شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمۃ اﷲ علیہ
قسط :۵
فارس اورروم کا فوجی دستور یہ تھا کہ جو لشکر غالب ہو جاتا وہ مغلوب جماعت کے سرداروں کا سر کاٹ کر تفاخر، شہرت پسندی اور مسرت کے طور پر اپنے امیر کے پاس بھیجا کرتا۔
خلافتِ صدیقیہ میں جب روم سے لڑائی ہوئی تو مسلمانوں نے اس خیال سے کہ ان لوگوں کے ساتھ یہی معاملہ کرنا چاہیے جو یہ دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ایک شامی سردار کا سر کاٹ کر حضرت عقبہ بن عامر رضی اﷲ عنہ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں بھیجا۔ جب وہ آپ کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے ناگواری کا اظہار فرمایا۔ حضرت عقبہ رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا کہ اے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے جانشین! وہ لوگ بھی یہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ فارس و روم کی سنتوں اور طریقوں کا اتباع کیا جائے گا؟ میرے پاس کبھی بھی کسی کا سر نہ لایا جائے۔ ہم لوگوں کو (اتباع کے لیے) اﷲ کی کتاب اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کافی ہے (شرح السیَراوّل)۔ اگرچہ فقہا نے بعض نصوص کی بنا پر اس کی اجازت دی ہے، مگر حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی رائے اس کے موافق نہ تھی، اس لیے منع فرما دیا اور عقبہ رضی اﷲ عنہ کو اس پر تنبیہ فرمائی کہ فارس و روم کے فعل سے استدلال کیوں کیا۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ جس وقت شام تشریف لے جا رہے تھے، راستہ میں ایک جگہ کچھ گارا پانی آ گیا۔ آپ رضی اﷲ عنہ اونٹ پر سے اُتر گئے، موزے نکال کر شانہ پر رکھ لیے اور اس میں گھس کر اونٹ کی نکیل ہاتھ میں پکڑ لی، وہ ساتھ ساتھ تھا، حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا، آپ رضی اﷲ عنہ نے یہ ایک ایسی بات کی کہ شام والے تو اس کو بڑی (ذلت کی) چیز سمجھتے ہیں، میرا دل نہیں چاہتا کہ اہلِ شہر آپ رضی اﷲ عنہ کو اس حالت پر دیکھیں۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے ان کے سینہ پر ہاتھ مارا اور ارشاد فرمایا کہ ابو عبیدہ تمھارے علاوہ کوئی دوسرا شخص ایسی بات کہتا تو میں عبرت انگیز سزا دیتا۔ ہم لوگ ذلیل تھے، حقیر تھے، اﷲ جل شانہٗ نے اسلام کی بدولت عزت عطا فرمائی۔ پس اب جس چیز سے اﷲ نے عزت دی، اس کے سوا کسی چیز کے ساتھ عزت ڈھونڈیں گے تو اﷲ جل شانہٗ ہم کو ذلیل کر دیں گے (مستدرک حاکم)۔
حقیقتاً مسلمان کے لیے اصل عزت اﷲ کے یہاں کی عزت ہے اور دنیا والوں کے نزدیک اگر ذلت ہوئی بھی تو کیا اور کے دن کی
لوگ سمجھے مجھے محروم وقار تمکین
وہ یہ سمجھے کہ میری بزم کے قابل نہ رہا
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو لوگ اﷲ کی نافرمانیوں کے ساتھ لوگوں میں عزت تلاش کرتا ہے، اس کے تعریف کرنے والے اس کی مذمت کرنے والے بن جاتے ہیں۔ مقاصد حسنہ میں یہ مضمون مختلف عنوانات سے نقل کیا گیا ہے، اس لیے مسلمانوں کے لیے ترقی کی راہ، عزت کی راہ، زندگی اور دنیا میں آنے کی غرض صرف اﷲ کی رضا، اس کی مرضیات پر عمل ہے، اس کے سوا کچھ نہیں، اگر عزت ہے تو یہی ہے، منفعت ہے تو یہی ہے، حیرت ہے کہ مسلمانوں کے لیے اﷲ کے پاک کلام اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے سچے ارشادات میں علوم و حکمت دارین کی فلاح و ترقی کے اسباب اور خزانے بھرے ہوئے ہیں، لیکن وہ ہر بات میں دوسروں پر نگاہ رکھتے ہیں۔ دوسروں کا پس خوردہ کھانے کے درپے رہتے ہیں۔ کیا یہ چیز انتہائی بے غیرتی اور اﷲ اور کے پاک رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ اجنبیت و مغائرت کی نہیں ہے، کیا اس کی مثال اس بیمار کی سی نہیں ہے، جس کے گھر میں ایک مرجع الخلاق حکیم، ایک حاذق ڈاکٹر موجود ہوں اور وہ کسی اناڑی طبیب سے علاج کرائے۔
حضرت جابر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ تورات کا ایک نسخہ کہیں سے لائے اور حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا، یا رسول اﷲ! یہ تورات لایا ہوں اور یہ کہہ کہ اس کو پڑھنا شروع کر دیا۔ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کو ناگواری ہوئی اور چہرہ انور متغیر ہو گیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے چہرہ انور کو دیکھتے ہوئے، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے ارشاد فرمایا، تجھے موت آ جائے، دیکھتا نہیں ہے کہ چہرہ انور پر غصہ کے آثار ہیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اس کے پڑھنے میں مشغول تھے، دفعۃً حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے چہرہ کو دیکھا تو ڈر گئے اور بار بار کہنا شرو ع کیا: اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ غَضَبِ اللّٰہِ وَ غَضَبِ رَسُوْلہٖ رَضیْنَا بِاللّٰہِ رَبًّا وَّ بِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَّ بِمُحَمَّدٍ(ﷺ) نَبِیًّا۔(میں اﷲ سے پناہ مانگتا ہوں اﷲ کے غصہ سے اور اس کے رسول کے غصہ سے، ہم لوگ اﷲ کو رب ماننے پر راضی اور خوش ہیں نیز اسلام کو اپنا مذہب بنانے پر اور حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو رسول ماننے پر) ۔
حضور اقد س صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے، اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام موجود ہوں اور تم لوگ مجھے چھوڑ کر ان کا اتباع کرو تو سیدھے راستہ سے گمراہ ہو جاؤ۔ اگر موسیٰ علیہ السلام میری نبوت کا زمانہ پاتے تو میرا اتباع کرتے۔ (مشکوٰۃ براویت دارمی)
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ناراضگی بالکل ظاہر تھی کہ جب اﷲ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادات پر پوری نظر اور مہارت نہ ہو، اس وقت تک کسی ایسی کتاب کا دیکھنا جس میں حق اور باطل مخلوط ہو، اپنے دین کو خراب کرنا ہے۔ اس لیے کہ جو شخص دین میں کامل مہارت رکھتا ہے، ہر بات میں حق اور ناحق فوراً پہچان سکتا ہے، اس کے لیے تو مضائقہ نہیں کہ کسی چیز کو دیکھے، لیکن جس کو دینی علوم پر پوری مہارت نہ، اس کے متعلق قوی اندیشہ ہے کہ اپنی قلت علم کی وجہ سے کسی ناحق بات کو حق سمجھ جائے اور گمراہی میں پھنس جائے۔ چونکہ تورات میں ایسے احکام بھی تھے جو منسوخ ہو چکے تھے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس میں تحریف بھی ہو چکی تھی، اس وجہ سے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے شدت ناراضی کا اظہار فرمایا کہ مبادا دین میں خلط واقع ہو، اس لیے ابن سیرین سے نقل کیا گیا ہے کہ یہ علم دین ہے، پس غور سے دیکھو کہ اپنے دین کو کس سے حاصل کر رہے ہو۔ (مشکوٰۃ)
اسی وجہ سے مشائخ اور اکابر ہمیشہ ایسے لوگوں کی صحبت سے اور تقریر سننے اور تحریر دیکھنے سے منع کرتے ہیں، جن کی دینی حالت خراب ہو، تاکہ بے دینی کے زہریلے اثرات سے حفاظت رہے۔ عام طور سے ایک مقولہ مشہور ہے کہ ’’ یہ دیکھو کہ کیا کہا، یہ نہ دیکھو کہ کس نے کہا‘‘۔ یہ صحیح ہے اور بعض احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ مختلف الفاظ سے یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ حکمت کی بات مومن کی گمشدہ چیز ہے، جہاں سے ہاتھ لگے لے لے (جامع مشکوٰۃ۔ مرقاۃ) لیکن یہ اسی وقت ہے، جب سننے والے کو کھرے اور کھوٹے کی تمیز حاصل ہو چکی ہو۔ وہ دین کے اصول سے اور بات کے جانچنے کے قواعد سے اتنا واقف ہو چکا ہوں کہ کیا کہا کو معلوم کر سکے، وہ سمجھ سکے کہ فلاں بات دین کے موافق ہے، فلاں چیز دین کے خلاف ہے۔ قرآن و حدیث کے خلاف ہے، فقہ اور سلف صالحین کے خلاف ہے، مگر جب تک یہ بات حاصل نہ ہو، اس وقت تک ہر قسم کی تقریر و تحریر سے تاثر پیدا ہو گا، یہی وجہ ہے کہ آج کل صبح کو ایک اثر ہوتا ہے، شام کو دوسرا رنگ جم جاتا ہے۔ ایک شخص آتا ہے، وہ ایک لچھے دار تقریر کر کے تمام مجمع سے ایک بات پر ہاتھ اٹھوا لیتا ہے، دوسرا آتا ہے، وہ اس کے خلاف پروزور تقریر کر کے اس خلاف ہاتھ اٹھوا لیتا ہے۔ الغرض مسلمان کے لیے صلاح و فلاح صرف اتباع مذہب، اسوہ رسول اور سلف صالحین کے طریقہ میں منحصر ہے۔ یہی آخرت میں کام آنے والی چیز ہے، یہی دنیا میں ترقیات کا سبب ہے، اسی پر عمل کر کے پہلے لوگ بامِ ترقی پر پہنچے تھے، جن کے احوال و حالات آنکھوں کے سامنے ہیں اور کوئی تاریخ سے واقف شخص اس چیز سے انکار نہیں کر سکتا۔ اس کے خلاف میں مسلمانوں کے لیے ہلاکت ہے، بربادی ہے، آخرت کا خسارہ ہے، دنیا کا نقصان ہے، تجویزیں جتنی چاہے کر لی جائیں، ریزولیوشن جتنے چاہیں پاس کر لیے جائیں، اخبارات کے مقالے جتنے چاہے لکھ لیے جائیں اور مزا لے کر اُن کو پڑھ لیا جائے، سب بے سود ہے، بے کار ہے، مسلمان کی ترقی اور فلاح کا واحد راستہ معاصی سے پرہیز ہے اور اسلامیات کا اہتمام ہے۔ اس کے سوا دوسرا راستہ منزل مقصود کی طرف ہے ہی نہیں۔
یہاں ایک اور چیز پر بھی غور کرتے چلو۔ اسلام کو مسخ کر دیا جائے، اس کے سارے احکام کو مولویانہ اسلام، راہبانہ مذہب، ملانا تنگ نظری کہہ دیا جائے، مگر جن اسلاف نے ہزاروں قلعے فتح کیے تھے، لاکھوں کروڑوں آبادیوں کو مسلمانوں کر کے اسلام کی حکومت وہاں قائم کی تھی، وہ اسی مولویانہ اسلام کے حامل تھے، اور ملانوں سے زیادہ تنگ نظر تھے۔ وہاں دین سے ایک انچ ہٹنا بھی ہلاکت شمار کیا جاتا تھا، وہاں زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر قتال کیا جاتا تھا، وہاں شراب کو حلال سمجھ کر پینے پر قتل کیا جاتا تھا اور حرام سمجھنے کے باوجود پینے پر کوڑے لگائے جاتے تھے۔ وہ حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ہم میں سے نماز کو ایسا منافق چھوڑ سکتا ہے، جس کا نفاق بالکل واضح ہو یعنی عام منافقین کی بھی ہمت نہ ہوتی تھی کہ نماز کو چھوڑ سکیں، وہاں جب کوئی اہم مشکل اور گھبراہٹ کی بات پیش آتی تھی فوراً نماز کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔
حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ جب آندھی چلتی تھی تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے جاتے تھے اور اس وقت تک باہر نہیں آتے تھے جب تک وہ تھم نہ جاتی۔ متعدد صحابہ رضی اﷲ عنہم نے مختلف عنوانوں سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ معمول نقل کیا ہے کہ پریشانی اور گھبراہٹ کے وقت نماز کی طرف رجوع کرتے تھے اور ایک صحابی رضی اﷲ عنہ نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کے پہلے انبیاء علیہم السلام کا بھی یہی معمول تھا۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے بھی کثرت سے یہی معمول نقل کیا گیا ہے۔ کچھ تفصیل دیکھنا ہو تو میرے رسالہ فضائل نماز میں دیکھو، وہ لوگ نماز میں تیر کھاتے رہتے تھے اور نماز کی لذت کی وجہ سے اس کو توڑنے کی ہمت نہ ہوتی تھی، اذان سنتے ہی دکانوں کو چھوڑ کر نمازوں کو چلا جانا اُن کا عام معمول تھا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اپنی سلطنت کے حکام (گورنروں) کے پاس اعلان بھیج دیا تھا کہ سب سے زیادہ مہتم بالشان چیز میرے نزدیک نماز ہے، جو اس کی حفاظت کر سکتا ہے، وہ دین کے بقیہ اجزاء کی بھی حفاظت کر سکتا ہے اور جو اس کو ضائع کر دے گا وہ دین کے باقی امور کو زیادہ برباد کر دے گا۔
حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے مرتدین کے ساتھ جہاد کے لیے جب حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کو امیر لشکر بنا کر بھیجا تو ان کو وصیت فرمائی کہ یہ پانچ چیزیں ہیں، کلمہ شہادت، نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، جو شخص ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرے، اس سے قتال کرنا۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے جب عتبہ بن غزوان کو فارس کی ایک لڑائی پر امیر لشکر بنا کر بھیجا تو وصیت فرمائی:
’’جتنا ممکن ہو تقویٰ کا اہتمام رکھنا، فیصلہ میں انصاف کا اہتمام رکھنا، نماز کو اپنے وقت پر پڑھنا اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتے رہنا‘‘۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں اجنادین میں رومیوں سے مشہور و معروف زبردست لڑائی ہوئی، رومیوں کے سپہ سالار نے ایک عربی شخص کو جاسوس بنا کر مسلمانوں کے حالات کی تحقیق کے لیے بھیجا اور اس سے کہا کہ ایک شب و روز، ان کے لشکر میں رہے اور غور سے پورے حالات کا مطالعہ کر کے آئے۔ وہ چونکہ عربی تھا، اس لیے ان میں بے تکلف رہا اور واپس جا کر ان سے جو حالت بیان کی وہ یہ ہے:
’’ یہ لوگ رات میں راہب ہیں، دن میں شہسوار، (یعنی رات بھر خدا کے سامنے ناک رگڑتے ہیں، دن بھر گھوڑے پر سوار رہتے ہیں) اگر ان کے بادشاہ کا بیٹا بھی چوری کر لے تو حق کی حمایت میں اس کا ہاتھ کاٹ دیں، اگر زنا کرے تو اس کو بھی سنگسار کر دیں۔‘‘
یہ جو کچھ اس جاسوس نے کہا بالکل صحیح کہا۔ حدیث کی کتابوں میں بکثرت یہ قصہ وارد ہے کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت نے چوری کر لی تھی، اونچے طبقہ کی شمار ہوتی تھی، لوگوں نے چاہا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ میں کسی طرح سفارش کی جائے، مگر کسی کی جرأت اور ہمت نہ ہوتی تھی۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے مُتبَنّیٰ حضرت زید کے بیٹے حضرت اسامہ کو اس کے لیے تجویز کیا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ان سے محبت فرماتے تھے، انھوں نے سفارش فرمائی تو حضور صلی اﷲ عنہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ اﷲ کی حدود میں سفارش کرتے ہو، اس کے بعد حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے وعظ فرمایا، جس میں ارشاد فرمایا کہ پہلی اُمت کے لوگ اسی بات سے ہلاک ہوئے ہیں کہ جب ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کر لیتا تھا، تو اس کو چھوڑ دیتے تھے اور کوئی معمولی درجہ کا آدمی کرتا تھا تو اس کو سزا دیتے تھے۔ خدا کی قسم اگر محمد (ﷺ) کی بیٹی فاطمہ (رضی اﷲ عنہا) بھی چوری کر لیتی، تو اس کابھی ہاتھ کاٹا جاتا۔
حدیث کی کتابوں میں اور بھی اس نوع کے قصے مذکور ہیں۔ یہی چیز تھی جس سے کفار کے قلوب مسلمانوں سے مرعوب ہوتے تھے، چنانچہ اس رومی سپہ سالار نے اس جاسوس کی بات سن کر کہا:
’’اگر تونے مجھ سے ان کا حال سچ بیان کیا ہے تو زمین میں دفن ہو جانا اس سے بہتر ہے کہ زمین کے اوپر ان سے مقابلہ کیا جائے‘‘۔
مسلمانوں کے یہاں ایک رومی قید تھا، جو اتفاق سے موقع پا کر چھوٹ کر بھاگ گیا۔ ہرقل نے اس سے مسلمانوں کے حالات دریافت کیے اور کہا، ایسے پورے حالات بیان کر کہ ان کا منظر میرے سامنے ہو جائے۔ اس نے بھی اسی قسم کے حالات بیان کیے کہ یہ لوگ رات کو راہب ہیں، دن کو سوار، ذمیوں سے (یعنی وہ کافر جو ان کی رعیت ہیں) بھی بغیر قیمت کوئی چیز نہیں لیتے۔ ایک دوسرے سے جب ملتے ہیں تو سلام کرتے ہیں۔
ہرقل نے کہا اگر یہ حالات سچے ہیں تو وہ اس جگہ کے مالک بن کر رہیں گے۔ انطاکیہ کی لڑائی میں یزید بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما نے حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں ،خط لڑائی کے حالات کے متعلق لکھا ہے جس کا شروع یہ ہے:
’’حمد و صلوٰۃ کے بعد عرض ہے کہ ہرقل روم کے بادشاہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ ہم لوگ اس کی طرف چلا دیے ہیں، تو حق تعالیٰ شانہٗ نے اس کے دل میں کچھ ایسا رعب ڈالا کہ وہ مقابلہ سے ہٹ گیا اور انطاکیہ پہنچ گیا۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے جواب میں تحریر فرمایا:
’’تمہارا خط آیا ہے، جس سے ہرقل کے مرعوب ہونے کا حال معلوم ہوا۔ بے شک حق تعالیٰ نے اس وقت بھی جب کہ ہم لوگ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتے تھے، دشمنوں کو مرعوب کرنے کے ساتھ مدد فرمائی ہے، اور اپنے فرشتوں سے مدد کی ہے اور یہی وہ دین ہے جس کی طرف لوگوں کو ہم بلاتے ہیں اور جس کی وجہ سے اﷲ جل شانہٗ رعب کے ساتھ ہماری مدد کرتے ہیں‘‘ ۔
ہرقل کی فوج بہت زیادہ تھی اور مسلمان اس کے مقابلہ میں بہت ہی کم تھے، جس کی اطلاع حضرت عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو دی۔ اس کے جواب میں آپ رضی اﷲ عنہ نے تحریر فرمایا کہ تم مسلمان قلت تعداد کی وجہ سے مغلوب نہیں ہو سکتے البتہ معاصی میں مبتلا ہونے پر باوجود کثیر تعداد کے بھی مغلوب ہو سکتے ہو۔ اس لیے اس سے پرہیز کرتے رہنا۔
یہی چیز تھی جس نے اس وقت مسلمانوں کو نہ صرف آدمیوں ہی پر غالب بنا رکھا تھا بلکہ بحر و بر، شجر، حجر چرند و پرند سب ہی چیزوں پر ان کو فتح حاصل تھی۔ تاریخیں ان واقعات سے پُر ہیں۔ تفصیلات کے لیے بڑے دفتروں کی ضرورت ہے۔ افریقہ کے جنگل میں مسلمانوں کو چھاؤنی ڈالنے کی ضرورت پیش آئی اور ایسے جنگل میں جہاں ہر قسم کے درندے اور موذی جانور بکثرت تھے، حضرت عقبہ رضی اﷲ عنہ امیر لشکر، چند صحابہ رضی اﷲ عنہم کو ساتھ لے کر ایک جگہ پہنچے اور اعلان کیا:
’’اے زمین کے اندر رہنے والے جانورو اور درندوں! ہم صحابہ کی جماعت اس جگہ رہنے کا ارادہ کر رہی ہے، اس لیے تم یہاں سے چلے جاؤ، اس کے بعد جس کو تم میں سے ہم پائیں گے، قتل کر دیں گے‘‘۔
یہ اعلان تھا یا کوئی بجلی تھی، ان درندوں اور موذی جانوروں میں سرعت سے دوڑ گئی اور اپنے بچوں کو اٹھا اٹھا کر سب چل دیے۔
حضرت سفینہ رضی اﷲ عنہ رومیوں کی لڑائی میں یا کسی دوسرے موقع پر راستہ بھول گئے۔ اتفاق سے ایک شیر سامنے آ گیا، انھوں نے اس شیر سے فرمایا، میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا غلام ہوں، مجھے یہ صورت پیش آ گئی۔ وہ شیر کتے کی طرح دم ہلاتا ہوا ان کے ساتھ ہو لیا۔ جہاں کہیں کوئی خطرہ کی بات پیش آتی وہ دوڑ کر اس طرف چلا جاتا اور اس سے نبٹ کر پھر ان کے پاس آ جاتا اور اسی طرح دُم ہلاتا ہوا ساتھ ہو لیتا، حتیٰ کہ لشکر تک ان کو پہنچا کر واپس چلا گیا۔ (مشکوٰۃ)
فارس کی لڑائی میں جب مدائن پر حملہ ہونے والا تھا تو راستہ میں دجلہ پڑتا تھا۔ کفار نے وہاں سے کشتیاں وغیرہ بھی سب ہٹا لیں کہ مسلمان ان پر نہ آ سکیں۔ برسات کا موسم اور سمندر میں طغیانی۔ امیر لشکر حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے حکم دیا کہ مسلمان سمندر میں گھوڑے ڈال دیں۔ دو دو آدمی ساتھ چل رہے تھے اور سمندر میں گھوڑے بے تکلف تیر رہے تھے۔امیر لشکر حضرت سعد رضی اﷲ عنہ کے ساتھی حضرت سلمان رضی اﷲ عنہ تھے اور حضرت سعد رضی اﷲ عنہ بار بار فرماتے تھے:
’’خدا کی قسم! اﷲ جل شانہٗ اپنے دوستوں کی مدد ضرور کرے گا اور اپنے دین کو غالب کر دے گا اور دشمنوں کو مغلوب کرے گا، جب تک کہ لشکر میں ظلم (یا زنا) نہ ہو اور نیکیوں پر گناہ غالب نہ ہو جائیں۔‘‘ (اشاعت)
مرتدین کی لڑائی میں حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے علاء حضرمی رضی اﷲ عنہ کو امیر لشکر بنا کر بحرین کی طرف بھیجا۔ ایک ایسے جنگل پر گزر ہوا، جہاں پانی کا نشان تک نہ تھا۔ لوگ پیاس کی وجہ سے ہلاکت کے قریب پہنچ گئے۔ حضرت علاء رضی اﷲ عنہ گھوڑے سے اترے، دو رکعت نماز پڑھی، اس کے بعد دعا کی جس کے الفاظ یہ ہیں:
یَا حَلیمُ یَا عَلیمُ یَا عَلِیُّ یَا عظیمُ اسْقِنَا۔
ترجمہ: اے حلم والے، اے علم والے، اے برتری والے، اے بڑائی والے، ہمیں پانی عطا فرما۔
ایک نہایت معمولی سا بادل اٹھا اور فوراً برسا اور اس زور سے کہ سب لوگوں نے خود پیا، برتنوں کو بھر لیا۔ سواریوں کو پلایا۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد چونکہ مرتدین کی جماعت نے داربن میں جا کر پناہ لی تھی اور وہاں پہنچنے کے لیے سمندر کو عبور کرنا پڑتا تھا۔ مرتدین نے کشتیاں بھی جلا دی تھیں کہ مسلمان ان کا تعاقب نہ کر سکیں۔ حضرت علاء رضی اﷲ عنہ سمندر کے کنارے پہنچے، دو رکعت نماز پڑھی اور دعا کی:
یَا حَلیمُ یَا عَلیمُ یَا عَلِیُّ یَا عظیمُ اَجِزْنَا۔
ترجمہ: اے حلم والے، اے علم والے، اے برتری والے، اے بڑائی والے، ہمیں پار کر دے۔
یہ دعا کی اور گھوڑے کی باگ پکڑ کر سمندر میں کود پڑے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم پانی پر چل رہے تھے۔ خدا کی قسم نہ قدم بھیگا، نہ موزہ بھیگا، نہ گھوڑوں کے سم بھیگے اور چار ہزار کا لشکر تھا۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ پانی اس قدر کم ہو گیا تھا کہ گھوڑے اور اونٹوں کے صرف پاؤں بھیگتے تھے۔ کیا بعید ہے کہ جب چار ہزار کا لشکر تھا، اس میں بعض کے ساتھ ایسا معاملہ ہوا ہو اور حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ جیسوں کے موزے بھی نہ بھیگے ہوں۔ اس قصہ کی طرف عفیف بن منذر نے جو خود اسی لڑائی میں شریک تھے، دو شعروں میں اشارہ کیا ہے، جن کا ترجمہ یہ ہے:
’’تو دیکھتا نہیں کہ اﷲ نے سمندر کو مطیع کر دیا اور کفار پر کتنی سخت مصیبت نازل کی۔ ہم نے اس پاک ذات کو پکارا جس نے (بنی اسرائیل کے واسطے) سمندر کو ساکن کر دیا تھا۔ اس نے ہمارے ساتھ بنی اسرائیل سے بھی زیادہ اعانت کا معاملہ فرمایا۔ (خمیس)
سمندر اور دریاؤں پر پیدل اور سواریوں پر گزرنے کے واقعات کثرت سے ہیں، مگر عزیز من یہ قصے لطف سے پڑھنے کے نہیں ہیں، اپنی بدحالی اور بداعمالی پر رونے کے ہیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے پاک ارشادات میں ایک ایک چیز بتا دی۔ بھلائی کے راستے اور برائی کے راستے الگ الگ کر دیے۔ اسلاف نے ان پر عمل کیا اور کامیاب ہوئے، ہم نے نہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادات کی قدر کی، نہ ان بزرگوں کے حالات سے عبرت اور نصیحت حاصل کی، نہ اﷲ جل جلالہٗ کا خوف کیا، نہ اس کے پاک رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی کی۔ لیکن جو آرزوئیں اور امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، وہ جو بو کر گیہوں کاٹنے کی ہیں، جنھوں نے گیہوں بوئے تھے، انھوں نے کاٹے بھی وہی تھے۔ اسلامی تاریخ اٹھاؤ اور ایک ایک معرکہ کو غور اور عبرت کی نگاہ سے دیکھو۔ لشکرووں کو روانگی کے وقت کیا کیا نصائح ہوتی تھیں اور پھر وہ حضرات اس پر کیسی پابندی کرتے تھے۔ عراق کی لڑائی میں جس کا مختصر حال میں حکایات صحابہ رضی اﷲ عنہ باب ہفتم کے نمبر ۶ پر لکھ چکا ہوں، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے امیر لشکر حضرت سعد رضی اﷲ عنہ کو جو نصیحت فرمائی ہے، اس کا ایک ایک لفظ غور کے قابل ہے، چند الفاظ کا ترجمہ لکھتا ہوں، فرماتے ہیں:
’’اس پر غرور نہ کرنا کہ تم کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ماموں اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا صحابی رضی اﷲ عنہ کہا جاتا ہے۔ اﷲ جل شانہٗ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتے بلکہ برائی کو بھلائی سے مٹاتے ہیں۔ اﷲ کے درمیان اور اس کے بندوں کے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں ہے، اس سے صرف بندگی کا معاملہ ہے، اس کے یہاں شریف رذیل سب برابر ہیں، اس کے انعامات اس کی اطاعت سے حاصل ہوتے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی پوری زندگی نبوت کے بعد سے وصال تک جو تم نے دیکھی ہے، اس کو پیش نظر رکھنا اور اس کو مضبوط پکڑنا۔ یہ میری خاص نصیحت ہے، اس کو اگر تم نے نہ مانا تو عمل ضائع ہو جائے گا اور نقصان اٹھاؤ گے…… تم ایک بہت سخت اور دشوار کام کے لیے بھیجے جا رہے ہو، جس (کی ذمہ داریوں) سے خلاصی بجز اتباع حق کے اور کسی صورت میں نہیں ہے، اس لیے اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو بھلائی کا عادی بنانا…… اﷲ کا خوف اختیار کرنا اور اﷲ کا خوف دو چیزوں میں مجتمع ہے۔ اس کی اطاعت میں اور گناہ سے احتراز میں اور اﷲ کی اطاعت جس کو بھی نصیب ہوئی ہے، اسے دنیا سے بغض اور آخرت سے محبت نصیب ہوئی ہے، فقط۔ (اشاعت)
خود نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، جو شخض دنیا سے محبت رکھے گا، آخرت کو نقصان پہنچائے گا اور جو اپنی آخرت سے محبت رکھے گا، وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچائے گا۔ پس تم لوگ ایسی چیز کو جو باقی رہنے والی ہے (یعنی آخرت) کو ترجیح دو ایسی چیز پر جو فنا ہونے والی ہے (یعنی دنیا پر)۔ (مشکوٰۃ)
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ نے اس کلیہ کو سمجھ لیا تھا اور مضبوط پکڑ لیا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ جو شخص دنیا کے مقابلہ میں آخرت کو ترجیح دی اور دنیا کے نقصان کو آخرت کے مقابلہ میں برداشت کرنے کو تیار ہو جائے تو صورتاً دنیا کا نقصان ہوتا ہے، حقیقت میں نہیں ہوتا کہ جتنا مقدر ہے وہ تو پہنچ کر رہے گا۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس شخص کا ارادہ (اور اہتمام و عمل) آخرت کی طلب کا ہوتا ہے، اﷲ جل شانہٗ اس کے دل میں غنا ڈال دیتے ہیں، اس کے منتشر امور کو مجتمع فرما دیتے ہیں اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر پہنچتی ہے اور جس شخص کی نیت دنیا طلبی کی ہوتی ہے، فقر اس کی نگاہ کے سامنے رہتا ہے، کاموں میں انتشار اور تشتت رہتا ہے اور مقدر سے زیادہ تو ملتا ہی نہیں۔ (مشکوٰۃ)
چنانچہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ اور ان کے بعد اولیاء اﷲ کے قصے حد تواتر کو پہنچے ہوئے ہیں کہ دنیا کس قدرذلیل ہو کر ان کے پاس آتی تھی اور آتی ہے اور کیوں نہ آئے، جب دنیا کی ہر چیز انھی کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے ایک موقع ایک مختصر جماعت کا امیر لشکر عاصم بن عمرو کو بنا کر میسان (ایک جگہ کا نام ہے) فتح کرنے کے لیے بھیجا۔ عاصم بن عمرو وہاں پہنچے تو اتفاق کہ مسلمانوں کے پاس خورد و نوش کا سامان نہیں رہا،نہ کہیں سے دستیاب ہوا۔ اہل فارس کا ایک شخص جو خود چرواہا تھا، ایک بن کے کنارہ پر ملا، اس سے دریافت کیا کہیں دودھ اور بار برداری کے جانور مل سکیں گے، اس نے جھوٹ کہہ دیا کہ مجھے خبر نہیں ہے، لیکن بن کے اندر سے ایک بیل نے آواز دی: ’’اﷲ کے دشمن نے جھوٹ بولا، ہم یہاں موجود ہیں‘‘۔ اس آواز پر عاصم بن میں گئے اور ان کو پکڑ لائے اور لشکر پر تقسیم کیا۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ قصہ قادسیہ میں حضرت سعد رضی اﷲ عنہ کے ساتھ پیش آیا تھا اور اس میں بھی کوئی مانع نہیں ہے کہ دونوں جگہ پیش آیا۔ حجاج بن یوسف کے زمانہ میں اس قصہ کا تذکرہ آیا تو اس کو اس پر تعجب ہوا، اور اس نے ایسے حضرات کو بلا کر جن کے سامنے یہ واقعہ پیش آیا تھا، تصدیق کی۔ ان لوگوں نے بیل کی آواز کا خود سننا بیان کیا۔ حجاج نے کہا کہ لوگ اس واقعہ کے متعلق کیا خیال کرتے تھے۔ ان لوگوں نے کہا کہ لوگ اس واقعہ سے اس پر استدلال کرتے تھے کہ حق تعالیٰ شانہٗ مسلمانوں سے راضی ہیں اور فتوحات ان کے ہمرکاب ہیں۔ حجاج نے کہا یہ تو جب ہو سکتا ہے کہ لشکر سارے ہی افراد متقی، پرہیز گار ہوں۔ لوگوں نے کہا یہ تو ہمیں معلوم نہیں کہ لشکر کے دلوں میں کیا بات تھی، لیکن ظاہر میں جو کچھ ہم نے دیکھا، وہ یہ ہے کہ دنیا کے بارے میں ان سے زیادہ زاہد اور دنیا کے ساتھ ان سے زیادہ بغض رکھنے والا ہم نے نہیں دیکھا، کوئی شخص ان میں بزدل یا خیانت کرنے والا یا بد عہدی کرنے والا نہ تھا۔
اس قصہ میں جانوروں کا بولنا یا اﷲ والوں کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنا، دونوں باتیں کچھ مستبعد نہیں ہیں۔ صحیح حدیثوں میں جانوروں کا بولنا ثابت ہے۔ بخاری شریف اور حدیث کی دوسری کتابوں میں ہے کہ ایک شخص گائے لیے جا رہا تھا، وہ چلتے چلتے تھک گیا اور اس پر سوار ہو گیا، وہ گائے بولی ہم اس کے لیے پیدا نہیں کیے گئے۔ ہم کھیتی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ لوگوں کو اس کے بولنے پر بڑا تعجب تھا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، میرا اور ابوبکر و عمر کا تو اس پر ایمان ہے۔ ایک مرتبہ ایک شخص بکریاں چرا رہا تھا، ایک بھیڑیے نے ایک بکری اٹھا لی۔ ان صاحب نے شور و شغب کیا تو اس بھیڑیے نے کہا۔ درندوں کے دن (قیامت کے قریب) کون ان بکریوں کی حفاظت کرے گا۔ لوگوں کو تعجب ہوا کہ بھیڑیا کلام کرتا ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہاں بھی وہی ارشاد فرمایا کہ میرا اور ابوبکر اور عمر کا اس پر ایمان ہے۔
(مشکوٰۃ براویت الشیخین)
معجزات کی کتابوں میں متعدد واقعات اس نوع کے ذکر کیے گئے ہیں کہ جانوروں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کی شہادت دی۔ لوگوں کو ایمان نہ لانے پر طعن کیا۔ دیکھنا چاہو تو شفاء قاضی عیاض میں بھی چند واقعات ذکر کیے ہیں۔ اس قصہ کا دوسرا جز کہ جانوروں نے اپنے آپ کو پیش کیا بھی ظاہر ہے، کیونکہ جب یہ جماعت اﷲ کے نام پر شہید ہونے کو اس رضا اور رغبت کے ساتھ ہر وقت تیار اور مستعد تھی تو کَمَا تَدِیْنَ تُدَانُ یعنی جیسا تم معاملہ کرو، ویسا ہی معاملہ کیا جائے گا۔
تو ہم گردن از حکم داور مپیچ
کہ گردن نہ پیچد ز حکم تو ہیچ
(ترجمہ: یعنی تو خدا کی اطاعت کر، دنیا کی ہر چیز تیری اطاعت کرے گا)
ان حضرات کے شوقِ شہادت کے واقعات سے تواریخ بھری ہوئی ہیں۔ نمونہ کے طور پر چند قصے حکایاتِ صحابہ رضی اﷲ عنہم میں لکھ چکا ہوں۔ دل چاہے تو دیکھ لو۔
(جاری ہے)