مولانامفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اﷲ
بڑھاپا ہے، چلا ہوں سوئے طیبہ لرزتا، لڑکھڑاتا، سر جھکائے
گناہوں کا ہے سر پر بوجھ بھاری پریشاں ہوں اسے اب کون اٹھائے؟
کبھی آیا جو آنکھوں میں اندھیرا تو چکرا کر قدم بھی ڈگمگائے
کبھی لاٹھی، کبھی دیوار پکڑی کبھی پھر بھی قدم جمنے نہ پائے
نہ بیٹا ہے، نہ پوتا ہے، نہ بھائی کوئی گھر کا نہیں جو ساتھ جائے
نہیں کچھ آرزو اب واپسی کی وہیں رکھے خدا واپس نہ لائے
مگر چلتا رہوں گا دھیرے دھیرے دیا والا میری نیّا لکھائے
وہاں جا کر کہوں گا گڑگڑا کر سلام اس پر جو گرتوں کو اٹھائے
سلام اس پر جو سوتوں کو جگائے سلام اس پر جو روتوں کو ہنسائے
سلام اس پر جو اجڑوں کو بسائے سلام اس پر جو بچھڑوں کو ملائے
سلام اس پر جو بھوکوں کو کھلائے سلام اس پر جو پیاسوں کو پلائے
ماشآء اللہ بہترین کلام، جزاک اللہ۔
Jazaak Allah Khair