سید محمد کفیل بخاری
22مارچ کو عالمِ اسلام کی عظیم علمی شخصیت حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم پر اس وقت قاتلانہ حملہ ہوا جب وہ مسجد بیت المکرم میں نمازِ جمعہ کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ اس حملے میں مولانا کے دو محافظ شہید ہو گئے جبکہ ڈرائیور حبیب شدید زخمی ہو گیا۔ اﷲ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے مولانا محمد تقی عثمانی محفوظ رہے۔
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمِ اسلام کی عظیم علمی و روحانی شخصیت ہیں۔ وہ شریعت کورٹ کے جج اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رہے۔ اس وقت بھی عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب کے علماء نے اپنے اپنے اداروں میں انھیں رکنیت اور اہم مناصب دے رکھے ہیں۔ مولانا محمد تقی عثمانی پر قاتلانہ حملے نے ملک کے سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
ملک میں قیامِ امن اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان موجود و متحرک ہے، جبکہ اس کی مدت میں ایک بار توسیع ہو چکی ہے اور مزید توسیع کے لیے کوششیں کی جا رہیں ہیں۔ مختلف سکیورٹی اداروں، انٹیلی جنس ایجنسیوں، پولیس اور دیگر انتظامی اداروں کی موجودگی اور قیامِ امن کے دعووں کے باوجود مولانا تقی عثمانی پر حملہ اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
وطن عزیز گزشتہ پچیس برسوں سے دہشت گردوں کے نرغے اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ خصوصاً دینی طبقہ نشانے پر ہے۔ صرف کراچی میں ہی درجنوں علماء کو شہید کر کے اپنا راستہ صاف کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ مولانا حبیب اﷲ مختار، مفتی نظام الدین شامزئی، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مفتی محمد جمیل خان اور دیگر کئی علماء اور مذہبی کارکنوں کو شہید کرنے کے باوجود ظالم دہشت گردوں کا سینہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا۔
ہر قتل پر حکمران اور انتظامی افسران پہلے سے ہی لکھا ہوا ایک روایتی تعزیتی بیان جاری کر دیتے ہیں اور قاتلوں کو جلد گرفتار کرنے کی پیشگوئی کر کے یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ہم قاتلوں تک پہنچ گئے ہیں…… جلد گرفتار کر لیں گے۔ گزشتہ سال حضرت مولانا سمیع الحق کو بے دردی سے شہید کیا گیا، تب بھی حکمرانوں کا یہی دعویٰ تھا، لیکن آج تک کسی کے قاتل گرفتار ہوئے نہ انھیں سزا ہوئی۔
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ تو خالصتاً ایک علمی شخصیت ہیں۔ کسی فرقہ وارانہ اور متشددانہ سرگرمی کا کبھی حصہ نہیں رہے۔ ایک ایسی معتدل شخصیت جس نے ہمیشہ اسلام اور پاکستان کے لیے سوچا اور ملک و ملّت کے لیے بہترین خدمات انجام دیں۔ ایسی شخصیت کو بھی نشانے پر رکھنا اور راستے سے ہٹانے کی مذموم کوشش کرنا یقینا ایک گہری سازش ہے۔ اگر مولانا تقی عثمانی محفوظ نہیں تو پھر پاکستان میں کوئی دینی رہنما اور عالم محفوظ نہیں۔ مولانا تقی عثمانی نے کمال حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’میں حملہ آوروں کی ہدایت کی دعا کرتا ہوں اور انھیں دین کی دعوت دیتا ہوں‘‘
حکومتی اقدامات کی سابقہ تاریخ سے تو یہی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اس حملے کے مجرموں کا بھی کوئی سراغ نہیں ملے گا۔ جہاں سکیورٹی ادارے راؤ انوار جیسے وحشی درندے اور سی ٹی ڈی کے سفاک اہل کار پیدا کریں گے وہاں کسی مظلوم کو انصاف نہیں مل سکتا۔ راؤ انوار کا کوئی کچھ بگاڑ سکا، نہ سانحۂ ساہیوال کے مرتکب مجرم کیفر کردار کو پہنچے۔ بلکہ دونوں کو بچانے کی سرتوڑ کوششیں جاری ہیں۔ حکمران ملک میں امن کے دعوے کر رہے ہیں اور سانحات اُن کے دعووں کو جھٹلا رہے ہیں۔ قوم کو انصاف ملا نہ امن، نیشنل ایکشن پلان میں مزید توسیع کے لیے لابنگ ہو رہی ہے، سیاست دانوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، انصاف کے دعوے کیے جا رہے ہیں، دوسری طرف دہشت گردی کی یہ صورت حال ہے کہ الامان والحفیظ۔ یہی حال ملکی معیشت کا ہے۔قرضے نہ لینے کا دعویٰ کرنے والے تین سو ارب کا قرضہ لے چکے ہیں، مہنگائی عروج پر ہے، عوام کو مزید مہنگائی کی ’’نوید مسرت‘‘ سنائی جا رہی ہے۔
بجلی و گیس اور پٹرول و تیل کے نرخ بڑھا کر غریب کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے۔ چونکہ خوش قسمتی سے ہم بھی وطن عزیز کے شہری ہیں، حکمرانوں سے کچھ کہنے کا حق حکمران تو نہیں دیتے، لیکن آئین نے دیا ہے۔ وہی آئین جس میں جو کچھ موجود ہے، اسے آئین میں ہی قید کر دیا گیا ہے۔ ہم اسی آئین کی بحالی، احترام اور نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں، اُن سے جو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر آئین کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔
بات سیدھی ہے اگر مولانا تقی عثمانی جیسے امن پسند، امن کے پیغام، اتحاد و یکجہتی کے داعی و علم بردار کو زندگی کا تحفظ نہیں، جینے کا حق نہیں تو پھر حکمران انتظار کریں اس وقت کا، جب یہ حق ان کے پاس بھی نہیں رہے گا۔ خوفِ خدا کریں، ملک و قوم کے حال پر رحم کریں۔ دہشت گردوں، قاتلوں اور لٹیروں کو نہیں پکڑ سکتے تو پھر حکومت چھوڑ دیں۔
شیخ نذیر احمد رحمۃ اﷲ علیہ…… پیکر اخلاص و وفا
مجلس احرار اسلام ملتان کے قدیم، ایثار پیشہ اور مخلص و وفادار کارکن شیخ نذیر احمد رحمۃ اﷲ علیہ 28جمادی الثانی مطابق 6مارچ 2019ء بروز بدھ، ملتان میں انتقال کر گئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر کی نواحی بستی غزا میں حاجی سردار محمد مرحوم کے ہاں 1940ء میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے وقت ہجرت کر کے ان کا خاندان ملتان میں آباد ہوا۔ آپ 6بھائی اور 2بہنیں تھیں۔ شیخ نذیر احمد رحمہ اﷲ اکثر بتاتے کہ والد مرحوم نے قیامِ پاکستان سے قبل جالندھر میں حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کی تقاریر سنیں اور مجلس احرار اسلام کے جلسوں میں شریک ہوئے۔ اسی لیے گھر میں اکثر حضرت امیر شریعت کے واقعات اور باتیں ہمیں سناتے۔
1962ء میں جنرل ایوب خان مرحوم نے سیاسی جماعتوں سے پابندیاں ختم کیں تو مجلس احرار اسلام بھی بحال ہو گئی۔ انھی دنوں شیخ نذیر احمد رحمہ اﷲ اور اُن کے برادری کے اکثر لوگ مجلس احرار اسلام سے وابستہ ہوئے۔ جانشین امیر شریعت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے احیاءِ احرار، تنظیم و تشکیلِ احرار کا علَم بلند کیا ،تب وہی احرار کے روح و رواں تھے۔ یاد پڑتا ہے کہ میں نے 1963ء – 1964ء کے دور میں انھیں دیکھا۔ شیخ بشیر احمد نور محلی رحمہ اﷲ اکثر ان کے ساتھ ہوتے، جو رشتے میں شیخ نذیر احمد کے ماموں تھے۔ یہ بڑی مثالی جوڑی تھی۔ احیاءِ احرار کی جدوجہد میں دونوں کارکنوں نے عظیم کردار ادا کیا۔ ایثار، اخلاص اور مہر و وفا کی لازوال تاریخ رقم کی۔ شیخ نذیر احمد تقریباً 40سال مجلس احرار اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ اسی طرح شیخ بشیر احمد رحمہ اﷲ (نور محلی) بھی۔ وہ طویل عرصہ مجلس احرار اسلام ملتان کے صدر بھی رہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جامعہ خیر المدارس ملتان میں شیخ القراء حضرت قاری رحیم بخش پانی پتی رحمۃ اﷲ علیہ سے قرآن کریم ناظرہ پڑھا۔ جانشینِ امیر شریعت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کی صحبت نے ان میں دینی شعور بیدار کیا۔ حلال و حرام کی تمیز اور بنیادی دینی عقائد و مسائل کا علم انھی کی صحبتوں اور تقاریر کا فیض تھا۔ اپنے اور اپنے خاندان کے تمام بچوں اور بچیوں کے نام صحابہ و صحابیات رضی اﷲ عنہم کے ناموں پر رکھے۔ خاندان میں کسی بچے کی ولادت پر ایک دن حضرت ابوذر بخاری رحمہ اﷲ کی خدمت میں حاضر ہوئے، کہنے لگے شاہ جی! بچے کے لیے کوئی نام بتا دیں۔ اب تو عشرہ مبشرہ اصحاب کے اسماء بھی مکمل ہو گئے ہیں۔ صحابہ و صحابیات کے اسماء کی ایک فہرست مجھے عنایت کر دیں۔
1962ء سے 1970ء تک ملتان میں حضرت ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کے ہفتہ وار درس قرآن کریم میں باقاعدہ شرکت اور اس کا انتظام و انصرام اُن کا معمول تھا۔ وہ انتہائی بہادر، جری، بذلہ سنج اور خوش طبع انسان تھے، زندگی بھر کبھی مایوس ہوئے نہ کسی سے مرعوب۔ جماعت کے ہر مشکل وقت میں صف اوّل میں کھڑے رہے۔ اوّل و آخر سراپا احرار تھے۔ جماعت کے ساتھ تو اُن کا تعلق لازوال تھا ہی، وہ اپنے خاندان و برادری میں بھی ایک بزرگ و دانا کی حیثیت سے مانے جاتے تھے۔ فرمایا کرتے کہ خاندان کی تیس سے زائد بچیوں کی شادی کر چکا ہوں اور اس خدمت کی توفیق محض اﷲ تعالیٰ کا کرم ہے۔ خاندانِ امیر شریعت کے ساتھ تعلق اور محبت میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ ابناءِ امیر شریعت میں حضرت ابوذر بخاری رحمہ اﷲ اُن کے پیر و مرشد اور حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمہ اﷲ جگری دوست تھے۔ انھوں نے حضرت مولانا سید عطاء المؤمن بخاری رحمہ اﷲ سے بھی خوب تعلق نبھایا۔ زندگی کے آخری برسوں میں قائد احرار حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم سے محبت و رفاقت کا حق ادا کیا۔ شدید علالت کے باوجود روزانہ دارِ بنی ہاشم میں اُن سے ملاقات کے لیے تشریف لاتے۔ جس دن نہ آتے، فون پر خیریت دریافت کرتے۔ جانبین کا یہی حال تھا۔ انتقال سے چار گھنٹے قبل بھی حضرت پیر جی مدظلہٗ نے فون پر خیریت پوچھی تو دعا کی درخواست کی۔ 7مارچ کی صبح جامعہ قاسم العلوم میں وصیت کے مطابق مولانا سید عطاء المنان بخاری نے نماز جنازہ پڑھائی اور حسن پروانہ قبرستان میں مدفون ہوئے۔ پسماندگان میں تین بیٹے، محمد معاویہ، محمد مغیرہ، محمد سیف اﷲ، پانچ بیٹیاں اور تین بھائی شبیر احمد، رشید احمد اور منیر احمد سوگوار چھوڑے ہیں۔ عزیز محمد مغیرہ نے اُن کی خدمت کا حق ادا کیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ قبول فرمائے اور اجر عظیم عطا فرمائے۔ جماعت اور خاندان کے لیے اُن کی خدمات اور قربانیاں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اﷲ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے، حسنات قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ احباب ان کے لیے ایصالِ ثواب اور دعاءِ مغفرت کا خصوصی اہتمام فرمائیں۔