مولانا مفتی محمد عبد اﷲ شارق
ایک خالی الذہن آدمی کو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں ایک بہت بڑا عنصر جو نظر آتا ہے، وہ ذکر اﷲ، یادِ الہی اور خدا مستی کا عنصر ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دن اور رات، آپ کی نشست وبرخواست، آپ کی آمد ورفت، آپ کی دعوت، آپ کی تعلیم وتربیت، آپ کا جہاد، لوگوں سے میل ملاپ، سونا اور جاگنا، کھانا اور پینا، حوائجِ ضروریہ کی ادائیگی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی جلوت اور خلوت، آپ کا چلنا اور رکنا، دیکھنا اور سننا…… غرضیکہ کوئی بھی عمل ذکر اﷲ اور یادِ الہی کے عنصر سے خالی نہ تھا۔ ذکر اﷲ اور یادِ الہی کا مفہوم صرف یہ نہیں کہ آدمی ہر وقت ’’تسبیح‘‘ پھیرتا رہے، درحقیقت یہ ایک کیفیت ہے جو قلب پہ طاری ہوتی ہے اور انسان اﷲ کے رنگ میں نہا جاتا ہے، پھر وہ آسمان کو دیکھتا ہے تو خدا یاد آتا ہے، برستی بارش، تپتی دھوپ اور بدلتے ہوئے ہر موسم میں اسے خدا کا نور نظر آتا ہے۔ نماز میں تو استحضار ہوتا ہی ہے، بیوی بچوں کے ساتھ خوش دلی کرتے ہوئے بھی اس کا دل غافل نہیں ہوتا بلکہ احساسِ تشکر کی ایک کیفیت دل پہ طاری ہوتی ہے اور بیوی بچوں کو خدا ہی کی ایک نعمت سمجھتے ہوئے ان کی قدر دانی اور دل جوئی کرتا ہے۔ کھانا کھاتے ہوئے ایسی وضع اور ہیئت اختیار کرتا ہے کہ جیسے کوئی غلام اپنے آقا کے سامنے بیٹھ کر کھا رہا ہو، چلتا ہے تو قدم عاجزی سے اٹھتے ہیں اور نگاہیں نیچی ہوتی ہیں، اس کی ہر اداء میں بندگی اور خدا مستی کی ایک شان ہوتی ہے۔ ذکرِ الہی کبھی تو بہ وندامت، کبھی توکل وتبتل، کبھی ہیبت ومرعوبیت، کبھی محبت وفدائیت ، کبھی خوف وخشیت اور کبھی تشکر واحسان مندی کی مختلف شکلوں میں اس کے قلب پر طاری ہوتا رہتا ہے۔
ذکر اﷲ کی اہمیت وفضیلت کیا ہے اس کے لئے صرف دو تین حدیثوں کو سمجھ کر پڑھ لینا کافی ہے: ’’کوئی’’بیٹھنا‘‘ اور ’’لیٹنا‘‘ جب اس میں اﷲ کی یاد نہ ہو تو وہ بیٹھنا اور لیٹنا خسارہ ونقصان کا باعث ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا: ’’لوگ جب کسی جگہ بیٹھیں اور اپنی اس نشست میں اﷲ کا کوئی ذکر نہ کریں تو ان کی یہ مجلس مردہ گدھے کی طرح ہے اور ان کے لئے حسرت وارمان کا باعث بنے گی۔‘‘ (ابوداود) ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا: ’’کیا میں تمہیں ایسا عمل بتاؤں جو جو تمہارے اعمال میں سب سے افضل اور صدقہ وقتال سے بھی بڑھ کر ہے ‘صحابہ نے عرض کیا کہ ’’جی ضرور۔‘‘ ارشاد فرمایا کہ ’’وہ اﷲ کی یاد ہے۔‘‘ (جامع الترمذی) وجہ صاف ظاہر ہے کہ اﷲ کا ذکر بذاتِ خود ایک مستقل عمل ہے، جبکہ صدقہ وقتال اپنی مقبولیت میں ذکر اﷲ کے محتاج ہیں، یعنی اﷲ کی یاد ہو اور اس کی رضا مطلوب ہو تو صدقہ وقتال کی قبولیت کے لئے یہ شرط ہے۔ قرآنِ مجید میں مومنوں کی یہ ایک مستقل صفت بیان فرمائی گئی ہے کہ ’’وہ کھڑے ہوئے، بیٹھے ہوئے اور لیٹے ہوئے، گویا ہر حال میں اﷲ کو یاد کرتے ہیں۔‘‘
دعاء بھی ذکر کا حصہ ہے اور ذکر کی ہی ایک شکل ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی جانب سے مختلف اوقات میں موقع بہ موقع پڑھے جانے والے اذکار اور ادعیہ کا ایک بڑا خزانہ امت تک پہنچا ہے۔ ان اذکار اور دعاؤں کو یاد کرنا اور موقع بہ موقع پڑھنا بڑی سعادت کی بات ہے اور ہم میں سے بہت سے لوگ یہ کرتے بھی ہیں۔ لیکن یہ دعائیں کس احساس اور اضطراب کے ساتھ پڑھنی چاہئیں، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے وہ کون سے جذبا ت تھے جو ان دعاؤں کی صورت میں ہمارے سامنے ظاہر ہوئے، ان دعاؤں کو سمجھ کر پڑھنے سے ہم اپنے سیرت وکردار میں کیا مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں، آئیے ہم ان پہلوؤں پر بھی تھوڑا غور کرلیں تاکہ ان دعاؤں کی صحیح قدر وقیمت کا ہمیں کچھ اندازہ ہوجائے۔
دعا کے معنی ہیں ’’مانگنا‘‘ اور مانگتا آدمی وہ چیز ہے جس کے حصول کی فکر اس کے سر پہ سوار ہوکہ یہ کسی بھی طرح مجھے حاصل ہوجائے۔ اس پہلو اور زاویہ سے اگر ماثور اذکار وادعیہ کو دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی فکر مندی کیا تھی آپ کی کڑھن اور تڑپ کیا ہوتی تھی آپ کے دل میں کن چیزوں کی طلب، جستجو اور اشتہاء ہوتی تھی جن کے حصول اور بقاء کے لئے آپ نے دعائیں کیں۔ آپ کی اکثر دعائیں غالبا وہ ہیں کہ جن میں آپ نے اﷲ سے اﷲ کی محبت مانگی ہے، اس کی رضا مانگی ہے، اس کا خوف مانگاہے، تعلق مع اﷲ کے آداب اور قرینے مانگے ہیں، آخرت مانگی ہے، جنت مانگی ہے، جہنم، شیطان اور نفس سے پناہ مانگی ہے، اﷲ کے احکامات کی پابندی مانگی ہے، یہ مانگا ہے کہ میرا شمار توابین، اہلِ طہارت اور اہلِ نجات میں ہو، اعضاء وجوارح کو نورِا یمان اور نورِ ایقان عطا ہواور آخرت کے مراحل آسان ہوں وغیرہ وغیرہ۔ ماثور دعاؤں کی کوئی بھی کتاب اٹھا لیجئے اور ترجمہ کو سمجھ کر پڑھنے کی کشش کیجئے، آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارے حضور کن چیزوں کے لئے فکر مند رہا کرتے تھے اور کون سے افکار آپ کو مضطرب وپریشان رکھتے تھے؟ کیا وہی افکار مجھے بھی لاحق ہیں کیا میں بھی انہی افکار میں دن اور رات غلطاں وپیچاں رہتا ہوں؟ ہم رٹو طوطوں کے اندر فکرمندیاں تو ساری کی ساری دنیا کی ہوتی ہیں یا پھر دین کے نام پر مسلکی نوعیت کے کچھ خود ساختہ تنازعات ومفادات کی، لیکن ہاتھ اٹھا کر مانگتے وہ عربی دعائیں ہیں جو محمدِ عربی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مانگی ہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہ سے کسی نے دریافت کیا کہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوہ اخلاق کیا تھے آپ نے جواب دیا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے آپ کا اسوۂ واخلاق ’’قرآنِ کریم‘‘ تھا۔ (صحیح مسلم)ہم اس کو تھوڑا واضح کرتے ہیں۔ دیکھئے، قرآن کچھ چیزوں کو بیان کرتا ہے، بار بار کرتا ہے اور قرآنی آیات کی باقاعدہ تلاوت کا حکم دے کر ان چیزوں کو بار بار ہمارے کانوں میں ڈالنا چاہتا ہے، یعنی گویا ان چند چیزوں کے بارہ میں ہمارے اندر کل وقتی فکر مندی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اب قرآنی آیات کو دیکھئے اور پھر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعاؤں کو دیکھئے، آپ کو معلوم ہوگا کہ قرآن جن چیزوں کی چاہت وفکرمندی ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے اور جن کی فکرمندی پیدا کرنے پہ بہت زیادہ زور دیتا ہے، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعائیں بعینہ اس فکرمندی کا آئینہ ہیں اور آپ کی دعائیں سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کی وہ حدیث یاد دلاتی ہیں جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا ’’خلق‘‘ (اسوۂ واخلاق) قرآن تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن جو ایک ایک امر کو باربار بیان کرتا ہے، اس کی باتیں محض سن لینے اور گھس گھسائے انداز میں عمل کرلینے کے لئے نہیں، بلکہ اس لئے ہیں کہ ان کی فکرمندی ہمارے سر پہ سوار ہوجائے، ان امور کی اشتہاء اور جستجو ہمارے اندر پیدا ہوجائے، دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں تو مانگنے کو پہلے پہلے یہی چیزیں یاد آجائیں اور ہم لفظ بدل بدل کر خدا سے وہ چیزیں مانگیں اور مانگتے رہیں۔ نبوی دعاؤں کو یاد کرتے ہوئے، ان دعاؤں میں مانگی گئی چیزوں کے حصول کے لئے فکرمندی اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش بھی ہم کرلیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نبوی دعاؤں کی قدروقیمت کو کچھ کچھ سمجھنے لگے ہیں۔
قرآنِ کریم میں بھی دعاؤں کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ موجود ہے، یہ بھی دراصل ہمارے افکار کو فکرمندی کایہی خاص رخ دیتی ہیں۔ مثلا ایک مثال پہ غور کیجئے،اﷲ تعالی نے قرآنِ مجید میں سیدنا ابرہیم علیہ السلام کی ایک دعا نقل فرمائی ہے: ’’رب اجعلنی مقیم الصلوۃ ومن ذریتی ربنا وتقبل دعاء‘‘ (اے پرودگار! مجھے اور میری اولاد کو نماز ٹھیک ٹھیک ادا کرنے والا بنا دیجئے۔) اس دعا کی شکل میں گویا اﷲ تعالی نے ہمیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی فکرمندی کے بارہ میں یاد دہانی کرائی ہے کہ ان جیسا عظیم اورمقبول بندہ بھی نماز پڑھنے کے باوجود اس کی اصلاح اور اس پہ استقامت کے لئے فکرمند رہتا تھا۔ کیا ہمارے اندر بھی اپنی نماز کے لئے اتنی فکرمندی ہے یا خود کو نمازی سمجھنے کے زعم میں مبتلا ہیں اسی طرح قرآن ہی میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ایک اور دعا بیان فرمائی گئی ہے جو انہوں نے اور سیدنا ااسماعیل علیہ السلام نے کعبہ تعمیر کرنے کے بعد کی: ’’ربنا تقبل منا‘‘ (اے پروردگار! ہمارے اس عمل کو قبول کرلیجئے۔) یہ دعا بتلاتی ہے کہ اﷲ کے مقبول بندے عمل کرکے بھی اس کی قبولیت کے لئے فکرمندہوتے تھے۔ انہی دو بزرگوں کی ایک اور دعا قرآن میں مذکور ہے: ’’ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک وارنا مناسکنا وتب علینا‘‘ (اے پروردگار! ہمیں اپنا فرماں بردار بنا دیجئے، ہماری اولادوں میں اپنا فرماں بردار گروہ پیدا کیجئے، ہمیں اپنی پرستش کے قرینے سکھادیجئے اور ہمارے اوپر نگاہِ رحمت ڈال دیجئے۔) ہم دیکھیں کہ ان بزرگ انبیاء کی فکر مندیاں کیا تھیں اور ہمارے دماغوں میں کن فکرمندیوں نے جالے بنا رکھے ہیں ہمیں ایک تو دنیاوی تفکرات لاحق ہیں اور دوسری طرف کچھ خود ساختہ ’’دینی تفکرات‘‘ نے ہمیں گھیر رکھا ہوتا ہے، کیا ہم خود کو ان تفکرات کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے تیار ہیں جن کے سانچے میں اگر انسان ڈھل جائے تو اس پہ ’’صبغۃ اﷲ‘‘ (اﷲ کا رنگ) چڑھ جاتا ہے
یہ تو رہا ماثور دعاؤں کا ایک پہلو، ایک اور پہلو پہ غور کیجئے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے منقول موقع بہ موقع جاگنے سے پہلے، جاگنے کے بعد، سفر سے پہلے، سفر کے بعد، گھر سے نکلتے ہوئے، گھر میں داخل ہوتے ہوئے، اترائی میں چلتے ہوئے، بلندی کی طرف چڑھتے ہوئے، کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد، کپڑے پہنتے ہوئے، نیا لباس پہنتے ہوئے، کسی کو نئے کپڑے پہنے ہوئے دیکھ کر، کپڑے اتارنے سے پہلے، قضائے حاجت سے پہلے، قضائے حاجت کے بعد، وضو سے پہلے، وضو کے بعد، مسجد کی طرف جاتے ہوئے، مسجد میں داخل ہوتے ہوئے، مسجد سے نکلتے ہوئے، صبح روشن ہونے پر، شام کے ڈھلنے پر، نیند میں پہلو بدلنے پر، کسی سے تعزیت کرتے ہوئے، بیماری کی حالت میں، قبرستان کا سامنا ہونے پر، میت کو دفن کرتے ہوئے، ہوا کے چلنے پر، نئے چاند کو دیکھنے پر، روزہ کھولتے وقت، کسی کا مہمان بننے پر، نئے موسم کا پھل دیکھنے پر، چھینک آنے پر، نئے شادی شدہ آدمی کو دیکھنے پر، جنسی اختلاط سے پہلے، غصہ آنے پر، مصیبت زدہ کو دیکھنے پر، کسی مجلس میں بیٹھنے پر، مجلس کے اختتام پر، سواری پر سوار ہوتے وقت، کسی بستی میں داخل ہوتے ہوئے، بازار میں داخل ہونے پر، سواری کے گرنے پر، خوشی کے آنے پر، مرغ کی ’’بانگ‘‘ سننے پر، یا گدھے کے ہینگنے ،کتوں کے بھونکنے اور معاصی ومصائب کی مختلف شکلیں یاد آنے پر ان سے پناہ کے لئے مانگی گئی ساری کی ساری دعائیں، تسبیحات اور تکبیرات یہ بتاتی ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہمہ وقت اﷲ کی طرف متوجہ رہتے تھے، آپ کے قلبِ مبارک پر ذکر کی ایک دائمی کیفیت طاری رہتی تھی، کسی چیز کا دیکھنا آپ کو یادِ الہی سے غافل نہیں کرسکتا تھا، اترائی میں اترتے ہوئے سبحان اﷲ اور چڑھا ئی چڑھتے ہوئے اﷲ اکبر گویا یوں ہے کہ اترائی میں اترتے ہوئے آپ کی نگاہ اس کی طرف چلی گئی جو ہر قسم کی پستی اور اترائی سے پاک ہے اور بے اختیار آپ کی زبان پر سبحان اﷲ کا کلمہ جاری ہوگیاکہ وہ ہر عیب سے پاک ہے، اسی طرح اونچائی کی طرف جاتے ہوئے گویا آپ کی توجہ بے اختیار اس کی طرف چلی گئی جو ہر اونچائی سے اونچا ہے اور آپ کی زبان پر ’’اﷲ اکبر‘‘ کا کلمہ جاری ہوگیا۔ باقی دعاؤں کا معاملہ بھی تقریبا ایسا ہی ہے۔ یعنی ایسا نہیں کہ آپ کا ذکر آپ کو اِدھر اُدھر دیکھنے سے روک دیتا تھا، نہیں، بلکہ معاملہ اس کے برعکس تھا کہ کوئی بھی موقع اور کسی بھی چیز کا دیکھنا بذاتِ خود یادِ الہی کا موجب بن جاتا تھا اور آپ کو اﷲ کی طرف متوجہ کرتا تھا،یوں آپ ہر موقع کی مناسبت سے دعا کرنے کے ساتھ اﷲ کو یاد کرتے رہتے تھے۔ اب ہم بھی سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے ہوئے سبحان اﷲ اور اﷲ اکبر پڑھتے رہتے ہیں، لیکن کتنے ہیں جو ان کی معنویت پر غور کرتے ہیں اور سیرتِ نبوی کی روشنی میں خود کو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی باطنی اتباع اور ہر معاملہ میں خود کو توجہ الی اﷲ کا خوگر بنانے کی سعی وفکر کرتے ہیں
ہمارا معاملہ یہ ہے کہ نماز میں بھی اﷲ کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔ خیال کیجئے، ماثوردعائیں اس لیے نہیں کہ ہم محض رٹو طوطے بن کر ان کو یاد کرلیں اگرچہ اس قدر بھی برکت سے خالی نہیں ہوگا ان شاء اﷲ۔تاہم ان کی اصل روح پر بھی غور کیجئے جو یہ ہے کہ ہم اپنے قلب کو توجہ الی اﷲ کا خوگر بنائیں اور ہمارا دل ہر آن اپنے خالق کے ساتھ متصل اور اس کی یاد سے سرشار ہو۔ ان دعاؤں کی اصل قدر دانی یہی ہے کہ ہم ان کے ذریعہ اپنے قلب کو توجہ الی اﷲ کا عادی بنائیں۔ یہ دولت پانے کے لیے اپنے نفس کی نافرمانی کرنی پڑے گی اور اپنی سوچوں پر پہرہ بٹھانا پڑے گا، جب تک کہ وہ اطاعت پر مائل نہیں ہوجاتے۔ موقع بہ موقع کی یہ مسنون تسبیحات، تکبیرات اور دعائیں محض کہہ لینے کی باتیں نہیں، ان کا اصل مزا تب ہے کہ جب یہ دل کی صدا بن جائیں اور ہماری نگاہ چیزوں اور موقعوں کو اسی زاویہ سے دیکھنے کی عادی بن جائے جس کی طرف یہ دعائیں ہماری راہ نمائی کرتی ہیں۔ ان دعاؤں کو سمجھ کر پڑھنا انسان کو شہود وحضور کی کیفیت سے آشنا کرتا ہے، قلب ونظر کو ’’حنیف‘‘ بناتا ہے اور بارگاہِ ایزدی کی یکسوئی انسان کو نصیب ہوتی ہے۔
نبوی دعاؤں کے اگر اس پہلو پر غور کیا جائے کہ یہ انسان کو کثرتِ ذکر کی راہ پر ڈالتی ہیں اور کسی حال میں انسان کو اپنے خالق سے غافل نہیں ہونی دیتیں تو گذشتہ پہلو کی طرح اس حوالہ سے بھی نبوی دعائیں دراصل قرآنی تعلیمات کا پرتو نظر آتی ہیں اور سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کے اس ارشاد کو یاد دلاتی ہیں کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا اسوہ اور نظام العمل قرآن تھا کیونکہ قرآن ہی کی تعلیم ہے کہ ’’اﷲ کو کثرت سے یاد کرو‘‘ جبکہ ایک دوسری جگہ اسے اہل ایمان کی صفت بتا یا کہ وہ اﷲ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہوتے ہیں۔اﷲ کو کثرت سے یاد کرنا انسان کو ’’کندن‘‘بنا دیتا ہے، اس کے ذریعہ سے انسان کا اپنے رب سے ایک خصوصی تعلق قائم ہوجاتا ہے، گناہوں سے طبیعت نفور ہونے لگتی ہے اور ان سے بچنے کا ایک خود کار داعیہ دل میں پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔‘‘ ہم لوگ اس پر حیران ہوتے ہیں کہ کیا نماز واقعی انسان کو برے کاموں سے روک سکتی ہے؟ اﷲ تعالی نے اس فرمان کے فورا بعد گویا ہماری اسی حیرت کا ازالہ کرنے کے لیے فرمایا ہے کہ ’’ولذکر اﷲ اکبر‘‘ یعنی تمہیں نماز کی اتنی سی افادیت پر حیرت نہیں ہونی چاہئے، اﷲ کا ذکر اور اﷲ کی یاد اس سے بھی بڑی شان رکھتی ہے، یہ حقیقی کیمیا گر ہے جو خاکی انسان کو نورانی انسان بنا دیتی ہے۔ گویا اصل چیز اﷲ کا ذکر ہے، اگر ہماری نماز یادِ الہی سے خالی ہے تو پھر ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ ہماری نماز ہمیں برے کاموں سے روکتی کیوں نہیں
ماثور دعاؤں کی ایک اور بڑی خوبی یہ ہے کہ ان میں بے پناہ جامعیت پائی جاتی ہے، اتنی کہ شاید ہمارے الفاظ میں کبھی بھی اتنی جامعیت پیدا نہ ہوسکے۔ ہم ایک مثال پر غور کرتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ کسی کو اپنے نکاح کے لیے رشتہ کی تلاش ہے اور اس سلسلہ میں وہ اﷲ سے دعا مانگنا چاہتا ہے کہ میری بیوی ایسی اور ویسی ہو تو وہ کیا کہے گا – اگر وہ یہ کہتا ہے کہ میری بیوی خوب صورت ہو تو یہ ایک ناقص بات ہے، یہ عین ممکن ہے کہ بیوی خوب صورت ہوکر بھی اس کے لیے اچھی ثابت نہ ہو اور اسے ہر وقت ستاتی رہے۔ ایسی صورت میں اس کی خوب صورتی کا اسے کیا فائدہ ہوگا؟
– اگر یہ کہتا ہے کہ وہ مالدار یا اونچے خاندان کی ہو تو یہ بھی کافی نہیں کیونکہ بیوی اگر مالدار اور بڑے گھرانے سے آئے تو ہرگز ضروری نہیں کہ شوہر کے لیے بھی خوشیاں ہی لے کر آئے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ان کے درمیان اچھا نباہ نہ ہوسکے۔ ایسی صورت میں اس کی مالداری اور شریف النسل ہونے سے اس کی ذات کو کیا فائدپہنچے گا
– اگر یہ کہتا ہے کہ وہ صالح، نیک سیرت اور میری فرماں بردار ہو تو اگرچہ یہ دعا بڑی خوب صورت ہے، مگر اس میں بھی یہ ضروری نہیں کہ ان کے مابین نباہ بھی اچھے طریقے سے ہوسکے۔ یہ عین ممکن ہے کہ وہ تو نیک سیرت ہو لیکن یہ شوہر خود اپنی کم ظرفی اور بد مزاجی کی وجہ سے اس کی ٹھیک طرح قدردانی نہ کر پائے اور یوں ان کا باہمی رشتہ خوشیوں سے خالی رہے۔ ایسی صورت میں بیوی نیک سیرت ہونے کے باوجود اس کا گھرانہ خوش حال نہیں ہوگا۔ہم ناقص لوگوں کے ساتھ بعض دفعہ ایسے ہی ہوتا ہے کہ ہم اﷲ سے نیک رشتے تو مانگتے ہیں، مگر خود اپنے آپ کو نیک بنانے کی فکر نہیں کرتے جس کی وجہ سے اگر نیک رشتہ مل بھی جائے تو اس کی ٹھیک سے قدر نہیں کر پاتے۔
– اگر یہ کہتا ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کریں اور ہمارا نباہ عمدہ طریقے سے ہوجائے تو ہماری نظر میں یہ الفاظ بھی کافی وافی نہیں۔ ایک مومن کی نگاہ میں رہنے کا جہان صرف یہ نہیں، بلکہ اصل جہان کے مقابلہ میں تو یہ کچھ ہے ہی نہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ دنیا میں ان کا نباہ اچھے اورعمدہ طریقے سے ہوجائے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے خوش رہیں، مگر آنے والی بیوی کی وجہ سے اس کی آخرت برباد ہوجائے اور وہ نیکیوں کے راستہ میں اس کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرنے کا ذریعہ بن جائے۔ ایسی صورت میں اگر آخرت کو کھو کر اس نے دنیا پا بھی لی تو ذرا سوچئے کہ ’’کیا‘‘ پایا؟
اب ذرا دیکھئے کہ اس مقصد کے لیے پروردگار نے بھی قرآن میں اپنے بندوں کو ایک دعاسکھائی ہے۔ وہ دعا یہ ہے کہ ’’ربنا ہب لنا من ازواجنا وذریاتنا قرۃ اعین‘‘ (اے ہمارے پروردگار! ہمیں وہ بیویاں اور اولادیں عطا کیجئے جو ہمارے لیے ’’آنکھوں کی ٹھنڈک‘‘ ہوں۔) ذرا غور کیجئے کہ کیسا بلیغ لفظ استعمال کیا گیا ہے، ’’آنکھوں کی ٹھنڈک‘‘ میں آخر کیا کیا نہیں آجاتا؟ اس چھوٹی سی دعا میں گویا مانگنے والے نے بیوی کی صفات از خود بیان کرنے کی بجائے یہ معاملہ خدا کے سپرد کر دیا ہے اور اس سے صرف یہ مانگا ہے کہ بیوی وہ عطا کر جو میرے لیے ذریعہء راحت ہو۔ اب ظاہر ہے کہ پروردگار جانتا ہے کہ میرے اس بندے کو کن کن چیزوں کی ضرورت اور حاجت ہے اور وہ ہمارے مزاج کی نزاکتوں سے بھی واقف ہے۔ اگر ہم غریب ہیں اور مال کے حاجت مند ہیں، اگر میرا مزاج حسن کا غیر معمولی شوقین ہے اور حسن کے بغیر بیوی خالی خالی محسوس ہوگی، یا وہ کون کون سے لوازمات ہیں جو اس مانگنے والے کے مزاج کو فرحت بخشنے کے لیے درکار ہیں ، پروردگار ان سب کو جانتا ہے اور وہ ساری چیزیں اس ایک لفظ میں آگئی ہیں، بشمول نیک سیرتی اور صلاح وتقوی کے کیونکہ جو بیوی دنیا کے اندر نیکیوں کی راہ میں رکاوٹ بنے گی، وہ آخرت میں ’’آنکھوں کی ٹھنڈک‘‘ کیسے بنے گی؟۔
توجہ کیجئے، ہم یہ نہیں کہہ ہرہے کہ پروردگار سے دعا مانگتے ہوئے ہمیں کوئی بہت ہی منطقی، کامل اور فلسفیانہ قسم کے الفاظ استعمال کرنے چاہئیں ورنہ ہمارے الفاظ محدود ہونے کی وجہ سے دعا کے نتیجہ میں ہمیں ملنے والی خوشیاں بھی ناقص رہ جائیں گی، نہیں ہرگز نہیں، اﷲ کی ذات بے انتہاء مہربان ہے اور وہ سینہ میں چھپی چاہتوں سے بھی واقف ہے۔ اگر اﷲ ہم سے ناراض نہیں اور ہم مقدور بھر عاجزی کے ساتھ اس کے سامنے اپنی التجاء پیش کر رہے ہیں تو بے شک وہ ارحم الراحمین ہے، اس کی ذات اس سے بڑی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ الفاظ کی ’’آنکھ مچولی‘‘ کھیلے، وہ جانتا ہے کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے اور ہم کیا مانگنا چاہتے ہیں، اس لیے آدمی پر امید رہے کہ میرے الفاظ ناقص ہونے کے باوجود میرا مالک میری ضرورت اور حاجت کو مجھ سے بڑھ کر سمجھ رہا ہے اور وہ اپنی رحمت کے ساتھ میری پوری پوری حاجت روائی فرمائے گا۔ گذشتہ سطور میں جامعیت کی جو بات کی گئی ہے، وہ محض اس تناظر میں ہے کہ اگر ہم جامع ترین الفاظ میں اپنے پروردگار کے آگے اپنی التجاء رکھنا چاہتے ہیں تو اس سلسلہ میں بھی ہماری مدد کے لیے ماثور دعائیں موجود ہیں۔
ماثور دعاؤں کی ایک اور باطنی تاثیر وبرکت یہ ہے کہ انسان کو خوش حالی میں بھی دعا مانگنا آجاتا ہے، ورنہ ہم جیسے ناقص اور گنہ گار لوگوں کو دعا تب ہی یاد آتی ہے کہ جب خوش حالی نہ رہے اور ہر طرف سے مصیبتوں میں گھر جائیں، بلکہ اس وقت کہ جب ہر طرف سے پھر مایوسی بھی ہوجائے۔ کسی مصیبت زدہ کو دیکھ کر اپنی حالت پر شکر گذار ہونا، اس مصیبت سے اپنے لیے عافیت مانگنا، قسم وقسم کے معاصی اور مصائب میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی ان سے پناہ چاہنا، نیکی کرکے بھی اس پر استقامت اور اس کی قبولیت کے لیے فکر مند رہنا اور اﷲ سے ہرحال میں دعا کرتے رہنا یہ ماثور دعاؤں نے ہی سکھایا ہے اور یہ ابتلاء آنے سے پہلے اس کے لیے دعا مانگنے کی شکلیں ہیں۔خوشحالی میں ہی بدحالی سے بچنے کے لیے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی سکھائی گئی ایک دعا پر غور کریں: ’’اﷲم انی اعوذ بک من زوال نعمتک وتحول عافیتک وفجاۃ نقمتک وجمیع سخطک‘‘ (اے اﷲ! میں آپ کی حفاظت چاہتا ہوں اس بات سے کہ تیری نعمتیں مجھ سے رخ موڑ جائیں، تیری عطا کردہ عافیت مصیبت میں بدل جائے، یا میرے گناہوں کی وجہ سے تیری طرف سے کوئی اچانک سزا نازل ہو جائے، میں تیری ناراضگی کی سب ہی شکلوں سے تیری ہی پناہ اور حفاظت چاہتا ہوں۔)
جب کسی سے کوئی چیز مانگنی ہو تو اپنا منہ اور اپنا رخ بھی اُدھر کو کرنا پڑتا ہے، لیکن اﷲ کے ساتھ ہمارا معاملہ عجیب ہے کہ معاذ اﷲ اس کی طرف پشت کر کے اس سے دعائیں مانگتے ہیں۔ دن رات اﷲ کی نافرمانی کرنا، اس کو اور اس کے احکام کو معاذ اﷲ خفیف سمجھنا، ذکر میں توجہ کا نہ ہونا اور دعا مانگتے ہوئے بھی سوچ کا اِ دھر اُدھر بھٹکتے رہنا، کیا یہ پشت کرنے کے مترادف نہیں؟ ہزارہا نعمتوں کو یاد کرکے کبھی بھی دل میں شکر کرنے کا خیال نہیں آتا، لیکن اگر سردی گرمی تھوڑی سی زیادہ ہوجائے تو ناشکری کے بول فورا زبان پر لپکنے لگتے ہیں، ایسا شرم ناک کردار اپنا کر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دعائیں ایسے ہی قبول ہوں جیسے بنی اسرائیل کے انبیاء کی دعائیں قبول ہوتی تھیں یا پھر ان سے بھی کچھ زیادہ۔ماثور دعائیں ہمیں خدا مستی اور عاجزی کے قرینے سکھاتی ہیں اور بتلاتی ہیں کہ اپنے پروردگار کے ساتھ ہم گنہ گاروں کے معاملہ کی نزاکتیں کیا کیا ہیں؟ وہ کتنا عظیم ہے اور ہم کتنے حقیر، وہ کتنا رحیم ہے اور ہم کتنے حق ناشناس، وہ کتنا سخی ہے اور ہم کتنے کم ظرف، وہ کتنا معاف کرنے والا ہے اور ہم کتنے ناقص!
ماثور دعاؤں کی ایک اور ان مول خوبی یہ ہے کہ یہ وہ دعائیں ہیں جنہوں نے قبولیت کے راستے ’’دیکھے‘‘ ہوئے ہیں، اسی نیت سے اگر حصولِ برکت کی خاطر ہم بھی یہی دعائیں یاد کریں اور انہی کے الفاظ میں اپنی التجاء پیش کریں تو کیا خبر کہ ہمارے حق میں بھی یہ دعائیں قبولیت سے سرفراز ہوجائیں۔ لیکن اتنا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم یہ دعائیں فقط ’’پڑھ‘‘ دیتے ہیں، حالانکہ دعائیں ’’پڑھنے‘‘ کے لیے نہیں، ’’مانگنے‘‘ کے لیے ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کے الفاظ پرھتے ہوئے ان کے ترجمہ اور مفہوم پر نظر ہونی چاہئے۔
ماثور دعائیں ایک تو یہ سبق دیتی ہیں کہ انسان کی فکرمندی کا اصل رخ آخرت کی طرف ہونا چاہئے، دوسری طرف یہ درس دیتی ہیں کہ مومن کو اپنی دنیاوی حاجات کے لیے بھی اﷲ ہی کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور اس کی پہلی نگاہ اﷲ کی طرف ہی اٹھنی چاہئے جس کے دست قدرت میں سب فیصلوں اور خزانوں کی کنجیاں ہیں۔ ایک روایت ہے کہ اگر تمہارے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اپنے رب سے مانگو!یہ گفتگو ہم ایک جملہ پر ختم کرتے ہیں جو موبائل پر ایک میسج کے ذریعہ موصول ہوا ہے اور دعا سے ہی متعلق ہے۔ جملہ ہے:’’خدا سے اپنی چاہت کم اور اپنے حق میں بہتری زیادہ مانگ، ہوسکتا ہے کہ تیری چاہت بہت تھوڑی اور تمہیں بہتری کی بہت زیادہ ضرورت ہو۔‘‘ اگر غور کیجئے تو ماثور دعائیں اس پہلو سے بھی ہماری راہ نمائی کا عظیم سامان فراہم کرتی ہیں۔ دعا ہے کہ پروردگار ہمارے ہر معاملہ میں بہتری کا فیصلہ فرما دے۔آمین! ہوسکے تو آپ اس گنہ گار کو اپنی نیک دعاؤں میں یاد کرلیں۔ والحمد ﷲ رب العلمین!