سید محمد کفیل بخاری
گزشتہ ماہ وفاقی کابینہ میں ہونے والی غیر معمولی اکھاڑ پچھاڑ سے حکومتی ناکامی کا جو نقشہ ابھر کر واضح ہوا ہے، اس نے قوم کو بری طرح مایوس کیا ہے۔ 9ماہ میں ملکی معیشت کی بدترین تباہی، کمر توڑ مہنگائی، قرضوں میں پونے تین بلین ڈالرز کے خطرناک اضافے کے بعدوزیرِ خزانہ اسد عمر رخصت ہوئے۔ ان کارناموں کی ذمہ داری بھی سابقہ حکمرانوں پر ڈالنے کو ملک سے بھونڈا مذاق ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ منتخب وزراء کی جگہ سولہ غیر منتخب وزیروں کی فوجِ ظفر موج مزید بھرتی کر لی گئی ہے، گویا کہ اب ایک منتخب حکومت کو ٹیکنو کریٹس چلائیں گے۔ نئے مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ پیپلز پارٹی کی حکومت کی یاد گار ہیں۔ تب عمران خان اُنھیں ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیلنے کا طعنہ دیتے تھے اور ان پر پلانٹڈ وزیرِ خزانہ کی بھپتی کسی تھی، وہ اب کیسے ملک کو قرضوں سے نجات دلائیں گے؟
پٹرولیم کے نئے وزیر ندیم بابر سوئی ناردرن گیس کمپنی کے 80کروڑ کے نادہندہ ہیں۔ یعنی جس وزارت پر براجمان ہیں، اسی کے نادہندہ ہیں۔ وزیرِ خزانہ بھی اپنے ماضی کے کارناموں کی وجہ سے متنازعہ ترین شخصیت ہیں۔ موجودہ کابینہ کی اکثریت پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف کی باقیاتِ سیئات پر مشتمل ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سے لے کر نیچے تک سب کی زبانیں لڑکھڑا رہی ہیں، وزیر اعظم نے اپنے حالیہ دورۂ ایران کے موقع پر جرمنی و جاپان کی سرحدوں کو ملانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی زمین سے ایران میں دہشت گردی کے اعتراف اور پاکستان میں ایرانی انقلاب کی خواہش کا اظہار فرما کر جس لیاقت و اہلیت کا مظاہرہ کیا، معلوم نہیں کہ سلیکٹرز اس کو کیسے قبول کریں گے۔
ارماڑہ بلوچستان میں دہشت گردوں نے جن 14بے گناہ افراد کو قتل کیا، اُن کا تعلق پاک فوج سے ہے، وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس کی ذمہ داری ایران پر عائد کر کے، ایرانی حکومت سے احتجاج کیا۔ جبکہ وزیر اعظم نے ایران میں ہونے والی دہشت گردی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیا۔گورنر پنجاب چودھری سرور فرماتے ہیں کہ ہم یہاں آلو چھولے بیچنے کے لیے نہیں بیٹھے ہوئے، حکومت کا ہر شعبہ زوال پذیر ہے ۔ وزیر اعظم اور اُن کی قابل ترین ٹیم اس کی تمام تر ذمہ داری سابقہ حکمرانوں پر ڈال کر کیسے بری الذمہ ہو سکتی ہے، ملک میں صدارتی نظام کی باز گشت سنائی دے رہی ہے، جبکہ آئین حکومت کو پارلیمانی نظام کا پابند کرتا ہے۔ حکمران بڑی تیزی کے ساتھ تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں، پی ٹی آئی کے سپورٹرز اور ووٹرز اپنے کیے پر نادم اور منہ چھپائے ہوئے ہیں۔ قوم سوال کرتی ہے کہ: ’’ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ تو محبِ وطن افواج کر رہی ہیں، نظریاتی سرحدوں کا دفاع کون کرے گا‘‘۔ مقتدر قوتوں سے گزارش ہے کہ خدا را سوچیے اور ملک کو نااہلوں سے بچائیے۔