مولانا محمد یوسف شیخوپوری
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقدس صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کو خالقِ کائنات نے اپنے آخری و آفاقی، عالم گیر و دائمی دینِ متین کی حمایت و نصرت اور تائید و آبیاری کے لیے منتخب فرمایا، جو براہِ راست صحبتِ نبوی سے فیض یاب ہوئے اور مشکوٰۃ نبوت سے مستنیر ہونے کا شرف حاصل کیا۔ انوارِ رسالت و نزولِ وحی کے عینی شاہد بنے، پروردگار عالم نے جنہیں اپنی رضاو مغفرت کا ابدی اعلان سنایا، یہ وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو پوری اُمّتِ مُسلمہ کے لیے شریعتِ مطہرہ کے نزول کے گواہ بھی ہیں اور سبب بھی ہیں۔ دین و شرع کے بے شمار مسائل ہیں، جن کے اُمت تک پہنچنے کا ذریعہ یہی فَائِزُوْنَ وَ مُفْلِحُوْنَ لوگ ہیں، مثلاً یومِ جمعہ المبارک، مسئلہ تیمم، حکمِ اذان وغیرہ شمار کرتے جائیں، ایک ایک حکم کی ابتدا، ایجاد کو دیکھتے جائیں، اُمت تک تمام احکام کے پہنچنے اور ملنے کا سبب یہی کامیاب جماعت بنی ہے۔
رمضان المبارک کی آمد ہے، ویسے تو سارا مہینہ اور اس ماہِ مبارک کا ایک ایک لمحہ عشاق کے لیے گنجینہ رحمت ہے، عطیۂ ربانی ہے، لیکن ایک سطحی نظر سے دیکھا جائے تو اس میں چار عبادتیں بالخصوص اہم ہیں۔ (۱) سحری (۲) افطاری (۳)تراویح (۴) لیلۃ القدر، اگر آئینہ محبت و تحقیق سے دیکھا جائے تو ان چاروں تحفوں کا اُمت کو ملنے کا سبب صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم ہیں، جن کی بدولت یہ ایزدی عطیے عطا کیے گئے۔ مثلاً
عطیۂ سحری و افطاری
صحیح بخاری میں حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ ابتدا میں جب رمضان کے روزے فرض کیے گئے تو افطار کے بعد کھانے پینے اور بیبیوں کے ساتھ اختلاط کی صرف اس وقت تک اجازت تھی جب تک سو نہ جاتے، سو جانے کے بعد یہ سب چیزیں حرام ہو جاتی تھیں۔ بعض صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم کو اس میں مشکلات پیش آئیں، مثلاً حضرت قیس بن صرمہ انصاری رضی اﷲ عنہ دن بھر مزدوری کر کے افطار کے وقت گھر پہنچتے تو گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہ تھا، بیوی نے کہا میں کہیں سے کچھ انتظام کر کے لاتی ہوں۔ جب وہ واپس آئیں تو دن بھر کی تھکاوٹ و تکان کی وجہ سے آنکھ لگ گئی۔ اب بیدار ہوئے تو کھانا پینا حرام ہو چکا تھا۔ اگلے دن پھر اسی طرح روزہ رکھا، دوپہر کو شدتِ ضعف کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے۔(ابن کثیر۔ معارف القرآن)
اسی طرح بعض صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سونے کے بعد اپنی بیویوں کے ساتھ اختلاط کی ضرورت میں مبتلا ہو کر پریشان ہوئے۔ ان واقعات کے بعد پرودگارِ عالم نے اس آیت کو نازل فرمایا: أُحِلَّ لَکُمُ لَیْلَۃَ الْصِّیَامِ الْرَّفَثُ اِلٰی نِسَائِکُمْ……الخ۔ پہلا حکم منسوخ کر کے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ کی وجہ سے غروبِ آفتاب کے بعد سے لے کر طلوعِ صبح صادق تک پوری رات کھانے پینے اور مباشرت کی اجازت دے دی گئی، اگرچہ وہ سو کر اٹھنے کے بعد ہی کیوں نہ ہو، بلکہ سو کر اٹھنے کے بعد اخیر شب میں نہ صرف کھانے پینے کی اجازت ملی بلکہ سحری کھانے کو (اس وقت) سنت قرار دیا گیا۔ آج پوری اُمّت کو سحری و افطاری کی نعمت ملی تو اس کا ذریعہ و سبب صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم بنے ہیں۔
عطیۂ تراویح:
تراویح کی نماز سب سے پہلے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں شروع ہوئی اور خود نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سنت کا آغاز فرمایا۔ آپ علیہ السلام نے اپنی مبارک زندگی میں صرف تین راتیں باجماعت نماز تراویح ادا فرمائی، پھر ایک رات آپ جماعت کرانے تشریف نہ لائے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سمجھے کہ شاید آنکھ لگ گئی، تو کھنکھارنے لگے تاکہ آ پ صلی اﷲ علیہ وسلم کو معلوم ہو جائے کہ ہم موجود ہیں۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تمھارے آنے کی اطلاع تھی، لیکن میں اس وجہ سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز فرض نہ کر دی جائے۔ (اس سے مواظبت حکمی ثابت ہوتی ہے) اِن دنوں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کتنی رکعات پڑھائیں؟ کسی صحیح مرفوع روایت میں مذکور نہیں۔ البتہ ایک مشہور روایت ہے جو حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے:
’’ عن ابن عباس ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کَانَ یُصَلِّی فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَالْوِتْرَ۔(مصنف ابن ابی شیبۃ ۔ السنن الکبری۔ وزاد سلیم الرازی فی کتاب الترغیب لہ و یوتر بثلاث۔ (نیل الاوطار)
چونکہ اس روایت کی تائید میں خلفاءِ راشدین و دیگر صحابہ رضی اﷲ عنہم کے آثار و عمل موجود ہے اور ہر دور میں اُمت کی تلقی بالقبول بھی اس کو حاصل ہے، اس وجہ سے یہ روایت قابل عمل ہے۔ دور نبوی میں صحابہ رضی اﷲ عنہم انفرادی طور پر پڑھتے رہے، پھر دورِ صدیقی میں چونکہ مختلف فتنوں کا مقابلہ وسامنا تھا، منکرینِ ختمِ نبوت، منکرین زکوٰۃ و مرتدین وغیرہ، پھر آپ کا دورِ خلافت بھی بہت قلیل تھا۔ لہٰذا ان فتنوں کی بیخ کنی کی نظر ہو گیا اور تراویح کی باجماعت نماز کا موقع نہ مل سکھا۔ پھر دورِ فاروقی میں سنہ ۱۴ھ میں باقاعدہ مستقل ایک امام کی اقتدا میں سب لوگوں کو تراویح کی جماعت پر اکٹھا فرمایا اور مشہور صحابی حضرت اُبیّ بن کعب رضی اﷲ عنہ امام مقرر ہوئے۔
حضرت عبدالرحمن رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں، رمضان المبارک کی ایک رات حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے ساتھ مسجد (نبوی) میں آ رہا تھا، دیکھا کہ لوگ مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، کوئی اکیلا پڑھ رہا ہے اور کوئی نماز پڑھا رہا ہے، لوگ پڑھ رہے ہیں، اس پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا بخدا میرا خیال ہے کہ اگر ان سب لوگوں کو ایک قاری (امام) کی اقتدا میں جمع کر دیا جائے تو بہت اچھا ہے، چنانچہ سب کو حضرت اُبی بن کعب رضی اﷲ عنہ کی اقتدا میں جمع کر دیا۔(مؤطا امام مالک)
اس وقت سے لے کر اب تک حرمین شریفین میں ۲۰ رکعات تراویح کا معمول چلا آ رہا ہے۔ یہ تراویح والا تحفہ اُمت کو ملا ہے تو ذریعہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم ہیں، جنھوں نے آقا علیہ السلام کے عمل کو دیکھا پھر مستقل اس کو عمل میں لائے۔
عطیہ لیلۃ القدر:
ابن ابی حاتم نے حضرت مجاہد سے مرسلاً نقل کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک مجاہد کا حال بیان فرمایا کہ اس نے ہزار مہینے تک مسلسل راہِ خدا میں جہاد کیا، کبھی ہتھیار نہیں اتارے۔ اسی طرح ابن جریرؒ نے بھی بروایت مجاہد نقل فرمایا ہے کہ آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے ایک عابد کا ذکر کیا جو ساری رات عبادت کرتا، پھر صبح جہاد کرتا اور ایک ہزار مہینے مسلسل اس نے عبادت میں گزار دیے۔ (مظہری۔ معارف القرآن)
یہ ارشادات سن کر اصحاب مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کو تعجب ہوا اور اضطرابی کیفیت میں یہ سوال ذہنوں میں گردش کرنے لگا کہ ہماری تو عمریں ہی اتنی نہیں جتنی سابقہ اُمتوں کے ان عابدین و مجاہدین کی تھیں، تو کیا بھلا نیکی اور عبادت کے میدان میں وہ ہم سے آ گے ہوں گے؟ حالانکہ ہم اصحابِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں، تو اﷲ تعالیٰ نے سورۃ القدر کا نزول فرما کر لیلۃ القدر کا تحفہ عطا فرمایا اور اعلان فرمایا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شہْرٍکہ تمھاری ایک رات کی عبادت نہ صرف ہزار مہینے کے برابر بلکہ اس سے بھی بہتر ہے۔ یہ تحفہ بھی حقیقت میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی برکت سے اُمت کو ملا ہے۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو پورا رمضان ہی انھی خوش نصیب افراد کے سبب بعد میں آنے والی اُمّت کے حصہ میں آیا ہے، چنانچہ روزوں کی فرضیت کو یٰا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْصِّیَامُ کے عنوان سے اُمت پر لاگو کیا گیا ہے اور اہلِ علم و اہل عقل و شعور سمجھتے ہیں، آمنو کے اس وقت مصداق کون لوگ تھے، یقینا السابقون الاوّلون۔ وہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی ہستیاں تھیں، جو ایمان کی اس قدر پختگی کی منزل پر پہنچ چکے تھے کہ انھیں بعد والی ساری اُمت کے لیے معیارِ ایمان بنا دیا گیا۔ رمضان المبارک کے اس مقدس لمحات میں ائمہ و خطبا، واعظین و مقررین سے درخواست ہے کہ سحری و افطاری، تراویح اور شب قدر کے مقدس بابرکت موقعوں پر ان محسنین کا ذکر بھی فرمائیں، جن کے طفیل و ذریعہ یہ نعمتیں ملی ہیں۔