مفتی محمد عبداﷲ شارق
رمضان میں نزولِ قرآن؛ کیا مطلب؟
رمضان نیکیوں کا ایک عظیم الشان موسم ہے۔ روزہ اور قرآن کو اس مہینہ سے خود پروردگار نے ایک خاص نسبت عطا فرمائی ہے۔ چنانچہ بتایا ہے کہ یہ مہینہ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے اور اس ماہ میں روزے رکھنا ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے۔ (البقرہ:۱۸۵) مزید فرمایا: اس ماہ میں ایک رات ایسی ہے جو لیلۃ القدر کہلاتی ہے، یہ ہزار مہینوں سے افضل ہے اور اس رات کو آئندہ سال بھرکے احکام ومعاملات کی گویا فائلیں لوح محفوظ سے نکال کر فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہیں۔ قرآن کی سورۃ الدخان کی ابتدا میں بتا یا گیا ہے کہ یہی وہ رات ہے جس میں کسی بھی ذی شان اور حکیمانہ کام کا امر بارگاہِ خداوندی سے صادر کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے قرآن بھی زمین پر اتارنے کے لیے اسی رات فرشتوں کے سپرد کیا گیا۔ (الدخان: ۳،۴)
لیلۃ القدر کو نزولِ قرآن کی رات اور رمضان کو نزولِ قرآن کا مہینہ اسی نسبت سے کہا جاتا ہے کہ قرآن رمضان ہی کے مہینہ میں لیلۃ القدر کو ملائکہ پر نازل کیا گیا تاکہ پھر یہ موقع بموقع حسب الحکم تدریجا زمین پر نازل کیا جاتا رہے، نہ یہ کہ اسی رات یا اسی مہینہ پورا قرآن زمین پر بھی اتار دیا گیا، ترجمان القرآن حضرت ابنِ عباس رضی اﷲ عنہما کی رائے یہی ہے (تفسیر ابنِ کثیر، تحت سورۃ القدر) اور یہ بالکل ایسے ہی ہے جیساکہ باقی حکیمانہ فیصلے اسی رات فرشتوں کے سپرد کیے جاتے ہیں، نہ یہ کہ اسی رات ان پر پورا پورا عمل در آمد بھی ہوجاتا ہے۔ ہاں، البتہ زمین پر نزولِ قرآن کا آغاز بھی ماہِ رمضان میں ہوا اور یہ بات روایت سے ثابت ہے۔
لوحِ محفوظ کیا ہے؟
رمضان کے مہینہ میں قرآن کریم جس لوحِ محفوظ سے نکال کر ملائکہ کے سپرد کیا گیا، وہ لوحِ محفوظ کیا ہے؟ حدیث میں آتا ہے کہ ’’لوحِ محفوظ سفید موتی سے بنی ہوئی ایک کتاب ہے، اس کے صفحے سرخ یاقوت کے ہیں، اس کی قلم نور کی اور تحریر بھی نور کی ہے، رب العلمین اس کتاب میں ہر دن تین سو ساٹھ مرتبہ نظر فرماتے ہیں اور جس معاملہ کوجس طرح چاہتے ہیں، تدبیر وتشکیل فرماتے ہیں، تخلیق، رزق، موت وحیات، اور عزت وذلت کے فیصلے فرماتے ہیں اور جو چاہتے ہیں، اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔‘‘ (طبرانی، بحوالہ الاتقان، جلد ۴، صفحہ ۲۳۵)
لوحِ محفوظ میں قرآنِ کریم کا اندراج:
سورۃ الزخرف، سورۃ الواقعہ اور سورۃ البروج کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم جو انسانوں کے نام خدا کا آخری پیغام ہے اور وقت مخصوص پر تدریجی اعتبار سے اس نے عالم ظہور میں منصہء شہود پر آنا تھا، یہ بھی لوح محفوظ میں مندرج ہے اور عزت و شرف کی ایک خاص شان کے ساتھ درج ہے۔ مثلا ارشاد ہے: ’’وَإِنَّہُ فِی أُمِّ الْکِتَابِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَکِیمٌ‘‘ یعنی ’’یہ قرآن ہمارے اُمّ الکتاب یعنی سب سے بڑی و بنیادی کتاب لوحِ محفوظ میں بڑی عزت و منزلت کے ساتھ اور حکمت سے لبریز کتاب کی حیثیت سے مندرج ہے، (الزخرف: ۴) ۔ نیز ارشاد ہے: اِنَّہٗ لَقُرْآنٌ کَرِیْم ٌ فِیْ کِتَابٍ مَّکْنُوْنٍ ‘‘ یعنی یہ قرآن کتابِ اسرار (جو لوحِ محفوظ ہے) میں بڑی قدر و منزلت کے ساتھ درج ہے۔ (الواقعہ:۷۸) ۔ نیز ارشاد ہے: بَلَ ہُوَ قُرْآنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ ‘‘ یعنی یہ قرآن لوحِ محفوظ میں بڑی شان اور بزرگی کا حامل ہے۔ (البروج: ۲۱۔۲۲)
رمضان؛ نزولِ قرآن کے شکرانہ کا مہینہ
قرآن کی صورت میں اﷲ تعالی نے ہمیں ایک نعمتِ عظمی عطا فرمائی ہے، اس کے ذریعہ سے ہمیں ہدایت کی دولت سے نوازا ہے، اپنی سب ضرورتیں اور حاجتیں پوری کروانے کے لیے مانگنے کا حقیقی در ہمیں بتا یا ہے، رحمتِ الہیہ کی لہروں اور لپٹوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا راستہ بتایا ہے، جنت کے اصلی گھر کو پھر سے پالینے اور رضاءِ الہی تک پہنچنے کے لیے اعمالِ زندگی کا ایک نصاب عطا فرمایا ہے، اﷲ کے لیے محبت اور اﷲ کے لیے دشمنی کا سلیقہ سمجھایا ہے، اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹے ہوئے، ہرحال میں اﷲ کے ذکر کو اپنے اوپر طاری رکھنے اور اس کے رنگ کو اپنے اوپر چڑھا لینے کے قرینے بتلائے ہیں۔ قرآن اس طرح کی بہت سی روحانی نعمتوں سے سجا ہوا ایک عظیم خوانِ نعمت ہے، اس کا دیکھنا عبادت، سننا عبادت اور پڑھنا عبادت ہے، حدیث میں آتا ہے کہ اس قرآن میں خود کو مشغول رکھنے سے بڑھ کر کوئی افضل عمل لے کر تم اﷲ کی بارگاہ میں نہیں جاسکتے۔ (جامع الترمذی)
دنیا وآخرت میں سرخ اس نعمت ورحمت کا شکرانہ ہیں اور فرض روزوں کے لیے سال کے بارہ مہینوں میں سے خاص رمضان کا انتخاب گویا اسی وجہ سے ہے۔ سورۃ البقرہ میں ارشادِ ربانی کا مفہموم ہے: ’’رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے کہ جس میں قرآن نازل کیا گیا، وہی قرآن کہ جس میں انسانوں کو راستہ دکھا یا گیا ہے اور جو ہدایت وحق وباطل کی تمیز کرنے والی آیات بینات پر مشتمل ہے، پس جس شخص کی زندگی میں رمضان کا یہ مہینہ آجائے اور جب جب وہ اپنی زندگی میں اس مہینہ کو پالے تو اس پر لازم ہے کہ اس ماہ روزے سے رہے۔‘‘ (البقرہ:۱۸۵)
تو گویا رمضان صرف روزوں کا نہیں، بلکہ نزولِ قرآن کے شکرانہ کا مہینہ ہے اور روزہ کی عبادت بھی گویا رمضان میں اسی شکرانہ کے طور پر فرض کی گئی ہے جسے اسی احساس کے ساتھ ادا کرنا چاہئے۔ چنانچہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع میں امت کا یہ معمول شروع سے چلا آرہا ہے کہ اس ماہِ مبارک میں صرف روزے ہی نہیں رکھے جاتے، بلکہ قرآن کی مشغولیت بھی بڑھ جاتی ہے، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ رمضان میں روزہ کی شکل میں بالخصوص اور کثرتِ نماز وصدقات کی شکل میں بالعموم نیکیوں کا جو موسمِ عظیم شروع ہوتا ہے، یہ گویا قرآن کی صورت میں حاصل ہونے والے خوانِ نعمت کا شکرانہ ہے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اسی ماہِ مبارک میں جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کا ’’دور‘‘ فرماتے تھے اورحیاتِ مبارکہ کے آخری رمضان میں یہ ’’دور‘‘ دو مرتبہ کیا۔ رات کا جاگنا اور قیام ونماز کی مصروفیات بھی بڑھ جاتی تھیں اور گھر والوں کو بھی اس کی تلقین فرماتے۔ نیز یوں تو آپ کی سخاوت ساراسال ہی جاری رہتی اور کسی دوسرے کی سخاوت کا آپ کی سخاوت سے کوئی مقابلہ نہ ہوتا تھا، مگر سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ رمضان میں آپ کی سخاوت سے ہوا کی طرح گرد وپیش گویا جھوم جایا کرتے۔
شکرانہ کے لیے روزہ کا انتخاب؛ چہ معنی دارد؟
رمضان کے موسمِ حسنات میں یہ سب نیکیاں کرنی ہیں اور گویا اس احساسِ تشکر کے ساتھ کرنی ہیں کہ اس ماہِ مبارک میں ہمیں قرآن کی صورت میں کامیابی وناکامی اور شقاوت وسعادت کا حقیقی فرق سمجھانے والا چراغِ راہ ملا ہے۔تاہم روزہ واحد عبادت ہے جو رمضان میں خصوصیت سے فرض کی گئی ہے، جبکہ اس کے سوا اور کوئی عبادت رمضان میں اس خصوصیت سے فرض نہیں کی گئی۔ یوں روزہ ان نیکیوں میں سب سے بڑی نیکی ہے جو رمضان میں کی جاتی ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ نزولِ قرآن کے مہینہ میں شکرانہ کے طور پر کسی اور عبادت کو بھی فرض کیا جاسکتا تھا، مگر سوچنے کی بات ہے کہ روزہ ہی کا خصوصیت سے فرض کیا جانا اپنے اندر کیا حکمت رکھتا ہے اور قرآنی نعمت کا شکرانہ بطورِ روزہ ہی ادا کروانے میں کیا مناسبت ہے؟ اس پر سید سلیمان ندوی نے ’’سیرت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘ میں کچھ روشنی ڈالی ہے، جس کا لب لباب یہ ہے کہ روزہ نام ہے (حد شریعت کے اندر رہتے ہوئے) لذات سے انقطاع کا اور تاریخ بتاتی ہے کہ وحیِ الہی کے مکاشفات تک رسائی کا لذات سے انقطاع کے ساتھ بہرحال ایک تعلق ہے کہ اس کے ساتھ بالواسطہ خدا طلبی وخدا مستی کی کیفیات میں انہماک قوی ہوتا ہے۔
چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام کو جب تورات عطا ہونی تھی تو ان سے چالیس دن کا ایک مراقبہ اور اعتکاف کروایا گیا تھا جو ظاہر ہے کہ ظاہری لذات سے انقطاع کے بغیر نہیں ہوسکتا، نیز اسرائیلی روایات بتاتی ہیں کہ مراقبہ، اعتکاف اور خلوت وعبادت کے اس چلہ میں روزے بھی شامل تھے۔ اسی طرح نبی صلی اﷲ علیہ وسلم پر جب نزولِ وحی کا آغاز ہونے والا تھا تو خلوت وانقطاع کی محبت آپ کی طبیعت پر غالب کردی گئی تھی اور کھانے کا کچھ سامان ساتھ لے کر آپ مکہ کی آبادی سے دور غارِ حرا میں چلے جاتے تھے جہاں آپ مکمل خلوت اور یک سوئی کے ساتھ عبادتِ الہی میں مشغول رہتے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپ کو وحیِ الہی سے سرفراز کیا گیا، تو گویا رمضان میں دن کے روزوں (اور تبعا قیام اللیل واعتکاف) سے مقصود ہمارے اندر بھی لذات سے انقطاع اور بالواسطہ یک سوئی وتوجہ الی اﷲ کی معراجی کیفیات کو موجزن کروانا ہے۔
واضح رہے کہ اس خلوت وانقطاع کا تعلق دنیا کے ساتھ ہے کہ ہم رمضان میں دنیا کی مشغولیت کو کم کرلیں، اس کا تعلق دین کے فروغ واشاعت اور حفاظت کی سرگرمیوں کے ساتھ نہیں ہے کہ رمضان میں دعوت وجہاد بھی بند ہوجائیں۔ نہیں! بلکہ رمضان میں جیسے باقی نیکیوں کا اجر زیادہ بڑھا چڑھا کر ملتا ہے، اسی طرح دین کے اشاعت وفروغ کی سرگرمیوں پر بھی اﷲ سے زیادہ اجر کی امید رکھنی چاہئے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک رمضان غزوۂ بدر کے سیاق وسباق میں، ایک رمضان فتحِ مکہ کے سیاق میں اور ایک رمضان تبوک سے واپسی کے سفر میں صرف ہوا۔ دعا ہے کہ اﷲ جل شانہ ہم سب کو اپنی رحمتوں کے لائق بنا دیں۔آمین