احمد ندیم قاسمی مرحوم
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ ترے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایا تیرا
ایک بار اور بھی طیبہ سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ تیرا
اب بھی ظلمت فروشوں کو گلہ ہے تجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا
مشرق و مغرب میں بکھرے ہوئے گلزاروں کو
نِکہتیں بانٹتا ہے آج بھی صحرا تیرا
پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیرا کرم ہے
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا