مولانامفتی محمد منصور احمد زید مجدہ
کسی بھی نظام تعلیم کامیابی کیلیے معلّم کاکردار ‘ریڑھ کی ہڈی سے زیادہاہمیت کاحامل ہے اور کسی بھی معاشرے میں معلم کی اہمیت وعظمت ایک مسلمہ امرہے۔ اس موضوع پربہت کچھ لکھاگیاہے اور جب تک اس دنیامیں تعلیم و تعلیم کاسلسلہ رواں دواں ہے ‘اس پرلکھاجاتارہے گا ماضی قریب میں مصرکے عظیم شاعرامیرالشعراء احمد شوقی (1868ء /1932ء)نے معلم کے احترام ومقام پرایک شہرۂ آفاق قصیدہ کہا‘جس کے ابتدائی تین اشعار قابلِ ملاحظہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
قُم للمعلّم وفّہِ التبجیلا کادالمعلّم ان یکون رسولاً
اعلمت اشرف اواجلّ من الذی یبنی وینشئی اٗنفساً و عقولا
سبحانک اﷲم خیر معلّم علمت بالقلم القرون الاٗولیٰ
(معلم کے احترام میں کھڑے ہوجائیں اوراس کوپوری تعظیم دیں۔ معلم کامقام تویہ ہے کہ وہ(نسلوں کے درمیان) قاصد اور سفیربن سکتاہے۔ کیا آپ اُس سے زیادہ عزت و عظمت کاحق دار کسی کوسمجھتے ہیں۔ جو انسانوں کو بناتا ہے او ر عقل کوپردان چڑھاتاہے۔ اے اﷲ !آپ ہی سب سے بہتر ین معلم ہیں کہ آ پ نے پہلے زمانے والوں کو ’’قلم‘‘ کے ذریعے علم سکھایا۔ ( یہ قرآن مجیدکی آیت ’’علّم بالقلم ‘‘کی طرف اشارہ ہے)۔
اس موقع پرزیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ معلم کاکردار جتنااہم اور مقام جتنابلندہے ‘اتناہی یہ منصب نازک اور حساس بھی ہے۔ مسلمانوں کاماضی گواہ ہے کہ جن معلمین میں خودخدا تر سی‘فکرِآخرت ‘اتباع سنت اور مزاج شنا سی جیسی اعلیٰ صفات تھیں‘ان کی درسگاہ سے اٹھنے والاہرشاگرد آسمان علم و فضل کا آفتاب و ماہتاب بن کرچمکااور مسلم معاشر ے نے انہیں ہمیشہ قد رکی نگاہ سے دیکھا۔
آپ حضر ت امام ابوحنیفہ اور ان کے گر د پھیلی ہو ئی تلامذہ کی کہکشاں کودیکھ لیں۔ حضر ت قاضی ابویوسف ؒ، امام محمدبن حسنؒ، امام زفربن ہذیلؒامام عبد اﷲ بن مبارک ؒ،امام حسن بن زیادؒ،اور ایسے درجنوں عظیم نام ہیں جوآ ج بھی تاریخ کے صفحات میں جگمگارہے ہیں۔ ایسالگتاہے کہ امام عالی مقام ابو حنیفہ نعمان بن ثابتؒکی نظرکیمیاء اثرجس پرپڑتی گئی،جس نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرلیے اور جسے تقدیرالٰہی نے آپکی مجلس تک پہنچادیا، وہ خو دزمانے کامقتد اء راہنمااور امام بن گیا۔
اسی طرح آپ قریبی دور میں حضر ت شیخ الہندمولانامحمو د حسنؒ کے تلا مذہ کی فہرست پر ایک نظرڈالیں تو یہاں آپ حضر ت حکیم الامت مولانامحمداشرف علی تھانویؒجیسے صاحب بصیر ت، شیخ الاسلام مولانا سیدحسین احمدمدنی ؒجیسے مجاہدانہ جذبات کے حامل،مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اﷲ دہلویؒجیسے فقیہ، شیخ الاسلام مولاناشبیراحمد عثمانی ؒجیسے مفسر ِقرآن اورامام العصرمولانامحمد انور شاہ کشمیری ؒ جیسے عظیم محدث سب ایک ہی صف میں بیٹھے نظر آئیں گے۔ یہ معلوم ہی ہوتاہے جوزمین پر پھیلے ہوئے لاکھوں پتھر وں میں سے کسی ہیر ے کو اٹھاتاہے اور پھراس کی تراش خراش کر کے جب اُسے زمانے کے سامنے پیش کرتاہے تو اس چکاچو ند روشنی سے ایک دنیا منو ر ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر خد ا نخو استہ معلم ہی خو ف خداسے خالی اور فکر آخر ت سے عاری ہو جائے وہ اپنے فرائض سے عافل اور احساس ذمہ داری سے بے پرواہ ہوجائے اُس میں اخلاص نیت اور پیشہ دار انہ صفات کافقد ان ہوجائے تواس کے ہاتھوں سے قوم کی نئی نسل کوتباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا۔
معلم کے مقام کی اسی نزاکت کے پیش نظر قدیم وجدید بہت سے اکابرملت نے معلم کواس کے فرائض کا احساس دلانے کیلیے قلم اٹھایاہے اور یوں اس موضوع پر بہت سی قیمتی اور اہم کتابیں وجود میں آئی ہیں۔ مشہورمحدث او ر شافعی فقیہ شیخ الاسلام قاضی بد ر الدین بن جماعۃ رحمتہ اﷲ علیہ(۶۳۹ھ تا۷۳۳ھ)کی شہرۂ آفاق کتاب ’’تذکرۃ السامع والمتکلم فی آداب العالم والمتعلم‘‘بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ آپ کی علمی حیثیت کے تعارف کے لیے اتناکہناکافی ہے کہ امام ذہبی ؒ،امام تاج الدین سبکیؒ،امام ابن کثیرؒجیسے نام آپ کے شاگردوں کی فہرست میں آتے ہیں۔ آپ کے شاگردا مام سبکی ؒنے تو بہت بلند پایہ الفاظ سے اپنے استاذکی تحسین کی ہے۔ وہ ’’ طبقات الشافعیۃ الکبری‘‘میں لکھتے ہیں:
’’شیخنا قاضی القضاۃ بدر الدین محمد بن ابراہیم بن جماعۃ الکنانی الشافعی، حاکم الاقلیمین مصراً وشاماً وناظم عقد الفخار لایسامی، متحل بالعفاف، متخلّ الا عن مقدارالکفاف، محدث فقید، ذوعقل، لایقوم اساطین الحکما بماجمع فیہ‘‘
(ہمارے استاذ قاضی القضاۃ بدر الدین محمد بن إبراہیم بن جماعۃ الکنانی الشافعی، دو ممالک مصر اور شام کے حاکم، قابل افتخار باتوں کے ہار پرونے والے، جن کے برابر کوئی نہیں ہوا، عفت و پاکدامنی سے مزین، سوائے شدید ضرورت کے دنیا سے بے رغبت اور زاہد، بے مثل محدث، ایسی مضبوط عقل والے کے بڑے بڑے فلاسفہ جس کی جمع آوری پر قادر نہ ہوں)
ان قاضی بد رالدین ابن جماعہ کی شہرۂ آفاق کتاب’’تذکرۃ السامع والمتکلم فی ادب العالم والمتعلم‘‘ کے دوسرے با ب میں اساتذہ کیلیے بیان کیے گئے انتہائی اہم اور قیمتی آداب کاخلاصہ پیش خدمت ہے۔ یہ آداب تین طرح کے ہیں۔
قسم اول:
سب سے پہلے عا لم یعنی استادکے ذاتی اوصاف و آداب اوریہ کل بارہ ہیں:
(۱) …… تنہائی میں اور سب کے سا منے (خلوت و جلوت میں) ہمیشہ اﷲ تعالیٰ کادھیان رکھے۔ اپنی تمام حرکات وساکنات اور اپنے تمام اقوال وافعال میں اﷲ تعالیٰ کے خو ف کالحاظ رکھے۔
(۲)…… اپنے علم کو ذلت سے بچانے کااہتمام کرے جیسا کہ پہلے اہل علم نے کیا۔ اﷲ تعالیٰ نے علم کوجوعزت وحترام بخشاہے اس کی حفاظت کرے۔
(۳)…… دنیاکے بارے میں زہدوقناعت پسند ی عادت ڈالے۔ دنیاوی سازوسامان میں اس قدرکمی کرلے جس سے اس کواوراس کے گھروالوں کو تکلیف نہ پہنچے۔
(۴)…… اپنے علم کواس سے بچائے کہ اس کے ذریعے جاہ ومال،شہرت وناموری کوئی عہدہ یااپنے ہم عصروں پربرتر ی جیسی دنیا وی اغراض حاصل کرے۔
(۵)…… ایساپیشہ اختیار کرنے سے پرہیزکرے جسے طبعی طور پر گھٹیا سمجھاجاتاہو۔ یاشرعی اعتبار سے وہ کام ناپسند یدہ ہو۔
(۶)…… شعائراسلام اور ظاہری احکام کو پابندی سے اداکرے جیسے نماز با جماعت، سلام کو عام کرنا،نیکی کاحکم دینا، برائی سے روکنااور اس کے نتیجے میں آنے والی آزما وئشوں پرصبرکرنا۔
(۷)…… اسے چاہیے کہ شر عاجوکام مستحب ہیں ان کا بھی اہتمام کرے جیسا کہ قرآن مجید کی تلاوت،دل اورزبان سے اﷲ کاذکردن اور رات کی مسنوں دعائیں اور اذکارنقل نماز یں اور روزے نفل حج بیت اﷲ شریف اور بنی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پردرود شریف۔
(۸)…… اسے چاہیے کہ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے جیسے خندہ پیشانی،سلام کوعام کرنا،لوگوں کوکھانا کھلانا، غصہ کو پی جانا، اپنی طر ف سے کسی کوتکلیف نہ دینااو ر اگرکسی کی طر ف سے تکلیف پہنچے تو اسے برداشت کرلینا،جب کسی ایسے شخص کودیکھے طر یقے سے نماز نہیں پڑھتایاصحیح و ضو نہیں کرتاتواسے نرمی اور شفقت سے سمجھائے۔
(۹)…… اپنے باطن کواچھے اخلاق سے مزین کرے اور برے اخلاق سے پاک صاف رکھے۔ برے اخلاق میں سے چندیہ ہیں:کینہ، حسد، سر کشی، ذاتی وجوہات کی بناء پرغصہ ہونا، دھوکہ دہی، تکبر، دکھلاوا، خود پسندی، شہرت پسندی، بخل، خباثت نفس، حق بات ٹھکرادینا، لالچ اور دیگرایسے کئی برے اخلاق۔
اچھے اخلاق میں سے چندیہ ہیں:ـہمیشہ تو بہ کرنا، اخلاص، اﷲ تعالیٰ پریقین،توکل،صبر،رضا،قنا عت، تفویض، زہد، حسن ظن، شکر،مخلوق پر شفقت، ان سب اخلاق کی بنیاد اﷲ کی محبت ہے جو صرف رسول اﷲ علیہ وسلم کی پیروی سے ہی مل سکتی ہے۔
(۱۰)…… استادکو چاہیے کہ وہ ہمیشہ خو ب محنت سے اپنی عبادات وظائف وغیرہ اداکرتارہے اور اپنے مطالعہ غوروفکر حفظ، تصنیف اور بحث ومباحثہ میں اضافے کے لیے کوشش کرتارہے۔ اپنی عمرعزیز کاکوئی حصہ ضائع نہ کرے اور جودنیاوی ضروریات ہیں،ان کے حصول کے بعد جتنابھی وقت ملے اس کومفیدکاموں میں لگائے کیونکہ مومن کی عمرایسی چیز ہے جس کی قیمت نہیں لگائی جاسکتی۔
البتہ اپنی جان پرطاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے کہ بالاآخراکتاکراور تنگ آکرمفیدکاموں سے ہی پیچھے رہ جائے۔ ا س سلسلے میں اعتدال کواختیار کرناچاہیے اور ہرشخص اپنے حالات سے زیادہ آگاہ ہوتاہے۔
(۱۱)…… استا دکوچاہیے وہ نہیں جانتااس کوحاصل کرنے میں شرم سے کام نہ لے خواہ ایسے شخص سے ہی استفاد ہ کرناپڑے جواس سے منصب نسب یاعمرکے اعتبار سے کم ہو۔ حکمت کی بات تو مومن کی گمشدہ دولت ہے اسے جہاں سے بھی ملے وہ لے لیتاہے۔
(۱۲)…… اپنے اندر کمال اور اہلیت پید اکرنے کے بعد تصنیف وتالیف میں بھی مشغول رہے۔ اور اپنی تصنیف کردہ کتاب کوتب تک عام نہ کرے جب تک اس پراچھی طرح نظرثانی نہ کرلے۔
( 2)دوسر ے نمبر پر اساتذہ کیلیے وہ آداب ہیں جن کاتعلق ان کے درس سے ہے یہ آداب بھی کل بارہیں:
(۱)…… جب مجلس درس میں جانے کاارادہ ہوتو پہلے خو ب پاکی حاصل کرے صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرے اور اس میں استادکی نیت علم کی تعظیم اور شریعت کے احترام کی ہونی چاہیے پھراگر مکروہ وقت نہ ہوتو دو رکعات نماز استخارہ پڑھے اور اپنی نیت کواﷲ تعالیٰ کے احکام پہنچانے اورعلم میں اضافہ وغیرہ پرمرکوزرکھے۔
(۲)…… جب گھر سے نکلے تووہ دعاپڑھ لے جو صحیح احادیث میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اللّٰھم انی اَعُوْذُبِکَ مِنْ اَنْ اَضِلَّ او اُضَلَّ او اَزِلَّ او أُزَلَّ أو أَظلِمَ اوأُظلَمَ اوأجھَلَ او یُجْھَلَ علیَّ،عزَّ جارُک وجلَّ ثناء ک ولاالہ غیرک
پھریہ پڑھے:…… بِسْمِ ا للّٰہِ وَبِاللّٰہِ حَسْبِیَ اللّٰہُ تَوَکَّلُتُ عَلَی اللّٰہِ لَا حَوْلَ وَلَاقُوَّ ۃَ اِلّٰا بِاللّٰہِ الْعَلِیّٰ الْعَظِیْم، اللّٰھُمّ ثَبِّتْ جِنَانِیْ وَ اَجْرِیْ الْحَقَ عَلٰی لِسَانِیْ۔ مجلس درس میں پہنچے تک مسلسل اﷲ تعالیٰ کاذکرکرتارہے۔ جب وہاں پہنچے توحاضرین کوسلا م کرے اور اگرمکروہ وقت نہ ہوتو دورکعت نمازپڑھے پھراﷲ تعالیٰ سے خو ب توفیق اور مدد مانگے۔ مجلس میں اگر ممکن ہو سکے تو قبلہ رخ بیٹھے، وقاراور تو اضع اپنائے رکھے پھر خواہ چارزانوبیٹھے یاکسی بھی ایسے طریقے سے بیٹھے جوناپسندیدہ نہ ہو۔ بغیرکسی عذر کے اپنے پاؤں نہ پھیلائے اور نہ ہی اپنے دائیں بائیں یاپیچھے ٹیک لگائے۔ اپنے جسم کوبلاوجہ حرکات سے بچائے۔ اپنے ہاتھوں کوبے کار مصرو فیت اور آپس میں انگلیاں پھنسالینے سے بچائے۔ بغیر ضرورت کے باربار ادھراُدھر نہ دیکھے،زیادہ مذاق او ر ہنسنے سے پرہیز کرے،سخت بھوک یاپیاس غم اور غصہ نیند یاکسی بھی تکلیف د ہ حالت میں سبق نہ پڑھائے، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ ایسی حالت میں غلط فتویٰ دے بیٹھے۔
(۳)…… مجلس درس میں ایسے بیٹھے کہ سب کونظرآئے۔ جولوگ علم،عمریااعزازکے اعتبار سے بڑے ہوں ان کی تعظیم کرے اور باقی لوگوں کے ساتھ بھی احترام سے پیش آئے،سب لوگوں کی طرف اعتدال سے متوجہ رہے البتہ جب کسی کو کوئی خاص بات کہنی ہویا اس سے سوال جواب کرناہوتو پھراسی کی طرف متوجہ رہے اور متکبرین کے طور طریقو ں سے بچے۔
(۴)…… سبق شروع کرنے سے پہلے تبرک کے طور پرکچھ قرآن مجیدپڑھ لے اور اس کے بعد اپنے لیے حاضرین کے لیے اور تمام مسلمانوں کیلیے دعا کرے۔ البتہ اگرمدرسہ میں کوئی اور ضابطہ ہو تو پھراس کی پابندی کرے پھر’’اعوذ بااﷲ، بسم اﷲ‘‘پڑھے۔ اﷲ تعالیٰ کی حمد اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پردرووسلام سے بات شروع کرے۔
(۵)…… جب کئی سبق پڑھانے ہوں توان میں ترتیب کالحا ظ رکھے۔ پہلے تفسیر قرآن پھرحدیث پھر اصول دین پھر فقہ پھر فقہی مذاہب اور پھر اختلافی مسائل پڑھائے۔ بعض علماء کرام اپنے سبق کوایسی نصیحتوں پرختم فرماتے تھے جوحاضرین کو فائد ہ دیں۔ اس بارے میں بھی اگرمدرسے کاضابطہ مختلف ہو تو اس کی پیروی کرے۔ سبق میں جوبات مسلسل ہوااس کوایک ساتھ ہی بیان کرے۔ اور جہاں وقف کرنامناسب ہووہاں ہی بات کو منقطع کرے۔
اپنے سبق میں دین کے بارے میں کوئی شبہ اس طرح نہ ذکرکرے کہ اس کے جواب کوموخر کردے۔ خاص طور پرجب سبق میں عوام اور خواص سب قسم کے لوگ ہوں۔ کیونکہ اس سے بڑی خرابی پیش آسکتی ہے۔ سبق میں نہ تو زیادہ طوالت سے حاضرین اکتاجائیں اور نہ ہی اتنااختصار کرے کہ بات سمجھنا مشکل ہوجائے جس مقام پرجیسے ضرروت اور مصلحت ہواتنی ہی گفتگو کرے۔
(۶)…… استاد کوچاہیے کہ وہ اپنی آواز کونہ تو ضرورت سے زائد بلندکرے اور نہ ہی اتناآہستہ آواز سے بولے کہ جس سے سامعین صحیح فائد ہ نہ اٹھاسکیں۔ بہتریہ ہے کہ استاد کی آواز مجلس درس سے باہر بھی نہ جائے اور حاضرین کو سننے میں مشکل بھی پیش نہ آئے۔ استاد کوچاہیے کہ پوری بات شروع سے آخرتک ایک ساتھ ہی نہ کہہ ڈالے بلکہ ٹھہرٹھہر کرتر تیب سے باتوں کے درمیان وقفہ کرکے کہے تاکہ وہ خود بھی اور سامعین بھی اس بات پرغور کرسکیں۔ جب کہ مسئلہ کوبیان کرنے سے فارغ ہوتو معمولی سی خاموشی اختیار کرے تاکہ اگرکسی نے کوئی بات پوچھنی ہوتو پوچھے۔
(۸)……استاد کو چاہیے کہ جوشخص بحث میں حدود سے تجاوزکرے یاجھگڑے پرآمادہ ہویابے ادبی سے پیش آئے یابغیر فائدے کے بلندآواز سے بولے یااپنے سے بڑوں کی بے ادبی کرے یاحاضرین میں سے کسی کا مذاق اڑائے اور مجلس کے ماحول کوخراب کرے تو اسے سلیقے سے ڈانٹ ڈپٹ کرے البتہ اس بات کاخیال رکھے کہ اس تنبیہ سے کوئی ایسی خرابی نہ پیش آجائے جوپہلے سے زیادہ بڑی ہو۔ یہ بھی مناسب ہے کہ درسگاہ میں ایک سمجھدارنگران ہوجوحاضرین کوتر تیب سے بٹھائے،سونے والے کوجگاے او رسب کی توجہ درس کی طرف کرواتارہے۔
(۹)…… استا د کو اپنی بحث اور سبق میں انصاف کادامن پکڑے رکھناچاہیے اوراگرکوئی چھوٹابھی سوال کرے تو اس کوجواب دینے سے احترازنہ کرے،اگرسائل اپنی بات پوری طرح نہ کہہ سکتاہوتو پہلے اس کواس کاسوال سمجھادے اور پھرخود یاکسی دوسرے سے اس کامناسب جواب بیان کروادے۔
جب استاد سے کوئی ایسی بات پوچھی جائے جواسے معلوم نہ ہوتو صاف کہہ دے کہ مجھے معلوم نہیں کیونکہ ’’لا اعلم‘‘ اور ’’لا ادری‘‘ کہنابھی علم کاحصہ ہے اوراس سے استاد کی عزت میں اضافہ ہی ہوتاہے، اس سے استاد کی شان میں کوئی کمی نہیں آتی جیساکہ بعض جاہل لوگ سمجھتے ہیں۔
(۱۰)…… مجلس درس میں کوئی اجنبی طالبعلم آجائے تو خندہ پیشانی سے اس کااستقبال کرے اور اس کو اس طرح نہ گھورے کہ وہ اپنی اجنبیت کی وجہ سے استفادہ سے محروم ہوجائے۔ کہیں اگر ضرورت محسوس کرے تو پورے مسئلے کودوبارہ بھی بیان کرسکتاہے۔ یا اس کا خلاصہ بیان کردے۔ مجلس درس کاوقت مقرر کرنے میں طلباء کرام کی رعایت کرے اوران کوایسے وقت جمع ہو نے پرمجبور نہ کرے کہ جس سے ان کے لیے سخت مشکل پیش آئے یاوہ درس میں یکسو ئی سے محروم ہوجائیں۔
(۱۱)…… سبق کے ختتام پرکوئی ایسا جملہ کہہ دے جس سے حاضرین کوختم ہونیک کاواضح طورپرپتہ چل جا ئے اور پھراﷲ تعالیٰ کے ذکرکی نیت سے ’’واللّٰہُ اَعْلَمُ‘‘ بھی کہہ دے۔ استاد کو چاہیے کہ وہ حاضرین کے اٹھنے کے بعد رخصت ہو۔ تاکہ اگر کسی نے کوئی سوال علیحدگی میں پوچھناہوتوو ہ بھی پوچھ سکے۔ جب مجلس کے اختتام پر اٹھے تو یہ مسنون دعاپڑھ لینابھی مستحب ہے:’’سُبْحاَنَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ لَا اِلہْ اِلّٰااَنْتَ اَسْتَغْفِرُ کَ وَاَتُوْبُ اِلَیْک‘‘َ
(۱۲)……کبھی بھی وہ سبق نہ پڑھائے جس کاوہ اہل نہ ہوااورا س کے بارے میں نہ جانتاہو۔ چونکہ اس میں دین کی سخت تحقیرہے۔
(۳)تیسرے قسم کے آداب وہ ہیں جن کااستاد کواپنے طلباء کرام کے بارے میں خیال رکھناچاہیے یہ کل چودہ (۱۴) آداب ہیں:
(۱)…… طلباء کی تعلیم سے استاد کی نیت صرف اﷲ تعالیٰ کی رضا،علم کی نشرو اشاعت، تبلیغ دین،اظہارحق اور ابطال باطل کی ہونی چاہیے اور یہ ارادہ ہوکہ علماء کرام کی کثرت سے امت میں خیر رہے گی اور ان کے ثواب میں اور دعاؤں میں میرابھی حصہ ہوگا۔ اسی طرح علم کاوہ مبارک سلسلہ جورسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے شروع ہواہے اس میں،میں بھی شامل ہوجاؤں گا۔
(۲)…… استاد کوچاہیے کہ وہ طلباء کرام کو آہستہ آہستہ حسن نیت پرابھارتارہے۔ لیکن کسی طالبعلم کو صرف اس وجہ سے علم سے محروم نہ کرے کہ اس کی نیت درسست نہیں ہے۔ کیونکہ علم کی برکت سے امیدہے کہااس کی نیت بھی اچھی ہوجائے۔
(۳)…… اپنے طلباء کرام کو علم او ر علماء کے فضائل او ر ان کوملنے والے انعامات یادولاتارہے اور وارث پیغمبر ہونے کاعظیم منصب بھی انہیں بتاتارہے کہ انہیں تحصیل علم میں ذوق وشوق حاصل ہواور اس راستے میں آنے والی تکالیف کاوہ سامناکرسکیں۔
(۴)…… استاد کوچاہیے کہ وہ اپنے طالبعلم کیلیے وہی بات پسندکرے جو اپنے لیے کرتاہے اور جس بات کواپنے لیے ناپسند کرتاہے اس کوطالبعلم کیلیے بھی ناپسند کرے۔
اپنے طلباء کرام کے مصالح کاخیال رکھے اور اپنی اولادکی طرح ان سے شفقت کابرتاؤ کرے۔ اور ان کی غلطیوں سے صبر کا معاملہ کرے۔ جوطالبعلم ذہین ہوں ان کی تر بیت کیلیے اشارہ اور کٹائے سے کام لے لیکن جو طالبعلم اس سے نہ سمجھے تواس کووضاحت سے تربیتی امورسمجھائے۔
(۵)…… اپنے شاگردکے سامنے علمی بات کوایساپیش کرے کہ و ہ آسانی سے سمجھ سکے اور سیکھ سکے۔ طالبعلم جس علم کااہل ہوتو اس کے سکھانے میں بخل سے کام نہ لے ورنہ ا س کادل ٹوٹ جائے گااوروہ استفادہ سے محروم ہوجائے گا۔ جوطالبعلم کسی علم کااہل نہ ہوتو وہ اسے ہرگزنہ سکھائے۔ بلکہ اسے ایسے امورکی طر ف متوجہ کرے جس کے ذریعے وہ رفتہ رفتہ اس علم کے حصول کااہل بن جائے۔
(۶)…… طلباء کوتعلیم دینے میں خوب محنت سے کام لے لیکن اتنی باراپنی بات کونہ دھرائے کہ وہ بوجھ بن جائے۔ پہلے مسئلہ کی صورت اور عملی شکل کو بیان کرے پھرمثالوں سے اس کوواضح کرے۔ جوطالبعلم دلائل سمجھنے کااہل ہواس کے سامنے مسائل کاماخذ اور دلائل بھی بیان کرے۔ ورنہ صرف مسئلہ کوبیان کرنے پراکتفاء کرے۔ اختلافی مسائل کوبیا ن کرتے وقت علماء میں سے کسی کی تنقیص کرنے سے بچے۔ سبق میں جہاں تصر یح کی ضرورت ہووہاں بات کوخو ب واضح کرے اورجہاں اشارہ وکنایہ مفیدو مناسب ہوتواسے استعمال کرے۔
(۷)…… جب استاددرس مکمل کرچکے تواس کوئی حرج نہیں کہ طلبہ کے امتحان کی غرض سے ا ن سے مختلف سوالات پوچھے استاد کوجب تک یہ یقین نہ ہوکہ طالبعلم بات سمجھ گیاہے تب تک اس سے یہ نہ پوچھے کہ’’تم سمجھ گئے ہو‘‘؟کیونکہ ممکن ہے کہ وہ شرم کی وجہ سے ’’ہاں‘‘ میں جواب دے دے۔ حالانکہ وہ بات صحیح طرح سمجھانہ ہو۔ استاد کوچاہیے کہ وہ اپنے طلبہ کوسبق میں پابندی سے شرکت کاحکم دے اور سبق کے بعد ان کوباہمی طور پرسبق کے تکرار کابھی حکم دے تاکہ مسائل ان کے ذہن نشین ہوجائیں اورخود بھی ان پرغورو فکرکرسکیں۔
(۸)…… استاد کوچاہیے کہ وہ قتاًفاقتاً اپنے طلبہ سے گزشتہ اسباق بھی سنتارہے اوران کے حافظے کاامتحان لیتا رہے، جو طالبعلم امتحان میں صحیح جواب دے اوراس سے خو د پسندی میں مبتلا ہونے کااندیشہ نہ ہوتو اس کی خو ب حوصلہ افزائی کرے تاکہ وہ مزیدمحنت کرسکے، ایسا طالبعلم کہ امتحان سے اس کی کوتاہی ثابت ہوجائے تواس پر صرف اتنی سختی کرے جس سے اس کوتحصیل علم میں نشاط حاصل ہوجائے اور وہ راست پرآجائے ۔
(۹) …… اگر استاد طالبعلم کودیکھنے کہ وہ اپنی ہمت سے بہت زیادہ بڑھ کرکام کررہاہے تواس کوضرورسمجھائے کہ اس سے بجائے فائدہ کے الٹانقصان ہوسکتاہے۔ اسی طرح اگرستاد، طالبعلم میں اکتاہٹ، سستی یابلاوجہ تھکاوٹ دیکھے تو بھی ا س کو نصیحت کرے۔ طالبعلم کوکبھی ایسی کتاب یاایساسبق پڑھنے کامشورہ نہ دے جواس کی سمجھ سے بالاتر ہو۔ اس لیے مبتدی طلبہ کوہرفن کی آسان ترین کتاب پڑھائے۔ البتہ جب اس میں قابلیت پید اہوجائے تو پھراس کے مناسب کتاب تجویز کرے۔
(۱۰)…… ہرفن کے ایسے اصول جوہمیشہ کام آتے ہیں،ان کوطلبہ کوسامنے ضرور بیان کرے۔ اسی طرح صحابہ کرامؒمیں اہم شخصیات اور دیگر اہل علم سے معروف حضرات کے نام اور حالات طلبہ کوسکھائے۔ استاد کو چاہیے کہ اگر کسی طالبعلم کوآگے بڑھتے ہوئے دیکھے یااس کے فضائل میں ترقی دیکھے تواس کاراستہ نہ روکے کیونکہ شاگردوں کے فضائل کادنیاوی اور اخرو ی فائدہ استادہی کوملتاہے۔
(۱۱)…… ا ستادکوچاہیے کہ جو طالبعلم صفات میں برابر ہوں ان میں سے کسی دوسرے پرجیح نہ دے ورنہ دیگر طلبہ اس سے وحشت کھانے لگیں گے۔ البتہ اگرکسی سے کوئی امتیاز ی برتاؤکرناہوتو اس کی وجوہات سب کے سامنے بیان کردے تاکہ سب کے دل آپس میں اور استاد کے ساتھ بھی جڑے رہیں۔
(۱۲)…… طلبہ کے حالات کی نگرانی کرنااستاد کی ذمہ داری ہے۔ جوطالبعلم کسی بدعملی یابے ادبی کاشکار ہوتو ابتداء میں استاد کوچاہیے کہ وہ اسے متعین کیے بغیر سب کے سامنے نصیحت کرے۔ اگروہ اس سے بازنہ آئے تو اسے تنہائی میں بلاکرسمجھائے،پھربھی اگروہ بازہ نہ آئے تو اعلانیہ اس پرنکیر کرے اور اس کوسخت الفاظ میں سمجھائے تکہ وہ اپنی بری عادات سے بازآجائے۔ اگر وہ پھربھی بازنہیں آتاتواس میں کوئی حرج نہیں کہ ا ستاداسے حلقہ در س سے نکال دے۔ خاص طورپر اس صورت میں کہ جب یہ ڈرہوکہ دوسرے طلبہ بھی برائیوں میں مبتلاہوجائے گے۔ استاد کوچاہیے کہ وہ طلبہ کوآپس میں بھی حسن سلوک کے ساتھ رہنے کے طریقے سمجھائے اوران کی کڑی نگرانی کرے۔
(۱۳)…… استاد کوچاہیے کہ وہ طلبہ کی مصلحتوں کوپوراکرنے میں اپنی جاہ ومال میں سے جوکچھ کرسکتاہے اس میں کمی نہ کرے۔ جب عام مسلمان کی مدد کرنے کے بے شمار فضائل ہیں۔ توعلم حاصل کرنے میں تعاون کی نیت سے کسی کی مدد کرناتو بہتر ین عبادت ہے۔ جب کوئی طالبعلم مجلس سے غائب ہوتو اس کے بارے میں ضرور پوچھے اگروہ بیمارہوتو اس کی عیادت کرے اگراسے کوئی اورضرورت ور پیش ہوتو جہاں تک ہوسکے اس کی مدد کرے۔ استاد کوچاہیے کہ اپنے طلبہ کے لیے خوب دعائیں بھی مانگے تاکہ وہ اس کیلیے ذخیرہ آخرت ثابت ہوں۔
(۱۴)…… استاد کوچاہیے کہ وہ طالبعلم بلکہ دینی راہنمائی حاصل کرنے والے ہرشخص کے ساتھ ا نتہائی مہربانی اور تواضع کامعاملہ کرے بشر طیکہ وہ اﷲ تعالیٰ کے حقوق اوراستاد کے حقو ق کواداکرنے والاہو۔ استاد کوچاہیے کہ حاضرین کوصر ف ایسے نام اور کنیت سے پکارے جو انہیں اچھے لگتے ہو ں جب طلبہ آئیں تو ان کا استقبال کرے اوران کے ا ٓنے پراپنی خوشی کااظہار کرے۔ یہی رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وصیت ہے۔