نام : انوار حق (مجموعۂ خطبات شیخ الحدیث مولانا محمد انوار الحق مد ظلہ) ضبط و ترتیب:مولانا حافظ سلمان الحق حقانی
ضخامت:۱۳۵۴ صفحات (۴جزء، ۲جلدیں) قیمت: درج نہیں ناشر: القاسم اکیڈمی، خالق آباد، نوشہرہ
حضرت مولانا محمد انوار الحق مد ظلہ وفاق المدارس کے مرکزی نائب صدر، جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے شیخ الحدیث اور جامعہ کے بانی حضرت مولانا عبد الحق قدس سرہ کے فرزند ارجمند ہیں۔ حضرت مولانا عبد الحق قدس سرہ کے بعد ان کی جامع مسجد میں خطابت و امامت جمعہ کی ذمہ داری مولانا انوارالحق صاحب ہی سر انجام دے رہے ہیں۔ زیر نظر کتاب انھی مختلف و متعدد خطبات کا مجموعہ ہے جو مولانا نے اسی جامع مسجد میں مختلف اجتماعات جمعہ سے ارشاد فرمائے۔ (البتہ ایک استثناء وہ تقریر ہے جو بطور مقالہ وفاق المدارس کے زیر اہتمام تربیت المبلغین کی ایک تقریب میں پیش فرمائی گئی)۔
حضرت مولانا مد ظلہ کے شخصی محاسن، بطور خاص تدریسی ، تربیتی اور انتظامی صلاحیتوں کی رفعتوں کا تذکرہ تو شہرۂ آفاق ہے اور با وجود دور دراز فاصلوں کے ملک بھر میں بالخصوص دینی تعلیمی اداروں کے طالب علموں کے حلقے میں ان پہلوؤں کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔ مگر ان کی خطابت اور عوامی تفہیم کے اسلوب کے بارے میں عام طور پر سننے میں نہیں آیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خطبات کے اس مجموعے کو یکجا دیکھ کر بہت ہی خوش گوار حیرت کا سامنا ہوا۔
زیر نظر مجموعے میں شامل خطبات کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ انتہائی مربوط اور موضوعاتی دائرے کے پابند خطبات ہیں۔ یہ ایک ایسا امتیاز ہے جو فی زمانہ بہت کمیاب ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہر خطبے کو ارشاد فرمانے سے پہلے باقاعدہ ضبط تحریر میں لایا گیا ہو اور اس کے بعد اجتماعِ جمعہ میں بیان کیا گیا ہو۔ کئی موضوعات طوالت کی وجہ سے ایک ہی جمعہ کے خطاب میں بیان نہیں ہو پاتے تو متعدد خطبات میں کئی جمعے تک انھی پر مربوط و منضبط گفتگو چلتی رہتی ہے گویا ایک تسلسل کی پابندی کے ساتھ موضوع کا حق ادا کیا گیا ہے۔ عام طور پر کسی آیت کریمہ یا حدیث مبارک کی تشریح و توضیح کے اسلوب میں خطبے کا آغاز ہوتا ہے اور اسی آیت یا حدیث سے گفتگو کا موضوع متعین کیا جاتا ہے۔ ان موضوعات کا رخ عام طور پر وعظ و تذکیر کی طرف ہے۔ اگرچہ دین و سیاست کے عنوان سے بھی احقاق حق کے مباحث رہ رہ کر نمودار ہوتے ہیں مگر اصل توجہ موعظت حسنہ اور تدبر فی الدین اور شریعت کے اوامر و نواہی پر عمل کرنے کی دعوت پر ہی مرتکز رہتی ہے۔ اسی طرح باوجودیکہ حضرت خطیب زید مجدہ کی بنیادی پہچان ان کی وقیع اور ٹھوس علمی شخصیت ہے، لیکن خطبات کا اسلوب بہت آسان اور سہل ہے گویا عوام الناس کے لیے ان خطبات سے استفادہ بہت سہولت سے ممکن ہے۔
کتاب کے شروع میں حضرت مولانا زاہد الحسینی نور اﷲ مرقدہ، حضرت مولانا شیر علی شاہ مدنی رحمہ اﷲ ، حضرت مولانا سمیع الحق شہید رحمۃ اﷲ علیہ اور مولانا عبد القیوم حقانی زید مجدہ کے تعارفی کلمات اور تقریظات وغیرہ بھی شامل ہیں۔ القاسم اکیڈمی ، نوشہرہ کی شائع کردہ یہ کتاب طباعتی خوبیوں کے اسی انداز سے آراستہ ہے جو اکیڈمی کی مطبوعات میں عام طور پر نظر آتا ہے۔
نام : امیر حجاج بن یوسف ثقفی، چند غلط فہمیوں کا ازالہ تالیف و ترتیب: محمد فہد حارث ضخامت:۲۹۶صفحات
قیمت: ۷۰۰ روپے ناشر: حارث پبلیکیشنز ملنے کا پتہ: قرطاس پبلشرز کراچی۔ 03213899909
صدر اسلام کی تاریخ مسلمانوں کی مذہبی اور اعتقادی زندگی سے براہِ راست منسلک ہے اور اسی وجہ سے ابھی تک موضوعِ بحث و گفتگو بھی رہتی ہے۔حضرت خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کے متصل زمانوں کو رہتی دنیا کے لیے بہترین زمانہ قرار دیا ہے۔ اس دور کی شخصیتوں اور ان کے وقائع کی تفہیم پر مسلمانوں کے بہت سے عقائد کا مدار بھی ہے اور یہی وہ دور ہے جس کو مسلمان اپنا عہدِ زرّیں اور اپنے پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام کی مساعی کا نتیجہ قرار دے کر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے کی تاریخ کا مطالعہ ایک صاحب ایمان قاری سے بہت زیادہ احتیاط کا متقاضی ہے، کیونکہ یہاں اگر اپنی ہوا پرستی و گروہ پسندی اور ذاتی پسند نا پسند سے جان چھڑا کر قرآن و سنت کی روشنی میں حضرات خیر القرون سے اعتقادِ واجب ملحوظ نہ رکھا جائے اور تاریخی روایات کو تحقیق و تنقید کی کسوٹیوں پر پرکھ نہ لیا جائے تو قدم قدم پر ایمان چھن جانے کا خطرہ در پیش ہوتا ہے۔
زیر نظر کتاب اسی دور کے ایک مشہور تاریخی کردار اور سیاسی رہنما و امیر حجاج بن یوسف ثقفی کے احوال و آثار کے چند مطالعات پر مشتمل ہے۔ فاضل مرتب کتاب پر لکھے گئے اپنے تعارفی نوٹ میں لکھتے ہیں:
’’……ہم نے سوچا کہ کیوں نہ امیر حجاج بن یوسف ثقفی سے متعلق عوام و خواص میں جو غلط داستانیں رائج ہیں، ان پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر ان کی شخصیت کے اصل خد و خال واضح کیے جائیں۔ابتدا میں ارادہ تھا کہ اپنی طرف سے کچھ لکھنے کے بجائے موجودہ دور کے جن اصحابِ علم نے امیر حجاج بن یوسف سے متعلق مثبت کام کیا ہے، ان کو یکجا کر کے ایک مختصر کتاب کی شکل میں شائع کر دیا جائے، سو اس سلسلے میں شیخ الحدیث ندوۃ العلماء لکھنؤ علامہ اسحق صدیقی سندیلوی، سابق صدر شعبہ تاریخ اسلامی جامعہ کراچی ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر، پروفیسر شعبہ تاریخ موصل یونیورسٹی عراق ڈاکٹر عبد الواحد ذنون طہٰ اور لیکچرار شعبہ لسانیات بیروت یونیورسٹی لبنان ڈاکٹر محمود زیادۃ کی مختلف تحاریر پر مبنی ایک مختصر سی کتاب ترتیب دے ڈالی‘‘۔
فاضل مؤلف نے ان مقالات پر جا بجا اپنے حواشی و تعلیقات کا اضافہ بھی کیا ہے۔ اسی طرح کتاب کے شروع میں دو مقالات خود صاحب تالیف کے قلم سے بھی شامل اشاعت ہیں۔جو بالترتیب ’’امیر حجاج بن یوسف ثقفی …… چند غلط فہمیوں کا ازالہ‘‘ اور ’’معرکۂ ابن زبیر رضی اﷲ عنہما، فتنۂ ابن الاشعث و سعید بن جبیر رحمہ اﷲ‘‘ کے نام سے معنون ہیں۔
کتاب کا مجموعی رخ حجاج بن یوسف کے ’’ظلم و جبر‘‘ کے دیو مالائی اور داستانی کرداروں سے مشابہت رکھنے والے قصوں کی تنقیح اور تنقید پر مبنی ہے۔ اور اس حیثیت سے کم از کم اردو زبان کی حد تک یہ کتاب بہت سی لطیف تحقیقات اور قیمتی اصولی و واقعاتی مباحث کا نادر مجموعہ بن گئی ہے۔ البتہ اتنا ضرور ملحوظ رہے کہ کتاب صرف ایک جانب کے بیان صفائی کی حیثیت رکھتی ہے(دوسری جانب سے صادر کیے جانے والے الزامات کی فہرست تو جا بجا پڑھنے میں آتی ہی رہتی ہے) اس وجہ سے اس میں حجاج بن یوسف کی شخصی کمزوریوں اور انتظام کی شدت میں حد سے تجاوز و بے باکی وغیرہ کے واقعات سے بالعموم تعرض نہیں کیا گیا۔
کتاب دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ عمدہ کاغذ پر سلیقے سے شائع کی گئی ہے۔ بطور خاص پروف ریڈنگ اور ذیلی عنوانات کا معیار قابلِ داد ہے۔ اسی طرح احادیث و تاریخی حوالوں کی تخریج میں بھی خاص کوشش کی گئی ہے۔ البتہ اس طرح کے تاریخی و شخصی نوعیت کے موضوعات پر مبنی کتابوں کے آخر میں کتابیات اور اشاریے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، امید ہے آئندہ ایڈیشن میں اسی کمی کو پورا کر لیا جائے گا۔
نام :ابو الکلام آزاد، متاع گم گشتہ تصنیف و تالیف: ڈاکٹر مختار ظفر ضخامت:۳۰۴صفحات
قیمت: ۶۰۰ روپے ناشر:فکشن ہاؤس، بک سٹریٹ، ۶۸ مزنگ روڈ، لاہور۔ 042-36307550
مولانا ابو الکلام آزاد بر صغیر پاک و ہند کی تحریک آزادی کے پر شور زمانے کے رجال عظماء میں سے تھے۔ ان کی شخصیت متعدد زاویوں اور پہلوؤں کی حامل تھی۔ وہ علم و ادب، معارف دینیہ، تحقیقات جدیدہـ، فلسفہ و تفکر، تحریک و تنظیم اور صحافت و سیاست کے بظاہر بالکل مختلف اور متغایر میدانوں میں بیک وقت سر گرمِ عمل رہے اور گرانقدر آثار چھوڑ گئے۔ عام طور پر ان کا سیاسی فکر و عمل ان کے دیگر علوم و معارف کے لیے حجاب بن جاتا ہے اور لوگ اپنے سیاسی و تعصبات کی بنیاد پر مولانا آزاد کے معارف سے بے فیض رہ جانا اختیار کر لیتے ہیں۔
زیر نظر کتاب ملتان کے معروف محقق اور صاحب فضل شخصیت جناب ڈاکٹر مختار ظفر صاحب کی تازہ ترین تحقیقی سرگرمی کا خوبصورت نتیجہ ہے، جس میں مولانا آزاد کی شخصیت کے غیر سیاسی زاویوں کو ہی سنجیدہ علمی مطالعات کی نظر سے دیکھنے کی سعی کی گئی ہے۔
کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے؛ پہلے حصے میں فاضل مؤلف کے اپنے (تحقیقی نیز تأثراتی) مضامین ہیں۔ یہ حصہ چار مضامین پر مشتمل ہے، دو مضمون مولانا آزاد کے اسلوب کے مطالعے سے متعلق ہیں اور ایک مضمون میں اقبال اور آزاد کے افکار کو تقابل کے میزان میں دیکھا گیا ہے۔ جبکہ ایک تحقیقی و علمی مقالہ مولانا آزاد کے افکار میں وحدت ادیان کے معاصر تصور کے حوالے سے بحث و تحقیق پر مشتمل ہے۔ دوسرے حصے میں مولانا آزاد کے اپنے رشحات قلم سے منتخبات لیے گئے ہیں۔ جن میں خطبات آزاد سے اقتباسات، مسلمانانِ دلی کے اجتماع سے سنہ ۴۷ء میں خطاب، سوانح سرمد شہید، قول فیصل کا اقتباس اور غبارِ خاطر کے مکتوب آخریں سے ایک ٹکڑا وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ تیسرے حصے میں معروف اہلِ نقد و بصیرت کے مولانا آزاد کے فکر و فن کے حوالے سے تحریر کردہ مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔ان اہلِ علم میں ڈاکٹر سید عبد اﷲ، رشید احمد صدیقی ، پروفیسر ممتاز حسین، پروفیسر عبد المغنی اور ڈاکٹر اسلم انصاری جیسے معتبر و مستند اہلِ علم کے مضامین شامل ہیں جو مولانا آزاد کے افکار و ادبی حیثیت کے مختلف زاویوں سے بحث کرتے ہیں۔کتاب کے شروع میں ڈاکٹر عبد القدیر خان، محمود شام اور ڈاکٹر معین الدین عقیل کے مضامین بطور تقریظات شامل ہیں اسی طرح آخر میں طاہر محمود کوریجہ کا ایک مکتوب بھی شامل اشاعت کیا گیا ہے۔
متن کتاب بہت باریک قط سے لکھا جانے کی وجہ سے کمزور نگاہ والوں کے لیے شاید دشواری کا باعث بنے۔ علاوہ ازیں کتاب ظاہری و طباعتی محاسن سے بھی آراستہ و پیراستہ ہے۔ (مبصّر: محمد نعمان سنجرانی)