ایک مثالی سامراجی پٹھو کا تذکرہ
یاد داشت: جنرل ڈائر(ترجمہ: گل خان نصیر)
’’یہ ایک واقعاتی حقیقت ہے کہ اگر غیر ملکی استعمار کو مقامی ایجنٹوں (سہولت کاروں) کی مدد حاصل نہ ہوتی تو اسے اپنے تسلط کے قیام میں کبھی کامیابی نہ ہوتی۔ یہ مقامی ایجنٹ ہی ہیں جو کبھی سیاست و قیادت ، کبھی مذہب و روایت اور کبھی علم و تعلیم کے دائروں میں استعماری غاصبوں کو بیساکھیاں فراہم کرتے ہیں۔ ان ایجنٹوں میں بہت علاقائی اور زمانی اختلافات کے باوجود چند باتیں مشترک ہیں۔ مثلاً یہ ہمیشہ مزاحمت کرنے والوں کو ڈرانے کی سعی نا مشکور میں مگن رہتے ہیں۔ [قرآن کے الفاظ میں : ویخوّفونک بالذین من دونہ] ۔ یہ مقامی آبادیوں کو ہمیشہ یقین دلاتے ہیں کہ یہ ان کے خیر خواہ ہیں۔ اسی طرح سرسید اور مرزا قادیانی سے لے کر ایامِ حاضرہ کے بہت سے اصحابِ جبہ و دستار مولوی صاحبان وپیران وصاحبزادگان تک استعمار کے ہر ایجنٹ اور ملت کے ہر غدار کی اصل قوت یہ ہے کہ وہ برادران ملت سے دیکھنے میں زیادہ مختلف نہیں ہوتا۔ اس کی چال ڈھال، زبان، حلیہ اور رہن سہن مقامی ہوتا ہے، اسی مقامیت کو وہ اپنے دامِ ہمرنگِ زمین کی تشکیل کے لیے استعمال کر کے مردانِ احرار کو پنجۂ استبداد میں گرفتار کرنے کی مردود مساعی میں مصروف رہتا ہے۔
برصغیر کی تحریک آزادی کا ایک مشہور خونی کردار جنرل ڈائر جو امرتسر کے جلیانوالہ باغ کے قتل عام کی وجہ سے مشہور ہے۔ امرتسر میں اپنے فرائض منصبی سر انجام دینے سے پہلے وہ بلوچستان کے ایرانی سرحد سے متصل علاقوں میں مقامی آزاد منش بلوچ قبائل کی شورش کو رفع کرنے مصروف رہا۔ بلکہ اس کے اپنے الفاظ میں کے بعد اس علاقے میں جرمن ایجنٹوں کی آمد و رفت کو ختم کرنا اس کی ڈیوٹی تھی۔ اگرچہ اس استعماری بہانے کا کوئی ثبوت وہ کبھی فراہم نہیں کر سکا۔ حتی کہ جرمن ایجنٹوں کی اس علاقے میں کسی مزعومہ سرگرمی کا کوئی تاریخی ثبوت کسی معاصر برطانوی تاریخ میں بھی مذکور نہیں ہے۔ اس ڈیوٹی کے دوران وہ جن احوال سے گزرااور جن مکاریوں اور چال بازیوں کے ذریعے سے اس نے مقامی قبائل کو غلام بنایا اس کا خود بیان کردہ احوال اس نے (Raiders of Sarhad) کے نام سے لکھا جو کتابی صورت میں سنہ ۱۹۲۱ء میں لندن سے شائع ہوا۔ پاکستان میں اس کا ترجمہ معروف مفکر و بلوچ رہنما گل خان نصیر نے ’’بلوچستان کے سرحدی چھاپہ مار اور گوریلا جنگجو‘‘ کے نام سے کیا جسے کوئٹہ (کبیر بلڈنگ، جناح روڈ) کے گوشۂ ادب نامی دار الاشاعت نے شائع کیا۔ ذیل کا مضمون اسی ترجمے کے مختلف اقتباسات پر مشتمل ہے۔
گل خان نصیر تعارف میں لکھتے ہیں: ’’جنرل ڈائر نے سرحد کے ان بلوچ قبائل کے خلاف فروری سنہ ۱۹۱۶ء میں اپنی یہ مہم شروع کی جسے وہ ہتھیاروں کی نمائش اور دھونس و دھمکیوں کی مہم کہتا ہے اور پورے آٹھ مہینے تک اسے جاری رکھا۔ اس میں وہ کہاں تک کامیاب ہوا، کتاب کے مطالعہ سے قارئین اس کا بخوبی اندازہ لگا سکیں گے۔ نہ تو وہ جئیند کو دوبارہ گرفتار کر سکا، اور نہ گمشاد زئی اور یار محمد زئی قبائل کو اپنی اطاعت پر آمادہ ہی کر سکا البتہ گمشاد زئی قبیلہ کے بہادر اور نوجوان سردار خلیل خان کو ایک جھڑپ میں جامِ شہادت پلانے میں اسے کامیابی ضرور ہوئی…… جنرل ڈائر لکھتا ہے کہ ’گمشاد زئیوں کے ساتھ اس آخری معرکے کے بعد تمام سرحد میں انگریزوں کا وقار مکمل طور پر بحال ہو گیا‘…… مگر در حقیقت ایسا نہیں تھا‘‘۔
جنرل ڈائر کی اس مہم میں اس کا دست راست ایک مقامی ایجنٹ بنام عیدو خان تھا جو ریکی زئی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ جنرل ڈائر کی ساری فتوحات بلکہ اس مہم کا آغاز ہی عیدو خان کے مکروہ کردار کی بدولت تھا۔ اگر عیدو نہ ہوتا تو جنرل ڈائر بلوچستان کے بے آب و گیاہ صحراؤں اور پہاڑوں سے ٹکرا کر ناکام و نا مراد مر چکا ہوتا۔ جنرل ڈائر نے اپنی کتاب میں عیدو کے اس کردار کی بجا طور پر تعریف کی ہے۔ جنگ کے بعد عیدو کو تاجِ برطانیہ کی طرف سے خان صاحب کا خطاب بھی دیا گیا۔ عیدو نے جنرل ڈائر کے ساتھ مل کر اپنے ہی قوم کے بہادر و غیور مردانِ سادہ کار کو جس طرح غلام بنانے کی کوشش کی اور جس طرح ان کے مال متاع، عزت آبرو اور وطن میں با عزت طریقے سے رہنے کے حقوق کی پامالی کی اس کا مطالعہ ضروری ہے۔ کیونکہ کہ اس وقت بھی ہم بحیثیت مجموعی اپنی ملّی زندگی کے مختلف محاذوں پر (آج کل بطور خاص تعلیم کے میدان میں) عیدو خان کے فرزندانِ معنوی سے دو چار ہیں۔‘‘ (ادارہ)
جنرل ڈائر کی عیدو بلوچ سے پہلی ملاقات:
’’گھپ اندھیری رات میں، ٹوٹی پھوٹی زمین پر گرتے پڑتے، جب کہ لالٹین مشکل سے میرے پاؤں کے قریب سامنے کا راستہ روشن کر سکتی تھی، میں موٹر کار سے تھوڑی دور تک بھٹکتا رہا اور پھر مجھے کچھ آوازیں سنائی دیں۔ فوری طور پر مجھے چھاپہ ماروں کا خیال آیا جو اس علاقے کو روند رہے تھے۔ میں نے خیال کیا کہ یہ ایک بڑی مضحکہ خیز اور ذلت آمیز بات ہو گی کہ اگر اپنی اس مہم کو، جس سے میں نے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں، شروع کرنے سے پہلے میں نے اُن کے ہاتھوں میں پکڑا جاؤں۔
میں نے خاموشی سے لالٹین بجھا دی اور گھپ اندھیرے میں گوش بر آواز رہا۔ چند ثانیوں تک بالکل خاموشی چھائی رہی اور میں بھی بالکل بے حس و حرکت کھڑا رہا۔ تھوڑی دیر بعد پھر آوازیں آنے لگیں، میں نے اندازہ لگا لیا کہ بولنے والے دو یا زیادہ سے زیادہ تین آدمی ہیں۔
میں نے فوراً سوچ لیا اور بالآخر یقین کر لیا کہ میرے سامنے زیادہ آدمی نہیں ہوں گے، اگر ہم چھاپہ ماروں کے کسی پڑاؤ کے قریب ہوتے تو وہاں روشنیاں ہوتیں، پڑاؤ کی آگ جلتی اور بڑا شور و غل ہوتا۔ جو آوازیں میں نے سنی ہیں، وہ غالباً اُن آدمیوں کی ہوں گی جنھوں نے موٹر کار کی روشنیاں دیکھ لی ہیں اور اب یہ دیکھنے اور معلوم کرنے آئے ہیں کہ یہ روشنیاں کیسی تھیں؟
میں بہت جلد واپس مڑ کر موٹر کار کے پاس چلا گیا، جہاں پر بے وقوفی سے میں نے اپنا ریوالور چھوڑ دیا تھا۔ اپنا ہتھیار حاصل کر کے میں نے ایلن سے سرگوشی میں اُن آوازوں کا ذکر کیا، جو میں نے سنی تھی اور اُسے ہدایت کی کہ وہ بھی تیار کھڑا رہے۔ تب میں اندھیرے میں واپس وہاں گیا، اُسی جگہ پر پہنچ کر میں نے ہندوستانی میں زور سے پکارا:’’تم کون ہو‘‘؟
بروقت جواب آیا ’’میں عیدو ہوں، چاغی لیویز کا ملاز اور حکومتِ برطانیہ کا دوست ہوں‘‘۔
پھر میں نے جواب دے کر اُن کو بتلا دیا کہ میں کون ہوں۔ فوراً تین پوری طرح مسلح آدمی اندھیرے سے نکل کر میرے سامنے آ گئے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ وہ یہاں کیا کر رہے ہیں۔
اُسی آواز نے جس نے مجھے پہلے جواب دیا تھا، کہا ’’وہ تینوں چاغی لیویز کے سپاہی ہیں۔ وہ اور ان کے ساتھ پچاس مزید سپاہی مجھ سے لڑنے کو آئے ہیں‘‘۔
’’مجھ سے لڑنے کو‘‘؟ میں چیخ اٹھا ’’آخر کیوں‘‘؟
’’بس جناب‘‘! اُس شخص نے جس نے اپنا نام عیدو بتایا تھا، جو اب دیا۔ ’’ہم نے آپ کو جرمن سمجھا تھا‘‘۔
اور پھر اس نے تفصیلات بتلاتے ہوئے کہا کہ بہت دیر سے وہ اور اس کے دوسرے ساتھی آسمان کی طرف ایک تیز روشنی پھیلتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور وہ اتنا جانتے تھے کہ دنیا میں صرف جرمن ہی وہ لوگ ہیں جن کے پاس ہوائی جہاز ہوتے ہیں۔ تب اُن کو یقین آ گیا کہ یہ روشنی جو وہ دیکھ رہے ہیں، اُن ہی میں سے ایک کی ہے اور جب وہ اُس کے سامنے پہاڑی پر اُتر پڑا تو اُس کے ساتھیوں کی اکثریت خوف زدہ ہو کر بھاگ گئی۔ صرف اُسے اور اس کے دو ساتھیوں کو یہاں ٹھہرنے اور اس نامعلوم خطرے کا مقابلہ کرنے کی جرأت ہوئی۔
اب میں سمجھ گیا کہ وہ موٹر کار کی بجلی کی بتیوں کی روشنی کی بابت کہہ رہا ہے جو صحرا میں دور بلندیوں تک روشنی پھیلاتی تھیں اور ان لوگوں کو ایسا دکھائی دیتا تھا کہ یہ روشنی آسمان سے آ رہی ہے اور اس طرح میری بے خطر موٹر کار ان کو خوفناک جرمن ہوائی جہاز نظر آئی۔ اس میں شک نہیں کہ اس راستے پر موٹر کاریں بھی ہوائی جہازوں کی طرح عجوبے نظر آتی ہیں۔ بلاشبہ ان آدمیوں نے جو اس وقت میرے سامنے کھڑے تھے۔ اپنی زندگی میں کبھی کوئی موٹر کار نہیں دیکھی تھی۔
جہاں تک مجھ سے ہو سکتا تھا، میں نے اُن کو یقین دلایا کہ میں ایسے آدمیوں سے، جن کی بہادری اور جنگجوئی میں کوئی شک نہیں، مل کر بہت خوش ہوا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ اب وہ میرے ساتھ آئیں گے اور جرمنوں اور اُن کے ہوائی جہازوں کے خلاف لڑنے میں، جس کے لیے میں یہاں آیا ہوں، میری مدد کریں گے۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس علاقے میں جرمنوں کے اثر و نفوذ سے متعلق اطلاعات بالکل درست تھیں۔ اگر ایسا نہ ہوتاتو ہمیں ان چھاپہ ماروں کے خلاف جن کو جرمنوں نے اپنے جھوٹے پروپیگنڈوں سے اُکسا کر ہمارا دشمن بنا دیا تھا، لڑنے کی کیا ضرورت تھی۔
عیدو نے کہا کہ اُسے میرے ساتھ چلنے اور انگریزی راج کے دشمنوں کے خلاف لڑنے اور میری مدد کرنے میں خوشی ہو گی۔ اُس نے مجھے یہ بھی بتا دیا کہ اس رات کو بھی اس نے ایک دفعہ میری جان بچائی ہے۔
وہ کیسے؟ میں نے اس سے پوچھا اور پھر جذبات میں آ کر اس اندھیری رات میں اپنے پہلے تین رنگروٹوں کی طرف غور سے دیکھتا رہا۔
’’اس طرح جناب‘‘! عیدو نے جواب دیا۔ جب یہ ہوائی جہاز، جسے آپ کہتے ہیں کہ ہوائی جہاز نہیں ہے، ٹھہر گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے ایک آدمی کی شبیہ دیکھی جو ایک لالٹین لے کر ہماری طرف آ رہا تھا اور خلیل نے، اپنے ایک ساتھی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُس نے کہا، اپنی رائفل اٹھائی اور فائر کرنے ہی والا تھا کہ میں نے کہا، نہیں: دیکھو، وہ ایک آدمی ہے۔ ہم انتظار کریں اور دیکھیں وہ کون ہے۔ تب لالٹین بجھ گئی اور ہمارے سامنے کوئی نشانہ نہیں تھا‘‘۔
’’تم نے بہت اچھا کیا عیدو‘‘! تم نے بے شک میری جان بچائی ہے اور تم جتنے ہوشیار ہو، اُتنے ہی بہادر بھی ہو۔ میں تم کو اپنے ذاتی عملہ میں رکھوں گا۔ میں ہی وہ افسر ہوں جسے سرحد اور سیستان میں پڑی ہوئی فوج کی کمان سنبھالنے کو بھیجا گیا ہے۔ مگر اس وقت میری سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ سیا ہیندک کا راستہ تلاش کروں۔ کیا تم وہ مجھے دکھا سکتے ہو‘‘؟
عیدو نے ہنس کر کہا: ’’صاحب! میں آنکھیں بند کر کے تم کو وہاں لے جاؤں گا‘‘۔
میں نے محسوس کر لیا کہ اب ان تین تنو مند بہادروں کی رہنمائی میں جن کے لیے ہماری موٹر کار ایک انتہائی ولولہ خیز اور حیرت انگیز چیز تھی، راستے کی ہماری تمام مصیبتیں ختم ہو گیں۔ تھوڑی دیر بعد ایلن(ڈرائیور)، اﷲ داد(بیٹ مین) اور تھکا ماندہ میں، سیاہیندک کے چھوٹے سے قلعے کے ریسٹ ہاؤس میں محفوظ تھے۔
رات کو خوب آرام کرنے کے بعد، دوسرے دن صبح کو میں نے عیدو کے ساتھ ایک طویل گفتگو کی۔ اس شخص کے متعلق پچھلی رات کو میں نے جو اچھی رائے قائم کی تھی، اس میں مزید اضافہ ہوا۔ دن کی روشنی میں وہ مجھے ایک بہت ہی ہوشیار، متناسب جسم کا مالک، پانچ فٹ آٹھ انچ قد کا ایک لمبی کالی ڈاڑھی والا شخص نظر آیا۔ اُس وقت بھی میں نے اُس کے ذوقِ مزاح کا احساس کیا تھا لیکن زاں بعد اُن تمام مہینوں کے دوران پیش آنے والی مصیبتوں اور تکالیف کے اثر کو کم کرنے کے لیے وہ عموماً مذاقیہ اندازِ اختیار کیے رہتا۔
اس تمام مہم کے دوران میں نے کبھی اُس کی ظرافت اور ہنسی مذاق میں کمی آتے نہیں دیکھی۔ جیسا کہ بعد کے واقعات سے ثابت ہوا کہ وہ ایک بالکل بے بہا شخص تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ میں اکثر اُسے بلاتا اور کہتا کہ ’’عیدو! میں تم کو اپنا سر (دماغ) سمجھتا ہوں‘‘۔ نہ صرف یہ کہ عیدو علاقے کی گز گز زمین کو جانتا تھا بلکہ وہ ان قبائلی چھاپہ ماروں میں سے ہر ایک کا نام جانتا تھا اور اُن میں سے ہر ایک کو ذاتی طور پر پہچانتا بھی تھا۔ اُن کی خصوصیتوں، ان کی کمزوریوں اور اُن کی قبائلی طاقت سے بھی واقف تھا۔ عیدو لاکھوں میں ایک تھا۔ (حکومتِ ہند کی طرف سے عیدو خان کو ان خدمات کے صلے میں خان صاحب کے خطاب اور معقول پنشن سے نوازا گیا۔ اخیر عمر میں وہ زاہدان ایران میں سکونت پذیر ہوئے۔ مترجم)
میں یہ خیال کر کے خوش ہوتا ہوں کہ ایک دن اس کی یہ برملا تعریف جو میں کرتا ہوں اور جو کچھ امداد اُس نے اِس مہم کے دوران ہمیں دی ہے، اُن کا ذکر ضرور اس تک پہنچ جائے گا۔
عیدو کے ساتھ بات چیت اور ناشتہ کرنے کے بعد ہم اپنی پہلی منزل کی طرف آخری سفر پر روانہ ہوئے اور دو بجے بعد دوپہر رباط پہنچے‘‘۔
عیدو کا طریقۂ واردات:
’’…………ہم اپنے نئے شتر سوار دستے کی معیت میں ایک دفعہ پھر روانہ ہوئے۔ ابھی ہم بیس پچیس میل گئے تھے کہ عیدو نے ہمیں ٹھہرنے کو کہا۔ اس نے نہایت یقین کے ساتھ کہا کہ اُسے عین ہمارے سامنے کے چھوٹے نالے میں کچھ آدمی پڑاؤ ڈالے نظر آتے ہیں۔ اگر وہ صحیح کہتا ہے، تب وہ آدمی ضرور یار محمد زئی یعنی ہمارے دشمن ہوں گے کیونکہ اس وقت ہم جئیند(سردار جئیند خان یار محمد زئی، ایک حریت پسند جنگجو سردار) کے علاقے کے عین قلب میں تھے۔
ایلن کو ہدایت کی گئی کہ وہ کار کوندی کے دہانے کے قریب لے جائے اور وہاں پر ایلن کار کو اور ریکی زئی اپنے اونٹوں کو چھپا دیں اور خود بھی چھپ جائیں اور اُس چھوٹے چشمے سے جو درمیان میں بہتا تھا، ہم اپنی بوتلوں اور موٹر کار کے ریڈی ایٹر کو پانی سے بھر دی۔ نالے کے کنارے جو سیلابی پانی کے بہاؤ سے گہرے کٹے ہوئے تھے، کسی حد تک ہمیں سایہ بہم پہنچا سکتے تھے، جس کے لیے اس کھلے ریتلے میدان کی جھلسا دینے والی گرمی سے بچنے کی خاطر ہم ترس رہے تھے۔
تھوڑی دیر آرام کرنے اور پانی پینے کے بعد عیدو موقع کا معائنہ کرنے کو گیا اور جلد ہی ایک افسردہ چہرہ لے کر واپس آیا۔
’’ وہ عزت کے آدمی ہیں’‘۔ اس نے کہا ’’اور عزت ایک بڑا جنگباز ہے، ہمیں اُس سے ایک جھڑپ لینی ہو گی‘‘۔ عزت سے متعلق یہ یاد رہے کہ وہ حال ہی میں فارس کے علاقے پر چھاپے مارنے والوں کا بڑا سرغنہ تھا، جو کئی عورتوں اور بچوں کو بندی کر کے لایا تھا۔
’’اس کے ساتھ کتنے آدمی ہیں‘‘؟ میں نے پوچھا
’’صرف اٹھارہ‘‘ عیدو نے جواب دیا۔
’’صرف اٹھارہ‘‘۔ میں نے تسلی سے کہا ’’پھر کیا! ہم برابر تعداد کے ہیں اور موٹر کار اس کے علاوہ ہے۔ اگر وہ لڑنا چاہیں تو ہم لڑیں گے‘‘۔
عیدو کچھ متذبذب لگتا تھا۔ ’’بہرحال! اس کے معنی یہ ہوں گے کہ میں اپنے قبیلے کے کئی آدمی کھو بیٹھوں۔ حالانکہ اگر ہم قلعۂ خواش کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے ہیں تو ان سب کو ہمارے ساتھ ہونا چاہیے۔ کیا جرنیل صاحب مجھے اجازت دیں گے کہ میں جا کر دیکھوں کہ کوئی ایسی صورت ہو سکتی ہے کہ میں عزت کو لڑنے سے باز رکھ سکوں‘‘؟
عیدو کی ترغیبی صلاحیتوں کو جانتے ہوئے میں نے اُسے فوراً اجازت دے دی، مگر اس سے یہ بھی کہا کہ اپنی ذات کو خطرے میں نہ ڈالے کیونکہ علاقے کے متعلق وسیع معلومات رکھنے اور تمام سرحدیوں کی مختلف خصوصیات کی پہچان کی وجہ سے عیدو کا وجود میرے لیے قطعی طور پر ناگزیر تھا۔ مجھے اس کے تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں۔ میرے دل میں اس شخص کے لیے ایک مخلصانہ شفقت کا جذبہ پیدا ہو چکا تھا۔ جب سے وہ مجھے ملا تھا، اُس کے انتہائی خلوص، جان نثاری اور وفاداری میں ذرہ بھر بھی لغزش نہیں آئی تھی۔
’’کوئی فکر نہ کرو صاحب‘‘! اُس نے ایک کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا ’’آپ ہمارا قبائلی قانون جانتے ہیں۔ یہی ایک ایسا قانون ہے جس کی ہم کبھی خلاف ورزی نہیں کرتے‘‘۔
عیدو آگے بڑھ گیا۔ اُس نے ایک محفوظ آڑ سے عزت کو پکارا اور وہ اُسے بتا دیا کہ وہ کون ہے اور پھر اُس سے ملنے کے لیے آنے اور واپس جانے کے لیے اپنے تحفظ کا قول مانگا جو فوری طور پر اُسے دے دیا گیا۔ اس طرح عیدو بہادرانہ طور پر آگے گیا۔ اُسے یقین تھا کہ اُن کے قبائلی ضابطۂ اخلاق کے مطابق اُس کی زندگی اُس وقت تک محفوظ تھی جب تک وہ اپنے دوستوں میں واپس نہ پہنچے۔
عزت کے ساتھ اُس کی گفتگو نے بہت طول کھینچا۔ عزت کو قائل کرنا مشکل تھا۔ مگر حسبِ سابق آخر کار عیدو کی چالاکی اور چرب زبانی اپنا کام کر گئی۔ جب وہ واپس آیا تو اس نے مجھے بتا دیا کہ اس عزت اور اس کے آدمیوں کو اس بات پر آمادہ کر لیا ہے ہے کہ وہ ہمارے ساتھ اگر دوست کی حیثیت سے خواش نہیں آنا چاہتے تو دشمن کی حیثیت سے بھی نہ آئیں۔ بالآخر وہ غیرجانبدارانہ حیثیت سے ہمارے ساتھ آنے کو آمادہ ہو چکے ہیں۔
عیدو نے پھر مجھ سے اپنے وہ دلائل بیان کے جو اُس نے وہاں دیے تھے۔ عیدو، جس کے طریقۂ کار سے میں شناسا ہو چکا تھا، طبعی طور پر یہی دلائل دے سکتا تھا۔ اُن کے درمیان گفتگو تقریباً اس طرح ہوئی:
’’عزت! تم یہاں کیا کر رہے ہو جبکہ تمھارے گھر یہاں سے بہت دور ہیں‘‘۔ عیدو نے پوچھا
’’میں یہاں انگریز جرنیل سے لڑنے آیا ہوں۔ میں دیکھ بھال کرنے والے ایک دستے کی کمان کر رہا ہوں۔ میں جیند کو جو خواش پر حملہ کر رہا ہے اطلاع بھجوایا کرتا ہوں‘‘۔
’’کیا میں تمھاری بات ٹھیک سمجھ سکا ہوں‘‘۔ عیدو نے کہا ’’کیا تمھارا واقعی یہی مطلب ہے کہ تم جرنیل صاحب سے لڑنے کے ارادے سے آئے ہو‘‘؟
’’بے شک‘‘ عزت نے جواب دیا۔
’’پھر‘‘ عیدو نے اُس کا مضحکہ اڑاتے ہوئے کہا۔’’ میں تم سے بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ تم چند لمحوں میں ملیا میٹ کر دیے جاؤ گے۔ اگر تم لڑو گے تو اپنے کو بدقول کو ثابت کرو گے۔ جرنیل صاحب نے تم گرفتار کر لیا۔ تم کو اور تمھارے سب آدمیوں کو جان سے مار سکتا تھا۔ مگر اس کے برعکس تم سے اچھا سلوک کیا، تمھاری رائفلیں تمھیں واپس دیں، بہت بڑی رقم دی اور تم کو آزادی سے جانے دیا۔ مزید برآن تم نے کچّاؤ کے مقام پر قرآن پر حلف اٹھایا اور اقرار نامے پر اپنے انگوٹھے کا نشان بھی لگایا۔ تم خود کو اچھا مسلمان سمجھتے ہو کہ قرآن پر اٹھایا ہوا اپنا حلف توڑتے ہو۔ اس کے علاوہ اے بے وقوف! تم یہ نہیں جانتے ہو کہ جرنیل صاحب اپنے ساتھ ایک حیرت انگیز شیطانی آلہ بھی لے آئے ہیں۔ ادھر آؤ، میرے ساتھ اور اُسے دیکھ لو‘‘۔
تب وہ عزّت کو اُس مقام پر لے گیا، جہاں موٹر کار کھڑی تھی اور اُسے موٹر کار دکھا کر کہا۔’’تم اس عجیب چیز کو دیکھ رہے ہو جو وہاں کھڑی ہے، اور تم اس کے اگلے حصے کو بھی دیکھتے ہو، جس میں سینکڑوں چھوٹے چھوٹے سوراخ ہیں، جرنیل صاحب کو صرف ایک بٹن دبانا پڑے گا اور اُن سوراخوں میں سے اولوں کی طرح گولیوں کی بوچھاڑ ہونے لگے گی۔ تم اور تمھارے سب آدمی مارے جائیں گے۔ وہ صرف میری واپسی کا انتظار کر رہے ہیں۔ میں اس لیے آیا ہوں کہ تم اور تمھارے آدمیوں کی جان بچاؤں۔ اگر میں جا کر اُن سے کہہ دوں کہ تم لڑنا چاہتے ہو تو وہ اس بٹن کو دبا دیں گے اور تم میں سے ایک بھی زندہ نہیں بچے گا۔ تمھارے لیے بس یہی ایک صورت ہے کہ اُس کے پاس جاؤ، اس کے پاؤں پڑو اور کہہ دو کہ تم کو معاف کر دے‘‘۔
عزت بہت زیادہ مرعوب ہوا اور اپنے آدمیوں کے ساتھ صلاح و مشورہ کرنے کے بعد اُس نے عیدو سے کہا کہ وہ اس کا مشورہ قبول کرتا ہے۔ اگر وہ ابھی جا کر جرنیل صاحب سے درخواست کرے کہ وہ اُن کو اپنی موٹر کار سے تباہ و برباد نہ کرا دے تو وہ چند منٹ بعد آ کر ہتھیار ڈال دیں گے۔
عیدو کی باتیں سن کر ایلن کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ لیکن پھر تھوڑی دیر بعد سنجیدہ ہو گیا۔ ’’جناب! کیا آپ اُن کے یہاں آنے کو محفوظ خیال کریں گے۔ وہ تو ایک وحشی گروہ ہیں اور جب وہ یہ معلوم کر لیں گے کہ عیدو نے اُن کو بے وقوف بنایا ہے تو کہیں وہ ہم پر حملہ نہ کر دیں اور اس سے قبل کہ ہم اُن کو کوئی نقصان پہنچا سکیں، وہ ہمارے گلے نہ کاٹ دیں‘‘۔
’’میں جانتا ہوں‘‘۔ میں نے کہا ’’مگر ہم کو ریڈی ایٹر سے متعلق عیدو کی دھونس سے جہاں تک ممکن ہو گا، کام لینا ہو گا۔ اس کے علاوہ ہم برابر کی تعداد میں بھی ہیں۔ البتہ ایک بات یاد رکھو! اُن کے سامنے ڈر یا شک کا اظہار نہ ہونے دو۔ اس سے اُن پر کسی اور چیز سے زیادہ اثر پڑے گا‘‘۔
لہٰذا ایلن اور میں ندی کے کٹاؤ کے سائے میں بیٹھ گئے جبکہ عزت اور اس کے آدمی آ کر ہمارے سامنے نیم دائرے کی صورت میں بیٹھے۔ میں نے عزت سے متعلق واضح الفاظ میں کہا کہ میں اُس سے متعلق کیا خیال کرتا ہوں۔
اُس کا ذہن واضح طور پر عیدو کی باتوں سے جو کچھ اُس نے اُس سے کہی تھیں، متاثر معلوم ہوتا تھا کیونکہ وہ اپنی حرکت پر نادم اور معافی کا خواستگار تھا۔ اُسے کافی تنبیہ کرنے کے بعد میں نے مناسب خیال کیا کہ کچھ عالی ظرفی کا بھی مظاہرہ کروں۔ تب میں نے اُس سے کہا کہ میں صرف اس صورت میں اُسے معاف کروں گا کہ وہ اپنے آدمیوں کے ساتھ میرے پاس آئے اور میری مدد کرے، جب موٹر کار کے لیے مجھے اس کی ضرورت پڑے۔ میں نے اُن کے سامنے وضاحت کر دی کہ اگرچہ یہ ایک شیطانی آلہ ہے مگر کبھی کبھی ریت اس میں رکاوٹ ڈالتی ہے اور اسے انسانی امداد کی ضرورت پڑتی ہے‘‘۔
عیدو کے کردار کا تجزیہ:
مطالعۂ تاریخ میں ایک بات مسلمہ ہے کہ ’تاریخ میں ’’اگر‘‘ اور ’’کاش‘‘ نہیں ہوتے۔ پھر بھی کہنے کو کہا تو جا سکتا ہے کہ عیدو خان اگر اس روز عزت بلوچ کے ہاتھوں(اور بعد میں سردار جئیند خان اور شاہسوار خان کے دستوں سے) جنرل ڈائر کو نہ بچاتا تو نہ تاج برطانیہ بلوچستان کے اس سرحدی علاقے پر اپنا تسلط مستحکم کر سکتا نہ اس کے بعد واقع ہونے والا خونریز سانحۂ جلیانوالہ باغ ہی وقوع پذیر ہوتا۔
گل خان نصیر نے کتاب کے مقدمے میں عیدو خان کے بارے میں کیا خوب لکھا ہے:
’’عیدو کے کردار سے اس حقیقت کو مزید تقویت ملتی ہے کہ کسی ملک یا علاقے کا ایک چالاک مقامی غدار، جیسا کہ عیدو تھا، اپنے ہم وطنوں کو کیسی کیسی مصیبتوں میں مبتلا کر سکتا ہے۔ اُن کی خوداری، شجاعت، ایثار و قربانی اور سرفروشی کے جذبات کو کس طرح اپنی چالبازیوں اور مکاریوں سے خوف، بزدلی، تذلیل اور ندامت میں بدل دیتا ہے اور اُن کی آزادی کا گلا گھونٹ کر غلامی کا طوق اُن کے گلوں میں ڈالنے کا باعث بنتا ہے۔ جنرل ڈائر، عیدو کی کارستانیوں کا ذکر بار بار قابلِ ستائش انداز میں کرتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر عیدو جیسا ایک وطن فروش غدار جنرل ڈائر کو نہ ملتا تو اسے سرحدی بلوچ قبائل کو بہلا پھسلا کر اپنی طرف راغب کرنے اور دھونس و دھمکیوں سے مرعوب کرنے میں اتنی بھی کامیابی ہر گز حاصل نہ ہوتی جس کا وہ دعویٰ کرتا ہے۔ یہ عیدو کے ہی اختراعی دماغ کی کارستانی تھی کہ ان سادہ لوح بلوچوں نے، جنھوں نے زندگی میں پہلی بار موٹر کار دیکھی تھی، اسے ایک عجوبہ، ایک شیطانی آلہ اور ایک تباہ کن جنگی ہتھیار قرار دیا اور اس سے اس قدر سراسیمہ اور خوف زدہ ہوئے کہ وہ اپنی چوکڑی بھول گئے اور عیدو کو یہ موقع دیا کہ جنرل ڈائر کو ایک برائے نام سی فوج کے ساتھ اُن پر غلبہ دلا دے۔ مثل مشہور ہے کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے، عیدو گھر کا یہی بھیدی تھا، جس نے سرحد کے آزاد منش، بلوچ قبائل کے قلعوں کو، اُن کی جہالت اور ناتجربہ کاری سے فائدہ اٹھا کر جنرل ڈائر کے قدموں پر ڈھیر کر دیا اور اُن کی شجاعت، عزائم اور حوصلوں کو اس حد تک پست کر دیا کہ جنرل ڈائر کی فوج سے دِہ چند زیادہ تعداد میں ہونے کے باوجود ابتدائی دور میں اُس سے ٹکر لینے سے کتراتے اور جان بچاتے پھرتے رہے۔ عیدو کی ان کارستانیوں کو، جن کے بیان سے یہ کتاب بھری پڑی ہے، دیکھتے ہوئے جنرل ڈائر کے ان الفاظ کی صداقت میں کہ بحیثیت ایک غدار کے ’’عیدو لاکھوں میں ایک تھا‘‘ کوئی شک باقی نہیں رہتا‘‘۔
عیدو بلوچ ایک مکمل استعماری ایجنٹ کا کردار ہے، جو جھوٹ بول کر ، سازش کر کے، قسمیں کھا کر، مقامی روایات، اخلاق اور آداب کا حوالہ دے کر اور بعض صورتوں میں خود دین اسلام کو واسطہ بنا کر سامراج کے قدم مضبوط کرتا ہے۔ایسے ایجنٹ سامراج سے اوّلاً خود مرعوب ہوتے ہیں اور پھر اپنی بزدلانہ مرعوبیت کو جواز فراہم کرنے کے لیے اپنی ہی قوم کے اہل عقل و دانش کو بہکاکر ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ عیدو خان نے عزت بلوچ کو اتنا زیادہ خوف زدہ کیا اور اتنے اعتماد سے جھوٹ بولا کہ عزت نے اس کے بیان پر شک کرنے اور اس کے ثبوت کی دلیل مانگنے کی بھی جرأت نہیں کی۔ عزت سے اتنا بھی نہیں ہو سکا کہ وہ جس کار کو شیطان کا چرخہ اور جہنم کی مشین ماننے کے لیے تیار ہے ایک بار اس کے پہیوں کے آگے کانٹے ہی بچھا کر دیکھ لے۔ اور کچھ نہیں تو جس ریڈی ایٹر کے سوراخوں کو سیکڑوں گولیاں برسانے والی بندوقوں کے دہانے منوایا جا رہا تھا، عزت بلوچ اگر اس ریڈی ایٹر پر ایک گولی بھی چلا دیتا تو یہ شیطانی چرخہ اور جہنم کی مشین دو قدم نہ چلنے پاتی۔ اسی طرح دیگر مواقع پر سردار جئیند خان یار محمد زئی ،اس کے رشتہ دار شاہسوار خان اور ان کے لڑاکوں کو بھی عیدو نے اپنے پراپیگنڈے کی صلاحیت اور زور بیان کی قوت کے ذریعے ڈرا دھمکا کر جنرل ڈائر سے ٹکرانے سے روکے رکھا۔ حالانکہ بلوچ قبائل کی قوت اور جنگبازی کی استعداد ہر اعتبار سے جنرل ڈائر کی ٹکر کی تھی اور وہ ہمیشہ اس جنگ کو جیت سکتے تھے۔مگر عیدو کی چرب زبانی اور طلاقت لسانی نے انھیں اس کے دعووں کی جانچ تک کرنے سے روک دیا۔ استعماری ایجنٹ اور سامراجی پٹھو اسی طرح مقامی لوگوں کے حوصلے پست کرنے کے شیطانی فریضے کو سر انجام دیتے ہیں۔ سامراج بیزار اور حریت پسند نظریات کے حامل افراد کو ہمیشہ عیدو بلوچ کے روحانی جا نشینوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ جیتی ہوئی بازی پلٹنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔