سیدہ بنت وقار الحسن ہمدانی
سرکاری سکولوں کے تعلیمی نصاب کا ’’ارتقاء‘‘
شخصیت کی تشکیل میں تعلیم و تربیت دونوں کا مساوی کردار ہے۔ تعلیمی اداروں کے نصاب، ہمارے معاشرے کے آئندہ رجحانات کی وضاحت کرتے ہیں۔ نصاب سے حاصل ہونے والی تعلیم ہی طلبہ کو شخصی رجحانات و نظریات کا حامل بناتی ہے۔ بچپن کے نقوش کے اثرات گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں۔ اربابِ دانش کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے کہ پاکستانی سکولوں میں کیا پڑھایا جا رہا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گورنمنٹ کا مرتب کردہ نصاب اب پہلے سے کہیں بڑھ کر استعماری اقدار و روایات کا مبلغ بن گیا ہے۔ حتی کہ پرائمری سکول کی بالکل ابتدائی سطح پر بھی نصاب میں ایسی بہت سی چیزیں موجود ہیں جو اسلامی معاشرت سے انحراف اور آزادی کے عقیدے کی طرف بھرپور طریقے سے مائل کرتی ہیں۔
انگریزی کو وطن عزیز میں سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہونے کی بناء پر نصاب میں اُس کی شمولیت تو ضروری ہی ٹھہری۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ شاملِ نصاب انگریزی کی کتابیں زبان سکھانے کے علاوہ بھی بہت کچھ سکھا رہی ہیں۔ اربابِ فکر کو اس سب سے آگاہ رہنا چاہیے۔
دوسری جماعت کی انگریزی کتاب میں ” Working Hard “کے عنوان کے تحت ایثار کے جذبے کا خاتمہ سکھایا جا رہا ہے۔ Pollyنامی مرغی نے اپنی محنت اور صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے جب روٹی حاصل کر لی تو اب اس نے ساتھی جانوروں کی بھوک اور طلب محسوس کرتے ہوئے بھی ان کو کھانے میں شریک نہیں کیا۔ اسلامی نظریہ تو اس حدیث میں واضح ہے: ’’المؤمن یحب لأخیہ ما یحب لنفسہ‘‘(کہ مومن اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیے)
اسی طرح ساتھیوں کو راحت پہنچانے اور تکلیف سے بچانے کے لیے سنت مطہرہ تو ہمیں کچھ دوسری طرح کے اخلاقی احوال پیدا کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ مثلاً پڑوسیوں کا خیال، برادرانِ ملت کو اپنے جسد کا ٹکڑا سمجھنا، صدقات اور خیرات کے ذریعے سے لوگوں کی مدد کرنا، ایثار کرنا وغیرہ وغیرہ۔
لیکن یہاں اس کے متضاد رویے کا درس موجود ہے کہ
The cat , the dog and the cow wanted to eat the bread. Polly ate it herself.
(بلی، کتا اور گائے بھی روٹی کھانا چاہتے تھے لیکن پولی نے وہ ساری روٹی خود کھا لی)
تیسری جماعت کے بچوں کی انگریزی کتاب میں ہی آزادی، انسان پرستی، دنیا پرستی، اتباع مغرب، صنفی مساوات اور مادہ پرستی جیسے جاہلانہ نظریات بالجبر معصوم ذہنوں میں منتقل کیے جا رہا ہیں۔ شاملِ نصاب ایک سبق کا عنوان “Gender Equality”(مرد و عورت کی برابری)ہے۔اس عنوان سے ہی مشمولات کی مغرب آلود غلاظت کا جائزہ لگایا جا سکتا ہے۔
ایک اور سبق “Helping Others” (دوسروں کی مدد) کے عنوان کے ذیل میں عجیب کہانی ہے۔ خلاصہ یہ کہ اسماء نامی ایک بچی بالکل اکیلی سکول سے گھر واپس آتے ہوئے راستہ بھول جاتی ہے۔ 2اجنبی لڑکے اس کو پریشان دیکھتے ہیں، تو قریب آ کر نام پوچھتے ہیں اور اس کے ساتھ اس کا گھر ڈھونڈ کر پہنچا آتے ہیں۔ گھر پہنچنے پر والدین بہت خوش ہوتے ہیں اور اظہارِ تشکر بھی کرتے ہیں۔ اب اس سبق میں مرد و عورت کی مساوات کا بے تکا اظہار ہے۔ وہاں یہ امکان بھی موجود ہے کہ جو بچے”Her parents thanked the boys” (اسما کے والدین نے ا ن لڑکوں کا شکریہ ادا کیا) پڑھ کر بڑے ہوں گے، وہ کل کو یہ سوال تو نہایت طبعی اور سادہ انداز سے کریں گے کہ شریعت نے عمرہ و حج کے سفر میں عورتوں کے لیے محرم کے ساتھ ہونے کی شرط کیوں لگائی ہے؟۔ یا مثلاً مردوں کو اکیلے سفر کرنے کی اجازت کیوں ہے اور عورتوں کو کیوں نہیں ؟ دونوں میں کیا فرق ہے؟ اسلام کی یہ پابندی عورت کی آزادی میں خلل نہیں ڈالتی؟ یہ بچے جو اتنی کم عمری میں اکیلے سکول سے واپس آنے، راستہ بھول کر اجنبی لڑکوں کی رہنمائی قبول کرنے جیسی باتوں کو ابھی سے سیکھ رہے ہیں کل یہی کچھ بڑے ہو کرقرآن کی آیت ’’ وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ‘‘ (اپنے گھروں میں ٹھہری رہو) پر اعتراض اٹھائیں تو حیرت نہیں۔ اس لیے کہ ان کے نزدیک تو یہ صنفی مساوات، آزادی، ترقی جیسے عقائد سے انحراف ہوگا۔ وہ عقائد باطلہ جنھیں آج ہم خود اپنے بچوں کے لیے طبعی اور فطری بنا کر سکھا رہے ہیں۔ یہ نوجوان اسلامی نظریات سے باغی ہو کر سیکولر ازم اور لبرل ازم کے کفر و الحاد کی طرف قدم بڑھائیں تو یہ فطری نتیجہ ہو گا، کیونکہ انھوں نے بچپن سے ہی صنفی مساوات اور آزادی جیسے عقیدوں پر تعلیم حاصل کی تھی۔
چوتھی جماعت کا ایک شاملِ نصاب سبق “The Thief At The Market”بھی قابلِ ذکر ہے۔ عائشہ بھرے بازار میں ایک چور سے اپنی ماں کا تھیلا واپس لینے کے بعد پھل فروش سے ہاتھ ملاتی ہے اور ہر دکاندار سے اپنے اس اعتماد، جرأت و بہادری پر تحائف و تحسین وصول کرتی ہے، جس پر اس کی والدہ کہتی ہیں:
“I have naver felt more proud of you , my daughter”
(میری بیٹی مجھے تم پر بے انتہا فخر ہے)
یہ پڑھنے کے بعد کل ہماری نوجوان نسل ’’ وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ ‘‘ پر کیسے اعتراض نہ کرے؟ اور اگر جینڈر نیوٹرل رول کو فطری اور طبعی، اور صنفی امتیازات کو فرسودہ اور دقیانوسی قرار نہ دے تو اور کیا کہے؟
نتیجہ تو وہی ہو گا جو آج مثلاً کپڑے دھونے کے پاؤڈر کے اشتہار میں موجود الفاظ میں ہمارے سامنے ہے کہ عورت کا چار دیواری میں رہنا داغ ہے۔ ایسے میں بعض دینی رہنماؤں کا یہ کہنا کہ Arielکا بائیکاٹ کر دیں کتنا زیادہ غیر عملی اور کتنی شدت کے ساتھ شکست خوردہ حکمت عملی کا عکاس ہے؟
عائشہ بھرے بازار میں اپنی والدہ سے تعریفی کلمات سن کر جواب میں ہنستے ہوئے کہتی ہے:
“Please keep your bag safe next time. Being a hero is an exhausting work.”
(برائے مہربانی اگلی بار اپنا بیگ سنبھال کر رکھیے گا۔ ہیرو بننا ایک تھکا دینے والا کام ہے)۔
یہ تربیت حاصل کرنے کے بعد ایسے طلبہ بھلا حدیثِ مبارکہ ’’الجنۃ تحت اقدام الامہات‘‘ کا مطلب کیونکر سمجھیں گے؟ ان کے شعور میں تو عقیدۂ آزادی نے یہ بات بٹھا دی کہ ہیرو بنتے ہوئے بھی ذاتی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ یں۔ چلیں یہ تو ایک درجہ تھا۔ ستم یہ ہے کہ اس برتھ ڈے کی روداد میں در پیش ہونے والے تمام واقعات اپنی نہاد میں مغرب کی کلچرل پراڈکٹ اور وہاں کی ثقافتی سرگرمیاں ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت پاکستان کے بزر جمہروں کے زعم میں پاکستان کا پنا کوئی تہذیبی ورثہ نہیں ہے؟ کیا یہ اپنی ثقافتی تاریخ کواتنا مفلس سمجھتے ہیں کہ آٹھ نو برس کی عمر کے بچوں کو ابھی سے انگریزوں کی اتباع پر اٹھانا بڑھانا چاہتے ہیں۔ حدیثِ مبارکہ ’’من تشبَّہ بقوم فہو منہم‘‘ (جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے انھی میں سے ہوتا ہے) کے مطابق ہمیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ صدحیف “Maryam’s Tenth Birthday” “پڑھنے کے بعد بچے پارٹی کلچر سے ایسے ہی مانوس ہوں گے جیسے کبھی ہمارے اسلاف عبادت رب، اطاعت حق، اتباع سنت اور اعلائے کلمۃ اﷲ کی جد و جہد سے اپنے پورے وجود کے ساتھ مانوس اور متعلق تھے۔
اسی طرح مطالعۂ پاکستان میں اورنگزیب کا تعاف یوں بیان کیا گیا ہے کہ جیسے وہ ایک جابر حکمران تھا، جس نے اپنے بھائی کو دانستہ اقتدار کے حصول کے لیے قتل کیا اور میدانِ جنگ کے احوال کو صریحاً غلط انداز میں پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ اورنگزیب نے اپنے باپ کی بھی خوب تذلیل کی۔ حقائق یہ کہتے ہیں کہ اورنگ زیب مسلمان بادشاہوں میں سے ایک صاحب عزیمت بادشاہ تھا۔ اس کے سوانح و واقعات بہت شاندار ہیں۔ اور وہ اپنے بد ترین احوال میں بھی ہمارے زمانے کی سب سے بہتر سیاسی قیادت سے بہر طور بہتر تھا۔ سوال صرف سلطان محی الدین اورنگزیب عالمگیر کے محاسن یا جہاد فی سبیل اﷲ وغیرہ کا نہیں ہے، بلکہ یہ کیا طریقہ ہے کہ ہماری تاریخی شخصیات کے چن چن کر کمزور پہلو واقعات کی مسخ شدہ تصویر کے ساتھ پیش کیے جائیں اور پورے نصاب تعلیم میں یہ کہیں ذکر نہ ہو کہ نیو ورلڈ آرڈر کیسا خونی اور قاتل نظام زندگی ہے۔ سلامتی کونسل کے بڑے ممالک کن پاگل اور ذہنی مریض سیاسی قیادتوں کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں اور جدید دنیا کی بنیاد کتنی ہولناک لوٹ مار اور ظلم و زیادتی پر اٹھائی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس نوعیت کا نصاب تشکیل دے کر آپ کا مقصود کیا ہے؟ کیا آپ اپنے بچوں کو انھی سامراجی طاقتوں کا خادم بنانا چاہتے ہیں جنھوں نے پچھلے دو سو برس میں دنیا کو جہنم کے دہانے پر پہنچا دیا ہے؟ گویا صورت حال یہ ہے کہ آپ اپنے ہاتھوں سے اپنی آئندہ نسلوں کو استعمار کے حوالے کر رہے ہیں کہ وہ انھیں اپنی چاکری کے لیے قبول کر لے۔
بحیثیت امت مسلمہ ہم لوگ ’’اقرأ‘‘ کی امت ہیں۔ یعنی ہماری شناخت کا آغاز ہی پڑھنے کے ربانی حکم سے ہوتا ہے۔ اور آج علم کے نام پر ہی جہالت اور کفر افزائی کا یہ سب سے بڑا دھوکہ ہمارے سامنے رکھا جا رہا ہے۔ اس مسئلہ کا سب سے افسوسناک اور سنگین پہلو یہ ہے کہ بہت سے والدین جو اپنے بچوں کو سکولوں میں تعلیم دلوانے کے لیے بھیجتے ہیں وہ اصل میں دین کا درد رکھنے والے اور اس کے مظاہر سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ لیکن وہ انجانے میں اپنے ہاتھوں اپنی نسلوں کو گمراہی کے کنوؤں میں دھکیل رہے ہیں اور انھیں اپنے اچھے ارادے اور نیک نیتی کے با وجود نا چاہتے ہوئے بھی بری طرح نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔یہ ویسی ہی صورت حال ہے جیسے ملتان کے عظیم بزرگ شیخ الاسلام حضرت بہاء الدین زکریا کے نام پر قائم ہونے والی یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر کسی زمانے میں ایک تصویر پہلے صفحے پر لگی ہوئی تھی جس میں سر برہنہ و بے پردہ مسلمان لڑکیاں ایک بینر پکڑ کر کھڑی ہیں اور اس پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ لکھی ہے کہ فرمایا: العلم نورٌ، یعنی ’’علم‘‘ روشنی ہے۔ آپ فرمائیے علوم نبوت کی اس سے زیادہ اہانت آمیز پیروڈی کیا ہو سکتی ہے؟
ہمارے خیال میں اب وہ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی ملت اسلامیہ اس حقیقت کو پہچان لے کہ روایتی سرکاری و غیر سرکاری عصری تعلیمی اداروں میں جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے نہ تو وہ علم ہے اور نہ ہر گز اس کا اسلام اور یہاں کی ملت اسلامیہ کی تہذیبی و تاریخی شناخت سے کوئی تعلق ہے۔ بطور خاص دینی جماعتوں اور اہلِ علم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان تعلیمی اداروں سے نکلنے والی نئی نسلوں کے ایمان و اعتقاد کی حفاظت کی فکر کریں اور اس کے لیے کوئی منظم لائحۂ عمل ترتیب دیں۔