پروفیسر خالد شبیر احمد
کیا افتخارِ عشق تھا وہ شوکتِ جنوں وہ داستانِ سطوتِ کردار کا فسوں
ہم سے بچھڑ کے گھو گیا وہ دُرِّ تاب دار ملکِ عدم کا ہو گیا وہ اپنا افتخار
حرفوں میں اس کے چاندنی سوز و گداز کی ہر بات ہی انوکھی تھی اس پاکباز کی
جذب و جنون و عشق کی بہار پرُوقار اس دور میں اسلام کی اک تیغِ تابدار
اس کے خیال و فکر میں قوسِ قزح کے رنگ طرزِ بیاں میں اُس کے تھی ایمان کی ترنگ
آزادؔ پر نثار تو افضلؔ کا خوشہ چیں الفاظ اُس کے موتی تھے اور حرف سب نگیں
وہ تو کتابِ عشق کا مکمل ہی ایک باب تھا جذب و جنون و عشق کا گویا نصاب تھا
اسلافِ باصفا کی تھا تصویر ہو بہو شبنم سا اُس کا لہجہ تھا حرف اس کے باوضو
سر دھنتے سامعین تھے اس کے بیان پر اس کی خطابتوں کا تھا چرچا نگر نگر
فکر بلند اُس کی، اک دھوپ آفتاب کی سوزِ سخن سے آتی تھی خوشبو گلاب کی
شعر و سخن میں یکتا تھا بے مثل و با کمال تھا افتخار شوق وہ عظمت سے مالا مال
نازاں رہا اس پہ ہاں تقریر کا بھی فن اس کی خطابتوں کا رہا معترف وطن
وہ انتہائے شوق میں جاں سے گزر ڈھونڈے ہے اُس کو جی میرا جانے کدھر گیا
وہ کیا گیا جہاں سے وفا ختم ہو گئی ’’صرصر کی چوٹ کھا کے صبا ختم ہو گئی‘‘
احرار کے سالار کا فرزندِ ارجمند محتاج و بے نوا کا تھا دل سے درد مند
بوذرؒ پہ تھا فدا تو محسنؒ کا ہم ا احرار کے جیوش کا کیا خوب رہنما
خالدؔ کہوں میں کیا کہ وہ کامل نظر بھی تھا دنیائے آگہی کا وہ شمس و قمر بھی تھا