعا کی،بجائے خفیف و مخوف ہونے کے مع دوسرے نمبرداروں کے ہمارے سرہوگیاکہ کوٹھڑیوں سے باہرنکلنے کاتمہیں کس نے حکم دیا۔ بلاشبہ ہماراکھڑے ہوناخلاف ضابطہ اور ایک جگہ جمع ہوناجرم تھا۔ مگرسب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارادخل اس آتش مزاج پر تیل کاحکم رکھتاتھا۔ اپنی عافیت کاخیال توضرور آیا مگردل کڑاکرکے کہا کہ الٹاچو ر کوتوال کو ڈانٹ بتانے کے کیامعنی ؟آپ ہم سے ہزار گنازیادہ جرم کررہے ہیں۔ ہماری گفتگواس کے اقتدار کے لیے چیلنج تھی۔ وہ غصے سے بے تاب ہوکربولاکہ فورا کوٹھڑی میں چلے جاؤ، ہم ایساہی کریں گے۔ اس کے بغیرجیل کاانتظام قائم نہیں رہ سکتا۔ اس کے چلے جانے کے جانے کے بعد خیال آیا کہ یہ ضرور کوئی آفت ڈھائے گا۔ ساتھ ہی ہمیں یہ معلوم ہوا کہ مضروب مرگی کی نامراد مرض سے لاچار اور مجبور ہے۔ اس کاتمام جسم گرگرکے زخمی ہورہاہے اور اسی مرض سے اس کے ہوش درست نہ تھے۔ اس کی قابل رحم حالت کودیکھ کرہم نے ارادہ کیا کہ جو ہوسوہو یہ وقعہ سپرنٹنڈنٹ کے گوش گزارکردیناچاہیے۔ سپرنٹنڈنٹ نے ہمارے تحریری بیانات لیے۔ بظاہرتووہ اس واقعہ سے ایسے متاثرنظرآتے تھے کہ ہم سمجھے چیف وارڈربیک بینی ودو گوش ملازمت سے علیحدہ کیاجائے گا۔ مگرچند دن کے بعد معلوم ہوا کہ رعب و سیاست انصاف پر غالب آئے۔ چیف وارڈر کو تحریری تنبیہہ کرکے معاملہ رفع دفع کردیاگیا۔ ملزم تو چھٹ گیا اب مدعی ماراگیا اور گواہان کی عزت پربن گئی۔ اس واقعہ کے بعد مضروب کومیں نے کسی نہ کسی علت میں گرفتار پایااور چیف وارڈر کی ہم پر ہمیشہ نظرعتاب رہی۔
ایک عجیب بد معاشی:
جیل کے اندر بد معاشی کابہاؤدربان کی نگرانی اور تلاشی کنند گان کی سرگرمی پر موقوف ہے۔ نگران کارجماعت اگرنرمی برتے تواشیاء کابھاؤجیل میں سستاہے۔ ورنہ ہرچیز میں تیزی ہے۔ قیدی تنگ آجاتے ہیں۔ نشہ کھانے والوں کی جان پرآبنتی ہے۔ انبالہ میں ایک ہیڈوارڈر کوتلاشیوں کابہت شوق تھا۔ قید ی سخت تنگ آگئے تھے۔ بد معاشی سونے کے بھاؤبکنے لگی۔ ایک د ن ایک مخبر نے ہیڈ وارڈر کوخبر دی کہ خداوند!ایک شخص کے پاس کچھ بدمعاشی ہے۔ ہیڈ وارڈر سرپرپاؤں رکھ کرگیا۔ ایک نمبر دار قید ی جوذات کابرہمن اور فتنہ پردازیوں میں وارڈرکادست راست تھا…… وہ ساتھ لیتاگیا۔ مخبر کی نشاندہی کے بموجب ایک کونہ میں تھیلی پڑی ملی۔ برہمن نمبر دار نے شکر سے بھرپور سمجھ کراٹھالی۔ ہیڈ وارڈر سے ایک سیاسی قیدی نے دریافت کیاکہ سردارصاحب کچھ تلاشی میں ملا؟ پنڈ ت صاحب نے چاپلوسی سے کہاکہ سردار صاحب کاوار کبھی خالی بھی جاتاہے؟یہ برسات کے دن تھے۔ موسلاد ھار بارش ہوکرابھی بادل کھلاہی تھا۔ پنڈت کوتھیلی کچھ نمدارمعلوم ہوئی۔ جس پر انہوں نے کہا: بارش سے شکربھیک گئی۔ سردار صاحب کی اجازت سے پنڈ ت جی نے تھیلی کامنہ نہ کھولا۔ تعفن سے سرپھرگیا۔ تھیلی چھوڑکرالگ کھڑاہوگیا کہ حرامزادے قید یوں نے بد معاشی کی ہے۔ تازہ پاخانہ تھیلی میں باندھ کررکھ دیا۔ سردار صاحب اور پنڈت صاحب کے سرپر سوگھڑے پانی کے پڑگئے۔ قید ی خوشی سے اچھلے کہ خوب مارا۔ جوسنتاہے مار ے ہنسی کے پیٹ میں بل پڑجاتے ہیں۔ دریافت و تحقیق پربات کھلی کہ یہ بھنگی قید یوں کاکام تھا۔
بدمعاشی کی آمد:
تما م بدمعاشی دروازہ کے راستہ نہیں لائی جاتی۔ بلکہ اکثر ملازم یانمبردار مل کرایک وقت مقررہ کرتے ہیں اور جگہ کاتعین کرتے ہیں۔ ملازم مال بازار سے لاتاہے۔ وقت مقررہ پرجیل کی دیوار کے باہرکھڑاہوکرپہلے اینٹ پھینکتاہے۔ اندر نمبردار جوابی اینٹ باہرپھینک کراپنی حاضری کی اطلاع دیتاہے۔ نیز اس کے یہ معنی بھی لیے جاتے ہیں کہ اب کوئی خطرہ نہیں اور کوئی غیردیکھنے والانہیں۔ جب باہرکھڑے ملازم کوجوابی اینٹ سے اطمینان ہوجاتاہے۔ تو اشیاء خریدکردہ دیوار سے اندر پھینک دیتاہے جسے نمبر دار اٹھالیتاہے۔ ایک دن میں اسی طرح کوٹھڑی کے باہرٹہل رہاتھا۔ کہ اچانک ایک پختہ اینٹ میرے پاس آگری۔ اتفاق سے نمبردار ملازم اس جگہ کوئی موجود نہ تھا۔ مجھے شرارت سوجھی میں نے جوابی اینٹ باہر پھینکی۔ جلدی ہی دھڑاادھڑتھیلیاں گرنی شروع ہوگئیں۔ ایک میں جلیبیاں ایک میں شکراو رایک بکس سگریٹ میں نے اٹھااٹھاکرایک خالی کوٹھڑی میں لارکھا۔ شکار نکلنے کے بعد شکار ی بھی آنکلے، ادھرادھرتلاش کرنے لگے۔ زمین تونگل نہ گئی تھی، میں ہی ایک تنہائی کاقید ی تھااس لیے مجھے آکرپوچھا۔ میں نے نمبردار کوکہا کہ اشیاء تو مل جائیں گی مگرآئندہ کبھی بغیرمجھے اطلاع دیئے بے خبر ی میں اینٹ پتھرنہ برسانا۔ اگرآج لیادیاکام نہ آتا تواینٹ سے میراخاتمہ ہی تھا۔
دروازہ سے بدمعاشی نہ لانے کی وجہ یہ ہے کہ دربان کوہرملازم کی تلا شی کااختیار ہے۔ ملازموں کی اکثرآپس میں ناچاقی رہتی ہے وہ ہمیشہ ایک دوسرے کی گھات میں ہوتے ہیں۔ وارڈرو ں کودربان کاکھٹکااور دربان کوداروغہ کا خوف۔ اگروارڈردربان کا گھونگٹ ایک بھی ہو تو بھی دربان کوحصہ رسدی دیناپڑتاہے۔ اس لیے دروازہ کی بجائے اکثر ملازم دیوار کے اوپرسے بدمعاشی پھینکنے کاانتظام کر تے ہیں۔
قیدی عہدہ دار:
ملازمین ہی جیل کے انتظام کے واحد ذمہ دار نہیں ہوتے۔ بلکہ قیدی کوبھی انتظامی اغراض کے لیے عہدہ دار بنادیاجاتاہے۔ جس وقت قیدی کی مدت سزامیں سے چوتھاحصہ خوش چلنی میں گزرجاتاہے۔ تومشقت سے آزادی دے کر اسے نگرنی پرلگادیاجاتاہے۔ قیدیوں میں تین قسم کے عہدہ دار ہوتے ہیں۔ چوتھائی قیدکاٹنے پرحسب قاعدہ قیدی کوایک نشانِ نگرانی جس کو بلّا کہتے ہیں ملتاہے۔ مگریہ قاعدہ کلیہ نہیں۔ کیونکہ بھینٹ دیئے بغیرحصول مدارج ناممکن ہے۔ بلادینے والاداروغہ کو ئی نہ کوئی نقص قیدی میں دھردیتاہے۔ بلّے والابننے کے لیے بیس سے پچیس روپیہ تک داروغہ اور دیگرملازمین کا منہ میٹھاکرنے کو مٹھائی کاخرچ دیناپڑتاہے۔ بلّا والابن کرقیدی بلابن جاتاہے اوراپنے آپ کوعام قیدیوں سے کچھ بالاسمجھنے لگتاہے۔ کیوں نہ ہو آخرعہدہ دارہے۔ چارآنہ ماہوار وظیفہ اور چاردن کی قیدمہینے میں تخفیف ہوتی ہے۔ اپنی گزشتہ مصائب اوربے کسی کی حالت کوبالکل بھول جاتاہے دوسرے قیدیوں کوگھورتاڈراتادھمکاتاہے۔ اگرجیب بھاری ہواور داروغہ کوخوش رکھا تونمبردار کاعہدمل جاتاہے۔ سیاہ وردی، بارہ آنہ ماہوار، چھ دن قیدمیں تخفیف، بارہ (۱۲)آنہ سے۴آنے کاٹ کرلنگائی (رشوت) دینی پڑتی ہے۔ موجودہ طرز حکومت میں نمبرداروں اورذیلداروں کا جس طرح ایک ذلیل فرقہ موجودہے، جنہیں جلب منفعت اور ترقی درجات کے لیے ناجائز وسائل استعمال کرنے سے عارنہیں ہوتا۔ اسی طرح جیل میں یہ نمبردارتہذیب انسانی کو بالائے طاق رکھ کرقیدیوں کوتنگ اور ملازمان کوخوش کرنے کے لیے تمام ذرائع کام میں لاتے ہیں۔ ان کے ضمیرایسے مردہوچکے ہوتے ہیں کہ انہیں ایک لمحہ کے لیے بھی خیال نہیں آتا کہ وہ کبھی ان قیدیوں کی طرح نذ رِمصائب وآلام تھے۔ جنہیں وہ آج تنگ کررہے ہیں۔ قصہ کوتاہ یہ نمبردارجنہیں کالی والے کہتے ہیں۔ اپنے زیر نگرانی قید یوں کوتنگ کرنے کاکوئی وقیقہ باقی نہیں چھوڑتے۔ جب کالی ولانمبر دارجنس ایمانی کی ارزانی اور ضمیرکشی کے متواتر ثبوت دے تو اس پیلی وردی دے کر اس کی ترقی کر دی جاتی ہے۔ آٹھ روزقیدمیں تخفیف، ایک روپے ۴ آنے تنخواہ۔ جس میں چارآنے وردی کی رنگائی کی کٹوتی ہوتی ہے۔ روپیہ ماہوار پر یہ پیادہ ایمان فروشی کے لیے ایسی کئی کوشش کرتاہے کہ اس کے عمل سے نہیں بلکہ شکل کودیکھ کرنفرت اور حقارت کے جذبات دل میں پیداہوجاتے ہیں۔ عام قیدیوں میں ان عہدہ داروں کے مقابلہ پرخود داری زیادہ ہوتی ہے۔ ان عہدہ دار قیدیوں کوملازمین کھڑے کھڑے ہزار سناتے ہیں مگروہ ایک خاطرمیں نہیں لاتے۔
جیل کے جرائم:
جیل میں جملہ قسم کی رعائتیں خریدی جاسکتی ہیں یایوں سمجھوکہ بغیرخرچ کیے میسرنہیں آسکتیں۔ مراعات خریدکربھی قائم رکھنا۔ حکام جیل کی خوشنودی مزاج پرمنصرہے۔ جیل میں سب سے بڑی رعایت قیدکی کٹوتی ہے کیونکہ آزادی دنیامیں عجیب چیزہے۔ جیلرقیدیوں کواسی رعایت کالالچ دے کرکثیررقم وصول کرتاہے۔ داروغہ کی چاندی اسی میں ہے کہ سپرنٹنڈنٹ کوموم کاناک بنائے رکھے۔ کیونکہ خود داروغہ کوسوائے سفارشی اختیار کے مراعات دینے یالینے کا اختیار نہیں ہوتا۔
بعض بیوقو ف قیدی داروغہ کوماہانہ نذرانہ دے کرمطمئن ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ یہ رشوت محض مشقتِ روزانہ سے مخلصی دلاتی ہے، متعدد قسم کی دوسری ذمہ داریوں سے بریت نہیں دلاسکتی۔ جیل کے جرائم پرنظرغائرڈال کردیکھئے، یہاں ہر حرکت داخلِ جرم ہے۔ بھوک سے بڑھی روٹی کسی کودینا، یاکسی کے حصے سے خودلینا، دھار دار چیز تو خیر……اینٹ، مٹی، کاغذ وغیرہ معمولی اشیاء تک کوپاس رکھنا قابلِ مواخذہ ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ قیدی کے پاس اٹھ جانا، اونچی آواز اٹھانا، زور سے ہنسنا، گانا……حتی کہ باربارپاخانہ جانابھی جیل میں جرم ہے۔ فرشتہ صفت انسان بھی قوانین جیل کی خلاف ورزی کامجرم ہے۔ غلامی کی یہاں انتہااور بے بسی کی یہاں حد ہے۔ جیل کے قوانین کی تمام وکمال پابندی کی کوشش کم از وہم نہیں۔ ان جرئم کی وسعت او رہمہ گیری پرغورکیجئے تو معلوم ہو جائے گاکہ قیدی ملازمان جیل کے اسی طرح رحم و کرم پر ہوتے ہیں جس طرح کہ چوہا بلی کے چنگل میں روز نئی مصیبت کاسامنا کرتا ہے۔ ملازمین اسی تاک میں رہتے ہیں کہ کب کسی پرانگلی رکھنے کاموقع ملے تومٹھی گرم ہو۔
ملازمان جیل کی آمدنی کے یہی ذرائع نہیں جوبیان ہوئے بلکہ تمام خرید کردہ یافروخت شدہ اشیاء میں کمیشن حاصل کی جاتی ہے۔ بعض اوقات اسی پراکتفانہیں ہوتی بلکہ خریدوفروخت کرنے والوں سے علاوہ کمیشن کے نذرانہ علیحدہ لیا جاتا ہے۔ حتی کہ سبزی ترکاری تک کا سودا کیا جاتا ہے۔ ملازمین جیل کو اس ہیر پھیر میں جتنا نفع ہوتا ہے، قیدی کو اسی قدر نقصان ہوتا ہے۔ کیونکہ اپنے لالچ سے محکمہ کا مال قیمت پر دیا اور قیدی کے لیے گراں قیمت پر لیا جاتا ہے۔
مجرم کی ورثا سے ملاقات بھی ایک زر خیز کام ہے۔ تین ماہ کے بعد عام قیدیوں کوملاقات کا حق اور خط لکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔ دور دور سے قریبی آتے ہیں،ملاقات کے لیے درخواست دیتے ہیں، داروغہ یانائب سر پھیر دیتا ہے کہ ابھی تھوڑا عرصہ ہوا، اس کی ملاقات مشکل ہے کیونکہ ابھی تین مہینے پورے نہیں ہوئے۔ یا یہ عذر ہوتا ہے کہ ابھی تھوڑا عرصہ ہواکہ اس کی ملاقات ہوچکی ہے۔ بیچارے رشتہ دار دس بیس روپے کرایہ دے کرسفر کی صعوبت اٹھا کر آتے ہیں۔ ملاقات سے انکار سن کر پریشان ہو جاتے ہیں۔ داروغہ کا اردلی یا نگران کار قیدی کو آ کر سمجھا جاتا ہے۔ آپ شریف آدمی ہیں اتنی تکلیف کر کے آئے ہیں دیکھو میں کچھ بندوبست کر دیتا ہوں،فکر نہ کرو۔ مگرتم جانتے ہوکہ دنیامیں لیے دیے کے بغیرکام نہیں ہوتا۔ دو روپیہ ملاقات کا نذرانہ تو عام ہے…… خاص حالتوں میں۱۵-۱۰ روپیہ بہرِ ملاقات حاصل کیے جاتے ہیں۔ دن میں بیسیوں ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ ملاقات کرنے والے ملازم کا تو خیر…… ہر روز قیدی اردلی کاگلا بھر بھر کرمنہ کو آتا ہے۔
گونا:
گلا بھر بھر کر منہ کو آنا جیل کا نیا محاورہ ہے۔ یہ سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک یہ نہ بتا دیا جائے کہ قیدی ہمیشہ روپیہ پیسہ گلے (حلق) کے اندر محفوظ رکھتاہے جس کوگوناکہتے ہیں۔ چونکہ تلاشی کا ہر وقت احتمال رہتا ہے اس لیے روپیہ پیسہ اپنے پاس رکھنا نا ممکن ہے اور روپیہ پیسہ کو بغیر پانی کی طرح بہانے کے یہاں زیست مشکل ہے۔ اس لیے کسی نہ کسی جگہ رکھنا ضروری ہے۔ بعض بیوقوف اناڑی قیدی خوف تلاشی سے عضو تناسل کے ساتھ روپیہ باندھ لیتے ہیں اور بعض سرین میں دے لیتے ہیں۔ مگر انہیں جلد ی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ محفوظ جگہ نہیں۔ تلاشی لینے والے ملازم ہمیشہ انہی مقامات کو آ کر ٹٹولتے اور ٹانگوں کو چوڑا کر کے دیکھتے ہیں۔ اس لیے قید خانہ کے مسلسل تجربہ نے انہیں بتا دیا ہے کہ حلق ہی ایسی جگہ ہے۔ جہاں روپیہ حفاظت سے رکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اول سکہ کی گولی بنائی جاتی ہے۔ اور چونہ پیاز وغیرہ کی آمیزش کر کے ململ کے ٹکڑہ پر لگا کر اسے سکہ کی گولی پر چپکا دیا جاتا ہے۔ اوراس گولی کودھاگے سے باندھ کرحلق میں ایک طرف لٹکا کر دھاگا دانتوں میں دبائے رکھتے ہیں۔ چونہ او ر پیاز کا تیزابی اثر ظاہر ہوتا ہے۔ وہ نازک ریشوں کو کاٹ کر حلق میں گولی کی شکل کا گڑھا سا بنا دیتا ہے۔ اول اول تو قیدی کو کھانے پینے میں بھی تکلیف ہوتی ہے، اکثر قے ہوتی ہے۔ مگر پھر جلد ی ہی زخم مندمل ہو جاتا ہے۔ اس گڑھے کو جو حلق میں بن جاتا ہے، قیدی گونا کہتے ہیں۔ بعض قیدی اس کو اتنا گہرا بنا لیتے ہیں کہ کئی کئی روپے اس میں رکھے جا سکتے ہیں۔ اگر قیدی کے پاس روپے زیادہ ہوں تو وہ روپے کے پونڈخریدلیتاہے۔
آپ دریافت کریں گے کہ قیدی روپے کے پونڈ اندر کس طرح لاتا ہے۔ اس کا بیان چنداں مشکل نہیں، جس طرح روپیہ پر ۲ آنے محصول دے کر اشیائے خوردنی منگوائی جاتی ہیں۔ اسی طرح روپیہ بھی ورثا سے منگوایاجاتاہے۔ اگر اس سے زیادہ لالچ ملازموں کو دیا جائے تو وہ خود ہی قیدی کے پتہ دینے پر اس کے وارثوں سے خط وکتابت کرتے ہیں یا قیدی سے خط یا کوئی نشان لے کر یہ وارثوں کو بھیج دیتے ہیں اگر قیدی کواشد ضرورت ہو اور ملازم کے لیے اور زیادہ کشش پیدا کر دی جائے تووہ خود چھٹی لے کر جاتا ہے۔ یا اپنے کسی تعلق دار کو بھیج کر قیدی کے عزیز و اقارب سے روپیہ منگوانے کا بندوبست کر دیتا ہے۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ملازم کی نیت بدل جاتی ہے۔ وہ قیدی کے اقربا سے تو رقم وصول کر لیتا ہے۔ مگر حقدار قیدی کو نہیں پہنچاتا۔ بہر حال یہ معاملہ ملازم کے رحم وکرم پر ہوتا ہے، کیونکہ آخر ملازم ہی تو ایک ذریعہ ہے۔ جیل میں روپیہ آنے کی اور کوئی دوسری صورت نہیں ہوتی۔ مزے کی اور بات یہ ہے کہ اگرپونڈشرح تبادلہ ہے۔ اور پونڈ بھیج کر باہر سے روپے منگوانے ہوں تو ۱۵ روپے کی بجائے ۱۲ روپے دیے جاتے ہیں۔
گونے میں روپے پونڈ نہایت حزم واحتیاط سے ڈالے جاتے ہیں۔ ورنہ بعض دفعہ غفلت سے ایسا بھی ہوتا ہے کہ پونڈ بجائے گونے کے پیٹ میں چلے جاتے ہیں۔ پھر ہر صبح پاخانہ دیکھنا پڑتا ہے اکثر قیدی کو جلاب لینے پڑتے ہیں تب جا کر کہیں مشکل کشائی ہوتی ہے گونے سے روپیہ پیسہ کھانا کھاتے وقت نکالنا پڑتا ہے۔ اس وقت خاص تکلیف ہوتی ہے جب کھاناکھاتے وقت افسر سر پر موجود ہوں۔ کیونکہ روپے کی ضبطی اور سزا کے خوف کی وجہ سے گونا سے مال نکالنے کی جرات نہیں ہوتی۔ چناچہ کھانا نہایت حزم واحتیاط سے آہستہ آہستہ او ر ایک طر ف سے نگلنا پڑتا ہے۔ ورنہ لقمہ کے ساتھ ہی مال کا بھی ڈکار بھر جاتا ہے۔
جیل اور رازداری کا پردہ:
رشوت کی گرم بازاری اور تشد دکے ناقابل انکار واقعات کے باوجود جیل کے حالات سے ملک نا واقف ہے۔ واقعات و حالات جیل کو پردۂ اخفا میں رکھنے کی جو سرکاری طور سے کوشش ہوتی ہے وہ نہایت قابل ملامت ہے۔ جیل کے رازہائے دلگداز کوقانونی طورسے سربستہ کیا گیا ہے۔ اعلی سے لے کر ادنی ملازم جیل تک، ہر کوئی اسی میں اپنی خیر سمجھتا ہے کہ قیدیوں کا اند رونی درد دکھ باہر ان کے احباب تک نہ پہنچ سکے۔ جیل میں قیدیوں کی خط و کتابت پر ایسی پابندیاں لگا دی گئی ہیں کہ حق رسی کی توقع تو در کنار…… موقع مناسب پر خیر و عافیت کی خبر ملنی بھی مشکل ہوتی ہے۔ بد ترین قسم کے مظالم یا انتظامی خرابی کے حالات روشنی میں لانے کی کوئی صورت نہیں۔ وزیٹر بلا وساطت و موجودگی ٔداروغۂ جیل کسی قیدی سے نہیں مل سکتا۔ قیدیوں کی درد وتکلیف کی داستان سننے اور آزادانہ طورسے تحقیق کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ جیل کے متعلق اس رازداری کی غرض مضمرکے متعلق کیا کہا جائے۔ حالانکہ اس محکمہ کے تمام اندرونی حالات سے پبلک کو زیادہ واقف بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔
محکمہ پولیس نامی چو ر کی طرح ہے اور محکمہ جیل بگلے بھگت کی طرح کنارۂ عافیت پربیٹھا قیدیوں کو…… جو ان کے گھڑے کی مچھلیاں ہیں…… بے غل و غش کھا رہا ہے۔ میں محکمہ پولیس کے اعمال کی صفائی پیش نہیں کرتا، بلکہ پولیس اور جیل دونوں پر لعنت بھیجتا ہوں۔ تا ہم بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ افسران جیل کا نامۂ اعمال ملازمان پولیس سے زیادہ سیاہ اور بیکسوں کے خون کے چھینٹوں سے ان کا دامن زیادہ داغدار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پولیس کا جبر و قہر آزادوں پر ٹوٹتا ہے۔ جس کی شنوائی خواہ دربار سرکار میں نہ ہو مگراس کی زاری سے فضائے ملک گونج اٹھتی ہے۔ جیل میں ظلم کی بجلی اور ستم کے آرے ان پرچلتے ہیں جوپابند اور زبان بند ہوتے ہیں۔ (جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.