(قسط: اوّل)
شیخ راحیل احمدمرحوم (سابق قادیانی)
’’شیخ راحیل احمد مرحوم و مغفور ایک پیدائشی قادیانی گھر میں پیدا ہوئے، اور اسی ماحول میں زندگی کے ۵۶ برس گزارے، اس دورانیے میں بہت سے نمایاں قادیانی عہدوں پر بھی فائز رہے۔ اﷲ تعالیٰ نے جب ہدایت کا فیصلہ فرمایا تو اتنے طویل اور گہرے تعلق کو توڑنے کی ہمت بھی عطا کی اور انھیں مثالی توبہ کی توفیق نصیب ہوئی۔ قبول اسلام کے بعد کی ساری زندگی تحفظ ختم نبوت کی محنت میں گزاری۔ شدید بیماری اور تکلیف کے باوجود اپنے مضامین و تحریرات کے ذریعے ملت کاذبہ مرزائیہ کے ملمع کی قلعی کھولتے رہے۔تا آنکہ ۱۵؍ مئی ۲۰۰۹ء کو اﷲ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ اس ماہ میں ان کے انتقال کو پورے دس برس ہو گئے۔ ان کے ایصال ثواب کے لیے ان کا ایک تحقیقی و علمی مضمون شاملِ اشاعت ہے۔ قارئین سے ان کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیے دعا کی درخواست ہے۔‘‘ ( ادارہ)
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ کے بعد اُن کی زندگی میں ہی جھوٹے مدعیان نبوت سامنے آئے، جن میں سب سے پہلا مسیلمہ کذاب تھا اور مسیلمہ سے لے کر اب تک بہت سے ائمہ تلبیس گزرے ہیں۔ ان میں بعض بظاہر بہت پرہیز گار تھے، بعض بہت علم والے تھے، بعض مقتدر تھے یعنی حکمران تھے، بعض بہت اخلاق والے تھے اور بعض مسمریزم وغیرہ قسم کے علم جانتے تھے۔ بعض نے بڑی سخت ریاضتیں کیں اور ان ریاضتوں کی وجہ سے ان کو خیال پیدا ہوا یا شیطان نے ان کے دل میں ڈال دیا کہ ان کو کوئی مقام حاصل ہو گیا ہے، اور بعض مالیخولیا کی وجہ سے خبط عظمت میں مبتلا ہو کر روحانی بلندیوں کے دعوے کرتے رہے۔ بعض صرف مال اکٹھا کرنے کے لالچ میں جعلی تقدس کی چادر اوڑھ کر لوگوں کے سامنے آئے، بعض ایک کی بجائے زیادہ وجوہات اور خواہشات کے تحت مدعی نبوت ہوئے۔ غرضیکہ مختلف لوگوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر نبوت کے دعوے کیے۔ لیکن ایک بات سب میں مشترک ہے کہ ہر کوئی اپنے اردگرد لوگوں کو اکٹھا کرنا جانتا تھا۔
لیکن لوگوں نے ان کو پہچانا کیسے کہ یہ جعلی مدعی نبوت ہے؟ بنیادی طور پر تو ایک مسلمان کے لیے اتنا ہی یقین کافی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم، خاتم النبیین ہیں یعنی آخری نبی اﷲ ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، لیکن بعض قرآنی آیات و احادیث کی غلط تشریحات کرنے والے کے لیے اور غیر مسلموں کے لیے اﷲ تعالیٰ نے کچھ معیار بھی سامنے رکھ دیے کہ اگر تمھیں ایک بات سمجھ نہ آئے تو یہ انتہائی سادہ اور ہر ایک کی سمجھ میں آنے والے معیار ہیں، ان پر کسی بھی مدعی نبوت کو جانچ کر تم حقیقت کا اداراک کر سکتے ہو۔ ان میں سب سے پہلے تو لوگوں کے سامنے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کھلی کتاب کی طرح ایک نمونہ ہے، دوسرے قرآن کریم نے بعض ایسی علامات بتائیں ہیں کہ جو کہ کسی مومن میں نہیں ہوتیں، تو سوچا بھی نہیں جا سکتا کسی ولی میں بھی ہوں اور نبی کا مقام تو اس سے کہیں اعلیٰ و ارفع ہے۔ اور احادیث میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان باتوں کو مزید کھول کر بیان کیا ہے تاکہ سمجھنے میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ رہے اور ہر بات اﷲ تعالیٰ کے حکم کے تحت کھول کر بیان کر دی جائے۔
انھی علامتوں میں ایک بڑی اہم علامت منافقت ہے، جس طرح حدیث شریف میں آیا ہے کہ مومن منافق نہیں ہوتا، بلکہ ایک شریف آدمی بھی منافق نہیں ہو سکتا، پھر نبی کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا۔ اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے منافق کی کیا نشانیاں بیان کی ہیں۔ ’’حدیث شریف میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ جس شحص میں یہ چار خصلتیں پائیں جائیں وہ پکا منافق ہے۔ (۱) جب امانت سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ (۲) بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (۳) وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔ (۴) اور کسی سے جھگڑے تو گالیاں دے‘‘۔
جس طرح ہر دور میں مدعیان نبوت پیدا ہوتے رہے اور سادہ لوح یا مفاد پرست ان کے مرید بنتے رہے، لیکن ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی ہمیشہ ایسے مدعیان نبوت کو دھتکارتی رہی، اسی طرح آج کے دور میں مرزا غلام احمد آف قادیان مدعی نبوت ہوئے اور کچھ سادہ لوح، کچھ مفاد پرست اُن کے ٹولے میں شامل ہوئے۔ لیکن مسلمانوں کی ایک بہت ہی بھاری تعداد نے اُن کو رد کر دیا۔ چونکہ اُن کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے (نعوذ باﷲ) ثانی اور مکمل تصویر ہیں۔ یقینا قادیانیوں کا اس بات پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے، جب ہم پیچیدہ تشریحات کو ایک طرف چھوڑتے ہوئے سیدھے اور سادہ طریق سے جائزہ لیں کہ آیا مرزا صاحب ایک مومن بھی تھے یا نہیں، اگر وہ مومن بھی ثابت ہو جاتے ہیں تو پھر ان کے اگلے روحانی مقامات اور اس کے بعد اُن کے دعوؤں پر غور ہو سکتا ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ مرزا جی کا انگریزوں کی سرپرستی میں بویا ہوا یہ فتنہ، اُمت مسلمہ میں آج تک اس قسم کے پیدا ہونے والے فتنوں میں سب سے زیادہ ہمہ گیر و گہرا، اور اُمت کے دشمنوں کو بہت پیارا ہے۔ اور یہ فتنہ چونکہ آج کے حالیہ دور میں بھی عالمی طاقتوں کو پشت پناہی، تعاون، اپنے پروپیگنڈہ مشینری کے ساتھ مسلمانوں کا لباس پہن کر ایک بڑا گہرا سخت خطرہ بن چکا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس کا سادہ طریق سے تجزیہ کیا جائے تو ہر ایک انسان کی سمجھ میں آ جائے، تاکہ مسلمان ان کے ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈہ سے محتاط ہو سکیں، اور عین ممکن ہے کہ اس مافیا کے جال میں پھنسے ہوؤں کے لیے بھی خدا تعالیٰ ان سادہ باتوں کو ہدایت کا ذریعہ بنا دے، آمین۔ اور یہ ممکن ہی نہیں کہ جھوٹے مدعیان نبوت میں اس قسم کی ایک یا زیادہ علامات نہ پائی جائیں جو کہ ایک مومن کی شان کے بھی خلاف ہوں۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت کے کذب کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں، مال و دولت کے لیے، مالیخولیا و مراق، غیر ملکی آقاؤں کی سرپرستی، ازدواجی و دوسرے معاملات میں ناکامیاں اور اس قسم کی بہت سی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ جنھیں مرزا صاحب کے متبعین الزامات کہہ کر رد کر دیتے ہیں، اب بات یہ ہے کہ ہر غیر جانب دار شخص تجزیہ کر کے دیکھ سکتا ہے کہ الزام ایسے ہی نہیں لگے بلکہ ایسے واضح شواہد موجود ہیں، جن کے نتیجے میں مرزا صاحب کی ذات پر یہ الزامات لگتے ہیں۔ ان ثابت شدہ الزامات کے نتیجہ میں نبوت کے جعلی ہونے کے جواز کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ اور اس پر نہلے پر دہلا کے مصداق مرزا صاحب کا کوئی ایک یا دو تین دعاوی نہیں، بلکہ مرزا صاحب کی نسلوں کی طرح بے شمار ہیں۔ مرزا صاحب کے دعوؤں کی ایک جھلک ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں کہ وہ ’’مُلْہَم، مجدد، مامور، مثیل مسیح، مسیح ابن مریم، مسیح موعود، مہدی موعود، محمد، نبی، ظلی نبی، بروزی نبی، شرعی نبی، تمام الہامی صحیفوں کی پیشگوئیوں کا مورد، خدا کا پہلوان نبیوں کے چوغہ میں، تمام نبیوں کی خوبیوں کا مجموعہ، تمام نبیوں کا مثیل، کرشن ردو گوپال، آریوں کا بادشاہ ہیں‘‘۔ اور اسی قسم کا دعووں کا سفر خاتم الانبیاء وغیرہ وغیرہ سے ہوتے ہوئے خدا کے بیٹے اور پھر خدائی کے دعوے تک پہنچتا ہے (دعووں کی تعداد جو میں نے کتابوں سے نوٹ کیے ہیں، ایک سو سے زیادہ ہیں)۔ جس شخص کے اتنے دعوے ہوں اور وہ بقول مرزا صاحب کے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی اور اتباع کی وجہ سے ہیں تو یقینا ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم ان دعوؤں کا قرآن اور احادیث کے معیار سے جائزہ لیں۔ لیکن اس مضمون میں ان سب کا احاطہ کرنا ممکن نہیں، اس لیے آج ہم منافق کی نشانیوں کے تحت جائزہ لیں گے کہ کہیں مرزا صاحب ان نشانیوں کی زد میں تو نہیں ہیں۔ لیکن چونکہ اس موضوع کے تحت بھی جائزہ ایک کتاب کا مواد چاہتا ہے جو کہ یہاں ممکن نہیں، اس لیے ہم صرف مختصر طور پر ہی ا س کا جائزہ لیں گے، لیکن یہ مختصر جائزہ بھی ان شاء اﷲ موضوع کے تقاضوں پر کسی حد تک پورا اترے گا۔ اب ہم منافق کی جو چار نشانیاں حدیث شریف میں ہیں، ہر ایک نشانی کے تحت مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
(۱) امانت:
’’منافق کی پہلی نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ جب امانت سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے‘‘۔
اب جن صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ دراصل محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہی ہیں اور شکمِ مادر سے ہی وہ مسیح ہیں (نعوذ باﷲ)، اُن کا کردار کیا ہے۔ مرزا غلام احمد صاحب تقریباً ۲۵ برس عمر تھی، شادی شدہ اور دو بچوں کے باپ تھے، اس کا مطلب ہے کہ برے بھلے کی تمیز تھی، مرزا صاحب کے والد صاحب نے اُن کو سرکاری خزانے سے اپنی پنشن لینے کے لیے بھیجا، جو کہ سات سو روپے تھی اور یہ پنشن اُن کے خاندان کا کم و بیش سال بھر کا خرچ تھا، خاندان میں اُن کے والدین، اُن کے بھائی اور اُن کے بیوی بچے، اُن کے اپنے بچے اور ملازمین، اس کے علاوہ غالباً کچھ اور لوگ بھی متعلقین میں شامل تھے (نہ بھی ہوتے تو فرق نہ پڑتا، کیونکہ یہاں سوال صرف امانت میں خیانت کا ہے)۔ مرزا صاحب نے پنشن وصول کی اور چند دن میں اِدھر اُدھر اُڑا دی اور اس کے بعد شرمندگی کی وجہ سے گھر میں نہیں آئے اور سیالکوٹ میں جا کر ملازمت کر لی۔ ان کے بیٹے نے جو روایت لکھی ہے وہ اس طرح ہے:
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمھارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلا گیا۔ جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور اِدھر اُدھر پھراتا رہا۔ پھر جب سارا روپیہ اس نے اڑا دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں چلا گیا، اس شرم سے گھر واپس نہیں آئے اور چونکہ تمھارے دادا کا منشا رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں، اس لیے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہو گئے‘‘۔
(سیرت المہدی، ج:۱، ص: ۲۳، روایت نمبر: ۴۹۔ مصنف: مرزا بشیر احمد ایم۔ اے)
اب آپ دیکھیں کہ مرزا امام الدین، مرزا صاحب کا چچا زاد بھائی تھا اور اُن کو اچھی طرح جانتے تھے اور پھر یہ نہیں کہ اس واقعہ سے تعلق ختم ہو گیا، بعد میں مرزا صاحب نے محمدی بیگم سے شادی کروانے کے عوض اس کو کچھ رقم بھی دینے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ بیل ہی نہیں منڈھے چڑھی، مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ:
’’امام الزماں کو مخالفوں اور عام سائلوں کے مقابل پر اس قدر الہام کی ضرورت نہیں جس قدر علمی قوت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ شریعت پر ہر ایک قسم کے اعتراض کرنے والے ہوتے ہیں، طبابت کی رو سے بھی، ہیئت کی رو سے بھی، طبیعیات کی رو سے بھی، جغرافیہ کی رو سے بھی اور کتب مسلّمہ اسلام کی رو سے بھی اور عقلی بنا پر بھی‘‘۔ (ضروت الامام، رخ جلد ۱۳، ص: ۴۸۰)
اسی طرح مرزا صاحب کے بیٹے اور قادیانی جماعت کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
’’مسیحیت یا نبوت کا دعویٰ کرنے والا اگر در حقیقت سچا ہے تو یہ امر ضروری ہے کہ اس کا فہم اور درایت عام لوگوں سے بڑھ کر ہو‘‘۔ (بحوالہ حقیقت النبوۃ، ضمیمہ نمبر ۳)
جس کا فہم اور درایت ۲۵ سال کی عمر میں اور دو بچوں کے باپ ہونے کی حالت میں اتنی تھی کہ وہ ایک شخص کے ساتھ ساری عمر رہتے رہے اور اس کے کردار کو نہیں پہچان سکے (سگا چچا زاد بھائی تھا اور گھروں کے درمیان برائے نام دیوار تھی) اور پھر اس کے ساتھ ’’اِدھر اُدھر‘‘ پھرتے رہے اور ’’روپیہ اڑاتے رہے‘‘ اور اس زمانے کا سات سو روپیہ کتنا ہوتا ہے، آج کل کے حساب سے؟ کم و بیش بارہ تیرہ لاکھ روپیہ!
اب قارئین نے سیلف میڈ نبی کا کارنامہ دیکھ لیا کہ امانت کے ساتھ کیا کرتے تھے اور مرزا صاحب کی زندگی میں قبل دعویٰ اور بعد از دعویٰ خیانت کی کئی کہانیاں ہیں، دوسری طرف رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بروز ہونے کا مرزا صاحب کو دعویٰ ہے (نعوذ باﷲ)، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے امانت کے قصے آج پندرہ سو برس گزرنے کے باوجود بھی سخت سے سخت دشمن کو بھی یہ کہنے پر مجبور کر دیتے ہیں، اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم! آپ نے امانت کی جو تابندہ مثالیں چھوڑی ہیں تاقیامت کوئی ان کی نظیر پیش نہیں کر سکے گا۔ یہ فرق ہوتا ہے ایک سیلف میڈ نبی میں اور ایک خدا تعالیٰ کے فرستادہ میں!
(۲) جھوٹ:
منافق کی دوسری نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ ’’جب بات کرے تو جھوٹ بولے‘‘۔
مرزا جی کا دعویٰ شروع میں ملہَم اور مجدد ہونے کا تھا، باقی دعوے آہستہ آہستہ شامل کرتے گئے، مجدد کی تعریف مرزا صاحب نے یہ لکھی ہے:
’’جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجددیت کی قوت پاتے ہیں، وہ نرے استخواں فروش نہیں ہوتے بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ انھیں تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے، جو نبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں…… اور خدا تعالیٰ کے الہام کی تجلی اُن کے دلوں پر ہوتی ہے اور وہ ہر ایک مشکل کے وقت روح القدس سے سکھائے جاتے ہیں اور اُن کی گفتار و کردار میں دنیا پرستی کی ملونی نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ کلی مصفا کیے گئے اور تمام و کمال کھینچے گئے‘‘۔ (فتح اسلام حاشیہ، روحانی خزائن، ج: ۳، ص: ۷)
اپنی ذات کے بارے میں معصوم عن الخطا ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(۱)……’’اﷲ تعالیٰ مجھے غلطی پر ایک لمحہ بھی باقی نہیں رہنے دیتا اور مجھے ہر ایک غلط بات سے محفوظ رکھتا ہے‘‘۔ (نور الحق حصہ دوئم، رخ جلد: ۸، ص: ۲۷۲)
(۲)…… ’’میں نے جو کچھ کہا وہ سب کچھ خدا کے امر سے کہا ہے اور اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا‘‘۔ (مواہب الرحمن، رخ جلد: ۱۹، ص: ۲۲۱)
اس تعلّی آمیز تقدس کے ساتھ مرزا صاحب اپنے آپ کو اہل سنت کے اجماعی عقائد کا علمبردار ظاہر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اے برادرانِ دین و علمائے شرع متین! آپ صاحبان میری ان معروضات کو متوجہ ہو کر سنیں کہ اس عاجز نے جو مثیل موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے، جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں، یہ کوئی نیا دعویٰ نہیں جو آج ہی میرے منہ سے سنا گیا ہو بلکہ یہ وہی پرانا الہام ہے جو میں نے خدائے تعالیٰ سے پا کر براہین احمدیہ کے کئی مقامات پر درج کر دیا تھا، جس کے شائع کرنے پر سات سال سے بھی کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا ہو گا، میں نے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں، جو شخص میرے پر یہ الزام لگاوے، وہ سراسر مفتری اور کذاب ہے‘‘۔ (ازالہ اوہام، ص: ۱۹۲، ر خ جلد: ۳)
اور اب اسی تقدس کے ساتھ ملہم کی حیثیت کے ساتھ دعویٰ کرتے ہیں۔
’’اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے میرا نام نبی رکھا ہے اور اسی نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے اور اس نے میری تصدیق کے لیے بڑے بڑے نشان ظاہر کیے، جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں‘‘۔ (تتمہ حقیقت الوحی، رخ جلد: ۲۲، ص: ۵۸۷)
اب دونوں تحریروں میں زمین و آسمان کا تضاد نظر آ رہا ہے اور مرزا صاحب کا ہی مقدس ارشاد ہے کہ:
’’اس شخص کی حالت ایک مخبوط الحواس انسان کی حالت ہے کہ ایک کھلا کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے‘‘۔ (ضمیمہ حقیقت الوحی، رخ جلد: ۲۲، ص: ۱۹۱)
اب مرزا صاحب کو مخبوظ الحواس کہہ لیں یا جھوٹا، یہ قارئین پر منحصر ہے، کسی بھی صورت میں یہ شخص ان دعاوی کا حق دار نہیں، جو یہ کر رہا ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کے فرستادوں کے کلام میں تضاد نہیں ہوتا۔
بالکل اسی طرح دجل سے کام لے کر مرزا صاحب نے دعویٰ نبوت کیا، اس کی بھی تھوڑی سے جھلک دیکھ لیں۔
’’خدا وعدہ کر چکا ہے کہ بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کوئی رسول نہیں بھیجا جائے گا‘‘۔
(ازالہ اوہام حصہ دوئم، رخ جلد: ۳، ص: ۴۱۶)
’’وہ رسول اﷲ ہے اور ختم کرنے والا نبیوں کا۔ یہ آیت بھی صاف کہہ رہی ہے کہ بعد ہماری نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے کوئی رسول دنیا میں نہیں آئے گا‘‘۔ (ازالہ اوہام حصہ دوئم، جلد: ۳، ص: ۴۳۱)
’’قرآن کریم بعد خاتم النبیین کے کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا۔ خواہ نیا رسول ہو یا پرانا۔ کیونکہ رسول کو علم دین بتوسط جبریل ملتا ہے، اور باب نزول وحی جبریل بہ پیرایۂ وحی رسالت مسدود ہے‘‘۔
(ازالہ اوہام حصہ دوئم، رخ جلد: ۳، ص: ۵۱۱)
اور دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ:
’’جھوٹے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے‘‘۔ (براہین حصہ۵، رخ جلد: ۲۱، ص: ۲۷۵)
اس طرح لوگوں کی توجہ اپنے اصل عزائم سے ہٹاتے رہے، اس کے بعد آہستہ آہستہ بلی تھیلے سے باہر آتی ہے۔
’’یہ کس قدر لغو اور باطل عقیدہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے وحی الٰہی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ، حصہ پنجم، رخ جلد، ۲۱، ص: ۳۵۴)
اس کے بعد جب لوگوں کا رد عمل دیکھتے ہیں تو اپنی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے پینترا بدلتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میرا نبوت کا دعویٰ نہیں، یہ آپ کی غلطی ہے یا آپ کس خیال سے کہہ رہے ہیں، کیا یہ ضروری ہے کہ جو الہام کا دعویٰ کرتا ہے نبی بھی ہو جائے۔ (۲۶؍ مئی ۱۸۹۳) (جنگ مقدس، رخ جلد، ص: ۱۵۶)
جب کچھ عرصہ کے بعد لوگوں کا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے تو پھر دعویٰ ٹھونک دیتے ہیں:
’’سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا‘‘۔( ۱۹۰۲ء) (دافع البلاء، رخ جلد: ۱۸، ص: ۱۱)
اس کے ساتھ ہی لوگوں کے اعتراض پر وہی پرانی دلیل لے آئے جو مثیل مسیح کے دعویٰ کے وقت پیش کی تھی۔
’’خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے، ایسے الفاظ رسول مرسل اور نبی کے موجود ہیں…… اور براہین احمدیہ میں بھی جس کو طبع ہوئے بائیس برس ہوئے یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں۔ (دیکھو صفحہ: ۴۹۸، براہین احمدیہ) اس میں صاف طور پر اس عاجز کو رسول کر کے پکارا گیا ہے‘‘۔ (ایک غلطی کا ازالہ، رخ جلد: ۱۸، ص: ۲۰۶)
مثیل مسیح کے دعویٰ پر سات سال پہلے براہین احمدیہ میں شائع کیے ہوئے الفاظ دکھائے اور نبوت کے دعویٰ کے وقت آخر بائیس برس قبل براہین احمدیہ میں شائع ہونے والے الفاظ دکھا رہے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ اگر براہین احمدیہ کے ان الفاظ کی اس وقت اگر کوئی تشریح نہ کی ہوتی تو مخالفت کا طوفان اسی وقت اٹھ کھڑا ہوتا، اس لیے کئی بار نبوت سے نہ صرف انکار کیا گیا بلکہ مدعی نبوت پر لعنت بھجی، اور اب آخر میں نہ صرف مکمل نبوت کا دعویٰ کر دیا بلکہ کہہ دیا کہ ۲۲ سال پہلے سے ہی لکھا ہوا ہے، اگر ۲۲ سال پہلے سے دعویٰ نبوت ہے تو درمیان میں انکار کر کے جھوٹ کیوں بولا اور اگر کہیں کہ سمجھ نہیں آئی تو پھر بھی جھوٹ بول رہے ہیں کہ دعویٰ ہے کہ نبیوں کو ان کی تعلیموں اور الہاموں کے متعلق بڑے قریب سے دکھایا جاتا ہے، تو یہ کیسا قریب سے دکھایا گیا کہ ۲۲ سال تک سمجھ ہی نہیں آئی ؟ (جاری ہے)