شیخ الحدیث، حضرت مولانا محمد زکریا رحمۃ اﷲ علیہ
قسط : 3
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ عفو وہ ہے جو اہل و عیال سے بچ جائے۔ یہاں ایک چیز اور بھی غور کرتے چلو کہ غریب کی مدد اور غربت کے ازالہ کا تصورجس کو آج کل بہت ہی اہمیت دی جا رہی ہے، کیا اسلامی تعلیم سے بہتر کہیں مل سکتا ہے؟۔ ایک شخص کو مجبور کرنا کہ اپنی آمدن پر ظالمانہ ٹیکس ادا کرے، اور دوسرا شخص وہ جو اپنی ضرورت سے زیادہ کچھ نہ رکھے اور برضا و رغبت سب کچھ غریبوں میں خرچ کر دے۔ دونوں نظریوں میں کتنا فرق ہے کہ پہلا ظلم محض ہے۔ دوسرا خیر محض۔ پہلے میں حوصولوں کو پست کرنا ہے، مستعد لوگوں کو بے کار بنانا ہے اور دوسرے میں ہمتوں کو بلند کرنا ہے اور جو شخص جتنا بھی کما سکتا ہے، اس سے زیادہ پیدا کرنے اور اپنی خوشی سے خرچ کرنے پر آمادہ کرنا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ خرچ کرنے کی ترغیب میں اپنی ضرورت سے زیادہ ہی کی تخصیص نہیں ہے، بلکہ اپنی ضرورتوں کو فنا کر کے دوسروں پر خرچ کرنا بھی اسلامی تعلیم ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں انصار کی مدح میں ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’اپنے اوپر ان کو (یعنی مہاجرین کو) ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ خود پر فاقہ ہی ہو‘‘۔ (سورۂ حشر: آیت:۹)
اور پھر یہ سب کچھ زبانی جمع خرچ نہیں ہے، بلکہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود بھی عمل کر کے دکھا دیا اور دوسرے سے عمل کرا دیا۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پوری زندگی اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ کے عام حالات اس کے شاہد عدل ہیں۔ کتب حدیث کی کتاب الزہد اور کتاب الرقاق ان مضامین سے پُر ہیں اور کچھ نمونہ دیکھنا تو حکایاتِ صحابہ میں چند واقعات لکھ چکا ہوں۔ اس جگہ نہ تو یہ مضمون مقصود ہے اور نہ گنجائش۔ تبعاً ذکر آ گیا تھا۔ مجھے اس جگہ تو صرف یہ بتانا ہے کہ جس نوع کی پریشانیوں میں ہم مبتلا ہیں، وہ ہماری اپنی ہی جمع کی ہوئی ہیں اور ایسے سچے، پکے، معتبر حاذق حکیم نے، جس کا نسخہ نہ کبھی خطا کرتا ہے اور نہ کر سکتا ہے۔ صاف صاف امراض کے اسباب بھی بتا دیے ہیں اور ان کے علاج بھی بتا دیے۔ اب اسبابِ مرض سے بچنا اور علاج کرنا طبیب کا کام نہیں ہیں، کوئی التفات نہ کرے تو اپنا نقصان کرتا ہے۔ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشادہے:
’’بالتحقیق میں تمھارے پاس ایسی شریعت لایا ہوں، جو روشن اور صاف ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ،ص: ۲۲)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
’’اﷲ کی قسم میں نے تمھیں ایسے (طریقہ) پر چھوڑا ہے (جو بالکل روشن) سفید ہے، جس کا رات دن برابر ہے‘‘۔ (جمع الفوائد)
حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک ایک چیز پر تنبیہ فرما دی ہے اور دین و دنیا کا کوئی جز ایسا نہیں چھوڑا ہے جس پر اس مختصر چند سالہ زندگی میں تبصرہ نہ فرما دیا ہو۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ (نیک) اعمال کرنے میں جلدی کرو اور ایسے فتنوں کے پیدا ہونے سے (پہلے پہلے کر لو) جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے (کہ حق ناحق کا امتیاز مشکل ہو جائے گا)، ان میں صبح کو آدمی مؤمن ہو گا اور شام کو کافر، شام کو مؤمن ہو گا اور صبح کو کافر۔ اپنے دین کو تھوڑے سے دنیا کے سامان کے بدلے بیچ دے گا۔ (ترغیب)
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مرنے سے پہلے پہلے اﷲ کی طرف رجوع (اور توبہ) کر لو اور مشاغل کی کثرت سے پہلے پہلے اعمالِ صالحہ کر لو اور اﷲ جل شانہٗ کو کثرت سے یاد کر کے اور مخفی اور علانیہ صدقہ کر کے اﷲ کے ساتھ رابطہ جوڑ لو کہ ان چیزوں کی وجہ سے تم کو رزق بھی عطا کیا جائے گا، تمھاری مدد بھی کی جائے گی اور تمھارے نقصان کی بھی تلافی کر دی جائے گی۔ (ترغیب)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا اور جو شخص ظالم کو معاف کر دے حق تعالیٰ شانہٗ اس کی عزت بڑھاتے ہیں، لہٰذا مظالم کو معاف کیا کرو۔ اﷲ تعالیٰ تمھیں عزت عطا فرمائے اور جو شخص سوال کا دروازہ کھولتا ہے، اس پر فقر کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ (معجم صغیر)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب میری اُمت اپنے علماء سے بغض رکھنے لگے اور بازاروں کے تعمیر کو نمایاں کرنے لگے اور دراہم (روپیہ) جمع کرنے پر نکاح کرنے لگے (یعنی نکاح کرنے کے لیے بجائے دیانت، تقویٰ اور دین داری کے مال دار ہونے کی رعایت ملحوظ ہو) تو حق تعالیٰ شانہٗ ان پر چار چیزیں مسلط فرما دیں گے۔ زمانہ کا قحط اور بادشاہ کا ظلم اور حکام کی خیانت اور دشمنوں کا حملہ۔ (حاکم)
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا ارشاد ہے کہ گناہ کا بدلہ عبادت میں سستی ، روزی میں تنگی اور لذت میں کمی ہے۔
(تاریخ الخلفاء)
حضرت انس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دس سال حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت کی، کبھی ترش روئی سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مجھ سے پیش نہیں آئے۔ مجھے ارشاد فرمایا کہ وضو اچھی طرح کیا کر، اس سے عمر میں اضافہ ہو گا اور تیرے محافظ فرشتے تجھ سے محبت کرنے لگیں گے (طبرانی صغیر) اور نماز کا کچھ حصہ گھر میں مقرر کر کہ اس سے گھر کی خیر میں اضافہ ہو گا اور جب گھر میں جایا کرے تو گھر کے لوگوں کو سلام کیا کر کہ اس کی برکت تجھ پر بھی ہو گی اور گھر کے لوگوں پر بھی۔ ان سب روایات سے یہ بات واضح ہے کہ جیسے معاصی اور گناہوں کی کثرت پریشانیوں اور حوادث کی کثرت کا سبب ہے، ایسی ہی طاعات اور عبادات دارین کی فلاح کا سبب ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہے، اے آدم کی اولاد! تو میری عبادت کے لیے فراغت (اوقات نکال لے) ، میں تیرے سینے کو غنا (اور بے فکری) سے پُر کر دوں گا اور تیرے فقر (و فاقہ) کودور کر دوں گا اور اگر تو ایسا نہ کرے گا (کہ میرے عبادت کے لیے فارغ بنے) تو تجھے مشاغل میں پھنسا دوں گا اور تیرا فقر زائل نہ کروں گا۔
یہ ارشاد خداوندی ہے اور اس مالک الملک اور قادرِ مطلق کا ارشاد ہے، جس کے قبضہ قدرت میں دنیا کی ہر چیز ہے۔ نیز اس کے ہم معنی اور بھی روایات ہیں، جن میں دنیا کی فلاح و کامیابی کا مدار اﷲ کی عبادت پر رکھا ہے۔ لیکن ہم لوگ دنیا کمانے کے واسطے عبادت ہی کے اوقات پر سب سے پہلے صفایا کرتے ہیں، جب اس طرح اﷲ کی نافرمانیوں میں ہماری ترقیات ہوں تو پھر ہماری پریشانیوں اور تنگ دستیوں میں کیوں نہ اضافہ ہو۔ دین سے بے پرواہ ہو کر مسلمان روٹی کا سوال حل کرنا چاہیں تو کیسے ممکن ہے، جب روٹی دینے والا یہ کہے کہ میں نہ فقر کو دور کروں گا، نہ دل کو مشاغل سے خالی کروں گا۔
صحیح حدیث میں اﷲ جل شانہٗ کا ارشاد وارد ہوا ہے کہ اگر بندے میری اطاعت (پوری پوری) کریں تو رات کو سوتے ہوئے ان پر بارش برساؤں اور دن میں آفتاب نکلا رہے (کہ کاروبار میں حرج نہ ہو) اور بجلی کی آواز بھی ان کے کان میں نہ پڑے (تاکہ ان کو ذرا سا بھی خوف و ہراس نہ ہو)۔ (جامع الصغیر)
لیکن ہم لوگوں کی شامتِ اعمال کہ دن اور رات کا یہ نظم درکنار، جگہ جگہ بارشوں کی قلت بڑھتی رہتی ہے اور جہاں ہوتی ہیں، سیلاب کی صورتوں میں بسا اوقات ہوتی ہیں۔
احیاء میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ایک مرتبہ نہایت سخت قحط پڑا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے ساتھ تین دن تک استسقاء کی نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے رہے مگر بارش نہ ہوئی، تیسرے دن وحی آئی کہ اس جماعت میں ایک شخص چغل خور ہے، اس کی وجہ سے تم لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخواست کی کہ اس کا علم ہو جائے تاکہ اس کو مجمع سے الگ کر دیا جائے۔ ارشاد خداوندی ہوا کہ میں تمھیں چغلی سے منع کروں اور خود اس شخص کی چغلی کھاؤں، اس لیے تعین نہیں کرتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم سے خطاب فرما کر توبہ و استغفار کی تلقین فرمائی اور خصوصیت کے ساتھ چغل خوری سے سب سے توبہ کروائی، فوراً بارش ہو گئی۔
حضرت سفیان ثوری سے نقل کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ بنی اسرائیل میں سات سال تک ایسا سخت قحط پڑا کہ کوڑوں (گھوروں) پر سے مردار اٹھا کر لوگوں نے کھائے اور آدمیوں کے کھانے کی نوبت پہنچ گئی۔ لوگ پریشان حال جنگلوں اور پہاڑوں پر روزانہ دعاؤں اور استسقاء کی نمازوں کے لیے نکلتے تھے۔ حق تعالیٰ شانہٗ نے اس زمانہ کے انبیاء کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تمھاری زبانیں دعائیں کرتے کرتے کتنے ہی خشک ہو جائیں اور آسمانوں تک ہاتھ دعاؤں کے لیے اٹھ جائیں، اس وقت تک میں کسی رونے والے پر بھی رحم نہیں کروں گا، جب تک کہ آپس کے مظالم دور نہ کیے جائیں۔
کتب تواریخ و احادیث میں اس قسم کے واقعات بکثرت موجود ہیں، الغرض سینکڑوں روایات ہیں جن میں صاف طور سے اعمالِ حسنہ پر دارین کی فلاح اور اعمالِ سیۂ پر دارین کے نقصانات تفصیل سے بتا دیے گئے ہیں۔ ان روایات کا نہ احصا مجھ سے ممکن ہے، نہ مقصود ہے۔ غرض ان مثالوں کے ذکر کرنے سے یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے نزدیک نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادات سچے ہیں تو پھر ہم لوگوں کا اپنے اوپر کتنا صریح ظلم ہے کہ ہم خود اپنے افعال سے مہلکات میں پڑتے رہیں۔ نقصان دہ اُمور اختیار کرتے ہیں اور زبان سے مسلمانوں کی تباہی کا گیت گاتے ہیں، ہماری مثال اس بیمار کی سی ہے، جو اسہال کا مرض ہو، وہ دمادم مسہل، دواؤں کا استعمال کرتا رہے اور شور مچاتا رہے کہ دست نہیں تھمتے۔ کوئی اس بے وقوف سے پوچھے کہ تو خود مسہلات کا استعمال کر رہا ہے تو یہ اطوار تھمنے کے ہیں یا بڑھنے کے ہیں۔ ہم انگریزوں کے مظالم کا رونا ہر وقت روتے رہتے ہیں اور آنے والی حکومت کے خطرات سے اور بھی زیادہ خائف ہیں، لیکن کیا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے متعلق ہم کو متنبہ نہیں فرمایا، کیا حکومتوں کے اسباب اور اعمال کو واضح الفاظ میں نہیں بتا دیا، کیا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم (روحی فداہ ابی و اُمی) کی شفقت یا تعلیم و تنبیہ میں کسی قسم کی کمی ہے۔ حاشا و کَلَّا۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، فرماتے ہیں:
’’جیسے تم لوگ (اپنے اعمال کے اعتبار سے) ہو گے ویسے ہی تم پر حاکم بنائے جائیں گے‘‘۔
(مشکوٰۃ ولہ طرق فی المقاصد الحسنہ)
اس لیے اگر ہم اپنے اوپر بہترین افراد کی حکومت چاہتے ہیں تو اس کا واحد علاج بہترین اعمال ہیں اور کچھ نہیں۔ دوسری حدیث میں ارشاد ہے: ’’نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ اﷲ جل جلالہٗ کا ارشاد ہے، میں اﷲ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاہوں کا مالک ہوں اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ میں ہیں، بندے جب تک میری اطاعت کرتے ہیں تو بادشاہوں کے دل ان پر رحمت اور مہربانی کے لیے پھیر دیتا ہوں اور جب میری نافرمانی کرتے ہیں تو بادشاہوں کے دل ان پر غصہ اور انتقام کے لیے پھیر دیتا ہوں، جس سے وہ ان کو سخت عذاب (اور تکالیف) پہنچانے لگتے ہیں، اس لیے تم بجائے بادشاہوں پر بددعائیں کرنے کے میرے ذکر کی طرف متوجہ ہو اور میری طرف عاجزی (اور زاری) کرو، تاکہ میں ان تکالیف سے تمھیں محفوظ رکھوں۔
(رواہ ابو نُعیم فی الحلیہ کذا فی المشکوٰۃ۔ وفی مجمع الزوائد بروایۃ الطبرانی و فی الدُر المنثور، ص: ۱۸۹، ج:۴۔ اخرج ابن ابی شیبۃ ۔)
اس قسم کے مضامین بھی متعدد روایات میں وارد ہوئے ، دعا ماثورہ میں ہے:
اَللّٰہُمَّ لَا تُسَلِّطْ عَلَیْنَا بِذُنُوْبِنَا مَن․ لَّا یَرْحَمُنَا۔
ترجمہ: اے اﷲ! ہمارے اوپر ہمارے گناہوں کی وجہ سے ایسے لوگوں کو مسلط نہ فرما جو ہم پر رحم نہ کریں۔
حق جل جلالہٗ کا ارشاد ہے:
وَ کَذٰلِکَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الْظَّالِمِیْنَ بَعْضًا بِمَا کَانُوْ یَکْسِبُوْنَ۔(انعام:رکوع:۱۵)
ترجمہ: اسی طرح ہم بعض ظالموں کو بعض ظالموں پر ان کے اعمال کی وجہ سے حاکم بنا دیتے ہیں۔
اس کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں۔ صاحب جلالین وغیرہ نے یہی تفسیر اختیار کی ہے۔ حضرت قتادہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ظالم جنوں کو ظالم انسانوں پر مسلط کر دیتے ہیں اور اعمش فرماتے ہیں کہ جب لوگوں کے اعمال خراب ہو جاتے ہیں تو ان پر بدترین لوگوں کو حاکم بنا دیا جاتا ہے۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں مجھ سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اﷲ جل شانہٗ سے دریافت کیا کہ لوگوں سے آپ کے راضی ہونے کی علامت کیا ہے، ارشاد ہوا کہ کھیتی بونے کے وقت ان پر بارش نازل کرتا ہوں اور کاٹنے کے وقت روک لیتا ہوں۔ ان کے انتظامی امور حلیم لوگوں کے سپرد کر دیتا ہوں اور ان کے اموال عامہ کو کریم لوگوں کے سپرد کر دیتا ہوں۔ انھوں نے پوچھا کہ آپ کے ان سے ناراض ہونے کی کیا علامت ہے؟ ارشاد ہوا کہ کھیتی بونے کے وقت بارش روک لیتا ہوں اور کاٹنے کے وقت برساتا ہوں اور ان کے انتظامی امور کو بے وقوفوں کے سپرد کرتا ہوں اور اموال عامہ کو بخیلوں کے حوالے کر دیتا ہوں۔ (در المنثور)
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم لوگ نیک کاموں کا حکم کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو، ورنہ اﷲ جل جلالہٗ بدترین لوگوں کو تمھارا حاکم بنا دیں گے۔ پھر تمھارے بہترین لوگ بھی دعائیں کریں گے تو قبول نہ ہوں گی (جامع)۔ جن لوگوں کو یہ اشکال دامن گیر رہتا ہے کہ یہ بزرگ دعا کیوں نہیں کرتے یا ان کی دعا قبول کیوں نہیں ہوتی، وہ اس پر بھی غور کر لیا کریں کہ وہ خود نیک کاموں کا کتنا حکم کرتے ہیں اور بری باتوں سے کتنا روکتے ہیں اور یہ چیز جب چھوٹ گئی تو دعاؤں کے قبول ہونے کی امید بے محل ہے۔ ایک حدیث میں وارد ہے:
جب اﷲ جل شانہٗ کسی قوم کی بہبود کا ارادہ فرماتے ہیں تو حلیم لوگوں کو حاکم بناتے ہیں (کہ غصہ میں بے قابو نہ ہو جائیں) اور علماء ان کے درمیان فیصلے کرتے ہیں (کہ علم کی روشنی میں حق کے موافق فیصلہ کریں) اور مال سخی لوگوں کے قبضہ میں کر دیتے ہیں (کہ ہر شخص کو اس کی سخاوت سے نفع حاصل ہو) اور جب کسی قوم کی (بداعمالیوں کی وجہ سے) برائی مدنظر ہوتی ہے تو بے وقوفوں کو حاکم بنا دیا جاتا ہے اور جاہلوں کے ہاتھ میں اُن کے فیصلے ہو جاتے ہیں اور مال بخیلوں کو دے دیا جاتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ جب کسی جماعت پر اﷲ جل شانہٗ کا غصہ ہوتا اور آخری عذاب مثلاً دھنس جانا یا صورتوں کا مسخ ہو جانا نازل نہیں ہوتا تو نرخ میں گرانی کرا دیتے ہیں اور بارش کو روک لیتے ہیں اور بدترین لوگوں کو حاکم بنا دیتے ہیں۔
ایک حدیث میں اﷲ جل شانہ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ میں ایسے لوگوں کے ذریعہ جو مغضوب ہیں (یعنی ان پر میرا غضب ہے)، دوسرے مغضوبوں سے انتقام لیتا ہوں، پھر سب کو جہنم میں ڈال دیتا ہوں۔ اسی لیے ایک حدیث میں وارد ہے کہ حکام کو گالیاں نہ دو بلکہ ان کے لیے صلاحیت کی دعا کرو کہ اُن کی صلاحیت میں تمھاری صلاح بھی مضمر ہے۔ (یعنی گالیاں دینے سے تو ان کی درستی ہونے سے رہی)۔ (کذا فی المجمع وفی الجامع بروایۃ الطبرانی عن ابی امامہ)
دوسری حدیث میں وارد ہے کہ اپنے قلوب کو سلاطین اور بادشاہوں کو گالیاں دینے میں مشغول نہ کرو، بلکہ اﷲ کی طرف تقرب حاصل کرو اور متوجہ ہو کر ان کے لیے دعاءِ خیر کرو کہ حق تعالیٰ شانہٗ ان کے دلوں کو تمھارے اوپر مہربان کر دیں۔
مکی ابن ابراہیم کہتے ہیں کہ ہم ابن عون کے پاس بیٹھے تھے لوگوں نے بلال بن ابی بردہ کا ذکر شروع کر دیا اور اس کو برا بھلا کہنا لگے۔ ابن عون چپ بیٹھے رہے، لوگوں نے کہا تمھاری ہی وجہ سے ہم اس کو برا بھلا کہتے ہیں کہ اس نے تم پر زیادتی کی۔ ابن عون کہنے لگے کہ میرے اعمال نامہ میں ہر کلمہ لکھا جاتا ہے اور قیامت کے دن وہ پڑھا جائے گا۔ مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ اس میں کسی کو برا بھلا کہنے کی بجائے لا الٰہ الا اﷲ (کثرت سے) نکلے (احیاء)۔
ایک بزرگ کے سامنے کوئی شخص حجاج ظالم کو بددعا دینے لگا۔ انھوں نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے، تمھارے ہی اعمال کا نتیجہ ہے۔ مجھے یہ خوف ہے کہ اگر حجاج معزول ہو جائے یا مر جائے تو تم پر بندر اور سؤر نہ حاکم بنا دیے جائیں (مقاصد حسنہ)۔ اور اعمالکم عُمّالکم توضرب المثل ہے۔ بعض لوگوں نے اس حدیث بھی بتایا ہے، مطلب یہ ہے کہ تمھارے اعمال تمھارے حاکم ہیں، جیسے اعمال ہوں گے ویسے ہی حاکم مسلط کیے جائیں گے۔
الغرض مجھے ان چیزوں کا احاطہ مقصود نہیں ہے۔ مجھے مثال کے طور پر یہ بتانا ہے کہ جس قسم کی پریشانیاں، حوادث، مصائب ہم پر نازل ہو رہے ہیں اور مسلمان ان میں مبتلا ہیں، نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادات میں ان سب پر تنبیہ ہے۔ احادیث کی کتب ان مضامین سے پُر ہیں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے صاف صاف فرما دیا ہے کہ اﷲ کی نافرمانیاں دنیا میں مصائب کا سبب ہیں اور نیک اعمال دنیا میں بھی فلاح کا ذریعہ ہیں۔ اور پھر خاص خاص گناہوں پر خاص خاص حوادث اور مصائب بھی بتا دیے ہیں اور مخصوص طاعات پر مخصوص انعامات کا ترتب بھی ارشاد فرمایا ہے۔
ہم لوگ حوادث کی شکایات کو طور مار باندھ دیں اور انعامات کی ہر وقت امید لگائے بیٹھے رہیں، لیکن جن امور پر یہ چیزیں مرتب ہیں اُن سے یکسر غافل رہیں، بلکہ ان کا مقابلہ کریں، ان کو دیدہ و دانستہ چھوڑیں اور کوئی تنبیہ کرے تو اس کی جان کو آ جائیں، تو ہماری مثال بالکل اسی شخص کی سی ہے جو اسہال کا مریض ہو اور ہر دو گھنٹہ بعد ایک تولہ سقمونیا کھا لے اور شور مچائے کہ اسہال تھمتے نہیں۔ اور کوئی سقمونیا کھانے کو منع کرے، تو اس کو بے وقوف بتائے۔ حیرت ہے کہ ایک معمولی طبیب کسی چیز کے متعلق کہہ دے کہ یہ نقصان کرتی ہے، ایک کافر ڈاکٹر اعلان کر دے کہ آج کل امرود کھانے سے ہیضہ ہو جائے گا تو اچھے اچھے سورماؤں کی ہمت امرودکھانے کو نہ ہو۔ ایک بھنگی یہ کہہ دے کہ اس گلی میں بہت بڑا کالا سانپ ہے، تو اچھے اچھے بہادروں کی جرأت نہ ہو کہ اس گلی میں چلے جائیں۔ ایک جاہل گاؤدی کہہ دے کہ اس سڑک پر ایک شیر بیٹھا ہے تو اس طرف کا راستہ چلنے کی ہمت نہ ہو۔ بڑی بہادری یہ ہوگی کہ دو چار ساتھیوں کے کے ساتھ دو تین بندوقیں لے کر ادھر کا رخ کیا جائے، لیکن اﷲ جل جلالہٗ کا پاک اور سچا رسول صلی اﷲ علیہ وسلم، وہ شفیق اور حکیم مربی جس کو ہر وقت اُمت کی بہبود کی فکر ہے اور اس کا اہتمام ہے، وہ اُمّت کو نفع دینے والی چیزوں کا حکم کرے، نقصان رساں اُمور سے روکے، لیکن امت اپنی نیاز مندی اور جان نثاری کے لمبے چوڑے دعوؤں کے باوجود ان ارشادات کی پرواہ نہ کرے، کتنا صریح ظلم ہے۔ آج گورنمنٹ کی طرف سے ایک اعلان جاری ہو جائے کہ فلاں نوع کی تقریر جرم ہے، دس سال کی قید ہو گی، اچھے اچھے بہادر کامیاب لیڈر اور ایڈیٹر سوچ سوچ کر مضمون لکھیں گے اور تقریر میں بچا بچا کر الفاظ لائیں گے۔ لیکن ساری دنیا کا مالک، بادشاہوں کا بادشاہ، جس کے قبضہ قدرت میں ساری حکومتیں اور سارے بادشاہ ہیں، سختی سے ایک حکم فرماتا ہے، قرآن پاک میں سود کے لینے والے کو اپنی طرف سے اعلانِ جنگ کرتا ہے اور حدیث قدسی میں اﷲ والوں کی مخالفت اور دشمنی کو اپنے ساتھ جنگ بتاتا ہے۔ سودی معاملات کرنے والوں پر لعنت کرتا ہے، شراب کے بارے میں دس آدمیوں کو اپنی لعنت کا مستحق قرار دیتا ہے، کتنے آدمی ہیں، جن کے دل پر کچھ بھی چوٹ اس چیز کی لگتی ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور ہم پر کیا کیا مصائب ان امور کے بدلے میں آنے والے ہیں۔ ہر شخص خود ہی غور کر لے، کسی دوسرے کے بتانے کی چیز نہیں اور اگر ان چیزوں کو چھوڑنے کے بجائے ان میں ترقیات ہیں تو اﷲ سے لڑنے کے لیے، اس کی اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی لعنت برداشت کرنے کے لیے مصیبتیں ، ذلتیں، نکبتیں، آفتیں جھیلنے کے لیے تیار رہنا چاہیے
اے باد صبا ایں ہمہ آوردہ تست
(جاری ہے)