چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ
قسط:۸
جیل کے جھگڑے
سٹرائک کی ابتدا:
احباب کی یہ دلکش صحبتیں راہ گزر کے نظارہ حسن کی طرح ایک یاد خوش گوار چھوڑ گئیں اور اس کشمکش کا آغاز ہوا جس نے انبالہ جیل کو شہرتِ خاص بخشی۔ سپرنٹنڈنٹ جیل ایک شریف دیسی افسر تھا، اس کی معقول پسندی خواہ مخواہ قیدیوں سے سلسلہ جنگ و جدل جاری رکھنے کی روادار نہ تھی۔ ہر کام خوش اسلوبی سے سرانجام پا رہا تھا، انسپکٹر جنرل خانہ جات کی معائنہ کے لیے آمد کی خبر مشہور ہوئی۔ آپ کے لاہور سے چلتے ہی جیل کے امن نے لاحول پڑھنا شروع کر دی، آتے ہی نوعمر قیدیوں کی بارک میں گئے۔ بھلے مانس نے خالصہ بھائیوں کی پگڑیوں پر ہاتھ ڈالا، پریڈ میں کھانا کھانے کا حکم دیا۔ کھانا پریڈ (جماعتی طور سے ایک لائن میں بیٹھ کر کھانا کھانے کو کہتے ہیں۔ جس میں کئی بار معائنہ کنندے کے حکم سے اٹھنا بیٹھنا پڑتا ہے اور کھانے کے لیے چند منٹوں کا وقت متعین ہوتا ہے)، اس کھانے کی پریڈ میں چند منٹ کی مہلت دی گئی۔ پیٹ پُر کیے بغیر نو عمر قیدیوں کو اٹھنا پڑا، ان میں زیادہ سکھ سیاسی قیدی تھے۔ پیٹ سے بھوکے، سر سے پگڑیاں اتروا کر خالصہ جی اڑ گئے کہ پگڑی کے ساتھ سر بھی چلا جائے تو پرواہ نہیں، بغیر پوچھے بچھائے فاقہ کشی کا اعلان کر دیا۔ اب باقی سب کو فکر و فاقہ ہوا، مجلس مشاورت منعقد ہوئی۔ مجھے ہوشیار پور جیل میں بھوک ہڑتال کا تلخ تجربہ ہو چکا تھا کہ قطرہ قطرہ خون خشک کر کے جان سپاری ہے، دوسرے سیاہ پگڑی کی ایسی حرمت ہے…… مجھے شبہ تھا…… جس کے لیے فاقہ کشی کا خطرناک حربہ اٹھایا جائے، اس لیے میں مخالف تھا، مگر ایک صاحب جن کا جوش ان کی عقل سے دو ہاتھ بڑھا ہوا تھا۔ شیر کی طرح گرجے کہ کرم فرماؤ اس احتیاج سے شیروں کو رو بہ مزاج نہ بناؤ۔ میں اکیلا مر‘د کھاؤں گا اور معاملہ کو سلجھاؤں گا۔ خالصہ جی مجھ پر تن کر آئے میں نرم ہو گیا۔ سٹرائیک کا نازک مسئلہ بغیر مکمل بحث و تمحیص کے طے پا گیا، بلاشبہ حکام جیل سے جائز مطالبات منوانے کے لیے فاقہ کشی ہی کارگر حربہ ہے۔ مگر اس خطرناک حربے کا استعمال نہایت حزم و احتیاط کامل سوچ بچار کر اور شاذ و نادر کرنا چاہیے، فاقہ کشی بچوں کا کھیل نہیں، جان پر کھیل جانے کا کام ہے۔ انفرادی طریقہ سے فاقہ کشی کی کامیابی مشکل ہے، جماعتی فاقہ کشی میں کامیابی یقینی ہوتی ہے۔ بشرطیکہ ساتھی کمزوری کا اظہار کر کے فاقہ کشوں سے کنارہ کش نہ ہو جائیں، الغرض سٹرائیک شروع ہوا، میں باوجود اختلاف رکھنے کے اکثریت کے ساتھ تھا۔ فاقہ مستوں نے ایک دن تو خوب سرمستیاں دکھائیں اور خوب اچھل کود کرتے رہے۔ دوسرے دن پیٹ کا دوزخ گرجنے لگا، اب مشکل کا سامنا ہوا۔ بقول سعدی
تنور شکم دم بہ دم تافتن
مصیبت بود روز نا یافتن
چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں، ٹانگیں چلنے پھرنے سے جواب دینے لگیں۔ کوئی یہاں بیٹھا ہے، کوئی وہاں، جوں جوں دن چڑھتا گیا۔ بھوک بڑھتی گئی، منہ سے بولو کچھ، نکلے کچھ۔ پاؤں رکھو کہیں، پڑے کہیں۔ میں بھی ادھار بیچنے والوں کی طرح گھٹنوں میں سر دیے بیٹھا تھا کہ اتنے میں ڈپٹی کمشنر اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل، آندھی کی طرح بارک میں آئے۔ آداب و تعظیم کے لیے کوئی نہ اٹھا، بگولا بن کر باہر نکل آئے اور ایک لائن میں کھڑا ہو جانے کا حکم دیا۔ مہاتما کا حکم تھا کہ حکم حاکم مرگِ مفاجات سمجھ کر مانو۔ سب سرتسلیم خم کر کے باہر آ گئے، میں سپرنٹنڈنٹ پولیس کی نظر سے اوجھل ہونے کے لیے جو میرا ملازمت کا واقف تھا۔ سب سے پیچھے کھڑا ہوا، مگر میرے آنکھ چرانے پر افسر پولیس نے آ پکڑا کہ تم کہاں اور کیا کہتا کہ قسمت لائی جہاں ابھی سلسلہ کلام کا آغاز تھا کہ ڈپٹی کمشنر متوجہ ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ میرے مفصل حالات سے واقف تھے، آتے ہی نوکا جھونکی شروع کر دی۔ سٹرائیک کی شمولیت کو غلطی بتلایا، میں نے کہا غلطی کی اصلاح کرنے کو تیار ہیں۔ بشرطیکہ غلطی کا یقین دلایا جائے، آپ بگڑے کہ تم سر تا پا غلطی ہی ہو۔ اس سے بڑھ کر اور غلطی کیا بتاؤں کہ افسری چھوڑی قیدی بنے۔ میری شوخی جولان پر آئی، مگر ادب و احتیاط سے جواب دیا، قیدی بننے والے غلط یا بنانے والے۔ ڈپٹی کمشنر شرمندہ ہو کر چلا گیا۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ میری روشنی طبع مجھ پر بلا ہو گئی۔ خیال کیا گیا کہ اس گڑبڑ کا موجب میں ہوں
سن کے ہنگر اسٹرائیک کی خبر آئے اک ’’صاحب بہادر‘‘ جیل میں
دیکھ میری طرف کہنے لگے ٹم بہٹ کرٹا ہے گربر جیل میں
ام مشکّٹ کی سجا ڈے گا ٹمہیں ٹم ہے سب کا ونگ لیڈر جیل میں
کیوں نہیں چلٹا ہے ٹم کانون پر کیا نہیں سرکار کا ڈر جیل میں
اب بھوک گھٹی، پیاس بڑھی، بار بار زبان باہر آتی تھی۔ شہید میکسوینی کی پیروی میں نمک ملا کر پانی پیتے رہے، نہ گھونٹ سے صبر، نہ گلاس سے تسلی۔ گھڑوں تک کی نوبت پہنچی۔ چودھری اکھے رام سابق جمعدار فوج نے قے کی اور ہاتھ پاؤں پڑ گئے، سب کے ہاتھ پاؤں پھولے، اس وقت رات کے گیارہ بجے تھے، ڈاکٹر صاحب بلوانے پر آئے۔ آپ بڑے نارومنی اور لگانے بجھانے میں مشتاق تھے۔ اکھا رام کو دوائی دے کر کہا کہ بھائی باقی بھی ہوش کی دوا کھاؤ، اب وہ دن گئے کہ خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ اب جیل کی حکومت کا تختہ الٹ گیا، دیسی سے چھن کر انگریز کا راج ہو گیا، یعنی سید رضا علی گئے اور مسٹر کنگ اسسٹنٹ کمشنر سپرنٹنڈنٹ ہو کر آئے۔ یہ حماقت چھوڑا، آگے سے کان پکڑو ورنہ ناک رگڑنی پڑے گی۔ یہ سن کر سب کی آنکھیں کھل گئیں، دل دھک سے رہ گیا۔ اے کلاس قیدیوں کا آدھی رات اجتماع ہوا کہ کسی طرح یہ جھگڑا چکاؤ ورنہ کل قیامت کی گھڑی ہے۔ ایک خالصہ صاحب نے باتوں باتوں میں کہہ دیا کہ میرے رائے میں کالی پگڑی دھرم میں داخل نہیں، پھر کیا تھا سب نے مقاطعہ جوئی کا خیال قطع کیا۔ ایک کے پاس لڈو کا بھرا کنستر تھا، اس نے بھنڈر کھول دیا، لڈو دیکھ کر لیڈروں کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے اور منہ میں پانی بھر آیا۔ بی کلاس کسی کو کانوں کان خبر نہ تھی کہ اے کلاس میں کس طرح پیٹ پوجا ہو رہی ہے۔
انگریزی اقبال:
اے اور بی کلاس کے سیاسی قیدیوں میں کچھ عرصہ سے کشمکش جاری تھی۔ بی کلاس کا تقاضا تھا کہ اے کلاس کو مراعات سے مستفید ہونا اصولِ مساوات کے منافی ہے۔ اس جھگڑے کی صورت میں روز بروز دار شکن ہو رہی تھی۔ آئے دن آپس میں تکرار اور تھوکا فضیحتی ہوتی رہتی تھی۔ یہاں اس افسوس ناک تفصیل کی ضرورت نہیں۔ اس نت کے رگڑے جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے تین چار کے سوائے سب سیاسی قیدیوں نے اے کلاس چھوڑ دی۔ اس وقت چالیس کے قریب اے کلاس میں قیدی موجود تھے، اب سب کے دل میں خیال آیا کہ انگریز سپرنٹنڈنٹ اے کلاس چھوڑنے پر خدا جانے کیا کہے اگ؟ سب کی صلاح ہوئی کہ لگے ہاتھ اے کلاس کا کھانا پھر شروع کر دینا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ کہیں چنے چبانے پڑیں۔ ایوان نعمت چھوڑ کر سوکھے ٹکڑے کھانے کا شوق تو مجھے بھی نہ تھا، مگر اصولی طور پر اعتراض کیا کہ خوف انسان کو خاطر میں لا کر ارادے سے بدل جانا شایانِ شان شریفاں نہیں۔ خوف سے ارادہ میں تغیر کے یہ معنی ہیں کہ آج ہم بہ ایں دعوائے آزادی و حریت، انگریزی اقبال کے سامنے جھک رہے ہیں، مگر نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا تھا۔ سب اسی پر ادھار کھائے بیٹھے تھے کہ صبح اے کلاس کا کھانا لیں گے، مجھے بھی اکثریت میں شمولیت کی دعوت دی گئی، مگر میرا دل اس وقت خون کے آنسو رو رہا تھا کہ ہم انگریزوں کی غلامی سے آزادی کا دم کیونکر بھر سکتے ہیں، جب ایک انگریز کے آنے سے اس طرح بے دم ہو رہے ہیں۔ میں اس وقت پسپائی کو قومی ہتک خیال کر کے نظر ثانی کے لیے ملتجی تھا۔ ہاں اگر نئے سپرنٹنڈنٹ کی آمد کے دس یا بیس دن بعد کسی بہانہ سے اے کلاس کا کھانا شروع کر دیا جاتا تو چنداں قابلِ اعتراض نہ ہوتا، مگر غلام قوموں کے افراد کی یہ عادت مستمرہ ہے کہ نرمی میں سر آنا، گرمی میں گھبرانا۔ اعتدال و انصاف پر ان کی طبیعت رہ ہی نہیں سکتی، علاوہ ازیں محکوم لوگوں میں ایک اور کمزوری آ اتی ہے۔ ہمارے شریف سے شریف اور امیر سے امیر ہندوستانی، اس گاڑی میں سفر کرنے کی جرأت نہیں کرتے، جن میں دو انگریز بیٹھے ہوں۔ دفاتر میں دیکھو، دیسی کیسا حلیم، شریف اور لئیق کیوں نہ ہو مگر ماتحت ہمیشہ بدلگامی کرتے ہیں۔ جب اسی جگہ ایک ادنیٰ اخلاق اور لیاقت کا انگریز آ جاتا ہے تو سب کام ٹھیک ٹھاک ہونے لگتے ہیں۔ اعلیٰ و ادنیٰ ہندوستانی ملازمین کے ہونٹ حضور حضور کہتے خشک ہوتے ہیں، غلام فطرت انسانوں اور غلام قوموں میں یہ علامات ہمیشہ موجود رہتی ہیں۔ نوجوانِ ہندوستان کا فرض ہے کہ وہ ہندوستانیوں کے ماتحت رہنا اور دیسی افسروں کا ادب و احترام کرنا سیکھیں۔ اپنے دیسی افسروں کو ذلیل کر کے اپنی ذلت کا ثبوت پیش نہ کریں، بچوں میں یہ عادت ڈالنی چاہیے کہ وہ بدیشیوں کے خوف و احترام کو کبھی دل میں جگہ نہ دیں۔ جو غلامانہ جھجک اس وقت ہمارے دلوں میں موجود ہے، وہ ہماری آئندہ نسل میں نہ ہونی چاہیے۔
صبح شامِ غریباں بن کر آئی۔ اب اے کلاس میں وہ دم خم نہ تھے، شکست خوردہ فوج کی طرح خوف و ہراس میں ہر شخص انتظار کر رہا تھا کہ دیکھیے نیا سپرنٹنڈنٹ کیا گل کھلاتا ہے۔ صبح سات بجے جیلر آیا، سب تعظیم کے لیے سر و قد کھڑے ہو گئے، حالانکہ ایک دن قبل یہی حضرات اعلیٰ افسران کی آمد پر بیٹھے بیٹھے لیٹ گئے اور کھڑے کھڑے بیٹھ گئے۔ داروغہ سیدھا میرے پاس آیا کہ صاحب ضلع آپ کو تنہائی میں رکھنے کا حکم دے گئے ہیں، میں نے سنا تو نمبردار کے سر پر بستر دھر، جمعدار کو ہمراہ لیا، قید تنہائی کی کوٹھڑیوں کی طرف چل دیا۔ جمعدار مجھ کو بند کر کے باہر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد نیا یورپین سپرنٹنڈنٹ و داروغہ مع عملہ ماتحت کے آیا، مجھے ابھی افاقہ تھا، کمزوری بڑھی ہوئی تھی۔ سپرنٹنڈنٹ جنگلہ کے باہر کھڑا اور میں کوٹھڑی میں اندر بیٹھا۔ وہ مجھ سے تحکمانہ انداز میں کئی ایک سوال پوچھتا رہا، میں کمزوری کی وجہ سے اٹھ نہ سکتا تھا، بیٹھا بیٹھا جواب دیتا رہا۔ تنہائی کے دن اور تنہائی کی راتیں، اوّل اوّل فراق کے ابتدائی لمحوں کی طرح اداسی میں گزریں، جلد ہی تنہائی کی کوٹھڑی میرے لیے ایک وسیع دنیا بن گئی۔ جہاں میرا تخیل میری سیر و تفریح کا سامان کیا کرتا تھا۔ سپرنٹنڈنٹ کے مزاج کا یہ عالم تھا کہ جب بھی آتا، گھوڑے پر سوار آتا، مجھ سے ہمیشہ نوکا جھونکی رہتی تھی۔ آپ کی آمد کی خبر والنٹیئروں کے نعرے دیتے تھے اور بارکوں سے جب کبھی ہلڑ اٹھتا تھا، میں سمجھ لیتا تھا کہ مسٹر کنگ نے قدم رنجہ فرمایا ہے۔ سپرنٹنڈنٹ کی آمد پر نعروں کی آواز کو برا سمجھتا تھا، مگر بعد میں نعرہ مارنے والوں کا طرز حق بجانب معلوم ہوا، کیونکہ انتظامیہ نے اذان کی آواز کو قومی نعرہ قرار دے کر چکی کی سزا دے دی تھی۔ جس سے سزا کا شوق سب کے دل میں چراتا تھا اور نعرہ پر نعرہ بلند کیا جاتا تھا۔ صبح سپرنٹنڈنٹ گھبرا کر اس بارک میں جاتا، کبھی اس میں دوڑتا، جدھر جائے ادھر خاموشی۔ جہاں سے جائے اسی میں شور اٹھتا تھا، آخر اس بغاوت کو فرو کرنے کے لیے مسلح گارد طلب کی اور بی کلاس کی ٹولیوں پر ٹولیاں پکڑ پکڑ کر چکیوں میں بند کر دی گئیں اور ایسی خوراک دی گئی، جس کی وجہ سے اکثر پیٹ کے درد سے بے تاب ہو گئے۔ سپرنٹنڈنٹ کے غصے کے شکار قیدیوں کا ڈاکٹر تمام رات علاج معالجہ کرتا رہا۔ ادھر بی کلاس کی یہ کیفیت تھی، ادھر اے کلاس کے قیدیوں نے سپرنٹنڈنٹ کی تنک مزاجیوں سے تنگ آ کر فیصلہ کر لیا کہ مسٹر کنگ کی آمد پر کوئی شخص تعظیم کے لیے نہ اٹھے۔ میرے ساتھ جو روزانہ جھڑپ رہتی تھی، وہ اس امر کی مقتضی تھا کہ ایسے مغرور کی تعظیم نہ کی جائے۔ اس لیے ان کے اس فیصلہ کو سن کر میں نے صاد کیا۔
ایک دن سپرنٹنڈنٹ اے کلاس میں گیا۔ چودھری اکھے رام تعظیم کو نہ اٹھے۔ انھیں اے کلاس کے جملہ حقوق سے محروم کر دیا گیا، اس لیے سب نے اے کلاس کے حقوق چھوڑ دیے، اگرچہ میں قیدِ تنہائی میں تھا، مگر مجھے بھی ایسا کرنے کی درخواست کی گئی۔ بوجہ علیحدہ رہنے کے اس جماعت کی پابندی مجھ پر لازم نہ تھی۔ تاہم جماعت سے علیحدگی مناسب نہ سمجھ کر میں نے بھی اس اعتراض درخواست پر دستخط کر دیے۔ سپرنٹنڈنٹ اس درخواست کو دیکھ کر بہت سٹ پٹایا، تاہم رعب قائم رکھنے کے لیے درخواست منظور کرلی، مگر ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ طبیعت کی گرمی نرم مزاجی میں تبدیل ہو گئی، وہ چاہتا تھا کہ جھگڑا طے کر لیا جائے۔
اگلے روز اس کا لب و لہجہ دوستانہ معلوم ہوتا تھا، مگر شومئی قسمت کہ اے کلاس کے اسی قیدی نے، جس نے درخواست کا مضمون تیار کیا تھا، ایک دوسری درخواست لکھ دی کہ چودھری اکھے رام کو سزا دینے میں آپ حق بجانب تھے اور میں بطور سچے ستیہ گرہی کے اس درخواست پر دستخط کرنے سے پشیمان ہوں، بس پھر کیا تھا، سپرنٹنڈنٹ اس سر ٹیفکیٹ سے بھاری ہو گیا۔
قسمت تو دیکھیے کہ ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا
متواتر کمزوریوں کے اظہار سے ہماری مقابلہ کی طاقت کم ہو گئی اور حکام کا مزاج پایا نہ جاتا تھا۔ انھی ایام میں میرے عزیز دوست غازی عبدالرحمن صاحب اور حکیم نور الدین صاحب لائل پور سے چالان ہو کر آئے، میری تشویش قدرے رفع ہوئی کہ غازی صاحب ہمیشہ مرد میدان رہے۔ اب مقابل کے مظالم کو دیکھ کر، اب بھی میدان گرم رکھیں گے۔ ہماری جماعت دل شکستہ اور حکام کے حوصلے بڑھے ہوئے تھے۔ سپرنٹنڈنٹ نے موقع سمجھ کر ایک اور حکم دیا کہ آئندہ پریڈ بھی لگائی جائے، پریڈ من جملہ اور احکامات جیل کے ایک نہایت قابل حقارت حکم ہے، جس کی تعمیل قیدی پر ضروری ہے۔ بستر برتن باہر لگا کر قیدی قطار میں بیٹھ کر سپرنٹنڈنٹ کی آمد کا انتظار کرتے ہیں، جمعدار پر جمعدار آتا ہے، درست بیٹھنے بستر لگانے کی ہدایت کرتا ہے۔ ابھی سپرنٹنڈنٹ دور ہی ہوتا ہے کہ کھڑے ہونے کا حکم دیا جاتا ہے، تمام قیدی دونوں ہاتھوں میں ہسٹری ٹکٹ لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سپرنٹنڈنٹ ہر ایک کا ٹکٹ دیکھتا ہے اور عرض و معروض سنتا ہے۔ ایک ذی عزت سیاسی قیدی پر خواہ مخواہ ذلت برستی ہے اور مینا بازار سا لگا کر دونوں ہاتھوں سے ٹکٹ آگے کو کر کے کھڑے رہنے کا منظر نہایت کریہہ ہوتا ہے اور سیاسی قیدیوں کی شایانِ شان نہیں ہوتا۔ اس حکم سے پھر قیدیوں کی باسی کڑھی میں اُبال آیا، پریڈ لگانے سے صاف انکار کر دیا۔ داروغہ جیل نے بہت سمجھایا کہ پریڈ لگا دو، مگر سب نے کہہ دیا کہ ایسا نہیں ہو گا۔ سپرنٹنڈنٹ ہمارے مزاج کو پا گیا تھا یعنی وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ جوتے کے یار ہیں۔ تب تک سرتابی کرتے ہیں، جب تک جوتا سر سے دور ہوتا ہے۔ اس لیے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا ایک نوٹس تمام سیاسی قیدیوں کے نام آیا کہ یا تو اگلے روز پریڈ لگاؤ ورنہ تمھارے ساتھ قانونی سلوک کیا جائے گا۔ چنانچہ تمام اے اور بی کلاس کے نمائندہ قیدیوں کی ایک میٹنگ ہوئلی، داروغہ صاحب نے نوٹس سب کو پڑھ کر سنایا، جس نے سنا منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں، کثرتِ رائے سے یہی فیصلہ ہوا کہ پریڈ لگائی جائے، بصورتِ انکار سزا بڑھ جانے کا اندیشہ تھا۔ عزت پہلے بھی کیا رہی تھی کہ اب کہا جائے کہ اس فیصلہ سے بے قدری ہوئی، مجھے تو حیرت اس امر کی تھی کہ یہ لوگ اپنی طاقت اور حوصلہ کا غلط اندازہ لگا کر ہٹ کرتے تھے، جس کو نباہ نہ سکتے تھے۔ کیا اچھی بات ہوتی کہ اگر انکار کر دیا تھا، تو داروغہ جیل کے کہنے پر مان جاتے، ورنہ اس کو قول مرداں جانے دارد کے مصداق آن کو جان پر ترجیح دیتے مرتے، مگر جس بات سے ایک دفعہ انکار کیا تھا، اس کو نہ کرتے، مگر وہ گیدڑ بھبکیاں دے کر اُلّو سیدھا کرنا چاہتے تھے۔ یہ امر یہاں محال تھا، غرض اگلے روز پریڈ باقاعدہ شروع کر دی۔
کربلائی حالت:
سپرنٹنڈنٹ مسٹر کنگ کے مزاج کا یہ عالم تھا کہ کسی وارڈ یا نمبر دار سے ذرا غفلت ہو، یا سیاسی قیدیوں سے تھوڑی ہمدردی کا میلان دیکھا تو فوراً عبرتناک سزا دی۔ اس صورت سے جو سیاسی قیدیوں کی زبوں حالت ہوئی، اس کا بیان ناممکن ہے۔ کسی ملازم یا عہدہ دار قیدی کو پاس آنے کی جرأت نہ ہوتی تھی، یوں تو مجھے ہر وقت بند رکھا جاتا تھا، مگر پانی وقت پر مجھے مل جاتا تھا، مگر انھی ایام میں جمنا کے قریب بیٹھے مجھے کربلائی خان بننا پڑا۔ انتظام کی خرابی کی وجہ سے دو روز تک میرے پاس کوئی پانی نہ لایا، کچھ وقت تو کھانا کھا کر صبر کا گھونٹ پی لیا، مگر چوتھے وقت برداشت کی تاب نہ رہی، حلق خشک ہونے لگا۔ ۱۲ بجنے والے تھے، میں نے پہرہ دار سے کہا کہ میں پیاس کے مارے مر رہا ہوں، مجھے کسی قیدی سے پانی لا دے۔ اس نے وہی جواب دیا جس کی توقع تھی کہ آپ سے بولنے کا حکم نہیں۔ میں اس کو پھر بھی بلاتا رہا، مگر اس نے ایک خاموشی اختیار کی
یاں لب پہ لاکھ سخن اضطراب میں
واں ایک خاموشی تری سب کے جواب میں
بارہ بج چکے تھے، پہرہ بدل گیا۔ ایک اور عہدہ دار قیدی میری کوٹھڑی کے سامنے خوش الحانی سے آیات قرآنی تلاوت کرنے لگا، میں نے اس کو کہا، میں پیاس سے تنگ ہوں، دو روز سے پانی نہیں ملا، اگر پانی مل سکے تو نہایت مہربانی ہو۔ اس نیک بخت کے پاس پانی تھا، اس نے مجھے پانی پلایا اور دعا لی۔ میں پیاس سے ایسا تنگ ہو گیا تھا کہ سپرنٹنڈنٹ یا داروغہ جو سامنے آتا، میں اس وقت لڑنے مرنے کو تیار تھا، مگر پانی پی کر جوش ٹھنڈا ہو گیا۔
بہادر قیدی:
شاید قارئین اس بات کے باور کرنے میں پس و پیش کریں گے کہ اے کلاس کے قیدیوں میں اب بالکل اخلاقی جرأت نہ رہی تھی، اس کی وجہ بھی تھی، جو پہلے تو میری سمجھ میں نہ آئی، مگر جب مفصل حالات معلوم ہوئے تو اس کمزوری اور خوف کی اصل وجہ معلوم ہو گئی۔ جب مجھے قید تنہائی میں ڈالا یا تو اس کے چند روز بعد میر عبدالستار صاحب کی رہائی کی تاریخ تھی، سیاسی قیدیوں نے اپنے بچپن کا اظہار کیا۔ سپرنٹنڈنٹ کے مزاج اور دربان کی برہمی طبیعت کے باوجود سپرنٹنڈنٹ کی سخت گیریوں کی داستان لکھی، اکثر نے بیوی بچوں کے نام خطوط لکھ کر میر صاحب کو خفیہ پیامبر بنایا، بدقسمتی سے دربان نے جامہ تلاشی لی اور تمام خطوط پکڑے گئے اور میر صاحب دھرے گے۔ خلاف ورزی قانون جیل کا مقدمہ چلا، جیل سے نکلتے نکلتے چھے ماہ کے لیے اور رہ گئے۔ اب مزا سنیے، پہلے آپ اے کلاس قیدی تھے۔ اب بی کلاس کے سیاسی قیدی بھی تسلیم نہ کیے گئے بلکہ معمولی اخلاقی قیدیوں میں آپ کا شمار ہوا۔ مگر جس بہادری، ہمت اور حوصلہ سے یہ دن آپ نے گزارے، وہ آپ کی قوّتِ ایمان کی روشن دلیل ہے۔ میں نے کبھی ان کی زبان سے شکوہ شکایت نہیں سنی۔ وہ بے گناہ ثابت ہوتے تو دوسروں کی تکلیف کو دیکھ کر، کبھی اپنی تکلیف کا ذکر تک نہ کرتے۔ باوصف اس کے کہ وہ اخلاقی قیدی تصور ہوتے، تاہم سیاسی قیدیوں کے دکھ درد میں باوجود سخت نگرانی کے ہوتے ہوئے شریک ہوتے، آپ جب رہا ہوئے تو ایک نہایت دردناک خط جیل کے حالات کے متعلق اخبارات میں شائع کرایا۔ جس سے ان کے دوسروں کے درد کے احساس کا کما حقہٗ پتہ چلتا ہے اور واقعات جیل کا دردناک مرقع ہے۔ یہ چٹھی مورخہ ۲۶؍ جون کے بندے ماترم میں شائع ہوئی:
’’حقیقت تو یہ ہے کہ میں نے اپنی رہائی میں کوئی خوشی محسوس نہیں کی اور میں خوشی محسوس کر بھی کیا سکتا تھا، وہ شخص کیونکر خوشی محسوس کرسکتا ہے، جس نے اپنی آنکھوں سے ۲۰۳ بھائیوں کو انبالہ جیل میں ظلم کا شکار ہوتے دیکھا، جس شخص نے چودھری افضل حق جیسی شخصیت سے برا سلوک ہوتا دیکھا ہو۔ وہ جیل سے رہا ہو کر کیونکر خوشی محسوس کر سکتا ہے، گو چودھری صاحب نے جیل کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ لیکن پھر بھی ۹ یا ۱۰ مارچ سے ان پر بڑی سختی ہوتی رہی ہے۔ اور ان کا ۱۷ پونڈ وزن کم ہو گیا۔ مشکل سے جیل کی کوئی ایسی سزا ہو گئی، جو چودھری صاحب کو نہ ملی ہو گئی، ان کا کوئی قصور یا جرم کبھی ظاہر نہیں ہوا۔ اصل میں چودھری صاحب بڑے باخبر آدمی ہیں اور وہ سختیاں کرنے والوں کی ہر ایک حرکت کو بڑی خوبی سے دیکھتے تھے، ان پر جو سختیاں ہوئی ہیں، اس کا باعث صرف ان کی بیدار مغزی ہے، اس کے علاوہ ان کا کوئی قصور نہیں، ان کا حوصلہ اور قوت برداشت قابلِ تقلید ہیں، ان کی صحت بڑی خراب ہو گئی ہے اور وہ اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ ان کا دیکھنے والا خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ ان کی حالت کو دیکھ کر مجھے ان کی زندگی کا بھی خطرہ ہے، خدا اُن کی مدد کرے۔
چودھری افضل حق کے علاوہ مندرجہ ذیل قیدیوں پر جو ظلم ہوا، اسے یزید کے ظلم سے مشابہت دی جا سکتی ہے۔ عام طور پر سیاسی قیدی باری باری ظلم کا شکار بنتے ہیں، ظالم کو سختی کرنے سے مزہ ملتا ہے اور ظلم کا ثمرہ اسی وقت مل جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل اصحاب کا معاملہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔
چودھری افضل کے بعد مصیبت زدہ سردار جوالا سنگھ کی باری آتی ہے۔ یہ ایک پنچایت کے مقدمے میں سزا یافتہ ہوئے تھے، ان کے ساتھی رہا ہو چکے ہیں، لیکن ان کو جیل کے کسی قصور پر ایک سال کی سزا دی گئی تھی اور اب وہ اسے بھگت رہے ہیں (مجھے امید ہے آپ ان کی طرف سے اپیل کر دیں گے)۔ ۱۱؍ مئی تک ان پر مسلسل سختیاں ہوتی رہیں، ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کئی ماہ تک ان کے زیب تن رہتی ہیں، ان کو قیدِ تنہائی کی سزا دی گئی۔ کئی بار ۳ روز سے زیادہ عرصہ کے لیے وہ کوٹھڑی میں بند رہے اور وہ کوٹھڑی صاف نہیں ہے۔ جیل کے افسران کے لیے کھانے اور پینے کی اشیا میں تخفیف کر دینا کوئی مشکل کام نہیں۔
خواجہ عبدالرحمن نے اپنی خوشی سے سپیشل کلاس کو چھوڑ دیا اور قیدِ تنہائی کی مصیبتوں کو خوش آمدید کہا۔ انھوں نے سحری کھانے کے بغیر ہی روزے رکھے، کیونکہ وہ جنگلے کے راستے لوہے کی سلاخوں کے ذریعہ چنوں کی روٹی پکڑانے کے خلاف اعتراض کرتے تھے، ان کی خواہش تھی کہ ان کی کوٹھڑی میں لاتعداد مچھر اور کھٹمل ہیں جو سخت تکلیف کا باعث ہو رہیں اور ان کو اندیشہ تھا کہ کہیں کھانے کے ساتھ یہ بھی نگلے جائیں گے۔
اس کے بعد فقرات میں مولوی صاحب نے جیل کے قوانین پر نکتہ چینی کی ، آگے چل کر انھوں نے کہا کہ چراغ احمد ایک لڑکا ہے، جسے خدا نے اس قسم کی قوت برداشت دی ہے کہ وہ دیکھنے ہی سے کام رکھتی ہے۔ وہ کمزور اور سوکھا ہوا سا ہے، اس کی عمر ۱۶ یا ۱۷ سال کی ہے۔ اسے جیل کے مظالم برداشت کرتے ہوئے دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ حوصلے اور برداشت کا نمونہ ہے، رمضان کی دوسری تاریخ کو اسے روزے کی حالت میں پیسنے کے لیے دس سیر چنے دیے گئے۔ وہ ایک تنہائی کوٹھڑی میں بند تھا اور چنے پیستے پیستے بے ہوش گیا۔ ایک شخص اس کے دروازے کے آگے سے گزرا اور اس کے ہاتھ میں چکی کی ہتھی اور عالمِ بے ہوشی میں پڑا ہوا پایا۔ اس کو آواز دی، چراغ چراغ۔ جواب میں چراغ بولا ’’چاچا پانی‘‘۔
مولوی غلام نبی اذان دینے کے جرم کے مرتکب ہوئے۔ انھیں ماہ فروری کے بعد قید تنہائی میں رکھا گیا۔
پیشتر اس کے فاقہ کی سٹرائیک جو کہ کامیابی کے ساتھ ۵؍ مئی کو ختم ہوئی، ان سے قرآن شریف اس الزام میں چھین لیا تھا کہ انھوں نے تعظیم نہیں کی تھیں۔ اس لیے انھوں نے یکم مئی والے درخت کاٹ دیے گئے، آپ کو معلوم ہے کہ یہ فاقہ کشی کامیابی سے ختم ہوئی اور افسران جیل نے گیتا اور قرآن کی جو کتابیں چھینی تھیں وہ واپس کر دیں۔ انبالہ جیل میں جو سختیاں ہوئیں، ان سب کو بیان کرنے کے لیے ایک بڑی بھاری کتاب کی ضرورت ہے۔ اس لیے میں صرف دو نوجوانوں (لالہ رام پرتاب اور شیخ محمد اکرم) کے حالات بیان کروں گا۔ باقیوں کی حالت کا آپ خود اندازہ لگا لیں۔
رام پرتاب نے بہت موٹا رسا بٹا، اس پر اسے بیڑیاں پہنائی گئیں، اسے اناچ بھی پیسنے کو دیا گیا۔ جہاں تک ہو سکا اس سے برا سلوک کیا گیا، آخر وہ اتنا کمزور ہو گیا کہ اسے بھی لچھمن داس کی مانند بھیجنا پڑا۔
ہسپتال بھی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ وہاں پر دوائیوں کی کافی مقدار نہیں، کسی انجان شخص کو یہ تو معلوم نہیں ہو سکتا کہ نمبر ۸۔۹ کیا ہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ یہ مکسچر ہر ایک بیماری کی دوا ہے۔ شاید ان پر ’’بڑے نام‘‘ کا جادو بھرا گیا ہے۔ اس لیے ہر ایک بیماری کی دوا ہے، کچھ عرصہ ہوا کہ ایک اور علاج سوچا گیا، اگر قیدی کو پیٹ میں درد ہو یا دستوں کی شکایت ہوتی ہے اور بدقسمتی سے وہ ڈاکٹر کے پاس اپنی بیماری کی اطلاع دیتا ہے، تو اس کے لیے انیما ہی سب سے بہتر علاج سمجھا جاتا تھا۔ جس لڑکے کا میں خاص طور ذکر کرنا چاہتوں ہوں، وہ شیخ محمد امین وکیل امرتسر کے فرزند محمد اکرام ہیں۔ ان کی عمر ۲۱ سال ہے، وہ مارشل لاء کے قیدی ہیں۔ ان کو پہلے سزائے موت دی گئی، اس کے بعد بیس سال حبس میں تبدیل کی گئی۔ آخر ان کی سزا کو کم کر کے ۵ سال رہنے دیا۔ ان کا مقدمہ ایک سپیشل کمشنر نے سنا تھا، اس وقت اس کی عمر ۱۸ سال کی تھی۔ یہ بڑی حیرانی کی بات ہے کہ ان سے سیاسی قیدیوں کا سا سلوک نہیں ہوتا، اس وقت وہ انبالہ جیل میں ہیں اور چکر کے منشی کا کام کرتے ہیں۔ میری خواہش ہے اور انصاف بھی یہی کہتا ہے کہ مارشل لاء کے قیدی رہا کیے گئے ہیں، تو ان کو بھی ضرور رہا کرنا چاہیے، اگر یہ قابلِ عمل نہ ہو تو اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ ان سے سیاسی قیدیوں کا سا سلوک نہ ہو۔ اس کے والد نے ڈپٹی کمشنر امرتسر سے اس قسم کے سلوک کی سفارش کرائی۔ مسٹر کنگ بھی اس سے متفق ہو گئے اور معاملہ کو انسپکٹر جنرل کے پاس بھیج دیا۔ لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ ۸؍ مئی کو جب انسپکٹر جنرل خود انبالہ جیل میں آیا، اس وقت بھی اس کی طرف توجہ نہ دی گئی۔
لڑکے نے خود انسپکٹر جنرل سے بات کرنے کی کوشش کی، دو افسران جیل نے اسے روک دیا۔ بدیں حالات اس لڑکے کی حالت قابلِ دید ہے، میں یہاں کوشش کر رہا ہوں، آپ بھی اس کے لیے کوشش کریں۔ ‘‘
جیل کے رواج کے مطابق ہر قیدی کے گلے میں طوق اور تختی ڈال دی جاتی ہے، جس پر قیدی کا نمبر اور جرم کندہ ہوتا ہے۔ ابھی تک سیاسی قیدیوں کے گلے میں یہ علت نہیں منڈھی گئی تھی، اب مسٹر کنگ نے بی کلاس کے قیدیوں پر زور ڈالا کہ طوق گلے ڈالو۔ سب نے انکار کر دیا، سردار جوالا سنگھ کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی، آپ نے سرتابی کی۔ آپ کے برخلاف بھی قواعد جیل کی خلاف ورزی کا الزام لگا۔ میر صاحب کی طرح ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے جیل میں ہی مقدمہ کی سماعت کی اور حکم سنایا کہ جوالا سنگھ تمھیں ایک سال کی اور قید سخت دی جاتی ہے۔ سردار صاحب نے فرمایا کہ اگر سخت ہے، تو تمھاری کاغذوں میں پڑی رہے گی، میں نے کیا سر پر اٹھانی ہے؟ لکھ رکھو۔
صورت یہ تھی کہ بی کلاس کے سیاسی قیدی باوجود اختلاف شدید کے اے کلاس کی پاس شدہ قرار داد پر بلا چون و چرا حیل و حجت کاربند ہوا کرتے۔ مگر اے کلاس کی متواتر کمزوریوں سے حیران ہو گئے۔ اختراع کا مادہ ان میں موجود نہ ہونے سے وہ بطور جماعت کے کوئی کام شروع نہ کر سکتے تھے۔ تاہم جوش و حوصلہ ان میں بدستور تھا، کام کو سرانجام دینے کے لیے حوصلہ و جوش محض کچھ چیز نہیں۔ جب تک معاملہ فہمی اور دور اندیشی شامل نہ ہو، یہی امر جیل خانہ میں ہماری تمام مصیبتوں کا باعث تھا۔ اے کلاس کے قیدی مصیبت اور امتحان کے وقت حوصلہ و ہمت سے کام نہ لیتے تھے۔ بی کلاس کے قیدی کافی معاملہ فہم اور دور اندیش نہ تھے۔ یہ صحیح طریقہ پر جدوجہد شروع نہ کرتے تھے، وہ صحیح طریقہ پر چل کر تاب برداشت نہ رکھتے تھے۔ عجیب افراط و تفریط کا عالم ہو گیا، جو اثر جماعتی طریقہ سے کام کرنے سے ہو سکتا ہے، وہ انفرادی کوشش سے نہیں ہو سکتا، اگرچہ انفرادی طور سے حکام کے مظالم برخلاف آواز اٹھتی، مگر اس کا اثر نہ ہوتا تھا۔ جب سپرنٹنڈنٹ نے معلوم کر لیا کہ متحدہ مخالفت ٹوٹ چکی ہے تو وہ مجھ سے بیش از پیش اصرار کرنے لگا کہ مجھے اس کی آمد پر کھڑے ہو جانا چاہیے۔ اگرچہ بوجہ علیحدگی مجھے دوسروں کے متعلق علم نہ تھا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے، مگر چھیڑ چھاڑ مجھ سے ہوتی تھی۔ وہ مجھے اس کی تعظیم پر جرأت نہ دلاتی تھی، سپرنٹنڈنٹ موصوف کا یہ اصرار بے جا میری سمجھ میں بالکل نہ آتا تھا کہ وہ کوٹھڑی کی سلاخوں کے باہر دور کھڑے ہوں اور میں اندر کورنش بجا لاؤں۔ میں اس کے صاف معنی یہ سمجھا کہ یہ ضد یا تو مجھے ذلیل کرنے یا محض حکومت کا جلال ظاہر کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ اس میں میر ی خود داری اور قومی عزت کا سوال تھا، چنانچہ میں نے کھڑے ہونے پر آمادگی ظاہر نہ کی۔
(جاری ہے)