ابوبکر قدوسی
آپ نے الف نون ڈرامہ سیریل تو دیکھی ہوگی، اس میں ننھا جب پیٹ پر ہاتھ مار کے اسے پاپی پیٹ قرار دیتا ہے تو اس اک جملے میں ہماری تمام این جی اوز کی کہانی آ جاتی ہے جو معاشرے میں ”الن” کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ مجھے ان معصوم دوستوں پر بہت ترس آتا ہے جو ان این جی اوز کو واقعی اقلیتوں ہمدرد، مظلوموں کا ساتھی اور عورت کے حقوق کی علمبردار سمجھتے ہیں۔
آج کل سوشل میڈیا پر سندھ میں تبدیلی مذہب کا ایشو گرم ہے۔ اس میں ہماری ان این جی اوز کا کردار خاصا مکروہ ہے، ہمیشہ کی طرح یہ تنظیمیں اپنے پاپی پیٹ کی خاطر ہندوؤں کی قیمت وصول کر رہی ہیں۔
پہلی بات تو یہ یاد رکھیے کہ اسلام میں کسی کا جبرا مذہب تبدیل کرنا مکمل حرام ہے اور کوئی معمولی دینی معلومات رکھنے والا یہ کام اس لیے نہیں کر سکتا کہ اس کو معلوم ہے کہ یہ ثواب نہیں بلکہ گناہ کا کام ہے۔ بالفرض اگر یہ جہالت اگر کوئی کرتا بھی ہے تو ایسا ممکن نہیں کہ یہ سلسلہ مستقل طور پر جاری رکھا جا سکے۔ اور کمال یہ ہے کہ یہ سب ہو بھی سندھ میں رہا ہے۔
اب آتے ہیں تصویر کے دوسرے اور اصلی رخ کی طرف:
حقیقت یہ ہے کہ ان واقعات میں لڑکے اور لڑکی کا عشق ہوتا ہے، جس کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ وہ بھاگ کے شادی کرتے ہیں، اس کے لیے ان کے پاس واحد صورت یہی ہوتی ہے کہ اسلام قبول کر لیں۔
یہاں تو یہ حالت ہے کہ نیچ برادری کا لڑکا اور اعلی برادری کی ہندو لڑکی کو عشق ہو جائے تو ان کے لیے یہی صورت بچتی ہے کیونکہ ہندو برادری میں نیچ ذات ملیچھ یعنی پلید خیال کی جاتی ہے، اس لیے لڑکے لڑکی کے لیے یہ طے شدہ یعنی ’’انڈر سٹوڈ‘‘ ہوتا ہے کہ ان کا ملن نہیں ہو سکتا۔ سو اسلام ہی ان کے لیے واحد راستہ بچتا ہے کہ جہاں اصولی طور پر ذات پات شادی کا معیار نہیں ہے۔
اور شاید آپ کو عشق نہیں ہوا، یہ عشق نہ ذات پوچھتا ہے نہ مذہب۔۔ سو حکومت کا قانون کیا شے ہے؟ جب یہ بھاگ بگھائیے کی شادی ہو جاتی ہے تو والدین اغوا یا جبری مذہب تبدیلی کا پرچہ کٹوا دیتے ہیں۔ دلچسپ قصہ تب ہوتا ہے جب صوبہ بدلتا ہے۔ اگر تو مسلمان لڑکی مسلمان لڑکے سے مل کر بھاگتی ہے تو ہماری این جی اوز لڑکی کے پیچھے کھڑی ہوتی ہیں کہ جی لڑکی کا بھاگنا حق تھا، بھلے کریم بائیک کروا کے نکلے۔ اور اگر صوبہ سندھ ہو اور لڑکی ہندو، تو یہی این جی اوز لڑکی کے ماں باپ کی ہمدرد ہو جاتی ہیں، کیونکہ وہاں والدین کا سٹینڈ اغوا کے ساتھ ساتھ مذہب کی جبری تبدیلی کا بھی ہوتا ہے۔ اب جبری تبدیلی مذہب شور ہوتا ہے۔
جنہاں عشق ہڈی رچیا، او رہندے چپ چپیندے ہو
اور اسی چپ چاپ میں وہ بھاگ لیتے ہیں اور مذہب تبدیل کر کے شادی کر لیتے ہیں، اور ہماری این جی اوز کو مزید بزنس مل جاتا ہے۔
اندازہ کیجئے کہ ان این جی اوز کا کردار کس قدر مکروہ ہے کہ اگر مسلمان ماں باپ روتے ہوئے آئیں تو ان کے دل نہیں پسیجتے، لیکن اگر یہی ماں باپ ہندو ہوتے ہیں تو پیمانے بدل جاتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ پیمانے کیوں بدلتے ہیں؟
تو جناب وہ پاپی پیٹ کا چکر ہے۔ پاکستان کا امیج خراب کرنا، یہاں موجود اقلییتوں پر مفروضہ مظالم کی کہانیاں گھڑنا اور ان کہانیوں کے عوض پاپی پیٹ کی خوراک حاصل کرنا، پھر یورپ کے عالی شان ہوٹل، میامی کے ساحل، وہاں کے شاپنگ مالز، کس کس ’’نعمت‘‘ سے یہ ضمیر کے ہاتھوں منہ موڑیں گے؟ سو ضمیر رہن رکھ کے مادر وطن کی عزت کو بیچ دیتے ہیں۔
آخر میں برادر عبد السمیع قائمخانی کی بیان کردہ کہانی پڑھ لیجیے، آپ کے سامنے ساری حقیقت کھل جائے گی:
’’رانی کولہی بنت روپو کولہی اپنے ماموں کے پاس قیام پذیر تھی۔ کولہیوں کے گاؤں کا نام گوٹھ شگن کولہی ہے جو ضلع عمر کوٹ کی تحصیل کنری میں واقع ہے۔ رانی ذات کی کولہی تھی، وہ بھی نچلی ذات کی، باقی خواتین کی طرح کھیتوں میں کام کرتی تھی۔ کرشن ذات کا بھیل تھا اور اس کا بھی ان ہی کھیتوں میں آنا جانا تھا، ان ہی کھیتوں میں دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں، معاملہ حدود عشق سے ہوتا ہوا منتہاء عشق یعنی شادی کے بندھن کے وعدے پر پہنچا۔
اب معاملہ یہ تھا کہ لڑکا ذات کا بھیل اور لڑکی کولہی، ذات پات کی اعداد و شمار میں کولہی سب سے آخر ہیں اور بھیل نیچے سے دوسرے نمبر پر، لڑکا اپنی سے نچلی ذات کی لڑکی سے پسندیدگی اور پھر شادی کی بات اپنے گھر میں نہیں کر سکتا تھا، لہذا ’’نہ رلیے نہ وسیے چنگے پھسیے‘‘۔ کرشن نے کراچی میں مقیم اپنے کاکا (یعنی چاچا) سے اس سارے معاملہ کا ذکر کیا، کاکا نے مشورہ دیا کہ لڑکی کو لے کر پہلے میرپورخاص آجائے تو دونوں کی شادی کوئی مسئلہ ہی نہیں۔
28 جولائی کو دونوں صبح سویرے پہلے میرپورخاص اور پھر حیدرآباد سے کراچی کے لیے روانہ ہوئے۔ بھلا برا ہو زیر تعمیر موٹر وے کا کہ 3 گھنٹے کا راستہ 6 گھنٹوں میں طے ہوا، سہراب گوٹھ اتر کو کرشن نے اپنے کاکا کو فون گھمایا اور اپنے پہنچنے کی خبر دی، کاکا نے ٹیکسی پکٹر کا سائٹ ایریا حبیب بینک چورنگی کے قریب واقع جامعہ بنوریہ پہنچنے کا کہا۔ کرشن اور رانی بنوریہ پہنچے تو وہاں اس کا چچا خمیسو اس کا انتظار کر رہا تھا۔
خمیسو نے کرشن کے ہاتھ میں 20 ہزار روپے دیے اور کہا کہ ’’دیکھ بیٹے! پیسے سنبھال کر استعمال کرنا، آج سے تم دونوں مسلمان ہو جاؤ گے، لیکن میں ہندو ہی رہوں گا، اور آج کے بعد میرا تمھارا کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔ جاؤ اپنی زندگی جی لو‘‘۔30 سالہ کرشن اور 25 سالہ رانی جامعہ بنوریہ میں مسلمان ہوئے۔ رانی رضیہ ہوگئی اور کرشن عمر ہوگیا اور وہیں دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ 29 جولائی 2016ء کے اخبارات میں دونوں کے مسلمان اور پھر شریکِ حیات بننے کی خبریں موجود ہیں۔ اپنے آباء و اجداد کے مذہب میں ذات پات کی پابندی کی وجہ سے تحفظ نہ ملنے پر دونوں ہندو مسلمان ہوئے۔ کہیں کوئی شور شرابہ نہیں ہوا، کوئی موم بتی مافیا نہیں نکلی، کسی اسمبلی میں کوئی شور نہیں ہوا‘‘۔