فرحت اﷲ بیگ
زمانے نے خلوص دلوں سے مٹا لیا ہے۔ سچی محبت کی جگہ ظاہر داری نے لے لی ہے۔ نہ اب جینے میں کوئی سچے دل سے کسی کا ساتھ دیتا ہے اور نہ مرنے کے بعد قبر تک دلی درد کے ساتھ جاتا ہے، غرض دنیا داری ہی دنیا داری رہ گئی ہے۔ پہلے کوئی ہمسایہ مرتا تھا تو ایسا رنج ہوتا تھا کہ گویا اپنا عزیز مر گیا ہے، اب کوئی اپنا بھی مر جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیر مر گیا۔ جنازے کے ساتھ جانا اب رسماً رہ گیا ہے، صرف اس لیے چلے جاتے ہیں کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ واہ، جیتے جی تو دوستی و محبت کا یہ دم بھرا جاتا تھا، مرنے کے بعد پھر کر بھی نہ دیکھا کہ کون مر گیا۔ اب رہی دل کی حالت، تو اس کا بس خدا ہی مالک ہے۔ آئیے، میرے ساتھ آئیے، آج کل کی میّتوں کا رنگ بھی دکھا دوں۔
یہ لیجیے سامنے ہی کے مکان میں کسی صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔ کوئی بڑے شخص ہیں، سینکڑوں آدمی جمع ہیں، موٹریں بھی ہیں، گاڑیاں بھی ہیں، غریب بھی ہیں، امیر بھی ہیں، بے چارے غریب تو اندر جا بیٹھتے ہیں، کچھ پڑھ بھی رہے ہیں، جتنے امیر ہیں وہ یا تو اپنی اپنی سواریوں میں بیٹھے ہیں یا دروازے پر کھڑے سگریٹ پی رہے ہیں۔ جو غریب آتا ہے، وہ سلام کرتا ہوا اندر چلا جاتا ہے۔ جو امیر آتا ہے، وہ ان باہر والوں ہی میں مل کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ پہلا سوال یہی ہوتا ہے، کیا مر گئے؟ بھی ہمارے تو بڑے دوست تھے۔ اتنا کہا اور اپنی جیب سے سیگریٹ کا بکس یا پانوں کی ڈبیا نکالی۔ لیجیے تعزیت ختم ہوئی اور رنج دلی کا اظہار ہو چکا۔ اب دنیا کے قصے چھڑے۔ ایک دوسرے سے نہ ملنے کی شکایت ہوئی، دفتر کی کارروائیاں دریافت کی گئیں، ملک کی خبروں پر رائے زنی ہوئی، غرض اس بات چیت کا یہاں تک سلسلہ کھنچا کہ مکان سے جنازہ نکل آیا۔ یہ دیکھتے ہی دروازے کی بھیڑ چھنٹ گئی۔ کچھ ادھر ہو گئے، کچھ ادھر۔ آگے جنازہ ہے، اس کے پیچھے پیچھے یہ سب لوگ ہیں۔ ابھی چند قدم ہی چلے ہوں گے کہ ان ساتھ والوں میں تقسیم ہونی شروع ہوئی اور چپ چاپ اس طرح ہوئی کہ کسی کو معلوم بھی نہ ہوا کہ کب ہوئی اور کیونکر ہوئی۔ جن کو پیچھے رہنا تھا، انھوں نے چال آہستہ کر دی، جنھیں ساتھ جانا تھا وہ ذرا تیز چلے۔ غرض ہوتے ہوتے یہ ساتھ والے تین حصوں میں بٹ گئے۔ آگے تو وہ رہے جو مرنے والے کے عزیز تھے یا جن کو جنازہ اٹھانے کے لیے اجرت پر بلایا گیا تھا، اسی کے پیچھے وہ لوگ رہے جن کے پاس یا تو سواریاں نہ تھیں یا شرما شرمی پیدل ہی جانا مناسب سمجھتے تھے۔ آخر میں وہ طبقہ ہوا جو آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتا ہٹتا اپنی سواریوں تک پہنچ گیا اور ان میں سوار ہو گیا۔ اگر پیدل چلنے والوں میں کوئی عہدے دار ہیں تو غرض مندوں سے ان کو یہاں بھی چھٹکارا نہیں۔ ایک آیا، جھک کر سلام کیا، گھر بھر کی مزاج پُرسی کی، مرنے والے کے کچھ واقعات بیان کیے، اگر ڈاکٹر کا علاج تھا، تو ڈاکٹری کی برائیاں کی، اگر حکیم کے علاج سے مرا ہے تو طبابت کی خرابیاں ظاہر کیں اور اسی سلسلے میں اپنے واقعات بھی بیان کر گئے۔ ان سے پیچھا نہ چھٹا تھا کہ دوسرے صاحب آ گئے اور انھوں نے بھی وہی دنیا بھر کے قصے شروع کیے۔ غرض اسی طرح جوڑی بدلتے بدلتے مسجد تک پہنچ گئے۔ یہاں ہمراہیوں کی پھر تقسیم ہوتی ہے۔ ایک تو وہ ہیں جو ہمیشہ نماز پڑھتے ہیں اور اب بھی پڑھیں گے اور دوسرے وہ ہیں جو نہا دھو کر کپڑے بدل کر خاص اسی جنازے کے لیے آئے ہیں، تیسرے دوہ ہیں جو اپنی وضع داری پر قائم ہیں، یعنی نماز نہ کبھی پڑھی ہے اور نہ اب پڑھیں گے۔ دور سے مسجد کو دیکھا اور انھوں نے پیچھے ہٹنا شروع کیا۔ جنازہ مسجد تک پہنچا بھی نہ تھا کہ ان کو کسی دیوار، کسی موٹر یا کسی گاڑی کی آڑ مل گئی۔ یہ وہیں کھڑے ہو گئے اور سگریٹ پی کر یا پان کھا کر انھوں نے وقت گزار دیا۔ ہاں، اس بات کا انتظام رکھا کہ نماز ختم ہونے کی اطلاع فوراً مل جائے، ادھر نماز ختم ہوئی، ادھر یہ لوگ مسجد کے دروازے کی طرف بڑھے۔ ادھر جنازہ نکلا، ادھر یہ پہنچے۔ بس یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی نماز پڑھ کر مسجد ہی سے نکل رہے ہیں۔
یہ تو ساتھ والوں کا حال ہوا۔ اب راستے والوں کی سنیے۔ اگر میت کے ساتھ صرف دو چار آدمی ہیں تو کوئی پوچھتا بھی نہیں کہ کون جیا، کون مرا۔ اگر جنازے کے ساتھ بڑے بڑے لوگ ہوئے تو دکان والے ہیں کہ ننگے پاؤں بھاگے چلے آ رہے ہیں۔ آئے، مرنے والے کا نام پوچھا، مرض دریافت کیا اور واپس ہو گئے۔ گویا میونسپل کمیٹی نے رجسٹر حیات و ممات ان ہی کے تفویض کر دیا ہے اور صرف اس لیے نام پوچھنے آئے تھے کہ رجسٹر میں سے مرنے والے کا نام خارج کر دیں۔ موٹر نشینوں کی کچھ نہ پوچھو۔ یہ تو سمجھتے ہیں کہ سڑکیں انھی کے لیے بنی ہیں، کسی جنازے کا سڑک پر سے گزرنا ان کو زہر معلوم ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو، موٹر کی رفتار دھیمی کرنی پڑتی ہے اور ظاہر ہے کہ رفتار کم کرنے سے پٹرول کا نقصان ہے۔ کسی کو کیا حق ہے کہ مر کر ان کے پٹرول کا نقصان کرے۔ شوفر ہے کہ ہارن پر ہار بجا رہا ہے، لوگ ادھر سے ادھر بھاگ رہے ہیں، جنازہ ہے کہ ٹیڑھا ترچھا ہو رہا ہے، مگر موٹر والے صاحب کی موٹر جس رفتار سے آ رہی ہے، اسی رفتار سے نکلے گی اور ضرور نکلے گی۔ یہ لوگ تو وہ ہیں کہ قیامت آئے گی تو اس کو بھی ہارن بجا بجا کر سامنے سے ہٹانے کی فکر کریں گے۔ خیر، کسی نہ کسی طرح یہ تمام مصیبتیں اٹھا کر جنازہ قبرستان میں پہنچ ہی گیا ہے۔
قبرستانوں کی حالت پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے، جائے عبرت کو جائے وحشت بنا دیا ہے، قبرستان کیا ہے، خاص ایک جنگل ہے۔ ایک طرف ٹوٹی پھوٹی ہوئی ایک جھونپڑی پڑی ہے۔ اس میں سقے صاحب، ان کی بیوی، دس بارہ بچے، پانچ چھے بکریاں، ایک لنگڑا ٹٹو، سو دو سو مرغیاں، پانچ چھے بلیاں اور خدا معلوم کیا کیا بلیات بھرے پڑے ہیں۔ جس حصے میں قبریں ہیں، وہاں کی گھاس بڑھ کر کمر کمر ہو گئی ہے۔ دیواروں کو توڑ کر لوگوں نے راستے بنا لیے ہیں، کوئی قبر دھنس کر کنواں بن گئی ہے، کسی کا تعویذ غائب ہے، کسی چبوترے کی اینٹیں نکل کر جھونپڑی میں خرچ ہو گئی ہیں۔ غرض کسمپرسی نے اس حصے کی عجیب حالت کر دی ہے۔ دوسرا حصہ جس میں قبریں نہیں ہیں، وہ کسی قدر صاف ہے اور کیوں نہ ہے، پہلے حصوں کا مُردوں سے تعلق ہے اور دوسرے کا زندوں سے۔ مردے تو اپنی قبر کی مرمت کرنے یا کرانے سے رہے، ان کے جو عزیز ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اس فضول چیز پر کون کون، کیا کچھ خرچ کرے۔ جن کی زمین ہے، وہ تو روپئے کھرے کر چکے، ان ان کو اس سے کیا تعلق۔ دوسرے حصے کا صاف رکھا جانا اصول تجارت پر مبنی ہے، جب گاہکوں کو گھیرنے کے لیے دکاندا اپنی ایک ایک چیز جھاڑ پونچھ کر رکھتا ہے تو یہ قبرستان والے اپنی پچاس روپے گز والی زمین کو کیوں صاف نہ رکھیں۔ خریدتے وقت اچھا مال دیکھ لو، پھر تم جانو اور تمھارے مردے جانیں۔
میاں سقے رہتے تو قبرستان میں ہیں، مگر ہمیشہ پھولوں کی سیج پر سوتے ہیں۔ ادھر لوگ قبر پر پھول چڑھا کر گئے اور ادھر ان کے بچے سب کے سب سمیٹ لائے۔ رات بھر یہ پھول بستر پر رہے، صبح باسی پھول لے جا کر پھر قبر پر چڑھا دیے، خیر کیا حرج ہے، زندوں کا کام بھی نکل گیا، مردے بھی خوش ہو گئے۔ اس گھر میں سل بٹا خریدنے کی کبھی نوبت نہ آئی، قبر کے اچھے سے اچھے پتھر پر مسالا پیس لیا۔ اگر کچھ دنوں کوئی دیکھنے بھالنے نہ آیا تو پتھر اکھاڑ، جھونپڑی کے پاس لا رکھا۔ بکریاں قبروں پر قلانچیں مارتی پھرتی ہیں، مرغیاں کچی قبروں کو کرید کر رہی ہیں۔ بچے یا تو چبوتروں پر لوٹ مار رہے ہیں یا تعویذوں کو گھوڑا بنائے بیٹھے ہیں۔ بچیاں قبروں پر بیٹھی اینٹیں اور ٹھیکرے پیس رہی ہیں، کسی بے چارے کی قبر پر چادر پڑی ہے، اس پر بی سقنی نے گیہوں سکھانے ڈال دیے ہیں۔
ٹٹوانی کو ایک اگلی اور ایک پچھلی ٹانگ باندھ کر چھوڑ دیا ہے۔ وہ قبروں میں گھاس چرتی پھرتی ہے، اس کے ادھر ادھر پھدکنے سے کسی قبر کی اینٹ گری، کسی کا چونا گرا، کسی کا پتھر گرا، اگر ایسے ہی چار پانچ گھوڑے چھوڑ دیے جائیں تو تھوڑے ہی دنوں میں وہی منظر بن جائے جو زلزلے کے بعد کانگڑے کا ہو گیا تھا۔
جنازہ قبرستان کیا گیا، فوج میں ترم بج گیا۔ سقے کا سارا خاندان اپنا اپنا کام چھوڑ، جھونپڑی میں گھسا او ر اناج لینے کو برتن لے، لائن باندھ کر آ بیٹھا۔ کسی کے ہاتھ میں بے پیندے کا تام چینی کا کٹورا ہے، تو کسی کے پاس ٹوٹی رکابی، کسی کے پاس مٹی کا پیالہ ہے تو کسی کے ہاتھ میں ٹوٹا ہوا چھاج۔ سچ ہے، خدا رزاق ہے، قبرستان والوں کو بھی گھر بیٹھے رزق پہنچاتا ہے۔
یہ تو قبرستان والوں کی حالت ہوئی، اب ساتھ والوں کی کیفیت سنیے۔ جنازہ لا کر لبِ گور ، رکھ دیا گیا۔ ایک آتا ہے، قبر کو جھانک جاتا ہے۔ دوسرا آتا ہے، جھانک جاتا ہے۔ ہر شخص کو زمین سخت ہونے کی شکایت ہے۔ کوئی مزدوروں کو سست کہتا ہے، کوئی پٹاؤ کا نقص بتاتا ہے، کوئی قبرستان والوں کو برا کہتا ہے۔ جب اس ریویو سے بھی فراغت پائی تو دو دو تین تین آدمی ایک ایک قبر پر جا بیٹھے۔ چبوترے کو تخت بنایا اور تعویذ کو گاؤ تکیہ اور لگے سگریٹ اور بیڑی کا دم لگانے، کسی نے سقے سے چلم بھرنے کی فرمائش کی، اس نے حقہ تازہ کر، سلفہ بھر، حاضر کیا۔ حقے مزلے لے لے کر پیے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی تواضح کی جا رہی ہے، سلفے پر سلفہ بھروایا جاتا ہے اور یہ وقت کسی نہ کسی طرح کاٹا جاتا ہے۔ یہ توفیق نہیں ہوتی کہ کچھ خدا کی یاد کریں یا ان خفتگان خاک کی حالت دیکھ کر عبرت ہی حاصل کریں۔
بعض لوگ ہیں کہ گھاس سے بچتے بچاتے، قبروں پر کودتے پھاندتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ کون ہیں، یہ وہ صاحب ہیں جن کے مرے ہوئے عزیزوں کے آج دن پھرے ہیں۔ یوں تو خدانخواستہ فاتحہ کو کیوں آنے لگے، آج شرما شرمی قبرستان میں آ گئے۔ مفت کرم داشتن کی صورت ہے، چلو فاتحہ بھی پڑھ لیتے ہیں، اس کے بعد جب کوئی دوسرا عزیز یا دوست مرے گا تو پھر دیکھاجائے گا۔
ایک صاحب ہیں کہ قبروں کے کتبے ہی پڑھتے پھر رہے ہیں، کچھ نوٹ بھی کرتے جاتے ہیں، کوئی اچھا کتبہ مل گیا تو اپنے دوستوں کو بھی آواز دے کر بلا لیا اور بجائے فاتحہ کے دادِ سخن گوئی دی گئی۔ کچھ اپنا کلام سنایا، کچھ ان کا سنا، غرض کوئی نہ کوئی مشغلہ وقت گزارنے کو نکال ہی لیا۔
جو لوگ چبوتروں پر متمکن ہیں، ان کی کچھ نہ پوچھو۔ ہر چبوترہ ایک پارلیمنٹ ہے اور قبر ایک کانگریس کا اجلاس۔ دنیا بھر کی خبروں پر تنقیح و تنقید ہو رہی ہے، دفتر کی کارروائیوں پر بحث ہو رہی ہے، افواہوں کے ذرائع اور ان کی تصدیق و تردید کی جا رہی ہے، سفارشیں ہو رہی ہیں۔ وعدے لیے جا رہے ہیں، غرض سب کچھ ہو رہا ہے، نہیں ہو رہا تو وہ جو ہونا چاہیے اور جس غرض سے ساتھ آئے ہیں۔
خیر، خدا خدا کر کے خبر آئی کہ قبر تیار ہے، کچھ تو اٹھ کر قبر کے گرد جا کھڑے ہوئے، کچھ وہیں بیٹھے رہ گئے۔ ایک صاحب نے قبر میں اتر کر گلاب اور عود چھڑکا۔ ایک نے میت کے اوپر کی چادر سمیٹی، چادر میں بل دیے۔ دو صاحبوں نے مٹھے کے سرے پکڑ کر میت کو اٹھایا۔ آٹھ دس نے غل مچایا’’ سنبھال کے، سنبھال کے! میت بھاری ہے، کمر کے نیچے چادر دو۔ ارے میاں! اپنی طرف گھسیٹو، آہستہ سے آہستہ سے‘‘۔ اب میت قبر کے منہ تک آ گئی۔ فقیروں یا یوں کہو کہ مفت خوروں کو اناج تقسیم ہونے لگا اور قبر کے گرد جو لوگ کھڑے تھے، انھوں نے بے تحاشا غل مچانا شروع کیا۔ کوئی کہتا ہے، ذرا کمر کی چادر کھینچو۔ ارے بھئی! اتنا بھی دم نہیں ہے، دیکھنا کہیں قبر کا پاکھا (پہلو، بازو) نہ گرے۔ ہاں ، ہاں ذرا اور جھکا کر۔ لا اِلٰہ الا اﷲ! میت بھاری ہے۔ ذرا سنبھال کے، آہستہ آہستہ، بس بھئی بس! کوئی چیخ رہا ہے’’مٹھے کے بندھن کھول دو۔ ارے میاں لو، یہ ڈھیلا لو، سر کے نیچے رکھ کر منہ قبلے کی طرف کر دو۔ واہ بھئی واہ، اتنا بھی نہیں آتا۔ ابھی منہ پورا نہیں پھرا۔ بس بھئی بس‘‘۔
یہ مختلف فقرے ایک زبان سے نہیں نکلتے کہ کچھ سمجھ میں بھی آئے۔ ہر شخص ہے کہ غل مچا رہا ہے، جو بے چارے قبر میں اترے ہیں، وہ پریشان ہیں کہ کیا کریں، کیا نہ کریں۔ بہرحال اس غل غپاڑے کے ساتھ دوست و احباب اس مرنے والے کو پہلی منزل تک پہنچا ہی دیتے ہیں۔ اب پٹاؤ (قبر بند کرنے کے تختے) کی نوبت آتی ہے۔ اس میں بھی وہی گڑبڑ شروع ہوتی ہے۔ کوئی کہتا ہے ’’یہ کڑی نہیں وہ کڑی لو‘‘۔ کوئی کہتا ہے ’’لا حول ولا قوۃ! مفت میں سو روپے مار لیے اور کڑیاں دیں تو ایسی‘‘۔ غرض کوئی کچھ کہتا ہے، کوئی کچھ اور اسی گڑ بڑ میں پٹاؤ بھی ہو جاتا ہے اور مٹی دینے کی نوبت آتی ہے۔ مٹی تو ہر ایک دیتا ہے، منہ سے بھی ہر ایک بڑبڑاتا ہے، لیکن یہ خدا ہی کو معلوم ہے کہ جو پڑھنا چاہیے، وہ پڑھتا بھی ہے یا نہیں۔ البتہ لفظ ’’منہا‘‘ بہت اونچی آواز میں کہا جاتا ہے اور باقی سب الفاظ منہ ہی منہ میں ختم کر دیے جاتے ہیں۔ جب اس کام سے فراغت پائی اور قبر تیار ہو گئی، تو فاتحہ کی نوبت آئی۔ ساتھ آنے والوں میں کوئی بھی ایسا نہ ہو گا جو اس میں شریک نہ ہو۔ ہونٹ تو سب کے ہلتے ہیں، مگر شاید سو میں بیس بھی نہ ہوں گے، جو یہ جانتے ہوں کہ فاتحہ میں کیا کیا سورتیں پڑھتے ہیں۔ فاتحہ پڑھتے ہی سب کو اپنے اپنے گھر جانے کی سوجھی یہ بھی پھر کر نہ دیکھا کہ مرنے والے کے اعزہ کون ہیں اور ان کی کیا حالت ہے۔ ہاں، ان بے چاروں کو گھیرتے ہیں تو جنازہ لانے والے مزدور۔ گھر سے چکا کر لائے تھے، مگر یہاں آ کر وہ بھی پاؤں پھیلاتے ہیں۔ کبھی تو کہتے ہیں ’’فاصلہ بہت تھا‘‘۔ کبھی کہتے ہیں کہ ’’آپ کی وجہ سے دوسری میت کو چھوڑ کر آئے ہیں، وہاں آپ کے ہاں سے دگنا مل رہا تھا‘‘۔ بہرحال، ان مصیبت زدوں کو دق کر کے یہ مزدور کچھ زیادہ ہی لے مرتے ہیں۔
دیکھ لیا آپ نے اس زمانے کی میت کا رنگ! جو میں نے عرض کیا تھا وہ صحیح نکلا یا نہیں؟ اب سوائے اس کے کیا ہو کہ خدا سے دعا کی جائے کہ اﷲ اپنے ان بندوں کو نیک ہدایت دے، ان کے دل میں درد پیدا کرے۔ یہ سمجھیں کہ احکام کیا ہیں؟ اور ہم کیا کر رہے ہیں؟