محمد یوسف شیخوپوری
تاریخ اسلام کے مسلّمات میں سے ہے کہ جب بھی قبولیتِ اسلام میں تقدّم، اوصافِ حمیدہ اور مکارمِ اخلاق میں شرف افضلیت اور کمالاتِ نبوّت میں کامل عکس و مشابہت کا سوال کیا جائے تو فوراً خلیفہ بلا فصل، امام الصحابہ، تاجدار صدق و وفا، یارِ غار و مزار سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کا نام زبانوں پہ جاری ہو جاتا ہے، جو بالاتفاق افضل البشر بعد الانبیاء ہیں۔ محبوب دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ جو حق رفاقت آپ نے ادا کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے، جو ہمیشہ عُشّاقِ رسالت کے لیے روشنیوں کا مینارہ اور تاریخ اسلام کے ماتھے کا جھومر ہے۔
مشہور مقولہ ہے کہ ’’دوست کا دوست بھی دوست ہوتا ہے‘‘۔ اپنے پاک محبوب علیہ الصلاۃ والسلام کی طرح آپ کے گھرانے اہل بیتِ نبوّت کے ساتھ بھی جناب صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کا بے مثال پیار، جانبین سے اعتماد، محبت اور اخوت و ایثار کا محکم رشتہ قائم تھا۔ چند ایک مؤیّدات پیشِ خدمت ہیں۔ جن میں غور کرنے سے آپ کی اہلِ بیت نبوت کے ساتھ اور ان کی آپ کے ساتھ محبت کی شعائیں پھوٹتی دکھائی دیتی ہیں۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بنات طیّبات میں آخری اور چوتھی بیٹی، خاتونِ جنت سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے رشتہ کے لیے حضرت علی المرتـضیٰ رضی اﷲ عنہ کو تیار کرنے والے، پھر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی چوکھٹ پر حاضر ہو کر حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے نسبت کی بات کرنے والے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے لیے رخصتی کے وقت سامانِ جہیز مثلاً قمیص، اوڑھنی، چادر، چارپائی، گدے، کپڑا، مشکیزہ، لکڑی کا پیالہ اور گھڑا وغیرہ خریدنے اور پھر اپنے کندھوں پر رکھ کر درِ نبوّت میں حاضر ہونے والے جناب سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ ہی ہیں۔ جناب نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب وحی الٰہی کے مطابق خطبہ نکاح پڑھا تو گواہوں میں حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اﷲ عنہما موجود تھے۔ جناب رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیاتِ طیّبہ میں حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی والدہ سیدہ فاطمہ ؓ بنت اسد، جنھوں نے اسلام بھی قبول کیا اور ہجرت بھی کی تھی،مدینہ طیبہ میں جب ان کا انتقال ہوا تو حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے ساتھ اس صدمہ میں برابر حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ دوسرے خلفاءؓ کی طرح شریکِ غم تھے، جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود نماز جنازہ چار تکبیروں کے ساتھ پڑھائی اور ان کے لیے مغفرت و بخشش کی دعا کی اور لحد میں اتارنے لگے تو حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ بھی ساتھ تھے اور حضور علیہ السلام کے ساتھ مل کر لحد میں اتارا۔ (کشف الغُمّہ۔ مجمع الزوائد)
دورِ خلافت میں اہلِ بیت سے سلوک:
جناب صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کو اپنے دورِ خلافت میں دیکھیں تو جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرح، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اقارب رشتہ داروں کے تمام مالی حقوق اور مراعات کی ادائیگی کو کما حقہ ملحوظ خاطر رکھا، جو آپ کے کمالِ خلوص اور محبت، ہمدردی کا بیّن ثبوت ہے۔ جب آپ رضی اﷲ عنہ سے مالی حقوق کی بات کی گئی تو آپ نے قسم کھا کر فرمایا:
’’ وَاللّٰہِ لَقَرَابَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اَحَبُّ اِلَیَّ اَنْ اَصل مِنْ قَرَابَتِیْ ‘‘(بخاری)
ترجمہ: اﷲ کی قسم! حضور علیہ السلام کی رشتہ داری و قرابت مجھے اپنے رشتہ داری سے زیادہ محبوب اور مقدم ہے۔
پھر اہلِ بیت کو اموالِ مدینہ، فدک اور خیبر کے خُمس میں سے ان کا حق دورِ نبوی کی طرح برابر ملتا رہا، البتہ تقسیم بطور میراث کے فرمانِ نبوت کی وجہ سے جاری نہیں فرمائی۔
حضور علیہ السلام کے خاندان و ہاشمی بزرگوں کے ساتھ کامل حسنِ سلوک اور صلہ رحمی کو اپنوں سے زیادہ قدر دانی کے ساتھ نبھایا، جس کی گواہی خود حضرت علی رضی اﷲ عنہ دیتے ہیں، فرماتے ہیں ’’حضور علیہ السلام نے حصہ خمس میں تقسیمِ کار کے لیے مجھے اس کا متولی بنا رکھا تھی، پھر آپ کے بعد آپ کے جانشین حضرت صدیقؒ نے مجھے اس خمس کی تقسیم کا والی بنایا تو میں صدیقی دور خلافت میں بھی اس کو بنی ہاشم میں تقسیم کرتا رہا۔
وَلَّانِیْہِ اَبُوبَکرٍ فَقَسَمْتُہُ فِیْ حَیَاتِہٖ(مسند احمد، کتاب الخراج) ۔ حضرت صدیق رضی اﷲ عنہ نے یہ تقسیم خود علی المرتضیٰ کے ہاتھوں کروائی تاکہ کسی دوسرے کو زیادتی یا حقوق کے غصب و ناانصافی کا گمان ہی نہ رہے۔
سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا اور سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ:
اس حسنِ سلوک کا واضح ثبوت ہے کہ یہ حضرات، حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ سے خوش تھے، چنانچہ مسنداتِ فاطمہؓ میں امام احمدؒ نے اپنی مسند سے نقل کیا ہے:
’’ دَخَلَتْ فَاطِمَۃُ عَلٰی اَبِیْ بَکْرٍ فَقَالَتْ اَخْبَرَنِیْ رَسُوْل ﷺ اِنِّیْ اَوَّلُ اَہْلِہٖ لُحُوْقًا بِہٖ ‘‘
سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے عام گفتگو ہی نہیں بلکہ بطور پیشینگوئی ارشاد فرمائی ہوئی رازدارانہ بات محبت بھرے انداز میں اپنے محبوب کے محبوب کو سنائی، جس دوسرے محبوب (صدیق اکبرؓ) پر اعتماد اور اُنس و محبت سمجھ آتی ہے۔ چنانچہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات پُرملال کے چھے ماہ بعد سیدہ رضی اﷲ عنہا کا انتقال ہوا، انتقال سے قبل ایّامِ بیماری میں مکمل تیمارداری کرنے والی سیدنا صدیق رضی اﷲ عنہ کی اہلیہ، حضرت اسماء بنت عمیس ہیں، خود سیدنا صدیقؓ، حضرت عمرؓ کے ساتھ تشریف لاتے اور تیمار داری فرماتے۔
بیہقی شریف میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہ کی تیمارداری کے لیے حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ ان کے گھر تشریف لے گئے اور اجازت طلب کی، پھر اندر گئے اور کلام کرتے ہوئے فرمایا: ’’اﷲ کی قسم! خدا تعالیٰ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رضا کی کی خاطر اور تمھاری خوشنودی کے لیے ہم نے اپنا گھر بار، مال، دولت اور رشتہ داروں کو چھوڑا، اس طرح کا کلام جاری تھا کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا راضی ہو گئیں۔
’’ فَدَخَلَ (ابوبکر) عَلَیْہَا وَ قَالَ مَا تَرَکْتُ الدَّارَ وَالْمَالَ والْاَہْلَ وَ الْعَشِیْرَۃَ اِلَّا ابْتِغَاءَ مَرْضَاۃِ اللّٰہِ وَ مَرْضَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَ مَرْضَاتِکُمْ اَہْلَ الْبَیْتِ ثُمَّ تَرْضَّاھَا حَتَّی رَضِیَتْ ‘‘(السنن الکبری للبیہقی)
جنازہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا اور امامتِ صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ:
حضرت صدیق رضی اﷲ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں جناب علی المرتضیٰ کو اپنا خاص وزیر و مشیر بنا رکھا تھا، فقہی مسائل بیان کرنے اور فتویٰ دینے میں، جنگی معاملات کے مشوروں میں، فوجی نگرانیوں، ملکی حفاظتی تدابیر میں، وہ عملاً شریک تھے۔ اسی طرح حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی بغیر جبر و اکراہ کے برضا بیعت کر کے، نمازیں بھی ان کے پیچھے پڑھتے، حتیٰ کہ جب سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا انتقال ہوا، نماز جنازہ کے صفیں تیار ہوئیں تو خود حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے ہاتھ پکڑ کر حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کو آگے کیا اور فرمایا، آپ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے جانشین و خلیفہ ہیں، میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا ہے ’’ مَا یَنْبَغِیْ لَقَوْمٍ فِیْہِمْ اَبُوْبَکْرٍ اَنْ یَّؤمّہُمْ غَیْرَہُ ‘‘ چنانچہ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ آگے بڑھے اور چار تکبیروں کے ساتھ سیدہ پر نماز جنازہ ادا فرمائی۔
عرب کا مشہور مقولہ ہے ’’ صَاحِبُ الْبَیْت اَدْرَیٰ بِمَا فِیْہِ ‘‘ یعنی گھر والا گھر کے حالات کو دوسروں سے زیادہ واقفیت رکھنے والا ہوتا ہے۔ اب خود حضور علیہ السلام کے گھر کے افراد کی زبانی سنیے کہ جناب صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کو انھوں نے کیسا پایا اور حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے ان کے ساتھ کیا سلوک فرمایا۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کی گواہی، حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے حق میں:
حضرت علی رضی اﷲ عنہ منبر پر تشریف فرما تھے اور لوگوں سے فرمانے لگے: ’’لوگو! ابوبکر بڑے درد مند، نرم دل اور اﷲ کی طرف رجوع کرنے والے تھے‘‘۔ ایک موقع پر آپ نے سوال کے جواب میں فرمایا: ’’ ابوبکرؓ و عمرؓ اُمّت کے لیے ہدایت کے امام اور رہنما تھے، لوگوں کی اصلاح کرنے والے تھے، نیک کاموں میں کامیاب اور کامران تھے‘‘۔
’’قیامت تک بعد میں آنے والے اور حکام پر اﷲ تعالیٰ نے ان دونوں کو حجت و دلیل بنا دیا، اﷲ کی قسم! یہ دونوں سب پر سبقت لے گئے اور بعد والوں کو اخلاص اور تقویٰ میں، مشقت میں ڈال گئے‘‘۔ وَالَّذِیْ جَآءَ بِالْحَقِّ سے مراد حضور علیہ السلام ہیں اور وَ صَدَّقَ بِہٖ سے مراد ابوبکر رضی اﷲ عنہ ہیں۔ ایک موقع پر فرمایا یہ دونوں ستر (۷۰)آدمیوں کے اُس وفد میں شامل ہیں، جو قیامت کے روز حضور علیہ السلام کے ساتھ ہو کر اﷲ کی جناب میں پہنچے گا، ان دونوں کو عالم ارواح میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مانگا تھا، لیکن یہ نبی کریم علیہ السلام کو عطا کیے گئے۔
میں نے حضور علیہ السلام سے سنا ہے ’’میری بعثت سے لے کر قیامت تک جو لوگ ایمان لائیں گے، ان سب کا ثواب اﷲ نے (اے ابوبکر) تجھے عطا فرما دیا ہے‘‘۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ اس امت میں سے جنت میں سب سے پہلے حضرت ابو بکر داخل ہوں گے۔ قَالَ عَلِیٌّ اِنَّ اَوَّلَ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مِنْ ہَذہِ الْاُمَّۃِ اَبوبکْرٍ۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے عرض کیا گیا کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو کس طرح صحابہ رضی اﷲ عنہ نے مقدم کر دیا، تو آپ نے سائل سے فرمایا: ’’تم جانتے نہیں ہو، ابوبکرؓ مجھ سے چار چیزوں میں سبقت کر گئے، ایک نماز کی امامت میں (چنانچہ حضور علیہ السلام کی زندگی میں آپ نے ۲۱ نمازیں پڑھائیں، پھر وفات کے بعد بالاتفاق خلیفہ بلافصل بن کر مستقل امامت کروائی)، دوسرا ہجرت کرنے میں، تیسرا غار کی رفاقت میں، چوتھا اسلام کے اظہار اور اس کی اشاعت میں۔ تم نہیں جانتے اﷲ نے ابوبکرؓ کے حق میں ان کی مدح فرمائی، پھر یہ آیت پڑھی: اِلَّا تَنْصُرُوْہُ……الخ۔‘‘
ایک روایت میں قسم کھا کر فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ’’ مَا اسْتَبَقْنَا اِلٰی خیْرٍ قَطُّ اِلَّا سَبَقَنَا اِلَیْہِ اَبُوْبَکْرٍ ‘‘ جب بھی ہم نے کسی نیک کام کی طرف سبقت کی، ابوبکرؓ ہم سے آگے بڑھ گئے۔
’’ابوبکرؓ و عمرؓ زیادہ عمر والے اہل جنت کے سردار ہیں‘‘۔ ابوبکرؓ وہ ہیں جنھوں نے اوّل قرآن کو دو تختیوں کے درمیان محفوظ کیا۔ جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا سے گئے تو ہم نے اپنے دینی معاملہ میں غور فر کیا تو معلوم ہوا کہ رسولِ اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نماز میں ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو باقی لوگوں سے مقدم کیا، پس ہم دنیاوی امور کے لیے بھی اس شخص پر راضی ہو گئے، جس کو رسولِ خدا نے ہمارے دین کے لیے پسند فرمایا تھا تو ہم نے ابوبکر کو مقدم کیا۔ (طبقات ابن سعد)
جناب حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما سے محبت:
جناب حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما سے بھی بے پناہ محبت و شفقت فرماتے تھے۔ حضرت عقبہ بن حارث رضی اﷲ عنہ نقل کرتے ہیں، حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نمازِ عصر کے بعد مسجد سے نکلے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ بھی آپ کے ہمراہ تھے، حضرت حسن بن علیؓ کے پاس سے گزرے، وہ کھیل رہے تھے، سنت مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے مطابق کندھے پر اٹھایا اور فرمانے لگے، علی بیٹا تو آپ کا ہے، لیکن اس میں مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کا حسن چھلکتا ہے، یہ سن کر حضرت علی رضی اﷲ عنہ مسکرانے لگے (مشکوٰۃ۔ بخاری)۔
حضرت صدیق رضی اﷲ عنہ کے زمانہ خلافت میں حیرہ کی فتح سے طلیسان کی قیمتی چادریں آئیں، تو آپ نے حسنین کریمینؓ کو عنایت فرما کر حسن سلوک کا درس دیا (فتوح البلدان)۔ خود حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اِنَّ اَبَا بَکْرٍ مِنِّی بِمَنْزلَۃِ الْسَّمْعِ وَ اَنَّ عُمَرَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ الْبَصَرِ ‘‘۔
حضرت عبداﷲ بن حسن بن علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کا بیان:
حضرت حسن المجتبیٰ رضی اﷲ عنہ کی اولاد میں ان کے ایک صاحبزادے عبداﷲ ہیں، ان سے شیخینؓ کے بارے سوال کیا گیا تو فرمانے لگے : ’’اﷲ ان دونوں بزرگوں پر رحمت و سلامتی نازل فرمائے، جو شخص ان کے حق میں ترحّم و شفقت کے کلمات کہنے روا نہیں رکھتا، اﷲ اس پر رحمت ہی نہ کرے‘‘۔ اہلِ کوفہ کے استفسار پر کہنے لگے: ’’ اَنَّہُمَا عِنْدِیْ اَفْضَلُ مِنْ عَلَیٍّ ‘‘یعنی میں تو ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما کو علی رضی اﷲ عنہ سے بھی افضل یقین کرتا ہوں۔
(فضائل ابی بکر الصدیق۔ ابو طالب العشاری)
سیدنا محمد بن حنفیہ بن علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کا بیان:
یہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے صاحبزادے، حسنین کریمین کے بعد آپ کی اولاد میں سب سے افضل ہیں، ان کا یہ ارشاد ۸۰ سے زائد سندوں سے ثابت ہے، فرماتے ہیں: ’’میں نے اپنے والد علی المرتضیٰ کو کہا ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل شخص کون ہے تو فرمایا: وہ ابوبکرؓ ہیں‘‘۔
(کنز العُمّال)
سیدنا زین العابدین علی بن حسین رضی اﷲ عنہما کا بیان:
سیدنا زین العابدین نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا: ’’ابوبکرؓ و عمرؓ کا نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاں وہی مقام ہے، جو اس وقت ہے یعنی اس عالم اور اُس عالم میں ان کو نبی کا قرب اور نزدیکی حاصل ہے۔ جیسے دنیا میں اکٹھے تھے، ویسے اب بھی روضے میں اکٹھے ہیں‘‘۔
سیدنا محمد باقر کا بیان:
سیدنا زین العابدین کے دوسرے لڑکے محمد باقر فرماتے ہیں: ’’جو شخص ابوبکرؓ و عمرؓ کی فضیلت اور رتبہ کو نہیں پہچانتا، وہ سنتِ نبوی سے جاہل ہے‘‘ (حلیۃ الاولیاء) ۔
آپ ہی کا فرمان ہے کہ ’’میں نے اہلِ بیت سے جس شخص کو پایا، وہ ان دونوں سے محبت و دوستی رکھتا تھا‘‘(طبقات۔ ریاض النضرۃ)۔
آپ نے فرمایا: ’’حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اﷲ عنہما کے حق میں کچھ لوگ کمی و بیشی کرتے ہیں، ان لوگوں کو میری طرف سے یہ پیغام پہنچا دو، اﷲ گواہ ہے، میں ایسی قوم سے بری و بے زار ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر مجھے اس قوم پر ولایت و حکومت حاصل ہو گی، تو میں ان کی خونریزی اور قتل کر کے اﷲ کے ہاں تقرب حاصل کروں گا۔ لَانَالتْنِی شَفَاعَۃُ مُحَمَّدٍ ، مجھے تو حضور علیہ السلام کی شفاعت نصیب نہ ہو، اگر میں ان حضرات کے حق میں کلمات خیر ادا نہ کروں۔ (ریاض النضرۃ)
جانشین مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کو جیسے اہلِ بیت سے پیار تھا، اسی طرح اہلِ بیت کو بھی آپ کی ذات پر مکمل اعتماد اور محبت تھی۔ ان میں کسی بھی قسم کی مناقشت و مجادلت نہ تھی، اﷲ کریم ہمیں بھی ان کے اُسوہ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔