مفتی محمد عبداﷲ شارق
اعتراض کی نوعیت
مسلمانوں کے زوال کو جب ان کی بدعملیوں کے ساتھ جوڑا جائے تو بعض ذہنوں میں یہ سوال گردش کرنے لگتا ہے کہ جو کچھ بھی ہو، ہم اہلِ ایمان ہونے کی وجہ سے بہرحال اہلِ کفر سے بہتر ہیں، پس یہ پستی کیوں؟ وہ ہم سے بالا دست کیوں کیا وہ اﷲ کے محبوب ہیں اور ہم ان سے بدترہیں خود الحادِ جدید کی طرف سے بھی مسلمانوں کو یہ چیلنج کیا جاتا ہے کہ اگر خدا موجود ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے تو پھر دنیا میں مغلوب کیوں ہو سادہ لوح مسلمانوں کا یقین اپنے دین پر متزلزل کرنے کے لیے اس سوال کو زور شور سے اٹھایا جاتا ہے۔
معیار دنیا نہیں، آخرت ہے
اس کے جواب میں چند اصولی باتیں سمجھ لیں۔ مسلمان کا ایمان ہے کہ جینے کا جہان صرف یہی نہیں، بلکہ یہ فانی جہان دوسرے جہان کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ مسلمان کا ایمان ہے کہ کامیابی اور ناکامی کا اصل دارومدار انسان کی اخروی زندگی پر ہے، جو شخص وہاں پر کامیاب ہوگا، وہی در حقیقت کامیاب ہے خواہ دنیا میں وہ کتنی ہی آزمائشوں میں گھرا رہا ہو اور جو وہاں ناکام ہوگا، در حقیقت وہی ناکام ہے خواہ دنیا میں کتنی ہی پر تعیش زندگی گذاری ہو۔ اسی طرح یہ بھی مسلمان کا ایمان ہے کہ اہلِ کفر آخرت میں ناکام ہوں گے، جبکہ اہلِ ایمان خواہ کتنے ہی گرے پڑے ہوں، اگر ان کا ایمان سلامت ہے تو جلد یا بدیر یہ ایمان ان کو زبردست نفع دے گا۔ اہلِ کفر کو کسی وقت دنیا میں قوت اور غلبہ حاصل ہوجانا اس لیے نہیں ہوتا کہ اب اہلِ ایمان اﷲ کو مبغوض اور اہلِ کفر (معاذ اﷲ) اﷲ کے محبوب ہیں۔ یہ سوچ انتہائی احمقانہ ہے۔ دنیاوی قوت اور غلبہ کو بارگاہِ الہی کی قبولیت یا مردودیت کا معیار بنانا دینی مزاج کی کم زوری کا شاخسانہ ہے۔
قرآن وحدیث میں بہت تواتر کے ساتھ مسلمانوں کی یہ ذہن سازی کی گئی ہے کہ وہ اس دنیا میں کافروں کو حاصل ہونے والے سیاسی اقتدار اور ان کی زیادہ چلت پھرت سے دھوکا نہ کھائیں کیونکہ دنیا کی قدر وقیمت خدا کی نظر میں کچھ بھی نہیں ہے۔ (القرآن) قرآن ہی میں ایک اورجگہ ارشاد ہے کہ اہل ایمان کانظریہ یہ ہے کہ خسارہ اور نقصان والے اصل میں وہ ہیں جو روزِ قیامت خسارہ کا شکار ہوں گے۔ ایک ارشاد ِ نبوی ہے کہ اگر اس دنیا کی قیمت خدا کی نظر میں مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ ملتا۔ ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ دنیا اس شخص کا گھر ہے جس کا کوئی گھر نہیں اور اس شخص کا مال ہے جس کا کوئی مال نہیں، یعنی آخرت کے مقابلہ میں دنیا بالکل بے حیثیت ہے۔
دنیاوی مغلوبیت ہمیشہ عذاب نہیں ہوتی:
مذکورہ اعتراض کے پیدا ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ زوالِ امت کو عام طور پر ہماری طرف سے اﷲ کا ایک عذاب بنا کر بیان کیا جاتا ہے، جبکہ اہلِ ایمان کی مغلوبیت یا ان کے پاس مال ومتاع کی کمی ہمیشہ عذاب ہی نہیں ہوتی، نہ ہی محض اس وجہ سے ہوتی ہے کہ اہلِ ایمان اپنے گناہوں کی وجہ سے خدا کی نارضگی کے اہل بنے ہوئے ہیں۔ اس بات کو بہت اچھی طرح سمجھنے کی ضرور ہوتی ہے۔ اول تو اس صورتِ حال کا سبب صرف خدا کی نارضگی نہیں ہوتی اور اگر اس کو عتابِ الہی یا مسلمانوں کے اعمال کا نتیجہ کہا جائے تو تب بھی اس میں بہرحال ایک زبردست پہلو رحمت کا ہوتا ہے جسے عام طور پر بیان نہیں کیا جاتا۔ ان دونوں باتوں کو ہم یہاں ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔
اہلِ ایمان کے غلبہ کو بعض اوقات خود خدا کی طرف سے مؤخر کیا جاتا ہے، جس میں کچھ حکمتیں اور مصالح ہوتی ہیں۔ کیا ہم دیکھتے نہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ مکہ میں کیا ہوتا رہا؟ انہیں مکہ چھوڑ کر حبشہ اور مدینہ کیوں جانا پڑا، پھر خود مدینہ میں بدر، احد، خندق کے عزوات اور منافقین ویہود کی سازشوں کے مابین کس طرح کی مشکلات در پیش رہیں انہیں پتے کیوں چبانے پڑے، پیٹ پر پتھر کیوں باندھنے پڑے کیا کوئی مسلمان یہ تصور بھی کرسکتا ہے کہ ان حضرات کے ایمان کم زور تھے اور اسی وجہ سے ان مشکلات میں گھرے ہوئے تھے
اصل میں ان باتوں کو سمجھنے کے لیے ایک دینی مزاج کی ضرورت ہوتی ہے، یہ دینی مزاج صحابہ کے پاس موجود تھا، اس لیے پتے کھا کر بھی مطمئن رہتے تھے، لیکن اگر کبھی اس حوالہ سے اشکال پیدا ہوتا تھا تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اصلاح فرما دیتے تھے۔ چنانچہ مکی عہد میں جب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے سختیوں کی شکایت کی گئی تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ کیا تم اتنی جلدی گھبرا گئے ہو، جبکہ تم سے پہلے اہلِ ایمان کو لوہے کے کنگھوں سے چیر دیا گیا، مگر انہوں نے ایمان نہیں چھوڑا۔ اسی طرح مدینہ میں ایک بار حضرت عمر نبی علیہ السلام کے بالا خانہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کمرے میں راحت یا استعمال کی کوئی ایک بھی ایسی چیز نہیں جسے آدمی نگاہ بھر کر دیکھے، بس ایک خشک کھال تھی جس پر نبی علیہ السلام لیٹے تھے، حضرت عمر یہ سب دیکھ کر رو پڑے اور عرض کیا کہ حضور قیصر وکسری تو مزے کر رہے ہیں اور آپ اﷲ کے رسول ہوکر اس حال میں ہیں۔ نبی صلی ﷲ علیہ السلام نے حضرت عمر کے یہ کلمات سن کر اظہارِ تعجب کیا اور ارشاد فرمایا کہ اے عمر! تم ابھی تک ان خیالوں میں ہو میرا اور دنیا کا کیا رشت
جہاد میں غلبہ کا وعدہ؛ چہ معنی دارد:
جہاد کے اندر جب مومن اور کفار بالمقابل ہوں تو مومنین کو فتح حاصل ہوتی ہے اور بے شک ہونی بھی چاہئے، مگر اس میں بھی کچھ پہلو ہوتے ہیں۔ اہلِ کفر کا ہر بار ہمارے ہاتھوں مغلوب ہوجانا ضروری نہیں۔ موتہ، تبوک اور غزوہ طائف کی مہمات بھی بے شک کامیاب مہمات تھیں اور ان کے نہایت دور رس نتائج ظاہر ہوئے، مگر ظاہر ہے کہ ان مہمات کی کامیابی کو فتحِ مکہ یا عزوہ بنو نصیر کی کامیابی کے برابر تو نہیں کہا جاسکتا جن میں فوری طور پر مکمل اور بھرپور نتائج ظاہر ہوئے، اسی طرح احد اور حنین میں مسلمانوں کو جو نقصان برداشت کرنا پڑا، وہ ہمارے سامنے ہے، گو بعد میں اس نقصان کا ازالہ بھی ہوا۔ موجودہ دور کے مسلمان اپنی سہل پسندی کی وجہ سے یہ چاہتے ہیں کہ ہم بس ایئر کنڈیشنڈ رومز میں پڑے رہیں اور سارا کام بس فرشتے ہی کریں، مسلمانوں کو بس ٹیلی ویژن پر اطلاعات دی جاتی رہیں کہ کس طرح اہلِ کفر کی افواج مسلمانوں کے مختلف ممالک میں پسپا ہو رہی ہیں، تو بھائیو! یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ایسا غلبہ تو صحابہ کو بھی نہیں ملا تھا اور نہ خدا نے کبھی مسلمانوں سے ایسے غلبہ کا وعدہ کیا، بلکہ اگر مسلمانوں کو اس دار الامتحان میں ہی ایسا شاہانہ ٹھاٹھ مل جائے تو اسلام قبول کرنے میں کون دیر کرے گا اور آزمائش کس بات کی ہوگی
اصل بات یہ ہے کہ اس دین کو مشکلات، مسائل اور آزمائشوں میں گھیر کر بھیجا گیا ہے اور یہ بات پہلے ہی دن سے بتا دی گئی ہے۔ بے شک اس دین کی آغوش در اصل جنت کی آغوش ہے اور جو لوگ ایمان کی حلاوت سے حصہ پاتے ہیں، وہ خالی ہاتھ ہوکر بھی جنت کے راحت وسکون کا ایک ہلکا سا عکس اور اس کی جھلک اس دنیا میں ہی قلبی طور پر محسوس کرتے ہیں، لیکن بظاہر ان پر مشکلات بھی آتی ہیں اور آزمائشیں بھی آتی ہیں، یہ دیکھنے کے لیے کہ اس آدمی کے دل میں ایمان کی کتنی قدر ہے آزمائش کے پڑنے پر ایمان کی قدر کرتے ہوئے سب کچھ برداشت کرتا ہے یا پھر ایمان سے پھسل جاتا ہے جو لوگ اپنی دنیا کو اور اپنے مال واولادکو اپنی دولت سمجھتے ہیں تو ان کی حفاظت کے لیے سردی گرمی ایک کرتے ہیں، دھوپ پسینہ برداشت کرتے ہیں، مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں، مگر اپنی دولت سے دستبردار نہیں ہوتے۔ اسی طرح ایمان ایک دولت ہے، جب ملتی ہے تو پھر انسان کے حسبِ برداشت اس پر آزمائش بھی آتی ہے، اس آزمائش میں ایک طرف دنیا کا مفاد ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف ایمان ہوتا ہے، اس صورت میں اگر یہ ایمان کی قدر دانی پر قائم رہے تو آزمائش میں کامیاب کہلاتا ہے، جبکہ دولتِ ایمان کی ناقدری کی صورت میں ناکام۔
دنیاوی عتاب میں رحمت کا پہلو:
ہم عرض یہ کر رہے تھے کہ مسلمانوں کے غلبہ میں تاخیر صرف اسی معنی میں نہیں ہوتی کہ خدا نے ناراض ہوکر ان آزمائشوں کی بھٹی میں ڈالا ہوا ہے، بلکہ یہ تاخیر کبھی خود خدا کی طرف سے بہت معیاری مسلمانوں کے حق میں بھی کی جاتی ہے اور اس سے مقصود ان کی آزمائش اور صبر کی صورت میں ان کی ترقیء درجات ہوتی ہے، جبکہ کبھی یہ تاخیر اس لیے بھی ہوتی ہے کہ خدا کا مطالبہ اہلِ ایمان سے جس درجہ کی خدا مستی وخدا طلبی کا ہوتا ہے، اہلِ ایمان کی طرف سے اس میں کچھ کوتا ہی ہوتی ہے، جیساکہ احد یا حنین میں ہوا۔ اس صورت میں یہ تاخیر اور مغلوبیت بظاہر عتابِ الہی کہلاتی ہے، مگر حقیقت میں اس کے اندر رحمت کا ایک زبردست پہلو بھی ہوتا ہے۔ جید اور راسخ العلم مصلحین ومجددین ہمیشہ اس پہلو کو بیان کرتے رہتے ہیں، مگر عام طور پر عوام کے سامنے یہی بات آتی ہے کہ مسلمانوں کا زوال اور مغلوبیت ایک خدائی عذاب ہے، جبکہ اس کے اندر رحمتِ الہی کا جو زبردست پہلو ہے، اس کو بیان نہیں کیا جاتا۔
احد اور حنین میں یہ ہوا تھا کہ خدا طلبی وخدا مستی جس درجہ کی مطلوب تھی، اس میں کچھ کمی ہوگئی تھی، جس کے نتیجہ میں خدا کی طرف سے مدد روک لی گئی تھی اور مسلمانوں کو جان ومال کا کچھ نقصان برداشت کرنا پڑا تھا، اب اس نقصان کے نتیجہ میں کیا آپ کو معلوم ہے کہ صحابہ نے کیا عمل کیا تھا، انہوں نے فورا اپنا احتساب کیا، خدا طلبی وخدا مستی کی مطلوبہ سطح میں جو کمی سی آگئی تھی، اس کا ازالہ کیا اور اس پر استغفار کیا جس پر جلد یا بدیر ان کے جانی ومالی نقصان کی تلافی بھی کر دی گئی۔ اب یہاں اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہیکہ بظاہر ان صورتوں میں مسلمانوں کو جانی ومالی نقصان برداشت کرنا پڑا، مگر اس سے ایک بڑی ’’خیر‘‘ یہ برآمد ہوئی کہ اطاعت واخلاص میں کمی کی وجہ سے ان کا آخرت کا جو نقصان ہونا تھا، اس سے وہ بچ گئے اور اس کی جگہ استغفار وندامت کی دولت عطا ہوگئی۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں انسان پر جو ابتلاء آتا ہے، اس میں عتاب اور تنبیہ کے ساتھ ساتھ بیک وقت ’’رحمت‘‘ کا ایک زبردست پہلو بھی موجود ہوتا ہے۔ چنانچہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ خدا جب کسی کے ساتھ رحمت کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے گناہوں کی سزا اس دنیا میں ہی اسے دے دیتا ہے، پس دنیاوی اعتبار سے مسلمانوں پر جو آزمائش آجاتی ہے وہ اسی معنی میں رحمت ہوتی ہے کہ اس کے ذریعہ گذشتہ گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے اور آئندہ اصلاحِ احوال کے لیے تنبیہ بھی۔ سو احد وحنین میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ بظاہر نقصان تھا، مگر اس میں رحمت کا یہی زبردست پہلو چھپا ہوتا۔
یوں اس دنیا میں مسلمان ہی کیا، کسی بھی انسان پر نازل ہونے والی تنبیہ ایک پہلو رحمت کا اپنے اندر رکھتی ہے، مگر اس ’’رحمت‘‘ کو اپنے حق میں کیش کروانا یہ صاحبِ ابتلاء کے اپنے ظرف پر منحصر ہوتا ہے۔ اس عتاب نما رحمت کے بعد اگر انسان کو توبہ وندامت کی توفیق مل گئی تو اس نے در اصل اس ابتلاء ہی سے رحمت کا پہلو کشید کر لیا، لیکن اگر روش وہی رہے جو ملحد اور کافر اپناتے ہیں کہ پریشانی آنے کے بعد اسی پرانی روش پہ قائم رہتے ہیں، استغفار نہیں کرتے، توبہ نہیں کرتے تو پھر یہ عتاب ان کے حق میں صرف ایک عذاب ہوتا ہے، نیز اس صورت میں ان کو دنیا کی حد تک انہی وسائل کے حوالہ کردیا جاتا ہے جن پر انہیں تکیہ ہے۔ اب یہ ان کی قسمت کہ ان وسائل میں پلڑا بھاری کر کیاپنے مخالفین پر قوت اور غلبہ پالیں یا ضعیف رہ کرمغلوب رہیں۔
مسلمان مغلوبیت اور زوال کے اس دور میں اگر اپنی کوتاہیوں وندامت پر استغفار کرتے ہیں اور بحمد اﷲ کسی نہ کسی درجہ میں کر ہی رہے ہیں تو یقین جانئے کہ اس صورت میں مغلوبیت اور زوال کے باوجود جو دولت مسلمانوں کے پاس ہے، وہ غلبہ اور قوت کے باوجود اہلِ کفر کے پاس نہیں ہے۔ اہلِ کفر کو اپنے کفر پر استغفار کی توفیق نہیں ملی، جبکہ ہمیں اپنے فسق وفجور پر توبہ وندامت کی توفیق مل گئی تو اس صورت میں بہتر کون ہوا خدا سے کوئی غافل شخص تو بس یہی دیکھتا رہے گا کہ اہلِ کفر کے پاس غلبہ اور قوت ہے، لہذا وہ بہتر حال میں ہیں جبکہ ایک صاحبِ ایمان کو یہ دھوکا کبھی نہیں لگ سکتا، وہ خالی ہاتھ ہوکر بھی مطمئن ہوگا کہ گو اس میرا کچھ نقصان ہوا ہے، مگر استغفار کی صورت میں اور ایمان واحتساب کی صورت میں جو دولت ملی ہے، اس پر ہزاروں ایسے نقصان قربان۔ پس مسلمان اگر دنیا میں اہلِ کفر سے کم تر ہوں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ان سے بد تر ہے۔اگر ہمارے پاس ایمان واستغفار ہے تو سب کچھ ہمارے پاس ہے، اس صورت میں اگر دنیا میں ہمارا کوئی نقصان ہوگا بھی تو آخرت میں اس کا اتنا اچھا نعم البدل دیا جائے گا کہ حدیث کے مطابق اس نعم البدل کو دیکھ کر مومن تمنا کرے گا کہ کاش مجھے دنیا میں کوئی نعمت نہ ملتی، بس صبر ہی کے سارے مواقع ملتے۔ ہاں، اگر ایمان واستغفار میں کم زوری ہے تو یہ بات البتہ فکرمندی کی ہے۔ مسلمان کی زندگی کا مقصد دنیا پر غلبہ حاصل کرنا نہیں، اپنے رب کو راضی کرنا ہے۔ یہ مقصد حاصل کرکے چاہے وہ تخت پر ہو یا تختہ پر، دونوں صورتوں میں کامیاب ہے، لیکن اگر یہ مقصد حاصل نہیں تو یہ خواہ کہیں بھی ہو، ناکام ہے کیونکہ کامیابی اور ناکامی اصل میں آخرت کی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جو آدمی دنیا میں رضاءِ الہی کے راستہ پر چلتا ہے۔
دنیا کی زندگی بہت مختصر، عارضی اور غیر یقینی ہے، جبکہ آخرت کی زندگی ایک نہ ختم ہونے والی ابد الآباد کی زندگی ہے۔ ایک آدمی کے مقدر میں آخرت کی بربادی لکھ دی جائے، جبکہ اسے دنیا کا سارا سامانِ تعیش دے دیا جائے تو اسے کامیاب نہیں کہا جاسکتا۔ خدا کی نظر میں اس دنیا کی بے قیمتی کا یہ عالم ہے کہ قرآن میں ارشادِ ربانی کا مفہوم ہے کہ اگر ہم چاہتے تو جس دنیا پر یہ مرے جا رہے ہیں، اس دنیا میں ان کی چھتوں کو سونے کا بنا دیتے لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا، اس میں ہماری کچھ حکمتیں ہیں۔ اہلِ کفر نے آخرت میں جس عظیم اور ناقابلِ تصور نقصان سے دوچار ہونا ہے، اس کے مقابلہ میں دنیا کے اندر ان کی اچھل کود بالکل بچوں کے کھیل کی طرح ہے۔
معیار خوش حالی ہے، نہ کہ سیاسی اقتدار:
یہ ساری گفتگو اس تناظر میں تھی کہ اہلِ کفر کو دنیا میں غلبہ اور سیاسی اقتدار حاصل ہے تو وہ کیوں ہے جبکہ اس سے اگلے درجہ کی ایک بات جو سمجھنے کی ہے، وہ یہ کہ صرف آخرت ہی نہیں، بلکہ دنیا کے اعتبار سے بھی اصل مطلوب چیز ’’خوش حالی‘‘ ہے نہ کہ غلبہ اور سیاسی اقتدار۔ ایک قوم کو اگر اجتماعی طور پر سیاسی غلبہ وقوت حاصل ہو، مگر اس قوم کے لوگ انفرادی طور پر اپنی زندگی سے مطمئن نہ ہوں تو وہ ایک ناکام معاشرہ کہلائے گا۔ جبکہ ایک قوم کو اگر اجتماعی غلبہ تو حاصل نہ ہو جبکہ انفرادی طور اس قوم کے لوگ زیادہ ذہنی سکون وقلبی اطمینان کی زندگی گذار رہے ہوں تو یہ قوم مذکور الصدر قوم سے ہزار گنا زیادہ خوش حال ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلمان آج بھی دنیا کی ایک نسبتا کامیاب قوم ہے، جبکہ ’’ترقی یافتہ اقوام‘‘ در اصل کامیابی کے فریب میں مبتلا ہیں۔ کسی قوم کی خوش حالی کا دارومدار اس کی انفرادی خوش حالی پر ہے، نہ کہ اجتماعی ’’پھوت پھات‘‘ پر۔
مسلمان اسلام دشمنوں سے زیادہ خوش حال ہیں:
ملحد معاشروں کا باطنی حال دنیاوی طور سے بھی اتنا اچھا نہیں جتنا ان کی عمارتیں روشن اور بازار رنگین نظر آتے ہیں۔ان کا اپنا معاشرہ شدید بے سکونی کا شکار ہے، خاندانی نظام ان کے تلپٹ ہوچکے ہیں، ان کے بچے ممتا سے محروم اور ان کی عورتیں کما کر کھلانے والے شفیق مردانہ ہاتھ سے محروم ہوچکی ہیں، جو سجدہ کی بجائے سگریٹ کے دھوئیں میں سکون تلاش کرتے ہیں، جہاں بوڑھوں کو ان کے بچے بوجھ سمجھتے ہیں لیکن کتے اور بلیوں کو اپنے ساتھ سلاتے ہیں، جہاں روحِ کائنات کا کوئی علم اور تصور نہیں ہے لیکن کائنات کے ذروں پر تحقیقات کی جاتی ہیں، جہاں کی تہذیب انسانوں کو قناعت کا درس دینے کی بجائے امیروں کو مال کی نمائش کرنا اور غریبوں کو ہوس بڑھانے کے گرسکھاتی ہے، جہاں پیٹ اور پیٹ سے نیچے کی خواہش کو انسانیت کی معراج سمجھا جاتا ہے، جہاں کے کئی بڑے بڑے مفکر اور دوسروں کو حسنِ معاشرت کا درس دینے والے خود کشی کر کے مرے۔
یہاں مجھے قرآن کی ایک بات یاد آتی ہے۔ قرآن کے جو ارشادات ہیں، وہ کوئی ہوائی باتیں نہیں ہیں، یہ وہ ربانی اصول ہیں جن کے ساتھ کائنات جکڑی ہوئی ہے اور ان کی خلاف ورزی کرنا کائنات کے بس میں نہیں۔ قرآن میں ارشاد ہے کہ ہم نے منافقین کو جو اموال واولاد یا بالفاظِ دیگر سامانِ دنیا دے رکھا ہے، ان پر تعجب نہ کرو، ہماری منشاء یہ ہے کہ ہم ان کے ذریعہ ہی ان کو اسی دنیا میں الم ناک عذاب دینا چاہتے ہیں۔ (التوبہ: 55) یہ سزا صل میں اہلِ نفاق کے لیے ارشاد فرمائی گئی ہے، مگر اس کا سبب ان کے کفر کو قرار دیا گیاہے، اس لیے یہ بات اگراسلام کے سب دشمنوں کے حق میں درجہ بدرجہ صحیح ہو تو اس میں کوئی تعجب نہیں۔نیز یہ ایک حقیقت ہے کہ موجود ہ دور کے اہلِ کفر باوجود اپنے ظاہری غلبہ وقوت کے، اندرونی طور پر سخت بے سکونی وبے اطمینانی کا شکار ہیں، وہ تہذیب جسے وہ لیے لیے پھرتے ہیں، باطنی طور پر وہ ا ن کے لیے ایک عذاب بن چکی ہے اور ان کے اموال اور ان کی افواج انہیں خدا کے عذاب سے بچانے میں ناکام ہیں۔
آخری بات:
موجودہ دور میں مسلمانوں کا کثرتِ تعداد کے باوجود مغلوبیت میں ہونا ان کی ایمانی ودینی کوتاہیوں کی وجہ سے ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب ہم اہلِ کفر سے بھی زیادہ برے ہوگئے ہیں۔ اہلِ کفر نے موت کے بعد جس انجام سے دوچار ہونا ہے، اس کے ہوتے ہوئے یہ دنیا میں بظاہر اوپر ہوں یا نیچے، ان کو کوئی فائدہ نہیں۔ جبکہ ہماری مثال اس معاملہ میں وہ ہے جس کی طرف ایک عالم نے ہلاکو کی بیٹی کے ساتھ مکالمہ کے دوران اشارہ فرمایا تھا۔یہ معاملہ فی الواقع اگر تاریخی اعتبار سے ثابت نہ بھی ہو تو بہرحال اس سے اس معاملہ کی تفہیم ذرا آسان ہوجاتی ہے۔
ہلاکو کی دختر نے سقوطِ بغداد کے بعد ایک مسلمان عالم سے پوچھاکہ اﷲ نے ہمیں تمہارے اوپر غالب کردیا ہے تو ہم تم سے بہتر ہوئے ناں؟
عالم: نہیں
دختر ہلاکو: کیوں
عالم: جس طرح چرواہے کی بھیڑیں اس کی اطاعت چھوڑ کر اس سے دور چلی جاتی ہیں تو وہ ان کے پیچھے کتے لگا دیتا ہے جو انہیں گھیر کر واپس لاتے ہیں۔ اسی طرح ہم جب اﷲ کا کہنا ماننا شروع کردیں گے تو تمہاری ضرورت ہمیں نہیں رہ جائے گی۔ اﷲ اکبر