شیخ الحدیث، حضرت مولانا محمد زکریا رحمۃ اﷲ علیہ
قسط :۴
تنبیہ
ایک اشکال اس جگہ عوام کو پیش آتا ہے، بلکہ بعض خواص بھی اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں، وہ یہ کہ حسنات اور سیئات (خوبیاں اور برائیاں) جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ مسلمانوں کے لیے نافع اور نقصان رساں ہیں، ایسی ہی کافروں کے لیے بھی ہیں اور ہونا چاہیں کہ نقصان دہ چیز بہرحال نقصان دہ ہے، پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ کفار باوجود ان بداعمالیوں میں مبتلا ہونے کے خوش حال ہیں، دنیا میں فلاح یافتہ ہیں، ترقی یافتہ ہیں اور مسلمان بدحال ہیں، خستہ حال ہیں اور ان کی پریشانیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اور بعض جاہل تو اس اشکال میں ایسے پھنسے ہیں کہ انھوں نے اس منظر کو دیکھ کر ساری شرعیات اور احادیث کا انکار کر دیا۔ انھوں نے دنیوی فلاح کفار میں دیکھ انھی چیزوں کو باعثِ فلاح قرار دے دیا، جو کفار میں پائی جاتی ہیں، لیکن درحقیقت اس اشکال کا منشا بھی اسلامی تعلیم سے ناواقفیت یاذہول (غفلت) ہے۔ اسلامی تعلیم اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاک ارشادات میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں چھوڑی گئی جو پوری وضاحت سے ارشاد نہ فرما دی گئی ہو، مگر اس کے معلوم کرنے کی فرصت کس کو ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ایک نبی علیہ السلام نے اﷲ جل جلالہٗ سے یہی اشکال عرض کیا تھا کہ اے اﷲ! تیرا ایک بندہ مسلمان ہوتا ہے، نیک اعمال بھی کرتا ہے، تو اس سے دنیا کو ہٹا لیتا ہے اور بلائیں اس پر مسلط کر دیتا ہے۔ اور ایک بندہ تیرا کافر ہوتا ہے، وہ تیری نافرمانی بھی کرتا ہے، تو اس سے بلائیں ہٹا لیتا ہے اور دنیا اس کو عطا فرما دیتا ہے۔ حق تعالیٰ شانہٗ نے وحی وبھیجی کہ میرے مؤمن بندہ کے لیے کچھ سیئات ہوتی ہیں، ان کی وجہ سے میں یہ معاملہ کرتا ہوں تاکہ جب وہ میرے پاس پہنچے تو اس کی خوبیوں کا بدلہ دوں اور کافر کے لیے بھی کچھ خوبیاں ہوتی ہیں، اس لیے یہ معاملہ اس کے ساتھ کرتا ہوں تاکہ جب وہ میرے پاس آئے تو اس کی برائیوں کا بدلہ دوں۔ (مجمع الزوائد)
دوسری حدیث میں وارد ہے:
حق تعالیٰ شانہٗ مومن کی کسی نیکی میں کمی نہیں فرماتے، مومن اس نیکی کے طفیل دنیا میں بھی (فلاح اور کامیابی) دیا جاتا ہے اور آخرت میں اس کا ثواب علیحدہ دیا جائے گا اور کافر اپنی اچھی عادتوں کی وجہ سے دنیا میں روزی عطا کیا جاتا ہے لیکن جب آخرت میں پہنچے گا (تو ایمان نہ ہونے کی وجہ سے جو آخرت کے ثواب کی شرط ہے) کوئی بھی نیکی نہیں ہو گی، جس کی وجہ سے ثواب دیا جا سکے۔ (کذا فی الجامع الصغیر بروایۃ مسلم و احمد عن انس ورقم لہ بالصحۃ والمشکوٰۃ)
ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے:
جب حق تعالیٰ شانہٗ کسی بندہ پر نیکی اور بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے گناہوں کا بدلہ دنیا ہی میں لے لیتے ہیں (کہ دنیا کا عذاب ہر حال میں آخرت کے مقابلہ میں بہت ہلکا ہے) اور جب کسی پر عتاب فرماتے ہیں تو اس کے گناہوں کا بدلہ روک دیا جاتا ہے اور قیامت میں اس کو بدلہ دیا جائے گا۔ (کذا فی الجامع بروایۃ انس و عبداﷲ بن مغفل و عمار بن یاسر و ابی ہریرۃ و عزاہ الی المخرجین و رقم لہ بالصحۃ)
اور بھی مختلف عنوانات سے یہ مضمون کثرت سے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ کافر کے لیے چونکہ نیکیوں کا کوئی معاوضہ آخرت میں نہیں ہے، اس لیے جو بھی کسی قسم کی خوبی، بھلائی اور نیک عمل وہ دنیا میں کرتا ہے، اس کا معاوضہ اس کو دنیا ہی میں مل جاتا ہے، کیونکہ وہ اپنے اعمالِ حسنہ کا معاوضہ صرف دنیا ہی میں حاصل کر سکتا ہے اور اسی لیے سینکڑوں برائیوں کے ساتھ ساتھ وہ جس قدر بھی خوبیاں کرتا رہتا ہے، وہ دنیا میں فلاح و کامیابی کو پاتا رہتا ہے اور مسلمان کے لیے اعمال حسنہ کا مستقل بدلہ تو آخرت میں ہے اور برائیوں کا اکثر و بیشتر معاوضہ دنیا میں ملتا رہتا ہے، اس لیے وہ جس قدر بھی کوتاہیاں، معاصی اور گناہ کرتا رہتا ہے، بدحالی اور پریشانی کا شکار ہوتا ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’میری یہ اُمت مرحومہ ہے (کہ اﷲ کی خاص رحمت ، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی طفیل میں اس پر ہے) اس کے لیے آخرت میں (دائمی) عذاب نہیں ہے، اس کا عذاب (اور گناہوں کا بدلہ اکثر و بیشتر دنیا میں مل جاتا ہے جو) فتنوں اور زلزلوں کی صورت میں ہے‘‘۔
یہاں پر ایک اشکال تاریخ بینوں کو پیش آتا ہے کہ بعض قومیں جب تک بددینی میں بڑھتی رہیں، ان پر کوئی آسمانی عذاب مسلط نہیں ہوا…… لیکن جب ان کی دینی حالت کچھ درست ہوئی تو آسمانی عذاب بھی مسلط ہو گیا۔ اس کا جواب بھی ان مضامین سے معلوم ہو گیا کہ کچھ بعید نہیں کہ ان کی پہلی حالت کفر کے قریب تک پہنچ جانے کی وجہ سے اس سے بالا تر ہو گئی ہو کہ ان پر دنیا میں عذاب ہو اور بعد میں جب کچھ صلاح اور اصلاح شروع ہوئی تو دنیا میں عذاب ہو سکنے کے مستحق بنے۔ مرض جب جراحی حدود سے بڑھ جاتا ہے تو پھر عمل جراحی نہیں کیا جاتا، وہ بھی جب ہی کیا جاتا ہے جب جراحی سے نفع کی امید ہو۔
بخاری اور مسلم وغیرہ میں حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے اپنے بیبیوں سے ناراضگی کے قصے میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں گھر میں حاضر ہوا اور دیکھا کہ تین چار چیزیں گھر کی کل کائنات ہیں کہ ایک کونہ میں چند مٹھی جو اور ایک دو چمڑے کچے (بغیر دباغت دیے ہوئے) پڑے ہیں اور ایسے ہی ایک آدھ چیز اور بھی پڑی ہے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم ایک بوریے پر لیٹے ہوئے کہ نہ بدن پر چادر ہے (جو عام طور پر اوڑھنے کا معمول تھا) نہ بوریے پر کوئی چیز بچھی ہوئی ے، جس سے بوریے کے نشانات بدنِ اطہر پر ابھر آئے ہیں، یہ منظر دیکھ کر رونے لگا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے رونے کا سبب پوچھا تومیں نے عرض کیا، یا رسول اﷲ! کیوں نہ روؤں کہ بدنِ اطہر پر بوریے کے نشانات پڑے ہوئے ہیں اور گھر کی کل کائنات یہ ہے، جو میرے سامنے ہے۔ یہ فارس و روم خدا کی پرستش بھی نہیں کرتے اور ان پر یہ وسعت ہے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ حالت؟ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تکیہ لگائے ہوئے لیٹے تھے، اٹھ کر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا:
اے خطاب کے بیٹے عمر! کیا تم اب تک شک میں پڑے ہوئے ہو، ان قوموں کی بھلائیاں اِن کو دنیا ہی میں مل گئی ہیں۔
خود قرآن پاک میں ارشاد ہے:
ترجمہ: اور اگر یہ (احتمال) نہ ہوتا کہ سارے آدمی ایک ہی طریقہ پر ہو جائیں گے (یعنی تقریباً سب ہی کافر بن جائیں گے) تو جو لوگ کفر کرتے ہیں، ہم ضرور چاندی کی بنادیتے اُن کے گھروں کی چھتوں کو اور ان سیڑھیوں کو، جن پر وہ چڑھتے ہیں اور اُن کے گھروں کے کواڑوں کو بھی اور ان کے لیے تخت بھی (چاندی کے کر دیتے) جن پر وہ تکیہ لگا کر بیٹھتے اور (یہ سب چیزیں) سونے کی (بھی بنا دیتے کہ کچھ حصہ چاندی کا ہوتا اور کچھ سونا کا) اور یہ سب کچھ ساز و سامان کچھ بھی نہیں، مگر دنیوی زندگی کا چند روزہ اور آخرت آپ کے رب کے یہاں پرہیز گاروں کے لیے ہے۔
(سورۂ زخرف، آیات: ۳۳ تا ۳۵)
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعا ہے: ’’اے اﷲ! جو شخص تجھ پر ایمان لائے اور میری رسالت کا اقرار کرے، اس کو اپنی ملاقات کی محبت نصیب کر۔ تقدیر کو اس پر سہل فرما اور دنیا کو کم عطا کرے اور جو تجھ پر ایمان نہ لائے، میری رسالت کا اقرار نہ کرے، اس کو اپنی لقاءِ محبت نہ دے اور دنیا کی کثرت عطا کر۔‘‘ (مجمع الزوائد،ج: ۱۰، ص: ۲۸۶)
ایک حدیث شریف میں آیا ہے، اﷲ جل جلالہٗ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ مومن گھبرا جائیں گے (اور اپنی تکالیف کے مقابلہ میں دوسرے کی اتنی راحت دیکھ کر تکلیف زیادہ محسوس کریں گے) تو میں کفار پر لوہے کی پٹیاں باندھ دیتا (یعنی لوہے کا خول ان پر چڑھا دیتا) کہ وہ کبھی کسی قسم کی تکلیف نہ اٹھائے۔ اور ان پر دنیا کو بہا دیتا۔ (در منثور)
اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ دنیا اﷲ کے نزدیک نہایت ہی ذلیل چیز ہے۔ ایک حدیث میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ اگر اﷲ جل شانہٗ کے نزدیک دنیا کی قد ر مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ ملتا۔ (براویۃ الترمذی و صححہ)
ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کسی جگہ تشریف لے جا رہے تھے، راستہ میں ایک بکری کا بچہ مرا ہوا پڑا تھا، جس کے کان بھی ندارد تھے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، کون شخص ہے جو اس کو ایک درہم میں خرید لے؟ صحابہ رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا کہ مفت بھی کوئی لینا گوارہ نہ کرے گا (کہ کسی قسم کا نفع بھی اس سے حاصل نہیں ہو سکتا)۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ ذلیل چیز ہے۔ (مشکوٰۃ بروایت مسلم)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ چونکہ اﷲ جل شانہٗ کے یہاں دنیا کی ذرا بھی قدر و قیمت نہیں ہے اور کفار کا مطمح نظر صرف دنیا ہی ہے، اس لیے ان کو ان کی خواہش کے موافق ان کی حسنات کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے۔ مسلمان کے لیے اسلام لانے کے بعد آخرت کی فلاح و بہبود کا مستقل استحقاق ہو جاتا ہے اور خواہ وہ کتنے ہی معاصی میں مبتلا ہو، کسی نہ کسی وقت اس کا معاصی کی سزا یا معافی کے بعد جنت کی نعمتوں سے متمتع ہونا ضروری ہے۔ اس لیے وہ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اس دنیا میں فتنوں اور مصائب میں گرفتار رہتا ہے اور نہ ہو تو خطرناک ہے۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب تو کسی کو دیکھ کہ باوجود معاصی اور گناہوں میں مبتلا ہونے کے بعد دنیا کی (نعمتیں) پا رہا ہے تو یہ استدراج ہے (یعنی اﷲ کی طرف سے ڈھیل ہے) پھر حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ اَبْوَاْبَ کُلِّ شَیْء حَتّٰی اِذَا فَرِحُوْا بِمَا اُوْتُوْا اَخَذْناہُمْ بَغْتَۃً فَاِذَا ہُمْ مُبْلِسُوْنَ۔(سورۂ انعام، آیت: ۴۴)۔( مشکوٰۃ)
ترجمہ: پس جب وہ بھول بیٹھے اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی، تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے، (یعنی خوب نعمت اور ثروت عطا کی) یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں میں جو ان کو دی گئی تھی، خوب اِترا گئے اور مستی میں اُن کا کفر بڑھ گیا تو ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر وہ بالکل حیرت زدہ رہ گئے۔
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مومن کی مثال کھیتی کی سی ہے کہ ہوائیں اس کو ہمیشہ اِدھر اُدھر جھکاتی رہتی ہیں۔ اسی طرح مومن کو ہمیشہ تکالیف اور مشقتیں پہنچتی رہتی ہیں اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی سی ہے کہ ہواؤں سے حرکت نہیں کرتا حتیٰ کہ ایک دم جڑ سے اکھاڑ دیا جاتا ہے۔ (مشکوٰۃ بروایت بخاری و مسلم)
اور بھی بہت سی نصوص ہیں جن سے یہ صاف ظاہر ہے کہ دنیا میں کفار کی فلاح کا سبب ڈھیل بھی ہے اور نیک اعمال کا کرنا بھی ہے، پس کفار کا جو فرد یا جماعت نیک عمل کرے گی، وہ فلاح میں ترقی کرتی رہے گی اور ان کی معمولی سیئات پر یہاں گرفت نہیں ہو گی اور مسلمان کی معمولی سیئات پر یہاں گرفت ہے، اس لیے جتنے بھی سیئات مسلمانوں کے افراد اور ان کی اقوام میں ہوں گی، اتنی ہی پریشانیاں، تفکرات، نکبتیں، ذلتیں بڑھیں گی۔ ان کے بچنے کی واحد صورت یہی ہے کہ معاصی سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کریں۔ حدیث میں آیا ہے کہ بلائیں مومن کے ساتھ وابستہ رہتی ہیں، اس کے نفس میں، مال میں، اولاد میں حتیٰ کہ وہ ایسی حالت میں مرتا ہے کہ اس پر کوئی بھی گناہ باقی نہیں رہتا۔ (مشکوٰۃ بروایت الترمذی وقال حسن صحیح)
دوسری حدیث میں وارد ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ شانہٗ کسی کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو دنیا میں اس کی سزا کو نمٹا دیتے ہیں اور جب کسی کے ساتھ (اس کے برے اعمال کی کثرت کی وجہ سے) برائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس سے دنیا میں برائی (سزا) کو روک لیتے ہیں تاکہ قیامت میں اس کو پورا فرمائیں۔ (مشکوٰۃ بروایت ترمذی)
البتہ کفار پر دنیا میں ادبار مظالم کی کثرت سے ہوتا ہے، یا فسق و فجور جب انتہا کو پہنچ جائے یا انبیاء کے ساتھ استہزاء اور مذاق میں تعدی کی گئی ہو کہ ان اُمور کے پائے جانے پر ڈھیل نہیں ہوتی بلکہ عذاب عامّہ نازل ہو جاتا ہے، چنانچہ جتنی قوموں کے ہلاکت کے قصے قرآن پاک میں مذکور ہیں، وہ سب اس کے شاہد عدل ہیں اور جتنے واقعات تاریخ کے اوراق میں سلطنتوں کے زوال کے ہیں، وہ سب اس کی کھلی شہادت دے رہے ہیں کہ جہاں اور جس قوم میں مظالم کی کثرت ہوئی، مظلوم کی حمایت کا جوش ملإ اعلیٰ میں پیدا ہوا۔ اسی لیے حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہے کہ میں مظلوم کی بد دعا سنتا ہوں خواہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے سمجھ لینا چاہیے کہ امراء، وزراء، حُکام اور رؤساء، غرض جو بھی اپنے ماتحتوں پر ، اپنے محکوموں پر مظالم کرتے ہیں، وہ حقیقت میں ان پر ظلم نہیں کرتے بلکہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ اپنی بربادی اور ہلاکت کے سامان اپنے ہاتھوں سے فراہم کرتے ہیں، خواہ وہ قومی مظالم ہوں یا انفرادی ہوں، رنگ لائے بغیر ہرگز نہیں رہتے۔ اور پھر جب خدائی انتقال کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں تو روتے پھرتے ہیں۔ اس جگہ اس کی تفصیل کا موقع نہیں ہے، نہ گنجائش۔ اور بات بھی تفصیل کی محتاج نہیں کہ سلطنتوں اور بڑی بڑی قوموں کا زوال و ہلاک، سب اسی کی تفصیل ہے اور تاریخ کے اوراق اس سے پُر ہیں۔ مجھے اس جگہ صرف اس چیز پر متنبہ کرنا ہے کہ مسلمانوں اور کفار کی ترقی کے اسباب، خالقِ اسباب نے الگ الگ پیدا فرمائے ہیں۔ ہر بات میں یہ خیال کر لینا کہ جو چیز کفار کے لیے ترقی کا سبب ہے وہی مسلمانوں کے لیے اور جو چیز ان کو ترقی میں نقصان نہیں دیتی وہ مسلمان کو بھی مُضر نہیں ہے، دین سے بے خبری ہے۔ کلام خدا اور کلامِ رسول سے ناواقفیت ہے، خوب سمجھ لو کہ کفار کے لیے معاصی کی سزا کا اصل محل آخرت ہے اور کبھی کبھی بمصالح اس عالم میں بھی ہو جاتی ہے اور ان کی جتنی خوبیاں ہیں، وہ جو نیک اعمال کرتے ہیں، ان کا بدلہ رب العالمین اور عادل بادشاہ کے یہاں سے ضرور ملتا ہے، مگر اسی عالم میں ملتا ہے، آخرت میں کچھ نہیں ملے گا۔ اور یہ بات قرینِ قیاس بھی ہے، کیونکہ جب وہ آخرت کے قائل ہی نہیں ہیں تو پھر آخرت کے نیک ثمرات وہاں کیوں ملیں اور آخرت سے انکار کی سزا آخرت میں ملنا بھی چاہیے۔ اسی لیے ارشاد ربانی ہے:
ترجمہ: اور ان سے کہا جائے گا کہ آگ کے اس عذاب کو چکھو، جس کو جھٹلایا کرتے تھے۔ (سورۂ سجدہ، آیت: ۲۰)
قرآن شریف میں کثرت سے اس کا ذکر ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
ترجمہ: اور جس روز کفار جہنم کے قریب لائے جائیں گے (اور اُن سے کہا جائے گا) کہ تم اپنی لذت کی چیزیں دنیا میں حاصل کر چکے ہو اور اس سے نفع اٹھا چکے۔ پس آج ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی۔ اس لیے تم دنیا میں بے وجہ تکبر کرتے تھے اور اس لیے کہ تم فسق کیا کرتے تھے (اور جو کچھ خوبیاں تھیں بھی ان کا بدلہ مل ہی چکا ہے)۔ (سورۂ احقاف: ۲۰)
میں اجمالی طور پر چند آیات کی طرف متوجہ کرتا ہوں، ان کی تفسیر دیکھو۔
(۱)ترجمہ: یہی ہیں وہ لوگ جنھوں نے دنیاوی زندگی (کے منافع) کو آخرت کے بدلہ میں خرید لیا۔ (سورۂ بقرہ، رکوع:۱۰)
(۲) ترجمہ: بعضے آدمی ایسے ہی جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! (ہمیں جو کچھ دینا ہے) دنیا ہی میں دے دے(پس ان لوگوں کو جو ملنا ہو گا دنیا ہی میں مل جائے گا) اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ (سورۂ بقرہ، آیت: ۲۰۰)
(۳)ترجمہ: کفار کے لیے دنیا کی زندگی آراستہ کر دی گئی (اور اسی وجہ سے) وہ مسلمانوں سے مذاق کرتے ہیں، حالانکہ یہ مسلمان قیامت کے دن اُن سے اعلیٰ درجہ (یعنی جنت) میں ہوں گے (اور محض فراغ معاش پر مغرور نہ ہونا چاہیے کہ) روزی تو اﷲ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں، بغیر حساب مرحمت کرتے ہیں۔ (یہ کمال اور مقبولیت کی دلیل نہیں)۔( سورۂ بقرہ، آیت: ۲۱۲)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ اﷲ جل شانہٗ دنیا اس شخص کو بھی عطا فرماتے ہیں، جس کو محبوب رکھتے ہیں اور اس کو بھی عطا کر دیتے ہیں، جس کو محبوب نہیں رکھتے، لیکن دین اسی کو عطا فرماتے ہیں، جس کو محبوب رکھتے ہیں۔ پس جس شخص کو دین عطا کیا جاتا ہے وہ اﷲ کو محبوب ہے۔ (رواہ الحاکم و صححہُ وأقرہ علیہ الذہبی)
(۴) ترجمہ: آپ کہہ دیجیے کہ دنیا کا نفع بہت تھوڑا سا ہے اور آخرت ہی بہتر ہے، اس شخص کے لیے جو متقی ہو اور تم پر ذرا سا بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔ (سورۂ نساء، آیت: ۷۷)
(۵) ترجمہ: اور دنیوی زندگی تو بجز لہو لعب کے کچھ بھی نہیں اور پیچھے آنے والا گھر بہتر چیز ہے متقیوں کے لیے، کیا تم (ایسی کھلی بات بھی) سمجھتے نہیں۔ (سورۂ انعام، آیت:۳۲)
(۶) ترجمہ: اور ایسے لوگوں سے بالکل علیحدہ رہیں، جنھوں نے اپنے دین کو لہو و لعب بنا رکھا ہے اور دنیوی زندگی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ (سورۂ انعام، آیت: ۷۰)
(۷) ترجمہ: تم تو دنیاکا مال و اسباب چاہتے ہو اور اﷲ جل شانہٗ آخرت کو چاہتے ہیں۔ (سورۂ انفال، آیت: ۶۷)
(۸) ترجمہ: کیا تم آخرت کے بدلہ میں دنیاوی زندگی پر راضی ہو گئے، سو (سمجھ لو کہ) دنیاوی زندگی کے منافع تو آخرت (کے مقابلہ) میں کچھ بھی نہیں، بہت تھوڑے ہیں۔ (سورۂ توبہ، آیت: ۳۸)
(۹) ترجمہ: جو شخص (اعمالِ خیر سے) محض دنیاوی زندگی (کی منفعت) اور اس کی رونق چاہتا ہے، تو ہم ایسے لوگوں کے اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں پورا کر دیتے ہیں اور ان کے لیے دنیا میں کچھ کمی نہیں کی جاتی، (بشرطیکہ کوئی مانع نہ ہو) اور ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں بجز جہنم کے کچھ نہیں ہے۔ اور انھوں نے جو کچھ اعمال کیے تھے وہ آخرت میں سب بیکار ثابت ہوں گے اور بے اثر ہوں گے، وہ سب عمل جو وہ کرتے تھے۔ (سورۂ ہود، آیت: ۱۵۔ ۱۶)
(۱۰) ترجمہ: (ظاہری دوت و ثروت کو دیکھ کر دھوکا نہ کھانا چاہیے اس لیے کہ) اﷲ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے رزق دیتا ہے اور جس پر چاہتا ہے تنگی فرماتا ہے۔ یہ لوگ دنیاوی زندگی پر خوش ہوتے پھرتے ہیں اور دنیا کی زندگی (اور اس کے عیش و عشرت) بجز معمولی انتفاع کے اور کچھ نہیں ہیں۔ (سورۂ رعد، آیت: ۲۶)
(۱۱) ترجمہ: جو شخص (اپنے نیک اعمال کے بدلہ میں) دنیا کی نیت رکھتا ہے، ہم ایسے شخص کو دنیا میں جتنا چاہیں گے اور (سب کو نہیں بلکہ) جس کو چاہیں گے عطا کریں گے، پھر آخرت میں اس کے لیے جہنم تجویز کریں گے، جس میں وہ بدحال اور راندہ ہو کر داخل ہو گا۔ اور جو شخص آخرت کا ارادہ کرتا ہے اور اس کے لیے جیسی کوشش کرنا چاہیے، ویسی ہی کرتا ہے بشرطیکہ وہ مؤمن بھی ہو تو ان کی یہ سعی اور کوشش مقبول ہو گی (یعنی سعی کے مقبول ہونے کے لیے تین شرطیں ہیں؛ نیت، عمل، عقیدہ)، آپ کے رب کی (دنیوی) عطا سے ہم ان کی بھی مدد کرتے ہیں اور ان کی بھی آپ کے رب کی (دنیوی) عطا کسی سے بھی بند نہیں۔ (سورۂ بنی اسرائیل، آیات: ۱۸ تا ۲۰)
(۱۲) ترجمہ: ہرگز ان چیزوں کی طرف آپ آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں، جن سے ہم نے کفار کی مختلف جماعتوں کو ان کی آزمائش کے لیے منتفع کر رکھا ہے کہ وہ دنیوی زندگی کی رونق ہے اور آپ کے رب کا (اُخروی) عطیہ ہے، اس سے بہت بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ (سورۂ طہٰ، آیت: ۱۳۱)
(۱۳) ترجمہ: کیا وہ شخص جس سے ہم نے ایک بہترین وعدہ کر رکھا ہے، پھر وہ اس کو ضرور پانے والا ہے اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جس کو ہم نے دُنیوی زندگی کا چند روزہ نفع دے رکھا ہے، پھر وہ قیامت کے دن ان لوگوں میں سے ہو گا جو گرفتار کر لیے جائیں گے۔ (سورۂ قصص، آیت: ۶۱)
(۱۴) ترجمہ: جو لوگ دنیا کے طالب تھے کہنے لگے! کاش ہم کو بھی وہ سامان ملتا جو قارون کو ملاہے، واقعی وہ بڑا صاحب نصیب ہے اور جن لوگوں کو علم (دین) دیا گیا تھا، وہ کہنے لگے، ارے تمھارا ناس ہو، اﷲ کے گھر کا ثواب بہت بہتر ہے، اس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور وہ پورا پورا انھیں لوگوں کو ملتا ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔
(سورۂ قصص، آیات: ۷۹۔۸۰)
(۱۵) ترجمہ: بے شک اﷲ کا وعدہ سچا ہے، پس تم کو دنیاوی زندگی دھوکا میں نہ ڈال دے اور نہ کوئی دھوکے باز تم کو اﷲ کے ساتھ دھوکا میں ڈال دے۔ (سورۂ لقمان، آیت: ۳۳۔ سورۂ فاطر، آیت: ۵)
(۱۶) ترجمہ: جو شخص آخرت کی کھیتی کا طالب ہو، ہم اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے اور جو دنیا کی کھیتی کا طالب ہو، ہم اس کو دنیا میں سے کچھ دیں گے اور آخرت میں اس کا کچھ بھی حصہ نہیں۔ (سورۂ شوریٰ، آیت:۲۰)
یہ سب اور ان کے علاوہ قرآن پاک کی پچاسوں آیتیں اس مضمون میں مشترک ہیں کہ کفار کا منتہائے مقصد صرف دنیوی زندگی ہے، اسی دنیا کے منافع ان کی نگاہ میں منافع ہیں، وہ آخرت پر ایمان ہی نہیں رکھتے اور اگر بعض فرقے ان میں سے ایمان رکھتے بھی ہیں تو ایمان بالآخرت کے معتبر ہونے کی شرائط پوری نہیں کرتے۔ اس لیے حق تعالیٰ شانہٗ کے یہاں سے بھی ان کو جو کچھ ملتا ہے، وہ اسی دنیا میں ملتا ہے جو نیک اعمال وہ کرتے ہیں، ان کا ثمرہ اسی دنیا میں پاتے ہیں۔
حبر الامّت حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے کسی نے سورۂ ہود والی آیت ’’مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا‘‘ کا مطلب پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ ان کے اعمال کا بدلہ صحت جسمانی سے اور آل و اولاد میں مسرتوں سے پورا کر دیا جاتا ہے اور اس کا عموم بھی سورۂ بنی اسرائیل والی آیت ’’مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ‘‘ کے ساتھ مقید ہے۔ یہ دونوں آیتیں اوپر گزر چکی ہیں، بنی اسرائیل والی آیت کے ساتھ مقید ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس کو اﷲ جل شانہ ٗ چاہتے ہیں عطا کرتے ہیں، کسی کا کوئی جبر نہیں ہے۔
حضرت سعید بن جبیر رضی اﷲ عنہ سے بھی سورت ہود کی آیت کی یہی تفسیر منقول ہے کہ اﷲ جل شانہٗ ان کے نیک اعمال کا بدلہ دنیا میں پورا فرما دیتے ہیں اور آخرت میں پہنچنے تک کوئی بھی نیکی باقی نہیں رہتی اور مؤمن کے لیے اس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں بھی ملتا ہے اور (ایمان کی وجہ سے) اس کا ثواب آخرت میں بھی ملے گا۔ حضرت مجاہد سے بھی یہی منقول ہے کہ کفار کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دنیا میں دے دیا جاتا ہے۔ حضرت میمون بن مہران رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنا مرتبہ اﷲ کے نزدیک معلوم کرنا چاہے، اپنے اعمال کو دیکھ لیے، اس لیے کہ وہ اپنے اعمال ہی پر پہنچنے والا ہے (یعنی جس درجہ کا عمل ہوتا ہے ، ویسا ہی معاملہ اس کے ساتھ کیا جاتا ہے)، کوئی مؤمن ہو یا کافر جو بھی عمل صالح کرتا ہے، اس کا بدلہ ضرور ملتا ہے۔ لیکن مؤمن کے لیے دنیا اور آخرت میں دونوں جگہ ملتا ہے اور کافر کے لیے صرف دنیا ہی ملتا ہے۔
حضرت محمد بن کعب سے سورہ زلزال کی آیات ’’فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرہٗ‘‘ (آیت: ۷۔۸) ترجمہ: پس جو شخص ایک ذرّہ کے برابر نیکی کرے گا اس کو دیکھ لے گا اور جو شخص ایک ذرّہ کے برابر بُرائی کرے گا اس کو دیکھ لے گا۔ کی تفسیر میں وار ہوا ہے کہ کافر ایک ذرّہ کے برابر بھی کوئی چیز کرتا ہے تو اس کا بدلہ دنیا میں ضرور پاتا ہے۔ اپنی جان میں، مال میں، آل میں، اولاد میں یہاں تک کہ وہ جب دنیا سے جاتا ہے تو کوئی بھی نیکی ایسی باقی نہیں رہتی، جس کا بدلہ نہ مل گیا ہو اور مؤمن ایک ذرّہ کے بقدر بھی کوئی برائی کرتا ہے تو اس کا عذاب دنیا میں (بسا اوقات) پا لیتا ہے، اپنی جان میں، آل میں، اولاد میں، حتیٰ کہ وہ دنیا سے (بسا اوقات) ایسی حالت میں جاتا ہے کہ کوئی بھی برائی باقی نہیں رہتی۔ (در منثور)
اسی بنا پر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
ترجمہ: میری اس مرحوم امت پر آخرت میں (زیادہ) عذاب نہیں ہے، اس پر عذاب دنیا میں فتنے ہیں، زلزلے ہیں، قتل ہونا ہے اور مصائب۔دوسری حدیث میں ہے میری اس مرحوم اُمت سے آخرت کا (مستقل) عذاب اٹھا لیا گیا ہے۔ اس پر آپس کا عذاب ہے، جو ایک دوسرے کے ہاتھ سے پہنچے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ میری اُمت کا عذاب دنیا میں ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ میری اُمّت کا عذاب دنیا میں ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اﷲ نے اس اُمت کا عذاب دنیا میں کر رکھا ہے۔ (مجمع الزوائد)
ان سب احادیث سے معلوم ہوا کہ اس اُمت پر اس کے گناہوں کا بہت سارا بدلہ دنیا میں ہے اور یہ رحمت ہے، اگر ایسا نہ ہو، یعنی باوجود گناہوں کی کثرت کے مصائب میں ابتلا نہ ہو تو زیادہ اندیشہ ناک ہے۔ لہٰذا اس اُمّت کے یعنی محمدی اُمت کے، مرحوم اُمت کے مصائب اور حوادث سے بچنے اور پریشانیوں اور ذلتوں سے نبٹنے کا واحد علاج، گناہوں سے نہایت اہتمام سے بچنا ہے اور جو اتفاقاً صادر ہو جائیں ان پر رونا ہے، استغفار کرنا ہے، توبہ کرنا ہے، اس کے سوا کوئی علاج نہیں، قطعاً نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مسلمان، مسلمان رہ کر گناہوں کی کثرت کے ساتھ ترقی کرتا رہے، ہاں کافر بن کر جتنے گناہوں کے ساتھ ترقی کرے، ممکن ہے کہ کفر کی حالت میں سینکڑوں برائیوں کے ساتھ جتنی بھی معمولی بھلائیاں کرے گا، دنیا میں فلاح و ترقی پائے گا۔
حضرت سلیمان بن عامر رضی اﷲ عنہ نے حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میرے والد صلہ رحمی کرتے تھے، عہد کو پورا کرنے کا بھی اہتمام تھا، مہمان کا اعزاز و اکرام بھی بہت کرتے تھے (کیا ان اُمور سے اُن کو کوئی نفع پہنچے گا)۔ حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، کیا وہ اسلام سے پہلے مر گئے تھے؟ انھوں نے عرض کیا: ’’جی ہاں‘‘۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان کو تونفع نہیں دے گا، البتہ اُن کی اولاد کو نافع ہو، تم لوگ نہ رسوا ہو گے نہ ذلیل ہو گے،نہ فقیر۔ (درمنثور)
اس سے یہ اشکال بھی رفع ہو گیا کہ ہم بعض کافروں کو خوشحال اور دنیا میں ترقی یافتہ دیکھتے ہیں، لیکن ان کے اعمال حسنہ اس قابل نہیں پاتے تو حدیث بالا کی بنا پر غالباً ان کے والدین کے اعمالِ حسنہ کا یہ ثمرہ ہے، جس کو وہ پا رہے ہیں۔ غرض نصوص بہت کثرت سے اس پر دلالت کرتی ہیں کہ کفار اور مسلمانوں کے اصولِ ترقی صحیح نہیں ہیں بلکہ بعض مشترک ہیں اور بعض جدا جدا ہیں۔ مسلمانوں کی ترقی کا معیار صرف دین پر عمل ہے، بالخصوص معاصی سے بچنا کہ جس قدر بھی معاصی میں ابتلا ہو گا اتنا ہی دنیا میں مصائب کا سامنا ہو گا، یہ دیکھ کر کہ اس قسم کے معاصی کفار سے بھی سرزد ہوتے ہیں اور وہ ترقی کرتے جاتے ہیں، ان کے لیے یہ معاصی مصائب کا سبب نہیں بنتے، اس وجہ سے ان سے بے خطر ہو جانا، اپنے کو اور زیادہ مصائب میں پھنسانا اور مبتلا کرنا ہے اور اگر مصائب نہ ہوں تو اور بھی زیادہ خطرناک ہے، وہ استدراج ہے، جس کا انتقال فوری اور دفعی ہوتا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص معصیت اور گناہ کے ساتھ کسی چیز کے حاصل کرنے کا ارادہ کرتا ہے ، وہ جس چیز کی امید رکھتا ہے، اس سے دور ہو جاتا ہے اور جس چیز سے ڈرتا ہے، اس کے قریب ہو جاتا ہے۔
(جامع الصغیر، بروایت انس ورقم لہ بالصحۃ)
اس لیے مسلمانوں کا گناہوں کے ساتھ ترقی اور فلاح کی اُمید رکھنا اپنے کو اس سے دور کرنا ہے اور کفار کی حرص کرنا، ان کے قدم بقدم چلنا علاوہ بے غیرتی کے، ناکامی کا بھی ذریعہ ہے۔ (جاری ہے)