حبیب الرحمن بٹالوی
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
’’میں ہر نماز کے بعد اپنے استاد محترم (حماد بن سلیمان رحمۃ اﷲ علیہ) اور والد محترم کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہوں اور میں نے کبھی بھی اپنے استاد محترم کے گھر کی طرف اپنے پاؤں دراز نہیں کیے، حالانکہ میرے اور ان کے گھر کے درمیان سات گلیاں ہیں‘‘۔
خلیفۂ وقت ہارون الرشید نے معلم وقت حضرت امام مالکؒ سے درخواست کی کہ وہ انھیں حدیث پڑھا دیا کریں۔ امام مالک رحمہ اﷲ نے فرمایا: علم کے پاس لوگ آتے ہیں، علم لوگوں کے پاس نہیں جایا کرتا۔ تم کچھ سیکھنا چاہتے ہو تو میرے حلقۂ درس میں آ سکتے ہو۔ خلیفہ آیا اور حلقۂ درس میں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ عظیم معلم نے ڈانٹ پلائی اور فرمایا: ’’خدا کی تعظیم میں یہ بھی شامل ہے کہ بوڑھے مسلمان اور اہلِ علم کا احترام کیا جائے‘‘۔ اور یہ سنتے ہی خلیفہ شاگردانہ انداز میں کھڑا ہو گیا۔
مولوی میر حسن کے دو شاگرد، رکن الدین اور نہال سنگھ تھے۔ رکن الدین سیشن جج کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ نہال سنگھ پہلے ڈپٹی کمشنر بنے، پھر پٹیالہ میں انھیں وزارت کا عہدہ ملا۔ یہ دونوں شاگرد جب اُن سے ملنے آتے تو واپس ہوتے ہوئے پچھلے پاؤں پر واپس جاتے۔ نہال سنگھ اپنے استاد کی موجودگی میں کبھی گاڑی پر سوار نہ ہوئے۔
سکندر سے کسی نے پوچھا: ’’آپ استاد کو ماں باپ پر کیوں ترجیح دیتے ہیں؟‘‘ اس نے جواب دیا:
’’اس لیے کہ باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا اور میرا استاد مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔ نیز باپ سببِ حیاتِ فانی ہے اور استاد سبب حیاتِ جاودانی ہے۔ باپ نے میرے جسم کی پرورش کی اور استاد نے میری روح کی‘‘۔
قارئین کرام! ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ لاہور کے معاون مدیر سید یونس الحسنی مرحوم و مغفور بیان کرتے تھے کہ آغا شورش کاشمیری نے جناب احسان دانش سے اکتسابِ فیض کیا اور پرائمری تعلیم سے لے کر آخر دم تک استاد سے رابطہ رکھا۔ ’’دانش کدہ‘‘ انار کلی لاہور، استاد سے ملنے جاتے۔ ایک بڑا ہال، دری بچھی ہوئی۔ استاد کرسی کی اونچائی کے بنے ہوئے ایک تھڑے پر آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں۔ کالی جناح کیپ، گیروے رنگ کے کھدر کے کپڑے۔ شورش سر جھکائے کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ سلام کر کے بڑے ادب کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔ جیب سے تازہ غزل نکال کر استاد کو پیش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں: استاد تصحیح فرما دیجیے۔ احسان دانش کہتے ہیں: شورش! اب تو آپ خود استاد ہو گئے ہیں۔ شورش عرض کرتے ہیں: استاد! برکت کے لیے قلم لگا دیجیے۔ احسان دانش اپنے ہونہار شاگرد کی باتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہتے ہیں: شورش! سر تو بلند کیجیے۔ شورش، استاد کے سامنے سر اونچا نہیں کرتے، آنکھیں جھکائے ہوئے کہتے ہیں: ’’استاد! آپ کی دعا سے بلند ہے‘‘۔
کہتے ہیں، دوست اپنے سے عقل مند ہونا چاہیے۔ میرے دوستوں میں سے ایک ایسے ہی دوست ہیں، چودھری غلام رسول آزاد، جو تعلیمی بورڈ لاہور میں میرے رفیق کار رہے۔ پھر حسین کالج لاہور سے ایم اے کر کے لیکچرر منتخب ہوئے۔ ساہیوال آئے…… وہاں سے ننکانہ صاحب۔ بعد ازاں گورنمنٹ کالج شیخوپورہ میں پرنسپل رہے۔ شعر و ادب کے ساتھ ساتھ چودھری صاحب بڑے جی دار آدمی ہیں۔ ایک فعہ احباب جمع تھے۔ مختلف قسم کی باتیں ہو رہی تھیں کہ آغا شورش کاشمیری کا ذکر آ گیا۔ غلام رسول آزاد کا چہرہ چمک اٹھا۔ کہنے لگے، میں گورنمنٹ سنٹرل ماڈل سکول لاہور میں بطور ڈائریکٹر فزیکل ایجوکیشن کام کر رہا تھا کہ ایک دن میرے ایک ساتھی آئے۔ بہت رنجیدہ خاطر، منہ لٹکا ہوا۔ بس اُن کے آنسو نکلنے باقی رہ گئے تھے۔ میں نے پوچھا، کیا بات ہے؟ خیریت تو ہے۔ کہنے لگے، میں دسویں کلاس کو پڑھا رہا تا۔ کلاس روم کے دروازے باہر گراؤنڈ کی طرف کھلتے ہیں۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے دو لڑکے باہر بھاگ گئے۔ گراؤنڈ میں ایک پتنگ کٹ کر گری تھی، وہ اسے پکڑنے کے لیے دوڑے تھے۔ اُن میں سے ایک بہت بڑے آفیسر کا بیٹا تھا اور دوسرا آغا شورش کاشمیری کا فرزند۔ جب وہ پتنگ لے کر واپس آئے تو میں نے اُنھیں ڈانٹا۔ سرزنش کی کہ تم نے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس سے کلاس کا نظام خراب ہوتا ہے۔ دونوں لڑکے بدتمیزی پر اُتر آئے۔ ترکی بہ ترکی جواب دیتے رہے۔ کلاس کے سامنے میری سبکی ہوئی اور وہ بڑے باپ کے بیٹے ہونے کے ناتے طنزیہ ہنسی ہنستے رہے۔ غلام رسول آزاد کہتے ہیں، یہ سن کر میں کلاس کی طرف لپکا۔ ہاکی میرے ہاتھ میں تھی دونوں کی خوب پٹائی کی۔ جی بھر گیا تو میں ہیڈ ماسٹر کے پاس گیا۔ اُنھیں بلا کر سب کچھ بتا کرکہا کہ ان دونوں لڑکوں کو ابھی سکول سے خارج کیا جائے یا میں استعفیٰ دیتا ہوں۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا، آپ جلدی نہ کریں۔ ان دونوں بچوں کے والدین کو بلاتے ہیں، دیکھتے ہیں، اگر ان کا لہجہ معذرت خواہانہ ہوا تو فبہا، ورنہ دونوں کو سکول سے نکال دیا جائے گا۔ دوسرے دن آفیسر تو نہ آئے۔ آغا شورش کاشمیری بنفس نفیس تشریف لے آئے اور آتے ہی کہنے لگے، مجھے اُس استاد سے ملائیں، جس نے میرے بیٹے کو مارا ہے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب بہت کہتے رہے کہ آغا صاحب! بیٹھیں چائے پئیں۔ پھر آپ کو اس استاد سے بھی ملاتے ہیں۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کو یہ ڈر تھا کہ کہیں یہ استاد سے الجھ نہ پڑیں۔ آغا صاحب کی ایک ہی رٹ تھی کہ استاد سے ملایا جائے، جس نے میرے بیٹے کو تہذیب سکھائی ہے۔ غرض آغا صاحب، ہیڈ ماسٹر کے ساتھ چل کر میرے کمرے میں آئے۔ مجھے گلے لگایا۔ ہاتھ چومے۔ کہنے لگے، میں شرمندہ ہوں کہ میں اپنی ادبی مصروفیات اور سیاست کے خارزار سے نکل کر بچوں کو وقت نہ دے سکا۔ ان کی کامل تربیت نہ کر سکا۔ آپ سے معذرت خواہ ہوں۔
قارئین کرام! ایک طرف جلیل القدر اساتذہ سے اُن کے شاگردوں اور والدین کا یہ محبت بھرا، احترام کا رویہ اور دوسری طرف آج کا ایک نالائق طالب علم کہ جس نے اُس کی بدتمیزی پر، اسے سمجھانے اور پڑھائی کی طرف راغب کرنے والے استاد کی تضحیک کا سامان کیا۔ پڑھ کر اندازہ کیجیے کہ کل کا شاگرد کیا تھا؟ آج کا شاگرد کیا ہے اور کل کا شاگرد کیا ہو گا؟
نظم ساغر اقبالی کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
شاگرد نے رپٹ لکھوائی ہے یہ جا کے تھانے میں کہ ساغرؔ کش لگاتا ہے نشے کے، اس زمانے میں
ایسی ویسی گالیاں دیتا ہے بچوں کو گرچہ بہت طاق ہے مضمون پڑھانے میں!
میں نے کہا آپ ذرا غور سے سنیے! یہ بات خدا لگتی کسی اور سے سنیے!
سگریٹ تو بہت دور کی بات ہے پیارے اس نے تو کبھی چائے کے سُڑکے نہیں مارے
کسی کو گالیاں دینا نہیں استاد کا شیوہ گر وہ گالیاں دیوے تو پھر بچوں کا کیا ہو گا؟
ہاں! بچہ اگر امتحانوں میں ’’بوٹیاں‘‘ رکھے سوالوں کا جواب وہ موبائل سے لکھے!
آنکھیں بھی دکھائے اور کتاب نہ کھولے تو ایسے میں استاد کیا وہ پیار سے بولے؟
اوئے اوئے کے شور میں وہ گیٹیاں مارے کلاس میں بیٹھ کر وہ سیٹیاں مارے
ہو بدتمیز، شرارتی اور عادی ہو چیٹر تو ایسے میں بتائیے وہ کیا کرے ٹیچر؟
نتیجتاً لہجہ ذرا سخت ہی ہو گا یا ایسی جگہ معاملہ پھر پیار کا ہو گا؟
اگر استاد کی عزت نہیں ، پڑھائے گا کیسے؟ برائی اور اچھائی اُسے سکھائے گا کیسے؟
حضرت علی کا قول ہے سنو ! غور سے پیارو! بڑوں کی عزت کرو اور جان کو وارو
’’کسی سے ایک لفظ بھی گر میں نے ہے سیکھا وہ استاد ہے میرا میں شاگرد ہوں اس کا
علم کی بنیاد میرے ذہن میں رکھّی وہ آغاز ہے میرا میں انجام ہوں اس کا
وہ چاہے بیچ دے مجھ کو یا اپنے پاس رکھے بلاشبہ میں زر خرید غلام ہوں اُس کا‘‘