امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ
(ترجمہ و تلخیص: مولانا نسیم احمد فریدی امروہویؒ)
الحمد للّٰہ و سلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ……
سوال کیا گیا ہے: حضرت رسولِ مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم نے مرضِ وفات میں فرمایا تھا: ’’ایتونی بقرطاسٍ اَکْتُب لَکُمْ کِتَابًا لن تَضلّوا بَعدیْ‘‘یعنی مجھے کاغذ لاؤ میں تمھیں ایسی تحریر لکھ دوں کہ تم میرے بعد ہرگز راہِ راست سے نہ ہٹ سکو۔ (کہا جاتا ہے کہ) حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ اور ان کے ساتھ چند اور صحابہ رضی اﷲ عنہم نے کاغذ لانے کو منع کیا اور کہا ’’حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہ ‘‘ (ہمارے لیے کتاب اﷲ کافی ہے) اور یہ بھی کہا ’’أَہَجَر؟ اِسْتَفْہِمُوہٗ ‘‘ …… یعنی کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم غلبہ مرض کی بنا پر یہ بے قصد کلام فرما رہے ہیں، معلوم کرو؟ …… آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تو جو کچھ فرماتے تھے، وہ ازروئے وحی فرماتے تھے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَیٰ اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی ‘‘ اور وحی کو رد کرنا کفر ہے۔ جیسا کہ آیۂ کریمہ ’’ وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُلٰئِکَ ہُمُ الْکٰفِروْنَ‘‘ سے ظاہر ہے۔ نیز کلامِ بے مقصد و بے اختیار کا پیغمبر کے لیے جائز رکھنا گویا اس کے احکامِ شرعیہ سے اعتماد اٹھا دینا ہے اور یہ بھی کفر، الحاد اور زندقہ ہے۔ آخر اس شبہے کا جواب کیا ہے؟
اﷲ تعالیٰ تم کو رشد و ہدایت عطا کرے اور صراطِ مستقیم پر چلائے۔ اچھی طرح سمجھ لو کہ اس قسم کے شبہات ایک جماعت کے لوگ حضرات خلفاءِ ثلاثہ پر اور صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم پر وارد کیا کرتے ہیں اور ان تشکیکات کے ذریعے اُن اکابرِ ملت کو مجروح کرنا چاہتے ہیں۔ کاش یہ لوگ انصاف پر آ جائیں اور صحبتِ خیر البشر علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ذہن نشین کر لیں کہ صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم کے نفوس، صحبت خیر البشر صلی اﷲ علیہ وسلم میں رہ کر ہوا و ہوس سے پاک اور اُن کے سینے عداوت و کینہ سے صاف ہو گئے تھے اور یہ بھی جان لیں کہ یہ صحابہ رضی اﷲ عنہم وہ اکابر دین اور پیشوایان اسلام ہیں، جنھوں نے اپنی طاقتوں کو کلمۂ اسلام کے بلند کرنے میں اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نصرت میں اور اپنے اموال کو بھی اسی مقصد کے پیشِ نظر، رات دن، خفیہ اور علانیہ صرف کیا ہے…… انھوں نے محبتِ رسول کی خاطر اپنے قبیلوں کو، اپنی اولاد و ازواج کو، اپنے وطنوں اور مکانوں کو، اپنے چشموں اور کھیتوں کو، اپنے باغات اور نہروں کو چھوڑا ہے۔ انھوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک کو اپنے نفسوں پر ترجیح دی، انھوں نے اپنی اور اپنی ذُرِّیَّات و اموال کی محبت کے مقابلے میں محبتِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو اختیار کیا۔ یہی وہ صحابہ ہیں جن کے سامنے وحی آتی تھی، جنھوں نے معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے، یہاں تک کہ اُن کا غیب حضوری بن گیا اور اُن کا علم، مشاہدہ ہو گیا۔ یہی وہ حضرات ہیں جن کی تعریف قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے فرمائی ہے، (چنانچہ ایک جگہ فرمایا ہے) رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ (یعنی اﷲ ان سے راضی ہو گیا یہ اﷲ سے راضی ہو گئے)۔ دوسری جگہ توریت و انجیل کا حوالہ دے کر فرمایا: ’’مَثَلہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَ مَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ‘‘ جب کہ تمام اصحاب کرام رضی اﷲ عنہ ان فضیلتوں میں شریک ہیں تو پھر سمجھنا چاہیے کہ کیا مقام ہے خلفاءِ راشدین کا جو اکابر صحابہ میں سے ہیں۔ عمر فاروق رضی اﷲ عنہ وہی عمر فاروق رضی اﷲ عنہ ہیں، جن کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا: یَاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمؤْ مِنِیْنَ ‘‘ (اے نبی آپ کے لیے اﷲ کافی ہے اور مومنین میں سے وہ بھی جنھوں نے آپ کی اتباع کی) حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ہے کہ اس آیت کریمہ کا سببِ نزول، حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہ کا اسلام ہے۔
نظرِ انصاف حاصل ہو اور شرفِ صحبت خیر البشر صلی اﷲ علیہ وسلم کا اقرار کر کے اُن تمام فضائل و درجات کو جو صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے لیے تھے، جان لیا جائے تو اس قسم کے شبہات کو خود معترضین مغالطہ و ملمع کاری تصور کریں گے اور قابلِ اعتبار نہ سمجھیں گے، چاہے وہ غلطی کے اصل مادے کی تشخیص و تعین نہ کر سکیں، مگر اس قدر ضرور جان لیں گے کہ ان شبہات کی کوئی حقیقت اور اُن میں کوئی افادیت نہیں ہے، بلکہ یہ شبہات ضروریات اسلامیہ سے ٹکراتے ہیں اور کتاب و حدیث کی رو سے مردود ہیں۔ پھر بھی سوال (مندرجہ) کے جواب اور مادۂ غلطی کی تعیین میں چند مقدمات، اﷲ کی مدد سے لکھے جاتے ہیں، خوب اچھی طرح سن لیں، (دراصل) اس اشکال کا جواب چند مقدمات پر موقوف ہے، جن میں سے ہر ہر مقدمہ بھی ایک مستقل جواب ہے۔
مقدمۂ اوّل:
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تمام ارشادات، وحی (حکمی) نہیں ہوتے تھے…… (بلکہ کچھ باتیں بطور مشورہ کے بھی فرمائی جاتی تھیں) آیت وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَیٰ نطق قرآنی کے ساتھ مخصوص ہے، جیسا کہ اہل تفسیر نے کہا ہے، (مطلب یہ کہ قرآن کُل کا کُل کلام الٰہی ہے)۔ اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے جمیع اقوال بموجب وحی ہوتے تو آپ کے بعض اقوال پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مواخذہ اور عتاب نہ ہوتا اور نہ اس سے معافی کا ہونا کچھ گنجائش رکھتا، (حالانکہ قرآن مجید میں) اﷲ تعالیٰ اپنے نبی کو مخاطب فرما کر ارشاد فرماتا ہے’’عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ‘‘ (سورہ توبہ)۔ (اے نبی اﷲ نے تمھیں معاف کیا، تم نے اُن منافقوں کی باتوں میں آ کر انھیں اجازت دی)۔
مقدمۂ دوم:
احکامِ اجتہاد اور امور عقلیہ میں…… بموجب آیۂ کریمہ ’’ وَ شَاوِرْہُمْ فِیْ الْاَمْرِ‘‘ ( اے نبی تم معاملات میں اپنے اصحاب سے مشورہ لیا کرو)۔ اصحاب کرام رضی اﷲ عنہم کو اظہارِ رائے اور بحث کی گنجائش ہے، کیونکہ اس کے بغیر مشورے کا حکم بالکل بے معنی ہے۔ بدر کے قیدیوں کے قتل کرنے یا اُن سے فدیہ لے کر چھوڑ دینے میں اختلاف رائے واقع ہوا تھا۔ حضرت فاروق رضی اﷲ عنہ نے قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا، پھر وحی فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ ہی کی رائے کے موافق آئی۔
مقدمۂ سوم:
سہو و نسیان، پیغمبر کے لیے جائز ہے، بلکہ واقع ہوا ہے۔ چنانچہ ذوالیدین رضی اﷲ عنہ کی حدیث میں وارد ہوا ہے کہ چار رکعت والی ایک نماز میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دو رکعت پر سلام پھیر دیا۔ ذو الیدین رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا یا رسول اﷲ کیا نماز میں قصر ہو گیا یا آپ کو سہو ہوا؟ قولِ ذوالیدین کی سچائی کا ثبوت ملنے پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دو رکعتیں اور پڑھیں اور سجدہ سہو کیا۔ جب سہو و نسیان، حالت صحت و فراغت میں مقتضائے بشریت جائز ہے تو حالتِ مرض الموت میں غلبۂ مرض کے وقت کلام بے قصد و بے اختیار کا صادر ہونا کیوں ممکن نہ ہو گا؟ اور اس چیز سے احکام شرعیہ کا اعتماد کیوں اٹھنے لگا، جب کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو سہو و نسیان پر مطلع اور صحیح و خطا کو جدا فرما دیتا تھا۔ ہاں یہ مسلّم ہے کہ نبی کا خطا پر برقرار رہنا جانا اور اس کی تصحیح نہ ہونا احکامِ شرعیہ سے اعتماد کو زائل کرنے والا ہے اور یہ مسلّم ہے کہ نبی سہو و نسیان پر قائم نہیں رہ سکتا، اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس کی تصحیح ہو ہی جاتی ہے۔
مقدمۂ چہارم:
حضرت فاروق بلکہ خلفاءِ ثلاثہ رضی اﷲ عنہم کو کتاب و سنت کی رو سے جنت کی بشارت مل چکی ہے اور ان کے حق میں جنت کی بشارت والی احادیث اپنے راویوں کی کثرت کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ حد شہرت اور حد تواترِ معنوی کو پہنچ گئی ہیں۔ ان کا انکار کرنا جہالت کی وجہ سے ہو سکتا ہے یا دشمنی کے سبب سے۔ اگر بعض مخالف فرقوں کی کتب احادیث میں ان بشارات کا ذکر نہ کیا گیا ہو تو اس کا کوئی اثر ان کے ثبوت پر نہیں پڑتا، کسی کتاب میں عدم روایت سے عدم بشارت لازم نہیں آتی…… ان اکابر صحابہ کے لیے بشارت کا ثبوت قرآن مجید ہی میں بہت سی آیات کے اندر موجود ہے، اُن میں سے بعض آیات یہ ہیں:
’’وَ الْسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا اَبدًا ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ‘‘ یعنی مہاجرین و انصار میں سے سابقین اوّلین اور وہ لوگ جنھوں نے نیکوکاری میں اُن کی پیروی کی، راضی ہے اﷲ تعالیٰ اُن سے سب سے اور یہ راضی ہوئے اﷲ تعالیٰ سے اور اﷲ تعالیٰ نے اُن کے لیے بہشتی باغات تیار کیے ہیں کہ اُن کے نیچے نہری بہتی ہیں، ہمیشہ رہیں گے وہ اُن میں، یہ ہے بڑی کامیابی۔ (سورۃ التوبہ: آیت ۱۰۰)
دوسری جگہ فرماتا ہے:
’’ لَاْ یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قَاتَلَ اُولٰئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِن بَعْدُ وَ قَاتَلُوْا وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی‘‘ یعنی برابر نہیں تم میں سے وہ لوگ جنھوں نے (دین کی راہ میں) فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا اور قتال کیا، یہ لوگ اُن لوگوں سے مرتبے میں بہت بڑے ہیں، جنھوں نے بعد فتحِ مکہ خرچ کیا اور قتال کیا اور ان میں سے ہر ایک سے اﷲ تعالیٰ وعدہ فرمایا ہے بہتری کا۔ (سورۃ الحدید: آیت ۱۰)
پس جب تمام صحابہ رضی اﷲ عنہم کو جنھوں نے فتحِ مکّہ سے پہلے اور فتحِ مکہ کے بعد انفاق و مقاتلہ کیا (یعنی دین کی راہ میں جان و مال کی قربانی کی ہے)، بہشت کی بشارت دی گئی ہے تو اُن اکابر صحابہ رضی اﷲ عنہم کے بارے میں کیا کلام ہو سکتا ہے، جو انفاق فی سبیل اﷲ، مقاتلہ اور ہجرت میں سابق تر ہیں اور اُن کی عظمتِ شان کا کیا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اہلِ تفسیر نے لکھا ہے کہ یہ آیت ’’لا یَسْتَوی‘‘ حضرت صدیقِ اکبر کی شان میں نازل ہوئی کیونکہ وہ انفاق و مقاتلہ میں تمام سابقین میں سابق تر ہیں۔
تیسری جگہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِِذْ یُبَایِعُوْنَک تَحْتَ الْشَّجَرۃِ ‘‘ یعنی یقینا اﷲ خدا راضی ہوا مومنین سے جب کہ وہ آپ کے ہاتھ پر (ببول کے) درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے۔ (سورۃ الفتح: آیت ۱۸)
امام محی السنت بغویؒ نے معالم التنزیل میں حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوزخ میں نہ جائے گا، اُن میں سے ایک بھی، جنھوں نے(وادی حدیبہ میں) ببول کے درخت کے نیچے بیعت کی ہے۔ اس بیعت کو بیعت الرضوان کہتے ہیں، اس لیے کہ حضرت حق جل مجدہٗ اس بیعت کرنے والی جماعت سے راضی و خوش ہو گئے۔ اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ اﷲ کے کسی ایسے بندہ کی تکفیر کرنا بدترین برائی اور کفر ہے جو کتاب و سنت کی رو سے بشارت یافتہ ہو۔
مقدمۂ پنجم:
حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کا کاغذ لانے میں توقف و تامل کرنا نعوذ باﷲ ردّ و انکار کی رو سے نہ تھا، اس قسم کی گستاخی خلقِ عظیم والے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہم نشینوں سے کیسے ہو سکتی تھی؟ ایک ادنیٰ صحابی سے بھی جو محض ایک یا دو بار شرفِ صحبت خیر البشر سے مشرف ہوا ہو، ایسی گستاخی کی توقع نہیں کی جا سکتی، بلکہ عام امتیوں کے بارہ میں بھی جو دولت اسلام سے سرفراز ہو چکے ہیں، اس قسم کے ردّ و انکار کا وہم نہیں ہو سکتا، پھر بھلا اس شخص سے کیونکر اس گستاخی کی توقع ہو جو اکابرِ صحابہ رضی اﷲ عنہم اور اعاظمِ مہاجرین و انصار میں سے ہو؟
اﷲ تعالیٰ انصاف کا مادہ نصیب کرے تاکہ اکابر دین کے ساتھ اس طرح کی بدگمانی اور بغیر سمجھے ہر کلمہ و کلام پر گرفت نہ کریں…… مقصدِ حضرت فاروق رضی اﷲ عنہ تو استفہام و استفسار تھا، چنانچہ انھوں نے فرمایا: ’’اِسْتَفْہِمُوْہٗ‘‘ مطلب یہ ہے کہ دریافت کر لو، اگر قرطاس کو اہتمام کے ساتھ طلب فرمائیں تو لے آیا جائے اور اگر اس بارے میں کوئی خاص اہتمام مقصود نہیں تو پھر اس نازک وقت میں آپ کو تکلیف نہ دینی چاہیے۔ اگر کسی وحی کی بنا پر آپ نے قرطاس طلب فرمایا ہے تو تاکید کے ساتھ طلب فرمائیں گے اور جس بات کے لکھنے کا حکم آپ کو ہوا ہے، ضرور لکھوائیں گے، اس لیے وحی کا پہنچانا نبی واجب و لازم ہے اور اگر یہ قلم کی کاغذ کی طلب، وحی سے نہیں بلکہ اپنی رائے اور خیال سے یہ بات آپ نے فرمائی ہے تو وقت کی نزاکت، مساعدت نہیں کرتی۔ آپ کی وفات کے بعد بھی سلسلہ اجتہاد باقی ہے۔ آپ کی مجتہد کے کتاب اﷲ سے جو دین کا اصل اصول ہے، احکام اجتہادیہ کو نکال لیں گے۔ جبکہ نزول وحی کے زمانے میں ہی اجتہاد کی گنجائش تھی تووفات کے بعد جو کہ انقطاعِ وحی کا زمانہ ہو گا بطریقۂ اَولیٰ اہلِ علم کا استنباط و اجتہاد مقبول ہو گا۔ اور چونکہ اس بارے میں پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کوئی اہتمام نہیں فرمایا بلکہ اس بات سے اعراض کیا تو معلوم ہو گیا کہ یہ بات ازروئے وحی نہ تھی۔
اور وہ تامل و توقف جو استفسار کے لیے ہو ہرگز مذموم نہیں ہے۔ (دیکھو) ملائکہ نے استفسار کی غرض سے اﷲ تعالیٰ سے عرض کیا تھا ’’اَ تَجْعَُلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْہَا وَ یَسْفِکُ الْدِّمَاء‘‘ (کیا آ پ زمین میں ایسے شخص کو خلیفہ بنائیں گے جس کی نسل میں (کچھ لوگ) فساد فی الارض کریں گے اور خون بہائیں گے۔ سورۃ البقرۃ: آیت ۳۰)۔ اسی طرح حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنے لڑکے حضرت یحییٰ کی بشارت ولادت پا کر کہا تھا ’’اَنَّیٰ یَکُوْنَ لِیْ غُلَاْمٌ وَقَدْ بَلَغَنِیَ الْکِبَرُ وَامْرَأَتِیْ عَاقِرٌ‘‘ (میرے یہاں لڑکا کیسے پیدا ہو گا، جب کہ میں بوڑھا ہوں اور میری زوجہ بانجھ ہے۔ سورۃ آل عمران: آیت۴۰) اور اسی طرح حضرت مریم علیہا السلام نے (ولادتِ عیسیٰ کی خبر پا کر) کہا تھا’’اَنََّیٰ یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّ لَمْ اَکُ بَغِیًّا‘‘ (مجھ سے کیسے پیدا ہو گا در اں حالے کہ مجھے کسی مرد نے نہیں چھوا، اور نہ میں بدکار ہوں۔ سورۃ مریم: آیت ۲۰)۔ پس اگر حضرت فاروق رضی اﷲ عنہ بھی استفہام و استفسار کی غرض سے قرطاس لانے میں توقف کیا تو اس میں کیا مضائقہ ہے اور اس پر اتنا کیوں شور و شر ہے؟
مقدمۂ ششم:
صحبت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور اصحاب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے حسنِ ظن رکھنا ضروری ہے اور یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ بہترین زمانہ، زمانۂ سرور کائنات ہے اور آپ کے اصحاب، انبیاء کے بعد بہترین اولادِ آدم تھے، اور اس کے نتیجہ میں یہ یقین کرنا بھی لازم ہے کہ بہترین زمانے میں، بہترین بنی آدم آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد ہرگز امر باطل پر اجتماع و اتفاق نہ کریں گے اور ایسے لوگوں کو ہرگز جانشین پیغمبرنہ بنائیں گے جو (نعوذ باﷲ) کافر یا فاسق ہوں۔
اور یہ جو ہم نے کہا کہ اصحاب کرام رضی اﷲ عنہم بہترین اولاد آدم علیہ السلام تھے، اس بنا پر کہا کہ یہ اُمّت، نصِّ قرآنی کی رو سے خیر الامم ہے اور اس اُمت کے بہترین افراد یہ صحابہ رضی اﷲ عنہم ہیں، کوئی ولی کسی صحابی کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔ پس تھوڑا سا انصاف کرنا اور سمجھنا چاہیے کہ حضرت فاروق رضی اﷲ عنہ کا قرطاس کے لانے سے منع کرنا معاذ اﷲ کفر تھا تو پھر حضرت صدیق رضی اﷲ عنہ کو تصریح جو بنصِّ قرآنی اس بہترین اُمّت میں سب سے زیادہ متقی تھے، حضرت فاروق رضی اﷲ عنہ کو تصریح و تعین کے ساتھ اپنا خلیفہ مقرر نہ کرتے۔ اور وہ مہاجرین و انصار جن کی تعریف اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمائی ہے اور جن سے اﷲ تعالیٰ راضی ہو گیا اور جن سے اُس نے جنت کا وعدہ کیا ہے، وہ مہاجرین و انصار حضرت فاروق رضی اﷲ عنہ سے بیعت نہ کرتے اور ان کو جانشین پیغمبر نہ بناتے۔
جب حسنِ ظن جو کہ مقدمۂ محبت ہے، صحبتِ آں سرور صلی اﷲ علیہ وسلم اور اصحابِ آں سرور صلی اﷲ علیہ وسلم سے حاصل ہو گیا تو اس قسم کے اعتراضات کی مزاحمت سے نجات میسر ہو گئی اور ان اعتراضوں کا ظاہری طور پر باطل ہونا ظاہر ہو گیا اور اگر نعوذ باﷲ حسنِ ظن صحبتِ خیر البشر صلی اﷲ علیہ وسلم اور اصحاب خیر البشر صلی اﷲ علیہ وسلم سے حاصل نہ ہوا اور بدگمانی کی نوبت آئی تو یہ بدگمانی صحابہ سے آگے بڑھے گی اور خود رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بد گمانی ہو گی۔ گی بلکہ مولائے حقیقی تک بدگمانی کا سلسلہ پہنچے گا۔ اس بات کی خرابی کو خوب سمجھ لیا جائے، جس نے توقیرِ اصحابِ کرام صلی اﷲ علیہ وسلم نہیں کی، وہ گویا رسول ہی پر ایمان نہ لایا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اﷲ عنہم کی شان میں یوں فرمایا ہے کہ جس نے اُن سے محبت کی، اس نے میری محبت کی وجہ سے اُن سے محبت کی اور جس نے اُن سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے بغض رکھا۔ پس محبتِ رسول کے لیے محبتِ صحابہ لازم ہے اور بغضِ اصحاب مستلزمِ بغضِ نبی ہے۔
جب یہ مقدمات واضح ہوئے تو بے تکلف اس شبہے اور اس قسم کے دوسرے شبہات کا جواب حاصل ہو گیا، بلکہ بہت سے جوابات حاصل ہوگئے۔ اس لیے کہ ان مقدمات میں سے ہر مقدمہ ایک مستقل جواب ہے۔
اس قسم کے شبہات فقیر کے نزدیک ایسے ہیں جیسا کہ ایک چالاک و مکار شخص ناواقفوں کی ایک جماعت کے پاس آئے اور اپنے پُرفریب دلائل سے ایک پتھر کو جو کھلا ہوا پتھر ہے سونا بتائے۔ اور یہ بے چارے جب اُس شخص کے ظاہری ملمع شدہ دلائل کے دفع کرنے سے عاجز ہو جائیں اور اُن دلائل کی غلطی کے مواقع کی تشخیص نہ کر سکیں تو ناچار شک و شبہ میں پڑ جائیں بلکہ یقین کر لیں کہ ہاں وہ پتھر سونا ہی ہے اور اپنے حسّ و ادراک کو فراموش کر دیں۔
ایک ہوشیار اور ذی فہم آدمی کو چاہیے کہ حس کی ہدایت پر اعتماد کرے اور ان دلائل کو جو ٹیپ ٹاپ کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔ ناقابل اعتبار وساوس قرار دے دے۔ ہم جو گفتگو کر رہے ہیں اس میں بھی خلفاءِ ثلاثہ کی بزرگی و عظمت بلکہ تمام اصحابِ کرام رضی اﷲ عنہ کی بزرگی کتاب و حدیث کی رو سے محسوس و مشاہد ہے۔ لہٰذا وہ شخص جو ملمع کاری کے ساتھ دلائل قائم کر کے اُن پر عیب لگاتا اور طعن کرتا ہے اس شخص کی مانند ہے جو محسوس چیز کو کچھ کا کچھ بتا کر لوگوں کو بہکا رہا ہے:
’’رَبَّنَا لَاْ تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَ ہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّاب ‘‘
کاش میں سمجھ سکتا کہ اکابرِ دین اور پیشوایان اسلام کو بُرا کہنے پر ان لوگوں کو کس چیز نے آمادہ کیا ہے؟ حالانکہ کسی فاسق و کافر کو بھی سب و شتم کرنا، شریعت میں عبادت، کرامت، فضیلت اور نجات کا ذریعہ نہیں شمار کیا گیا۔ پھر ہادیانِ دین اور حامیانِ اسلام پر سبّ و طعن کیسے عبادت بن جائے گا؟
قرآن مجید میں اصحاب پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کی صفت بیان کی گئی ہے: ’’رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ‘‘ ( آپس میں رحم دل ہیں۔ سورۃ الفتح: آیت۲۹)، پس ان بزرگوں کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ آپس میں عداوت و کینہ رکھتے تھے، نصّ قرآنی کے خلاف ہے۔ ان بزرگوں کے اندر (خوامخواہ)، عداوت و کینہ ثابت کرنا طرفین کے لیے باعثِ طعن اور قابلِ اعتراض ہے، دونوں گروہوں سے اعتماد و عقیدت کا تعلق ختم ہو جاتا ہے اور اس سے اصحابِ کرام رضی اﷲ عنہم کے ہر دو فریق مطعون ہو جائیں گے۔ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک۔نیز اس طریقے سے انبیاء علیہم السلام کے بعد جو بہترین اولاد آدم ہیں، وہ بدترینِ مردم قرار پا جائیں گے اور بہترین زمانہ، بدترین زمانہ قرار پائے گا۔
یہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی کون سی بزرگی ہو گی کہ خلفاءِ ثلاثہ اُن سے عداوت کرنے والے بتائے جائیں اور خود اُن کو پوشیدہ قلبی عداوت رکھنے والا ظاہر کیا جائے؟ یہ تو طرفین پر طعن ہوا…… یہ حضرات کیوں نہ باہم شیر و شکر اور ایک دوسرے پر جان فدا کرنے والے قرار دیے جائیں؟۔ امرِ خلافت ان بزرگوں کے نزدیک مرغوب و مطبوع نہیں تھا کہ سبب عداوت و کینہ ہو جاتا۔ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَاْ تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا اِنَّک رَؤُفٌ رَّحِیْمٌ۔ والصلوٰۃ والسّلام علی سید الانام و علیٰ آلہ و اصحابہ الکرام الی یوم القیام
(مکتوبات امام ربانی، دفتر دوم، مکتوب نمبر ۹۶، بنام خواجہ ابو الحسن بدخشی کشمی)