شیخ الحدیث، حضرت مولانا محمد زکریا رحمۃ اﷲ علیہ
حجۃ الوداع میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سو اونٹ کی قربانی کی تھی، جب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم قربانی فرما رہے تھے تو پانچ، چھے اکٹھے اُمڈے ہوئے آتے تھے کہ پہلے کون قربان ہو۔ ابو داؤد شریف میں یہ قصہ مذکور ہے اور جب ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ معمولی حکام، بے بس حکام جن کے قبضہ میں کچھ بھی نہیں ہے، وہ اپنے فرماں برداروں کی ہر طرح حمایت کرتے ہیں تو اﷲ جل جلالہٗ اپنے مطیعوں کی حمایت کیوں نہ کرے گا اور قرآن شریف کا وعدہ ہے:
یَأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تَنْصُرُوْ اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ۔ (محمد،:۷)
ترجمہ: اے ایمان والوں اگر تم اﷲ (کے دین) کی مدد کرو گے تو اﷲ جل شانہٗ تمھاری مدد کرے گا۔
اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلَاْ غَالِبَ لَکُمْ وَ اِنْ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْ بعَدِہٖ۔ (آل عمران: ۱۶۰)
ترجمہ: اگر اﷲ جل شانہ تمھاری مدد کریں تو کوئی بھی تم پر غالب نہیں ہو سکتا اور وہ اگر مدد نہ کریں تو پھر ان کے علاوہ کون مدد کر سکتا ہے۔
حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے اس چیز کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا، اطاعت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اُن کی طبیعت بن گئی تھی، کامیابی اُن کے ساتھ تھی، ہر نوع کی مدد اُن کی رفیق تھی اور جہاں کہیں کسی قسم کی لغزش ہوئی وہاں مشقتیں، دقتیں اٹھانا پڑیں۔ جنگ اُحد کا قصہ مشہور ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک جماعت کو ایک خاص جگہ پر متعین فرما کر حکم دے دیا تھا کہ ہم غالب ہوں یا مغلوب، تم اس جگہ سے نہیں ہٹنا۔ مسلمان غالب ہوتے جا رہے تھے اور جب کافی غلبہ ہو گیا تو اس جماعت کے بہت سے افراد نے یہ سمجھ کر کہ اب تو غلبہ بالکل ہی حاصل ہو گیا ہے، بھاگنے والے کفار کا تعاقب کیا۔ اس جماعت کے امیر نے کہا بھی کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ اگر ہم غالب بھی ہو جائیں، تب بھی تم یہاں سے نہ ہٹنا، مگر جماعت نے غلط فہمی سے اس حکم کو یہ سمجھا کہ معمولی غلبہ مراد ہے اور اب بالکل غلبہ ہو چکا ہے، اس لیے اس جگہ سے ہٹ گئے اور خالد بن ولید نے جو اس وقت کفار کے سپہ سالار تھے، اسی جگہ سے آ کر پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ کتب حدیث و تاریخ میں یہ قصہ مشہور ہے۔ حنین کی لڑائی میں مسلمانوں کی کثرت اور کفار کی قلت کی وجہ سے بعض مسلمانوں کو کچھ غرور پیدا ہوا، جس کی وجہ سے سخت پریشانی اور دقت کا سامنا مسلمانوں کو کرنا پڑا۔ قرآن پاک میں بھی اس کی طرف اﷲ جل جلالہٗ نے متوجہ فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَۃٍ وَّیَوْمَ حُنَیْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْکُمْ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَ لَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ۔ (توبہ: ۲۵)
ترجمہ: تمھاری اﷲ جل شانہ نے بہت سے موقعوں میں مدد کی اور حنین کے دن بھی مدد کی، جب کہ تم کو اپنی کثرت کی وجہ سے غرور ہو گیا تھا، پس وہ کثرت تمھاری کچھ کام نہ آئی (اور کفار کے تیر برسانے سے ایسی پریشانی تم کو ہوئی) کہ تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے۔
مرتدین کی لڑائی میں اوّل طلیحہ الکذاب سے معرکہ ہوا، جس میں بہت سے لوگ بھاگ گئے، کچھ مارے گئے۔ خود طلیحہ بھی بھاگ گیا، اس سے مسلمانوں کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اس کے بعد مُسیلمہ کی جماعت سے لڑائی ہوئی اور جس میں بہت سخت مقابلہ ہوا اور ہزاروں آدمی اس کی جماعت کے قتل ہوئے اور مسلمانوں کی بھی بڑی جماعت شہید ہوئی۔ حضرت خالد بن ولید ان معرکوں کے سپہ سالار تھے، فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’جب ہم طُلیحہ کذاب سے فارغ ہوئے اور اس کی شوکت کچھ زیادہ نہ تھی تو میری زبان سے ایک کلمہ نکل گیا اور مصیبت گویائی کے ساتھ وابستہ ہے، (میں نے کہہ دیا تھا) کہ بنی حنیفہ ہیں ہی کیا چیز۔ یہ بھی ایسے ہی ہیں جیسے لوگوں سے ہم نبٹ چکے ہیں (یعنی طُلیحہ کی جماعت)۔ مگر جب ہم اس کی جماعت سے بھڑے تو ہم نے دیکھا کہ وہ کسی کے مشابہ نہیں ہیں۔ طلوع آفتاب سے لے کر عصر کے وقت تک وہ برابر مقابلہ کرتے رہے۔
حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ خود اقرار فرماتے ہیں کہ ایک کلمہ زبان سے نکل گیا تھا، جس کی وجہ سے اتنے سخت مقابلہ کی نوبت آئی۔ اسی وجہ سے یہ حضرات خلفاءِ راشدین رضی اﷲ عنہم ذرا ذرا سی چیز کی نگرانی اور اس پر تنبیہ فرماتے تھے۔ یرموک پر جب حملہ ہو رہا تھا تو حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ عراق کی لڑائی میں مشغول تھے۔ یرموکی لشکر کی مدد کے واسطے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے ان کو خط لکھا اور تحریر فرمایا کہ عراق پر اپنا جانشین مقرر کر کے فوراً یرموک پہنچو۔ اس خط میں ان کی تعریف فرمائی تھی اور کامیابیوں پر مبارک باد دی تھی اور یہ لفظ بھی لکھا تھا:
ترجمہ: ’’تمھارے اندر عُجب (غرور) ہرگز پیدا نہ ہو کہ اس سے نقصان اٹھاؤ گے اور ذلیل ہو گے۔ اپنے کسی عمل پر ناز نہ کرنا، اﷲ ہی کا احسان ہے اور وہی بدلہ کا مالک ہے‘‘۔
ان حضرات کے خطبات میں، تحریرات میں ذرا ذرا سے اُمور پر تنبیہ اور اہتمام ہوتا تھا اور معاصی پر زبردست گرفت ہوتی تھی۔ حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کے جس قدر کارنامے مشہور و معروف ہیں، دوست، دشمن، مسلمان، کافر سب ہی واقف ہیں۔ خلافتِ صدیقی میں ایک واقعہ میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ لشکر کی امارت سے ان کو معزول کرنے پر بہت مُصر ہوئے، مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے قبول نہیں فرمایا۔ خلافت فاروقی میں ایک واقعہ کی بنا پر کہ ایک شاعر کو بہت سا انعام دے دیا تھا، حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کی مشکیں بندھوا کر بلوایا گیا تھا۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ جب پہلی مرتبہ بیت المقدس تشریف لے جا رہے تھے تو قرب و جوار کی فوجوں کے سپہ سالاروں کو حکم دیا کہ اپنی فوجوں پر اپنا قائم مقام کسی کو بنا کر، مجھ سے جابیہ میں (ایک جگہ کا نام ہے) آ کر ملیں۔ یہ سب اُمراء جابیہ پہنچے، سب سے اوّل یزید بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہ سے پھر حضرت ابوعبیدہ رضی اﷲ عنہ سے اور حضرت خالد رضی اﷲ عنہ سے ملاقات ہوئی۔ یہ حضرات کچھ ریشمی لباس پہنے ہوئے تھے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ یہ دیکھ کر سواری سے اترے اور پتھر اٹھا اٹھا کر ان حضرات کو مارنا شروع کر دیا اور فرمایا کہ کس قدر جلدی تم اپنے پرانے خیالات سے ہٹ گئے کہ اس ہیئت میں مجھ سے ملنے آئے ہو۔ ابھی دو ہی برس سے تم کو پیٹ بھر کر ملنے لگی ہے، جس پر یہ حالت ہو گئی ہے، اگر دو سو برس کی امارت کے بعد بھی تم اس ہیئت کو اختیار کرتے تو میں تمھاری جگہ دوسروں کو امیر بناتا۔ انھوں نے معذرت کی اور عرض کیا کہ ہم نے ہتھیار لگائے ہوئے یہ کپڑا اوپر پہن لیا تھا (طبری)۔ ریشمی لباس کی فقہی بحث الگ چیز ہے، بعض انواع اس کی جائز ہیں۔ میسان جب فتح ہوا تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے نعمان بن عدی کو وہاں کا حکم بنا دیا۔ انھوں نے اپنی بیوی کو بھی وہاں لے جانا چاہا، مگر وہ نہیں گئیں تو انھوں نے اپنی بیوی کو ایک خط لکھا، جس میں وہاں کی راحتیں اور لطف اشعار میں لکھا، جن میں شراب اور اس کے خوشنما گلاسوں کے دَور چلنے کا بھی ذکر شاعرانہ انداز میں کر دیا تھا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو خبر ہو گئی، ان کو خط لکھا، جس میں بسم اﷲ کے بعد اوّل سورہ غافر کی پہلی آیت لکھی، اس کے بعد تحریر فرمایا مجھے تمھارا فلاں شعر پہنچا، میں نے تمھیں معزول کر دیا۔ وہ حاضر ہوئے اور قسم کھائی کہ میں نے شراب نہیں پی، وہ محض شاعرانہ طور پر لکھ دیا تھا۔ ارشاد فرمایا کہ ’’مجھے بھی تمھارے ساتھ یہی حسن ظن ہے، مگر میں تمھیں کسی جگہ کا حاکم کبھی نہیں بناؤں گا‘‘۔ (معجم البلدان)
یہ سخت گیری اور تنگ نظر تھی ان حضرات اکابر کی، تاریخ اور کتب حدیث میں ہزاروں واقعات اس رنگ کے پاؤ گے، یہی دارین کی ترقیات کا واحد سبب تھا اور جہاں کہیں کوئی لغزش ہوئی، وہاں نقصان بھی پہنچا۔ جس کی نظیریں ابھی پڑھ چکے ہو اور ساتھ ہی یہ بھی کہ جتنا اونچا طبقہ یا فرد تھا اتنی ہی معمولی لغزش پر اﷲ جل شانہٗ کی طرف سے تنبیہ ہوئی۔ اور یہ بات قرین قیاس بھی ہے۔ حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئٰاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ سورہ عبس میں اس چیز پر تنبیہ ہے کہ ایک نابینا غریب کے مقابلہ میں دنیا دار مالدار کی رعایت کیوں ہوئی، حالانکہ وہ رعایت دین ہی کے خاطر تھی اس کے بالمقابل جتنا معمولی طبقہ تھا اتنے ہی معمولی سیئات سے در گزر اور سیئات کے بڑھ جانے پر گرفت ہوئی۔ جزیرہ سردانیہ بہت مشہور جزیرہ ہے ۹۰ ھ کے آس پاس فتح ہوئی ہے۔ مال غنیمت میں خاص طور سے اس میں خیانتیں کثرت سے ہوئیں، جس کے ہاتھ جو لگا اُڑا لیا۔ فتح کے بعد جہاز میں سوار ہو کر واپس آ رہے تھے کہ غیب سے آواز آئی: ’’اے اﷲ! ان کو غرق کر دے‘‘ اور سب غرق ہو گئے (اشاعۃ)۔
وہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادات تھے جو اس مضمون کے شروع میں تھے اور یہ واقعات ان کی مثالیں ہیں، گزشتہ تواریخ کے اوراق ان سے پُر ہیں اور آج جو ہو رہا ہے وہ آنکھوں کے سامنے ہے۔ بے دینی کے اسباب ہم اپنے ہاتھوں اختیار کرتے جارہے ہیں، گناہوں میں زور و شور سے منہمک ہوتے جا رہے ہیں، پریشانیاں اور بدحالیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور اب تو اجتماعی صورت سے خود اسلام کو خیر باد کہنے کی صورتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ دین کے ایک ایک جزو کو چھوڑا جا رہا ہے، اب اس کا اگر حل ہو سکتا ہے تو دین پر پختگی اور گناہوں سے احتراز ہی سے ہو سکتا ہے، مگر اس دقیانوسی بات کو کون کہہ سکتا ہے اور کس سے کہا جائے۔ فَاِلَی اللّٰہِ الْمُشْتَکٰی والْمُسْتَعَانُ۔