شاہ بلیغ الدین رحمہ اﷲ
پوچھا گیا آدمیوں میں اچھا کون ؟ ہے اور اﷲ کے پاس اچھا کون ؟ جواب ملا کہ…… جن کے اخلاق اچھے ہوں۔ سوال ہوا کہ …… اچھے اخلاق سے کیا مطلب ہے جواب ملا کہ…… ایک مرتبہ ایک صاحب اﷲ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کیا کہ…… میرے لیے کوئی نصیحت! ارشاد ہوا کہ…… غصہ نہ کر۔ انھوں نے بار بار پوچھا کہ کوئی اور نصیحت! ارشاد ہوا کہ غصہ نہ کر۔ بخاری اور مسلم میں ہے کہ جو اپنے غصے پر قابو رکھے، وہ بڑی قوت والا، بڑا پہلوان ہے۔ غصہ سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کر دیتا ہے۔ غصہ ایک آگ ہے، جب یہ بھڑکتا ہے تو اچھی چیزوں کو جلا دیتا ہے…… صبر کو، شکر کو، نرمی کو، حُسنِ اخلاق کو، سب کو غصے کی گرمی جلا دیتی ہے۔
امام بیہقی کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ سرورِ کونین صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو جو کچھ عطا کیا ہے، اس میں سب سے بہتر عطیہ کیا ہے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’حُسنِ خُلق‘‘! یعنی اچھے اخلاق۔
مؤطّا میں ہے، حضرت مُعاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ یمن کے حاکم بن کر جا رہے تھے، تو جو آخری بات اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمائی، وہ یہ تھی کہ مُعاذ! دنیا والوں کے لیے اپنے خُلق کو اچھا بنا،جس کا اخلاق اچھا ہو گا، وہ احسان کرنے والا ہو گا۔ اسی لیے ایک موقع پر اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’مجھے تم میں وہ شخص سب سے زیادہ محبوب ہے، جس کے اخلاق سب سے زیادہ اچھے ہیں‘‘۔
ہمارا دین خوبیوں کا دین ہے۔ اس میں حسن و جمال ہے، نرمی، محبت، خوش اخلاقی، ایثار، کئی ایسی باتیں ہیں جن سے ایک دلکش شخصیت بنتی ہے۔ سوچیے وہ کیسے مسلمان ہیں، جو ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں، ایک دوسرے پر لعنت بھیجتے ہیں۔ اپنے کٹّر سے کٹّر دشمن سے بھی اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے حُسنِ اخلاق سے بات کی اور دین کے بڑے سے بڑے دشمن کو بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام نے لعنتوں پر نہ دھرا۔ معلوم ہوا کہ حسنِ اخلاق، اسلام کی نشانی ہے اور بدزبانی یا بدگوئی شیطان کے چیلوں چانٹوں کا طریقہ ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ جو ایسا کرتے ہیں، وہ منافق اور فاسق و فاجر ہوتے ہیں۔ ترمذی اور ابوداؤد میں حضرت ابودرداء رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ قیامت کے دن مؤمن کی ترازو میں جو نیکیاں رکھی جائیں گی،اُن میں سب سے زیادہ وزن حُسنِ اخلاق کا ہو گا۔ اﷲ تعالیٰ گالیاں دینے والے اور بے ہودہ بکواس کرنے والے کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ مسلمانوں کو تنگ کرنا، اُن کے بزرگوں کو گالیاں دینا، قابلِ احترام شخصیتوں کی پگڑیاں اچھالنا، انھیں کافر کہنا، ان پر لعنت کرنا ایسی بدخُلقی ہے کہ ایسا شخص اﷲ تعالیٰ کا دشمن بن جاتا ہے۔
چنانچہ ابو داؤد اور بیہقی میں حارثہ بن وہب اور عکرمہ بن وہب کی روایتیں ہیں کہ بدخلق یعنی بری زبان والا اور لعنت والا بخیل اور بدگو کبھی جنت میں داخل نہ ہوں گے۔
اسلام میں لطف اور مہربانی، شرافت اور خوش مزاجی کا بڑا مقام ہے، اسی لیے حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سیدۂ عالم اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ لطیف اور مہربان ہے اور لطف و مہربانی سے محبت رکھتا ہے۔ اسلام نے یہ بات سمجھانے کی طرح طرح سے کوشش کی ہے۔ مثلاً ہمیں بتایا گیا کہ خود ستائی یا شیخی بھی بدخُلقی ہے۔ یہ شیطان کی فطرت اور فرعون و قارون کی عادت ہے۔ جس کے دل میں غرور ہو گا، اس پر جنت کے دروازے بند کر دیے جائیں گے۔ عیب جوئی، تہمت تراشی، غیبت، بات کاٹنا، آدابِ گفتگو کا خیال نہ رکھنا، بزرگوں، دوستوں کو سلام نہ کرنا، سلام کا جواب نہ دینا، سائل کو دھتکارنا، اہلِ معاملہ سے نظر ٹیڑھی کر کے بات کرنا…… یہ اور ایسی بہت سی حرکتوں کے نقصانات گِنا کر اسلام حکم لگاتا ہے کہ…… جو صاحبِ اخلاق نہیں، وہ مسلمان نہیں۔
امام بیہقی نے لکھا ہے کہ…… ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے مسجدِ نبوی میں خطبہ دیا تو فرمایا کہ …… دوستو! تواضع یعنی نرمی اور محبت اختیار کرو۔ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ…… جو اﷲ کے لیے تواضع اختیار کرے گا، اﷲ تعالیٰ اس کا مرتبہ اونچا کرے گا۔ جو اپنے آپ کو حقیر سمجھے گا، اﷲ اُسے دنیا والوں کی نگاہوں میں بہت بلند کر دے گا۔ جو غرور و تکبر کرے گا، وہ لوگوں کی نظروں سے گر جائے گا حتیٰ کہ کتے اور سور سے بدتر ہو جائے گا۔
(مطبوعہ: طوبی)