عرفان صدیقی
نبضِ عالم میں رواں تیری حرارت ہی تو ہے
کہ یہ عالم تیرے ہونے کے بدولت ہی تو ہے
تیرے ہی پیک ہیں سب سچے صحیفوں والے
ان کا آنا تیرے آنے کی بشارت ہی تو ہے
ہم تو ایک دھوپ کا صحرا تھے، جہاں اوس نہ پھول
ہم پہ برسا، یہ ترا ابرِ عنایت ہی تو ہے
اس فقیری میں کبھی سر نہیں جھکنے پاتا
میرا تکیہ ترا بازوئے حمایت ہی تو ہے
میں بھی گریاں ہوں اسی چوبِ شجر کی مانند
جس میں بھی جاگ اٹھے، دردِ محبت ہی تو ہے
(پیک: قاصد)