پروفیسر محمد حمزہ نعیم
آواز آ رہی ہے:
’’یا اُمّ المومنین‘‘!
’’یہ کیسی آواز ہے؟ مجھے کوئی پکار کر کہہ رہا، تم ایمان والوں کی ماں ہو، مگر میں تو عبیداﷲ بن جحش رضی اﷲ عنہ کی بیوہ ہوں‘‘۔
اُمّ المومنین اُمّ حبیبہ رضی اﷲ عنہا اپنا ایک خواب بتا رہی تھیں۔ وہ ابو سفیان بن حرب بن اُمیہ کی بیٹی تھیں، اُن کی والدہ صفیہ بنت ابی العاص بن اُمیہ تھیں یعنی وہ بنی عبد مناف کی شاخ بنی اُمیہ کی نجیب الطرفین شہزادی تھیں۔ سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ عنہ اُن کے ماموں زاد بھائی تھے۔ اس خاندان میں جدّ النبی جناب عبد مناف کے زمانے سے ہی قیادت و سیادت چلی آ رہی تھی۔ عہدوں کی قبائلی تقسیم کے مطابق مکہ اور اہلِ مکہ کا قیادہ کا عہدہ عبد شمس بن عبد مناف پھر اُن کے بیٹے اُمیہ کو ملا تھا۔ اُمیہ نے اپنے بیٹے کا نام ہی حرب رکھ دیا تھا یعنی بہادر، جنگجو…… قبائلی جنگوں میں قریشِ مکہ اور ان کے ہم نواؤں کی قیادت حرب کی ذمہ داری تھی، وہ ہر جنگ میں سرِ لشکر نظر آتے تھے، پھر انھوں نے اپنے ایک بیٹے کا نام ’’صخر‘‘ رکھا یعنی چٹان۔ اب اس چٹان کو کوئی جھکا، یا ہلا نہ سکتا تھا۔ انھوں نے اپنی کنیت ابو سفیان رکھی اور بہادر باپ کے بعد اہلِ مکہ کا قیادہ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ بنی عبد مناف کے محترم خاندان کے سردار تھے۔ اُن کی ذیلی شاخ بنی عبد شمس کے سردار تھے۔ پھر اپنے والا شرف دادا اُمیہ کے کثیر افراد والے خاندان بنی اُمیہ کے نجیب الطرفین سردار تھے۔ اتنی ساری سرداریاں مل کر اُن کے داخلہ اسلام میں رکاوٹ بنی ہوئی تھیں۔
فاران کے اُفق پر شمسِ نبوت طلوع ہوا۔ اُس کا مطلع جناب ابو سفیان کے پڑوس میں گلی کی دوسری جانب بیتِ خدیجہ تھا۔ دارِ ابی سفیان مکہ کے وزیر جنگ، وزیر دفاع کا ڈیرہ تھا، یہاں دفاعِ مکہ اور دوسری اہم پالیسیاں طے کی جاتی تھیں۔ شمسِ نبوت کی ضیا پاش کرنوں سے فائدہ نہ اٹھانے کے باوجود جب مکہ کے بدقماش، نبی محترم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ستاتے تو رسالت مآب اسی دارِ ابی سفیان میں پناہ لیتے تھے۔ (الاصابہ، ج:۲۔ تہذیب التہذیب، ج:۲)
ایک موقع پر ابو جہل نے بلاوجہ شہزادیٔ جنت سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو تھپڑ مارا تھا تو اسلام میں داخل نہ ہونے کے باوجود انھی ابو سفیان نے ننھی فاطمہ سے کہا تھا ’’بیٹی! ابو جہل کو تھپڑ مار کر بدلہ لے۔ میں کھڑا ہوں‘‘۔ اور ننھی فاطمہ کے ایک ننھے تھپڑ نے ابوجہل کی حِرماں نصیبی پر مہر لگا دی تھی۔ اسی موقع پر اﷲ کے آخری رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے دل سے دعا نکلی تھی: اَللّٰہُمَّ لَا تَنْسَاھَا لِأَبِیْ سُفْیَان۔ترجمہ: ’’اے اﷲ! مجھ پر ابو سفیان کے اس احسان کو تو بھی نہ بھلانا‘‘۔ اور پھر اﷲ نے اُس کے احسان کو نہیں بھلایا، فتح مکہ سے ایک روز پہلے اُنھیں اسلام نصیب کر دیا اور خود نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی نہیں بھلایا۔ فتحِ مکہ پر اعلان فرما دیا ’’جو کوئی ابو سفیان رضی اﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہو جائے گا، اسے امن ہے‘‘۔
ان حضرت ابو سفیان نے اپنے چچا ابو العاص بن اُمیہ کی بیٹی صفیہ سے شادی کی، جن کے بطن سے سیدہ اُمّ حبیبہ رضی اﷲ عنہا رَملَہ پیدا ہوئیں۔ مکہ کے دیگر بڑے سرداروں ابو جہل مخزومی، ابو لہب ہاشمی، ابو سفیان مغیرہ بن حارث ہاشمی، اُمیہ بن خلف جمحی کی طرح ابو سفیان بن حرب اُموی نے بھی خاتم المعصومین صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالف کی تھی، تاہم بنی اُمیہ کی ایک بڑی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اِنھی سابقون الاوّلون میں جناب ابو سفیان کی بیٹی سیدہ اُمّ حبیبہ رضی اﷲ عنہا اور داماد عُبیداﷲ بن جحش رضی اﷲ عنہ بھی تھے۔
قبولِ اسلام کے جرم میں سردارانِ قریش، اہلِ اسلام پر ناقابلِ برداشت ظلم توڑ رہے تھے، مگر کلمہ اسلام کی وہ دلکشی تھی کہ جب کسی دل میں داخل ہوتا تو جان جا سکتی تھی، کلمہ نہیں چھوٹتا تھا۔ مظلومیت میں غلام اور سردار برابر تھے، سیدنا مصعب بن عمیر عبدری رضی اﷲ عنہ، سیدنا عثمان اُموی رضی اﷲ عنہ، سیدنا ابوبکر تیمی رضی اﷲ عنہ اور خود سید الانبیاء محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جیسے ایمان کے پہاڑوں پر ظلم توڑے جا رہے تھے۔ اُن پر اُن کے گھروں میں جینا دو بھر کر دیا گیا تھا۔ خاتم المعصومین صلی اﷲ علیہ وسلم نے اہلِ ایمان کو پڑوسی ملک حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
بنتِ ابی سفیان سیدہ اُمّ حبیبہ رضی اﷲ عنہا، سیدہ سَودہ بنت زمعہ رضی اﷲ عنہا اور بنت رسول سیدہ رقیہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے خاوندوں کے ہمراہ دیگر مہاجرین کے ساتھ حبشہ کا رخ کیا تھا۔ ہموطنوں کے حدِ برداشت سے بڑھے ہوئے مظالم کی وجہ سے ان قریشی سرداروں اور سردار زادیوں کو ملکہ کی پاک سرزمین چھوڑ کر پردیس کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ نے حبشہ سے واپس آ کر مدینہ ہجرت فرمائی تھی۔ مدینہ میں سیدہ رقیہ رضی اﷲ عنہا کا انتقال ہو گیا تھا، مکہ میں واپس آ کر سیدہ سَودہ رضی اﷲ عنہا کے خاوند بھی ملکِ عدم روانہ ہو گئے تھے۔ یہ وہی سیدہ سَودہ رضی اﷲ عنہا تھیں، جن کو بیوہ ہونے پر سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے بعد اُمّ المؤمنین ہونے کا شرف مل گیا تھا۔ اُدھر سیدہ اُمّ حبیبہ رضی اﷲ عنہا کے زوجِ اوّل حبشہ ہی میں وفات پا چکے تھے۔ حبشہ میں مہاجرینِ مکہ کو امن تو مل گیا تھا، مگر بے وطنی کی پریشانیاں کچھ کم نہ تھیں۔ سیدہ اُمّ حبیبہ رضی اﷲ عنہا شہزادی تھیں، محنت مزدوری کرنے کی کہاں عادی تھیں، اوپر سے حبیبہ نام کی ایک چھوٹی بچی کی ذمہ داری سر پر تھی۔ دن رات پریشانیوں میں گزر رہے تھے۔ مہاجر مردوں، عورتوں سب کا یہی حال تھا۔ دل سے ایک ہُوک اٹھتی تھی۔ مَتیٰ نَصْرُ اﷲ؟ ’’مولا! مدد کب آئے گی‘‘۔ بہاد جنگجو قائد قریش حرب کی پوتی، نہ ہلائی جا سکنے والی چٹان قبائلِ مکہ کے قائد صخر ابو سفیان کی شہزادی، بڑوں کی آزمائشیں بڑی، بس اﷲ کی مدد آنے ہی کو تھی۔ خواتینِ اسلام میں انبیاء علیہم السلام کے بعد اﷲ اور نبی کی طرف سے ملنے والے سب سے بڑے اعزاز ’’اُمّ المؤمنین!‘‘ کا منظر اُنھیں دکھایا گیا ۔
خواب تھا یا نیم خوابی …… کہتی ہیں میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔ غور کر رہی تھیں یہ کیسا خواب تھا، آیا یہ من جانب اﷲ بشارت تھی؟ آیا بیُوت النبی میں سے مجھے بھی کوئی بیت، کوئی حجرہ نصیب ہونے والا ہے؟ میں انھیں سوچوں میں گم تھی کہ نجاشی شاہِ حبشہ کی باندی نے حاضری کی اجازت چاہی۔ اُس نے نہایت ادب کے ساتھ عرض کیا کہ رسولِ دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے شاہِ حبشہ کو وکیل بنا کر آں سیدہ سے نکاح کی پیش کش کی ہے۔ سیدہ نے خوشی کی خبر سن کر ہاتھ پاؤں کے زیور اتار کر باندی کو انعام میں دے دیے۔
سیدۂ دو عالم رضی اﷲ عنہا کا خواب تعبیر کو پہنچ چکا تھا، ’’مولا! اتنی جلدی!‘‘ سیدہ نے اپنے قریبی عزیز مہاجرِ مکہ خالد بن سعید رضی اﷲ عنہ کو اپنا وکیل بنایا۔ شاہ نجاشی نے تمام مہاجرین اور دیگر اہلِ اسلام کو بلا کر مجلس نکاح منعقد کی۔ خود اقرار شہادتین کے بعد خطبہ مسنونہ پڑھا اور ایجاب و قبول ہو گیا اور سیدۂ دو عالم سیدہ اُمّ حبیبہ رضی اﷲ عنہا بحری سفر کر کے مدینہ منورہ آئیں۔
نجاشی شاہِ حبشہ نے نکاح کی مجلس کے فوراً بعد چار سو دینار کی گراں قدر رقم باندی کے ہاتھ اُمّ المؤمنین رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں بھجوا دی تھی۔ چار سو دینار اُس زمانہ میں ایک سو چار تولہ سونا سے زیادہ تھے۔ اتنا بڑا حق مہر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اعزاز میں اور شاہِ نجاشی کے جذبۂ محبتِ نبوی کا اظہار تھا، جو نہ کسی خاتون کو اُمّ المؤمنین رضی اﷲ عنہا سے پہلے ملا نہ ہی بعد میں۔ یہ خبر جب مکہ میں سردار ابو سفیان کو پہنچی جو ابھی داخلِ اسلام نہ ہوئے تھے، تو انھوں نے خوش کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’ہاں! محمد(ﷺ) میری بیٹی کے ہم کفو ہیں‘‘ اور پھر کبھی بھی نبی علیہ السلام اور اصحابِ نبی رضی اﷲ عنہم کے مقابلے میں نہیں آئے، تاآنکہ فتحِ مکہ سے ایک دو دن پہلے اﷲ نے اسلام نصیب فرما دیا۔
سیدنا ابو سفیان مکہ سے باہر پہاڑوں اور وادیوں میں روشنیاں دیکھ کر کھوج لگانے آئے تھے کہ یہ کون لوگ ہیں۔ انھیں معلوم نہیں تھا کہ خاتم المعصومین صلی اﷲ علیہ وسلم کا دس ہزار پروانوں کا لشکر پوری آب و تاب سے اچانک فاران کی چوٹیوں سے مکہ میں داخل ہونے والا ہے۔ عم الرسول سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنہ، جناب ابو سفیان کے ندیم، زمانہ قدیم سے گہرے دوست تھے۔ انھوں نے حضرت ابو سفیان کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا اورسیدنا عمر ابن خطاب رضی اﷲ عنہ کی تلوار سے بچا کر خدمتِ نبوی میں پیش کر دیا تھا۔ یہ بھی عرض کر دیا تھا کہ میں انھیں پناہ دے دی ہے۔ نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کی پناہ کو برقرار رکھا۔ دوسری صبح سیدنا عباس رضی اﷲ عنہ نے اپنے دوست کو عساکرِ اسلامیہ کا معائنہ کروایا تو اُن کی حیرت کی انتہا نہ رہی تھی۔ اُنھیں بتایا گیا تھا کہ ’’یہ سرخ موت ہیں‘‘ یعنی ان کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت اب ٹھہرنے کی نہیں۔ سیدنا ابو سفیان رضی اﷲ عنہ اب اقرار شہادتین کر کے ’’رضی اﷲ عنہم‘‘ اور کُلاًّ وَّعَدَ اﷲ الْحُسْنٰی‘‘ کے دائرہ کار میں آ چکے تھے، وہ اجازت لے کر سرکارِ دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پروانوں سے پہلے پہل اہلِ مکہ کے پاس پہنچے، وہ اعلان کر رہے تھے ’’داخلِ اسلام ہو جاؤ، دونوں جہان بن جائیں گے۔ میرے گھر میں آ جاؤ، جان بچ جائے گی یا حرم کعبہ میں پناہ لے لو، ہتھیار آج کام نہ دیں گے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی مختلف راستوں سے اصحابِ رسول داخل مکہ ہوئے، اظہار شکر میں سر مبارک جھکا ہوا تھا۔ زبان مبارک پر شکر کے کلمات تھے۔
الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَحْدَہٗ نَصَرَ عَبْدَہٗ وَ اَنْجَزَ وَعْدَہٗ وَ ہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہٗ یعنی سب تعریفیں اُس اکیلے اﷲ کے لیے ہیں، جس نے اپنے بندے کی مدد کی، اپنا غلبہ دین کا وعدہ کا پورا کیا اور تمام باطل گروہوں کو اکیلے شکست دے دی۔
اصحابِ رسول رضی اﷲ عنہم میں ایک صحابی اور ایک صحابیہ ایسی ہیں کہ خاتم المعصومین صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان دو کو ’’مرحبا‘‘ فرمایا اور وہ دونوں ہیں ’’سیدہ ہند رضی اﷲ عنہا زوجہ ابی سفیان رضی اﷲ عنہ اور انہی کے بیٹے سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ۔ اُمّ المومنین سیدہ اُمّ حبیبہ رضی اﷲ عنہا کی تعظیمِ نبوی اور حُبِّ رسول کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اُن کے والد ابو سفیان رضی اﷲ عنہ جو ابھی اسلام نہ لائے تھے، ایک مرتبہ اپنی ان صاحبزادی سے ملنے اُن کے گھر تشریف لے گئے تو چارپائی پر بچھا بستر، اُنھوں نے جلدی سے لپیٹ دیا۔ پوچھا بیٹی میں اس بستر کے قابل نہیں تھا یا یہ بستر میری شان سے کم تھا؟ فرمایا: ’’ابّا جان! آپ مشرک ہیں اور یہ اﷲ کے پاک نبی کا بستر ہے، میں کیسے اس پر آپ کو بیٹھنے دوں‘‘۔
جی ہاں یہی مقدس ہستیاں تھیں کہ حق و باطل کے معرکے میں مقابل آنے پر سیدنا عمر ابن خطاب رضی اﷲ عنہ اپنے ماموں کو، ابو عبیدہ رضی اﷲ عنہ اپنے باپ کو قتل کر رہے ہیں اور اُن کی ساری وفائیں سرکار خاتم المعصومین صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں۔ پھر یہی لوگ مطلعِ شمس سے مغربِ شمس تک کے چھیاسٹھ لاکھ مربع میل پر ’’لا اِلٰہ الَّا اﷲ‘‘ کو غالب کر چکے تھے۔ اُن میں سے ایک آسمان نبوت کے نہایت نمایاں ستارے اُمّ المؤمنین اُم حبیبہ رضی اﷲ عنہا کے بھائی، ابو سفیان رضی اﷲ عنہ کے فرزند سعید سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ تھے۔ اُمّ المؤمنین سیدہ اُمّ حبیبہ رضی اﷲ عنہا کا پورا قبیلہ، والد ابو سفیان رضی اﷲ عنہ، بھائی یزیدالخیر رضی اﷲ عنہ علاوہ ازیں خوشدامنِ رسول سیدہ ہند رضی اﷲ عنہا سب اسلام لا کر جہادی لشکروں میں صفِ اوّل پر نظر آتے ہیں۔