مولانا زاہد الراشدی
وفاقی وزیر سائنسی امور فواد چودھری صاحب کا کہنا ہے کہ پاکستان بنانے والے قائدین مذہبی لوگ نہیں تھے اور نہ ہی مذہبی راہنماؤں کا پاکستان بنانے میں کوئی کردار ہے۔ باقی تمام باتوں سے قطع نظر مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کا ایک خطاب پیش کیا جا رہا ہے جو انہوں نے ۹ فروری ۱۹۳۲ء کو بادشاہی مسجد لاہور میں عید الفطر کے اجتماع میں ارشاد فرمایا تھا اور انجمن اسلامیہ لاہور نے اسے چھپوا کر تقسیم کیا تھا۔ اس خطبہ کا متن عبد الواحد معینی اور عبد اﷲ قریشی کے مرتب کردہ ’’مقالات اقبالؒ‘‘ سے لیا گیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بانیان پاکستان کی مذہبیت اور تحریک پاکستان کے حوالہ سے ان کے دینی مقاصد کا معیار اور دائرہ کیا تھا۔ خدا کرے کہ ہم علامہ محمد اقبالؒ اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے خطبات و بیانات کو سنجیدگی کے ساتھ پڑھیں اور ان سے اپنی قومی پالیسیوں میں راہنمائی حاصل کرنے کی کوئی عملی سبیل پیدا کریں، آمین یا رب العالمین۔
’’قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اُترا۔ لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں۔ تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے۔ ‘‘
یہی ارشادِ خداوندی ہے جس کی تعمیل میں آپ نے ماہِ رمضان کا پورا مہینہ روزے رکھے اور اس اطاعتِ الٰہی کی توفیق پانے کی خوشی میں آج بحیثیت قوم خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ شکر بجا لانے کے لیے جمع ہوئے۔ بیشک مسلم کی عید اور اُس کی خوشی اگر کچھ ہے تو یہ کہ وہ اطاعتِ حق یعنی عبدیت کے فرائض کی بجا آوری میں پورا نکلے۔ اور قومیں بھی خوشی کے تیوہار مناتی ہیں مگر سوائے مسلمانوں کے اور کون سی قوم ہے جو خدائے پاک کی فرمانبرداری میں پورا اترنے کی عید مناتی ہو؟
مؤرخین کے بیان کے مطابق سنہ ۲ ہجری میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے، صدقہ عید الفطر کا حکم بھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسی سال جاری فرمایا، حضورؐ نے پہلے ایک خطبہ دیا جس میں اس صدقہ کے فضائل بیان فرمائے پھر صدقہ کا حکم دیا، عید الفطر کی نماز باجماعت عیدگاہ میں اسی سال ادا فرمائی، سنہ ۲ ہجری سے پہلے عید کی نماز نہیں ہوتی تھی۔
اسلام کے ارکان یعنی توحید، نماز، روزہ، حج، زکٰوۃ جب نبی اُمی کی زبانِ پاک سے خالقِ اکبر نے بندوں کی اصلاح و فلاح کے لیے ہدایت فرمائے تو مقصود یہ تھا کہ ان کی پابندی سے ’’مسلم‘‘ بحیثیت ’’فرد‘‘ وہ انسان بن سکے جسے وحی خداوندی ’’احسن التقویم‘‘ کے نام سے تعبیر کرتی ہے اور ’’ملّتِ اسلامیہ‘‘ وہ ’’ملّت‘‘ بن جائے جو قرآن پاک کے الفاظ کے مطابق دنیا کی بہترین امت ہو اور اپنے تمام معاملات میں اعتدال اور میانہ روی کے اصول کو سامنے رکھنے والی ہو۔ اسلام کا ہر رکن انسانی زندگی کی صحیح نشوونما کے لیے اپنے اندر ہزارہا ظاہری اور باطنی مصلحتیں رکھتا ہے۔ مجھے اس وقت صرف اسی ایک رُکن کی حقیقت کے متعلق آپ سے دو ایک باتیں کہنی ہیں جسے ’’صوم‘‘ کہتے ہیں اور جس کی پابندی کی توفیق کے شکرانے میں آج آپ عید منا رہے ہیں۔ روزے پہلی اُمتوں پر بھی فرض تھے گو اُن کی تعداد وہ نہ ہو جو ہمارے روزوں کی ہے اور فرض اس لیے قرار دیے گئے کہ انسان پرہیزگاری کی راہ اختیار کرے۔
خدا نے فرمایا: ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے تاکہ تمہیں پرہیزگاری ملے۔ ‘‘
گویا روزہ انسان کو پرہیزگاری کی راہ پر چلاتا ہے، اس سے جسم اور جان دونوں تزکیہ پاتے ہیں۔ یہ خیال کہ روزہ ایک انفرادی عبادت ہے، صحیح نہیں بلکہ ظاہر و باطن کی صفائی کا یہ طریق، یہ ضبطِ نفس، یہ حیوانی خواہشوں کو اپنے بس میں رکھنے کا نظام اپنے اندر ملّت کی تمام اقتصادی اور معاشرتی زندگی کی اصلاح کے مقاصد پوشیدہ رکھتا ہے۔ وہ فائدے جو ایک ’’فرد‘‘ کو روزہ رکھنے سے حاصل ہوتے ہیں، اس صورت میں بھی ہو سکتے تھے کہ روزے بجائے مسلسل ایک مہینہ رکھنے کے کبھی کبھی رکھ لیے جاتے، یا بجائے رمضان میں رکھنے کے سال کے اور مہینوں میں رکھ لیے جاتے۔ اگر محض فرد کی اصلاح اور اُس کی روحانی نشوونما پیشِ نظر ہوتی تو بیشک یہ ٹھیک تھا، لیکن فرد کے علاوہ تمام ’’ملّت‘‘ کے اقتصادی اور معاشرتی تزکیہ کی غرض بھی شارعِ برحق کے سامنے تھی۔
آج کی عید ’’عید الفطر‘‘ کہلاتی ہے، پیغمبرِ خدا نے جب عید کے لیے عیدگاہ میں اکٹھا ہونے کا حکم دیا تو ساتھ ہی صدقہ عیدالفطر ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔ تعجب نہیں کہ عید کا دن مقرر کرنے کی اصل غرض ہی شارع علیہ الصلوٰۃ کے نزدیک صدقہ عید الفطر کا جاری کرنا ہو۔ حق یہ ہے کہ زکوٰۃ اور اصولِ تقسیمِ وراثت کے بعد تیسرا طریق اقتصادی اور معاشرتی مساوات قائم کرنے کا جو اسلام نے تجویز کیا ’’صدقات‘‘ کا تھا، اور ان صدقات میں سب سے بڑھ کر صدقۂ فطر کا، اس لیے کہ یہ صدقہ ایک مقررہ دن پر تمام قوم کو ادا کرنا ہوتا ہے۔
رمضان کا مہینہ آپ نے اِس اہتمام سے بسر کیا ہے کہ کھانے پینے کے اوقات کی پابندی سیکھ لی، اپنی صحت درست کر لی، آیندہ گیارہ مہینے کئی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے قابل اپنے آپ کو بنا لیا، کفایت شعاری سیکھی، رزق کی قدر و قیمت سیکھی۔ یہ سب ذاتی فائدے تھے۔ صیام کا قومی اور ملّی فائدہ یہ ہے کہ صاحبِ توفیق مسلمانوں کے دل میں اپنی قوم کے مفلس اور محروم افراد کی عملی ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو اور صدقہ فطر ادا کرنے سے قوم میں ایک گونہ اقتصادی اور معاشرتی مساوات قائم ہو۔
حکم یہ ہے کہ عید کی نماز میں شرکت سے پہلے ہر صاحبِ توفیق مسلمان صدقہ فطر ادا کر کے عیدگاہ میں آئے۔ اس سے مقصود یہ نہیں کہ اقتصادی اور معاشرتی مساوات صرف ایک آدھ دن کے لیے قائم ہو جائے بلکہ ایک مہینہ کا متواتر ضبطِ نفس تم کو اِس لیے سکھایا گیا ہے کہ تم اس اقتصادی اور معاشرتی مساوات کو قائم رکھنے کی کوشش تمام سال کرتے رہو۔
باقی رہا یہ امر کہ روزے ماہِ رمضان کے ساتھ ہی کیوں مختص کیے جائیں۔ سو واضح رہنا چاہیے کہ اسلام نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اسرار کو مدِ نظر رکھ کر ”صیام’’کے زمانی تسلسل کو ضروری سمجھا ہے۔ اس تسلسل کے لیے وقت کی تعیین لازم تھی اور چونکہ اسلام کا اصلی مقصود انسانوں کو احکامِ الٰہی کی فرمانبرداری میں پختہ کرنا تھا، اس لیے صیام کو اِس مہینہ کے ساتھ مختص کیا گیا جس میں احکامِ الٰہی کا نزول شروع ہوا تھا۔ بالفاظِ دیگر یوں کہو کہ مسلمانوں کو ہر سال پورا مہینہ کامل تزکیہ نفس کے ساتھ نزولِ قرآنِ حکیم کی سالگرہ منانے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ احکامِ الٰہی کی حرمت و تقدیس ہمیشہ مدِّنظر رہے اور نمازِ تراویح پر کاربند ہو کر قوم کے ہر فرد کو اجتماعی حیات کا قانون عملاً ازبر ہو جائے۔
اصل بات قوم کی اقتصادی اور تمدّنی زندگی کی مجموعی اصلاح کے متعلق تھی۔ قرآن میں جہاں مسائلِ ’’صیام‘‘ کے ذکر کے بعد یہ فرمایا کہ:’’یہ اﷲ کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جاؤ۔ اﷲ یوں ہی بیان کرتا ہے لوگوں سے اپنی آیتیں کہ انہیں پرہیزگاری ملے۔ ‘‘
وہاں ساتھ ہی ملحق بطور ان تمام کے نتیجہ کے یہ حکم بھی دیا:’’اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لیے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھا لو جان بوجھ کر۔ ‘‘
روزہ رکھ کر مفلسوں سے محض ہمدردی کا احساس پیدا کر لینا کافی نہ تھا۔ عید کے دن غربا کو دو چار دن کا کھانا دے دینا کافی نہ تھا۔ طریق وہ اختیار کرنا مقصود تھا جس سے مستقل طور پر دنیاوی مال و متاع سے انتفاع کے قواعد اِس طور پر قائم ہوں کہ حہاں تقسیمِ وراثت اور زکوٰۃ سے ملّتِ اسلامیہ کے مال و متاع میں ایک گونہ مساوات پیدا ہو، وہاں اس مساوات میں ایک دوسرے کے اموال میں ناجائز تصرّف سے کسی قسم کا خلل نہ آئے۔ روزوں کے التزام سے صرف انفرادی روحانیت کی ترقی یا زیادہ سے زیادہ انسانوں کے ساتھ ایک ہنگامی ہمدردی ہی مقصود نہیں بلکہ شارع کی نظر اِس بات پر ہے کہ تم اپنے اپنے حلال کے کمائے ہوئے مال پر قناعت کرو اور دوسروں کے کمائے ہوئے مال کو باطل طریقوں سے کھانے کی کوشش نہ کرو۔ اس باطل طریق پر دوسروں کا مال کھانے کی بدترین روش قرآن کے نزدیک یہ ہے کہ مال و دولت کے ذریعہ حکام تک رسائی حاصل کی جائے اور ان کو رشوتوں سے اپنا طرفدار بنا کر اوروں کے مالوں کو اپنے قبضہ میں لایا جائے۔ مذکورہ بالا آیت میں ’’اثم‘‘ کے معنی بعض مفسرین نے جھوٹی گواہی وغیرہ کے لیے ہیں، علمائے قرآن نے حکام سے مراد مسلمانوں کے اپنے مفتی اور سلطان لیے ہیں۔ جب اپنے فقیہوں اور قاضیوں کے پاس جھوٹے مقدمے بنا کر لے جانے کو خدا نے مذموم قرار دیا ہو تو سمجھ لو کہ غیراسلامی حکومتوں کے حکام کے پاس اس قسم کے مقدمات لے جانا کس قدر ناجائز ہے۔
مہینہ بھر روزے رکھنے کی آخری غرض یہ تھی کہ آیندہ تمام سال اس طرح ایک دوسرے کے ہمدرد اور بھائی بن کر رہو کہ اگر اپنا مال ایک دوسرے کو بانٹ کر نہیں دے سکتے تو کم سے کم ’’حکام‘‘ کے پاس کوئی مالی مقدمہ اس قسم کا نہ لے کر جاؤ جس میں اُن کو رشوت دے کر حق و انصاف کے خلاف دوسروں کے مال پر قبضہ کرنا مقصود ہو۔ آج کے دن سے تمہارا عہد ہونا چاہیے کہ قوم کی اقتصادی اور معاشرتی اصلاح کی جو غرض قرآن حکیم نے اپنے ان احکام میں قرار دی ہے، اُس کو تم ہمیشہ مدّنظر رکھو گے۔
مسلمانانِ پنجاب اس وقت تقریباً سوا ارب روپے کے قرض میں مبتلا ہیں اور اس پر ہر سال تقریباً چودہ کروڑ روپیہ سُود ادا کرتے ہیں۔ کیا اس قرض اور اس سود سے نجات کی کوئی سبیل سوائے اس کے ہے کہ تم احکامِ خداوندی کی طرف رجوع کرو، اور مالی اور اقتصادی غلامی سے اپنے آپ کو رہا کراؤ؟ تم اگر آج فضول خرچی چھوڑنے کے علاوہ مال اور جائیداد کے جھوٹے اور بلاضرورت مقدمے عدالتوں میں لے جانا چھوڑ دو تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ چند سال کے اندر تمہارے قرض کا کثیر حصہ از خود کم ہو جائے گا اور تم تھوڑی مدّت کے اندر قرض کی غلامی سے اپنے آپ کو آزاد کر لو گے۔ نہ صرف یہ کہ مالی مقدمات کا ترک تمہیں اِس قابل بنا دے گا کہ تم وہی روپیہ جو مقدموں اور رشوتوں اور وکیلوں کی فیسوں میں برباد کرتے ہو اسی سے اپنی تجارت اور اپنی صنعت کو فروغ دے سکو گے۔
کیا اب بھی تم کو رجوع الی القرآن کی ضرورت محسوس نہ ہو گی اور تم عہد نہ کر لو گے کہ تمام دنیاوی امور میں شرعِ قرآنی کے پابند ہو جاؤ گے؟ کس انتباہ کے ساتھ رسولِ پاکؐ نے مسلمانوں کو پکار کر کہا تھا کہ: ’’دیکھو قرض سے بچنا، قرض رات کا اندوہ اور دن کی خواری ہے۔ ‘‘
اِس خطبے میں مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کے صرف اقتصادی پہلو ہی پر نظر ڈالی گئی ہے، شاید عیدالاضحیٰ کے موقع پر اسی قسم کے ایک خطبے میں اسلامی زندگی کے ایک اور اہم پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ فی الحال میں حضورؐ سرورِ کائنات کی ایک حدیث پر اِس خطبے کو ختم کرتا ہوں جو ایک نہایت لطیف پیرایہ میں رشد و ہدایت کی تمام شاہ راہوں کو انسان پر کھول دیتی ہے:
’’مجھے میرے رب نے نو (۹) باتوں کا حکم دیا ہے۔ ظاہر و باطن میں اخلاص پر کاربند رہنا۔ غضب و رضا دونوں حالتوں میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دینا۔ فقر و تونگری میں میانہ روی۔ جو شخص مجھ پر زیادتی کرے اُس کو معاف کر دوں۔ جو مجھ سے قطعِ رحم کرے میں اُس سے صلہ رحم کروں۔ جو مجھے محروم کرے میں اُس کو اپنے پاس سے دُوں۔ میرا بولنا ذکرِ الٰہی کے لیے ہو۔ میری خاموشی غور و فکر کے لیے ہو، اور میرا دیکھنا عبرت کے لیے ہو۔ ‘‘