محمد ظفر اقبال
(امیر المؤمنین سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہ کی فضیلت میں وارد ہونے والی احادیث کو اس زمانے کے بعض ناقدین نے طعن و تنقیص کا ہدف بنایا ہے۔ جناب محمد ظفر اقبال کا یہ مضمون ان کی محققانہ تصنیف ’’سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ گمراہ کن غلط فہمیوں کا ازالہ‘‘ میں شامل ہے اور پیر نصیر الدین گولڑوی مرحوم کی کتاب ’’نام و نسب‘‘ میں وارد ہونے والے اس اعتراض کے پس منظر میں تحریر کیا گیا ہے جس کے مطابق حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کی مدح و منقبت میں کوئی ایک بھی حدیث صحیح نہیں ، موضوع کی سنجیدگی اور لہجے کی متانتِ استدلال کی وجہ سے یہ مضمون شامل اشاعت کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)
حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے فضائل میں چند احادیث ہم ناظرین کرام کی خدمت میں پیش خدمت ہیں، جن کو اکابر محدّثین رحمہم اﷲ نے اپنی تصانیف میں درج فرمایا ہے۔ ملاحظہ فرمایے
حضرت عبدالرحمن بن ابی عمیرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
اللّٰہُمَّ عَلِّمْہُ الَکِتَابَ والْحِسَابَ وَقِہِ الْعَذَابَ
ترجمہ: اے اﷲ معاویہ کو کتاب و حساب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے محفوظ فرما۔
امام ذہبی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
’’ ہذا الحدیث رواتہ ثقات ، لکن اختلفوا فی صحبۃ عبدالرحمن والاظہر انہ صحابی ، روی نحوہ من وجوہ آخر‘‘(تاریخ اسلام، ج: ۲، ص: ۳۰۹)
حضرت مجدد رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
’’ در احادیث نبوی باسناد ثقات آمدہ‘‘۔ (مکتوبات: دفتر اوّل، مکتوب ۲۵۱)
(احادیث نبویہ میں ثقہ سندوں سے وارد ہوا ہے)
۲۔ حضرتِ عرباض بن ساریہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا
’’ اللّٰہُمَّ عَلِّمْ معاویۃ الَکِتَابَ والْحِسَابَ وَقِہِ الْعَذَابَ ‘‘
(مسند احمد، ج:۴، ص: ۱۵۷ تحت مسند عرباض بن ساریہ)
ترجمہ: اے اﷲ ! معاویہ کو کتاب و حساب کا علم دے اور عذاب سے محفوظ رکھ ۔
مسند احمد کی اس حدیث کے صحیح ہوے کا تو مصنف ’’نام و نسب‘‘ انکار نہیں کر سکتے، کیونکہ وہ خود ’’مسندِ احمد‘‘ کے بڑے مداح ہیں اور اُن کا کہنا ہے
’’غالباً کوئی حدیث ایسی نہیں، جس کی اصل اس مسند میں نہ ہو اور یہ دیگر مسانید سے ’’صحیح تر‘‘ ہے۔
(نام و نسب، ص: ۵۴۷)
علامہ عبدالعزیز فرہاروی رحمہ اﷲ (م:۱۲۳۹ھ) نے امام مجد الدین ابن الاثیر کے حوالہ سے اس حدیث کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ (الناہیہ، ص: ۳۹)
۳۔ حضرت عبدالرحمن بن ابی عمیرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے حق میں یہ دعا فرمائی:
’’ اللَّہُمَّ اجْعَلْہُ ہَادِیاً مَّہَدِیًّا وَ اھْدِ بِہٖ ۔ قال الترمذی حسن غریب۔
(جامع ترمذی، ص: ۵۷۴۔ کتاب المناقب، باب مناقب معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما)
ترجمہ: اے اﷲ معاویہ کو (لوگوں کے لیے) ہادی بنا، ہدایت یافتہ فرما اور ان کے ذریعے دوسروں کو ہدایت عطا فرماء۔
۴۔ عمیر بن سعد کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کا ذکر سوائے بھلائی کے مت کرو، کیونکہ میں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا ہے:
’’ الّٰہُمَّ اہْدِہ ‘‘(ترمذی شریف، ص: ۵۴۷۔ ابواب المناقب، باب مناقب معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما)
ان احادیث پر حافظ ابنِ کثیر رحمہ اﷲ کا تبصرہ:
ہماری ذکر کردہ چاروں احادیث حافظ ابن کثیر رحمہ اﷲ (م:۷۷۴ھ) نے البدایہ والنہایہ میں نقل فرمائیں۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اﷲ ان روایات کے نقل کے بعد آخر میں لکھتے ہیں:
’’ واکتفینا بما اوردناہ من الاحادیث الصحاح والحسان والجیادعما سواہا من الموضوعات والمنکرات۔(البدایہ والنہایہ، ج: ۸، تحت ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہ)
ترجمہ: ہم نے صحیح، حسن اور جید احادیث ہی کے ذکر پر اکتفا کیا ہے۔ موضوع، منکر روایات سے احتراز کیا ہے۔
تائیدات:
منقولہ بالا احادیث کے ساتھ ساتھ ہم سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی فضیلت میں چند احادیث اور پیش کر رہے ہیں جو ’’صحیح‘‘ ہیں اور مصنف ’’نام و نسب‘‘ کو ایاز! قدر خود را بشناس کا مشورہ دیتے ہیں۔
۱۔ صحیح بخاری ’’ باب ما قیل فی قتال الروم ‘‘ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے:
’’ اول جیش من امتی یغزوں البحر قد اوجبوا ‘‘
(صحیح بخاری، ج: ۱، ص: ۴۱۰۔ کتاب الجہاد، باب قیل فی قتال الروم)
ترجمہ: میری اُمّت کا پہلا لشکر جو بحری جہاد کرے گا، انھوں نے (جنت اپنے لیے) واجب کر لیا ہے۔
اس بات پر اُمّت کا اجماع ہے کہ اس ’’اوّل جیش‘‘ کے ’’امیر جیش‘‘ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ تھے، کیا یہ حدیث صحیح ان کی فضلیت میں نہیں ہے اور کیا ناقد کو اس طرح جنت کی سند حاصل ہے؟
حافظ ابن حجر عسقلانی اور حافظ بدر الدین عینی الحنفی رحمہما اﷲ فرماتے ہیں:
’’ قال المھلب فی ہذا الحدیث منقبۃ لمعاویہ ؓ لانہ اوّل من غزا البحر ‘‘
ترجمہ: مہلب نے کہا کہ اس حدیث میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی منقبت ہے، کیونکہ وہی پہلے شخص ہیں جنھوں نے سب سے پہلے سمندر پار جہاد کیا۔
(فتح الباری، ج: ۶، ص: ۱۰۲، کتاب الجہاد، باب ما قیل فی قتال الروم۔ عمدۃ القاری، ج: ۱۴۔ کتاب الجہاد، باب ما قیل فی قتال الروم)
لہٰذا یہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے لیے بہت بڑی فضلیت ہے اور اس دنیا میں بشارتِ جنت نہایت سعادت مند ہے، فلہٰذا حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے حق میں عدم فضیلت کا قول کسی طرح درست نہیں۔
حضرت عبد الملک بن عمیر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے:
ترجمہ: ’’اے معاویہ! جب تمھیں اقتدار نصیب ہو تو لوگوں سے حسن سلوک کرنا‘‘۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، ج۱۱، ص: ۱۴۷۔۱۴۸، کتاب الامراء)
درج بالا حدیث کے بارے میں علامہ ابن حجر المکی رحمہ اﷲ لکھتے ہیں:
ترجمہ: ’’یہ حدیث درجۂ حسن میں ہے، جیسا کہ معلوم ہے اور یہ حضرت معاویہ رضی اﷲ کے فضائل میں قابلِ استدلال ہے‘‘۔
(المطالب العالیہ، ج ۴، ص: ۱۰۸۔ تحت باب فضائل معاویہ رضی اﷲ عنہ)
تائید مزید:
سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کا کاتب وحی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ سے جاری شدہ خطوط و فرامین کا کاتب ہونا، آپ رضی اﷲ عنہ کی بڑی عظیم فضیلت ہے۔ سیرت کی کتابوں میں جہاں کاتبانِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کا تذکرہ ہے، وہاں آپ رضی اﷲ عنہ کا نامِ نامی اسم گرامی بھی ہے۔ (ملاحظہ ہو: الاستیعاب تحت الاصابہ۔ مجمع الزوائد۔ البدایہ والنہایہ۔ جوامع السیرۃ۔ )
خدمت نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی سعادت کے آگے ساری دنیا کی دولت ہیچ ہے، حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کو بار بار یہ سعادت میسر آئی، حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما ایک مرتبہ کا واقعہ بیان کرتے ہیں:
ترجمہ: ’’ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بال مشقص (لوہے کا خاص قسم کا آلہ) کے ساتھ کاٹے‘‘۔ (صحیح بخاری، ج:۱، ص: ۲۳۳۔ کتاب الحج، باب الحلق والتقصیر عند الاحلال)
آپ رضی اﷲ عنہ کے پاس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کچھ ’’بال مبارک‘‘ اور ’’ناخن مبارک‘‘ بھی بطورِ تبرک موجود و محفوظ تھے، جسے آپ نے اپنے کفن میں رکھنے کی وصیت کی تھی جو پوری ہوئی۔ (تاریخ الخلفاء مترجم، ص: ۷۰)
پھر غزوات (مثلاً حنین، طائف، تبوک) میں آپ رضی اﷲ عنہ کی شرکت اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے آپ کے نسبی تعلقات…… یہ وہ فضائل ہیں جنھیں ’’ناقدینِ معاویہ رضی اﷲ عنہ‘‘ اپنے باطن کی آلودگی سے کبھی گدلا نہیں کر سکتے ہیں۔ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ حجۃ الوداع میں بھی نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، پیر سید محمد کرم شاہ ازہری صاحب رقم طراز ہیں:
’’پھر ظہر سے پہلے سرکارِ دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کی طرف اپنی ناقہ پر سوار ہو کر روانہ ہوئے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما کو بٹھایا ہوا تھا اور جا کر طوافِ افاضہ کیا۔ اسی کو طوافِ صدر اور طوافِ زیارت بھی کہتے ہیں‘‘۔ (ضیاء النبی صلی اﷲ علیہ وسلم، ج: ۴، ص: ۷۶۸، باب: حجۃ الوداع)
ان سب کے علاوہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کا نہ صرف صحابی بلکہ ایک فقیہ اور مجتہد صحابی رسول ہونا بذات خود ایک عظیم فضیلت ہے اور فضائل صحابہ رضی اﷲ عنہم میں قرآن کی جتنی آیات اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی جتنی احادیث موجود ہیں، وہ سب سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے لیے ایک مستقل بابِ فضیلت رکھتی ہیں، ان فضائل کے ہوتے ہوئے اگر دوسرے فضائل نہ بھی ہوں تو اس سے آپ کی شان میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوتی۔
حافظ ابنِ قیم رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’یعنی ان لوگوں کی مراد یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے خصوصی مناقب کے لیے عدمِ صحت حدیث کا قول ہے، ورنہ وہ تمام صحیح و مُسلَّم مناقب جو صحابۂ کرام اور قریش کے لیے کتاب و سنت میں علی العموم موجود ہیں، حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ اُن میں داخل ہیں‘‘۔
حافظ جلال الدین السیوطی رحمہ اﷲ کا حوالہ:
مُصنف نے ’’عدمِ فضیلت‘‘ کے اعتراض میں علامہ جلال الدین السیوطی رحمۃ اﷲ علیہ کو بھی اپنا ہم نوا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور تاریخ الخلفاء، ص: ۱۳۹ کا حوالہ دیا ہے۔ لیکن ہمیں تلاشِ بسیار کے باوجود حضرت علامہ سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ کا سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے بارے میں ’’عدمِ فضیلت‘‘ کا قول نہ مل سکا۔ ہاں! سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے بارے میں علامہ سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ کے یہ جملے ضرور ملے:
’’امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ایک عرصہ تک دربارِ رسالت میں کتابتِ وحی کے فرائض انجام دیے اور بحیثیت کاتب ایک سو تریسٹھ (۱۶۳) احادیث کے راوی ہیں، آپ کے حوالہ سے صحابہ رضی اﷲ عنہ نے منجملہ ابن عباس رضی اﷲ عنہما، ابن عمر رضی اﷲ عنہما، ابن زبیر رضی اﷲ عنہما، ابو دردراء رضی اﷲ عنہ، جریر بجلی رضی اﷲ عنہ، نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہ وغیرہ اور تابعین نے منجملہ ابنِ مسیّب، حمید بن عبدالرحمن وغیرہ نے احادیث بیان کی ہیں، ہوشیاری وبُردباری میں مشہور تھے۔ آپ کی فضیلت میں اکثر احادیث وارد ہیں۔ ترمذی نے ابنِ عمیرؓ صحابی کی زبانی لکھا ہے کہ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرتِ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے لیے یہ دعا کی: ’’اے اﷲ! انھیں ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنا دے‘‘۔ احمد رحمۃ اﷲ علیہ نے عرباض بن ساریہ رضی اﷲ عنہ کی زبانی لکھاہے: ’’میں نے خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’اے اﷲ معاویہ کو کتاب اور حساب سکھا دے اور عذاب سے محفوظ رکھ‘‘۔ ابن ابی شیبہ رحمۃ اﷲ علیہ اور طبرانی نے عبدالملک بن عمیر رحمۃ اﷲ علیہ کی زبانی لکھا ہے، حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ نے کہا، جب سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ ’’اے معاویہ! جب تمھیں اقتدار نصیب ہو تو لوگوں سے حسنِ سلوک کرنا‘‘ اُس وقت سے مجھے امید تھی کہ میں خلیفہ ضرور بنوں گا۔ (تاریخ الخلفاء، ص: ۶۵، تحت حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ)
حضرتِ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
’’باید دانست کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما یکے از اصحاب آنحضرت بود او صاحب فضیلت جلیلہ و زمرۂ صحابہ رضی اﷲ عنہم زنہار در حق اور سوءِ ظن نکنی و در ورطۂ سب او نہ افوتی تا مرتکب حرام نشوی‘‘۔ (ازالۃ الخفاء، فصل پنجم)
ترجمہ: ’’جاننا چاہیے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما ایک شخص تھے، اصحابِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں سے اور زمرۂ صحابہ رضی اﷲ عنہم میں بڑے صاحب فضلیت تھے، تم کبھی ان کے حق میں بدگمانی نہ کرنا اور ان کی بدگوئی میں مبتلا نہ ہونا ورنہ تم حرام کے مرتکب ہو گے‘‘۔
کیا اب بھی ہم نہ کہیں
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
ایک اور طرز سے:
چلیے کچھ دیر کے لیے ہم ان تمام دلائل کو چھوڑ کر مصنف کے تحریر کردہ جملوں پر غور کرتے ہیں کہ کیا اس سے فضائل معاویہ رضی اﷲ عنہ کی تمام احادیث کی نفی ہو جاتی ہے موصوف کا کہنا ہے:
’’صاحب فتح الباری فرماتے ہیں کہ امام احمدؒ نے اپنے کلام میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ لوگوں نے جناب امیر معاویہؓ کے لیے اپنی طرف سے فضائل و مناقب کی ’’جو روایات‘‘ گھڑ لی ہیں۔ ان کی کوئی اصل نہیں اور فضائلِ معاویہؓ میں بہت سی احادیث مروی ہیں لیکن ان میں کوئی روایت نہیں جو اسناد کے لحاظ سے صحیح ہو‘‘۔
(نام و نسب، ص: ۵۱۵)
صاحب فتح الباری حضرت امام احمد رحمہ اﷲ کا یہ اشارہ نقل کر رہے ہیں کہ لوگوں نے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے فضائل میں ’’ جو روایات‘‘ گھڑ لی ہیں، وہ جعلی ہیں، ان کی کوئی اصل نہیں۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ فضائل معاویہ رضی اﷲ عنہ میں کوئی روایت ثابت ہی نہیں ہے۔ خود حضرتِ امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ نے اپنی کتاب مسند میں حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے فضائل کی احادیث نقل کی ہیں۔
اگر وضعی اور گھڑی ہوئی روایات کے انکار سے کل روایات کی نفی لازم آتی ہے تو قبلہ! سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کا نمبر تو بعد میں ہے، سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ سے زیادہ کسی کے فضائل میں احادیث میں وضع کی گئی ہیں، حافظ ذہبی رحمہ اﷲ، عامر الشعبی رحمہ اﷲ کا قول نقل کرتے ہیں
ترجمہ: ’’اُمّت میں جس قدر جھوٹ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ پر باندھا گیا ہے، اس قدر کسی پر نہیں باندھا گیا
(تذکرۃ الحفاظ، ج:۱، ص: ۸۲۔ تحت ذکر ابو عامر الشعبی)
حافظ ابن قیم جوزی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’حافظ ابو یعلیٰ الخلیلی ’’کتاب الارشاد‘‘ میں فرماتے ہیں کہ روافض نے فضائل علی ؓ اور فضائلِ اہل بیت میں تین لاکھ احادیث گھڑ کر پھیلا دی ہیں‘‘۔ (المنار المنیف، ص: ۱۰۸۔ فصل: ۳۰)
حافظ خلیلی رحمہ اﷲ کے اس ارشاد پر حافظ ابن قیم رحمہ اﷲ یوں مہرِ ثبت تصدیق ثبت کرتے ہیں:
ترجمہ: ’’اور (حافظ خلیلی کی) اس بات میں کوئی استبعاد نہیں، اگر تم (وضع شدہ مواد کی) جستجو کرو گے تو معاملہ ایسا ہی پاؤ گے جیسا کہ حافظ الخلیلی نے کہا ہے‘‘۔ (المنار المنیف، ص: ۱۰۸۔ فصل: ۳۰)
حضراتِ علمائے کرائم کے ان بیانات کے بعد اب اگر کوئی نادان فضائلِ علی رضی اﷲ عنہ اور اہلِ بیت رضی اﷲ عنہم کی تمام احادیث کا انکار کر دے جیسا کہ مُصنف ’’نام و نسب‘‘ نے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ کیا ہے تو پھر اس کے لیے سوائے ہدایت کی دعا کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ اب رہا مصنف کا آخری جملہ کہ:
’’فضائلِ معاویہ رضی اﷲ عنہ میں بہت سی احادیث مروی ہیں، لیکن اس میں کوئی ایسی روایت ایسی نہیں جو اسناد کے لحاظ سے صحیح ہو۔‘‘
اس بحث میں دو باتیں لائقِ توجہ ہیں:
(۱) یہ بات گھڑی ہوئی روایات کے بارے میں کہی جا رہی ہے، کیونکہ سلسلۂ کلام پیچھے سے جعلی احادیث کے بارے میں چل رہا ہے کہ فضائلِ معاویہ رضی اﷲ عنہ میں جو گھڑی ہوئی روایات مروی ہیں، ان میں سے کوئی روایت ایسی نہیں جو اسناد کے لحاظ سے صحیح ہو، یہ بات ہمارے مؤقف کے ہرگز خلاف نہیں، بلکہ ہم بھی وضعی اور جعلی روایات کا انکار کرتے ہیں، خواہ وہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں ہوں یا حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے بارے میں، جناب احمد رضا خان صاحب بریلوی فرماتے ہیں:
’’انصافاً یوں یونہی وہ مناقبِ امیرِ معاویہ و عمر بن عاص رضی اﷲ عنہما کے صرف نواصب کی روایت سے آئیں کہ جس طرح روافض نے فضائلِ امیر المؤمنین و اہلِ بیت رضی اﷲ عنہم میں قریب تین لاکھ حدیثوں کے وضع کیں۔ کما نص علیہ الحافظ ابو یعلیٰ والحافظ الخلیلی فی الارشاد۔ یونہی نواصب نے مناقبِ معاویہ رضی اﷲ عنہ میں حدیثں گھڑیں، کما ارشد الیہ الامام الذاب عن السنۃ احمد ابن حنبل رحمہ اﷲ۔
(فتاویٰ رضویہ جدید، ج: ۵، ص: ۴۶۱)
(۲) اگر اس بیان سے فضائلِ معاویہ رضی اﷲ عنہ کی تمام احادیث کا انکار مقصود ہے تو یہ بیان مشاہدہ اور نقل دونوں کے خلاف ہے، کیونکہ جمہور محدثین فضائلِ معاویہ رضی اﷲ عنہ میں وارد شدہ احادیث کو ’’صحیح‘‘ اور ’’حسن‘‘ قرار دیتے ہیں۔
(۳) اور جہاں تک ضعیف روایات کی بات ہے تو فضائل کے باب میں ضعیف روایات بھی مقبول ہوتی ہیں، جیسا کہ ملا علی قاری نے الموضوعات الکبیر، علامہ ابن حجر مکی نے تطہیر الجنان، علامہ سخاوی نے المقاصد والحسنہ اور علامہ محمد بن عراق نے تنزیۃ الشریعہ میں اس پر تفصیلی کلام کیا ہے۔
اگر ضعیف روایات قابلِ قبول نہ ہوں تو خود فضائلِ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی بے شمار روایات کو چھوڑ دینا ہو گا۔
حافظ ابنِ تیمیہ رحمہ اﷲ کا حوالہ:
مصنف ’’نام و نسب‘‘ نے ’’عدمِ فضیلت‘‘ کے اعتراض میں شیخ الاسلام حافظ ابنِ تیمیہ رحمہ اﷲ کو بھی اپنا ہم مسلک ثابت کرنے کی سعی فرمائی ہے، اس سلسلہ میں مصنف ’’نام و نسب‘‘ نے حضرت شیخ الاسلام کی کتاب منہاج السنۃ کا حوالہ بھی دیا ہے، پہلے وہ حوالہ اور اس پر مصنف کا تبصرہ ملاحظہ ہو، پھر ہمارا جواب
’’شیخ ابنِ تیمیہ اگر شیعوں کے شدید مخالف ہیں اور ان کے عقائدِ باطلہ کی تردید میں ایک ضخیم کتاب منہاج السنۃ کے نام سے تصنیف کی، جسے آفاقی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی، اس منہاج السنۃ میں ابن تیمیہؓ ، جناب معاویہؓ کے فضائل اور ان کے اجتہاد کے سلسلہ میں مروی احادیث کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’ہاں معاویہ کے ساتھ مروانیہ وغیرھم کا ایک بڑا گرو ہے، وہ لوگ جنھوں نے ان کے ساتھ مل کر لڑائی کی یا ان کے بعد جو ان کے متبعین ہوئے، وہ کہتے ہیں کہ وہ (معاویہؓ) علی المرتضیٰؓ کے ساتھ لڑائی کے معاملہ میں حق پر تھے اور معاویہؓ مجتہد و مصیب تھے اور علی المرتضیٰ یا ان کے ساتھی ظالم تھے یا خطا ئے اجتہادی میں مبتلا تھے اور اس سلسلہ میں معاویہؓ کے لیے بہت سی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں، جیسے کتاب المروانیۃ، جس کے مصنف جاحظ ہیں…… اور ’’ایک گروہ‘‘ نے تو معاویہؓ کے فضائل میں من گھڑت روایات اور احادیث رسالت مآب سے روایت کیں لیکن وہ سب کی سب جھوٹ اور اس سلسلہ میں ان کے لمبے چوڑے دلائل ہیں، یہاں جن کے ذکر کا موقع نہیں لیکن یہ لوگ اس بارے میں اہل سنت کے نزدیک خطا پر ہیں، اگرچہ روافض کی خطا ان کی خطا سے بڑھ کر ہے۔ (منہاج السنۃ…… ج۲، ص: ۲۰۷)
……شیخ ابن تیمیہؒ نے شیعہ سے شدید مخالفت کے باوجود حق بات کہہ دی اور حق یہ ہے کہ اہلِ حق کا حق بھی یہی ہے کہ مخالفت کے باوجود حقائق کو تسلیم کریں، شیعہ سے ان کی مخالفت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شیخ ابن تیمیہؒ جہاں خوارج اور بنو اُمیہ کے اس منظم گروہ کا ذکر کر رہے ہیں، جنھوں نے جناب امیر معاویہؓ کے فضائل و مناقب میں احادیث وضع کیں، وہاں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ شیعوں کی خطا ان سے بڑی خطا ہے، ایسے انسان کا فضائلِ جنابِ معاویہؓ کے سلسلہ میں مروی احادیث کے لیے ’’کل کذب ‘‘(وہ سب روایات جھوٹی ہیں)، کہنا خصوصی اہمیت رکھتا حالانکہ شیعہ کو نیچا دکھانے کے لیے وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اگر فضائلِ اہلِ بیت میں مروی احادیث صحیح ہیں تو جنابِ معاویہؓ کے حق میں مروی احادیث بھی پایۂ صحت کو پہنچی ہوئی ہیں مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا
’’خدا رحمت کنند ایں عاشقانِ پاک طینت را‘‘
(نام و نسب، ص: ۵۱۷۔۵۱۹)
الجواب:
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اﷲ کے دیے گئے حوالہ اور اس سے مصنف کے اخذ شدہ مضمون (جو ان کی ’’علمیت‘‘ اور ’’کمالِ اخذ و استنباط‘‘ پر پوری طرح گواہ ہے) پر ہم وہی کہنا چاہتے ہیں جو امیر المؤمنین و یعسوب المسلمین سیدنا و مولانا علی رضی اﷲ عنہ نے خوارج سے کہا تھا:
’’ہذہ کلمۃ حق یراد بہا باطل‘‘(البدایہ والنہایہ)
مصنف نے حافظ ابن تیمیہ ؒ کے ذکر کردہ حوالہ سے جو مفہوم و مراد اخذ کیا ہے، وہ خارجیوں ہی کے قبیل سے ہے۔
(۱) سب سے پہلی بات تو یہ کہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اﷲ ان حضرات کے اس خیالِ فاسد کی تردید فرما رہے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ، حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ لڑائی کے معاملہ میں ظالم یا خطائے اجتہادی کے مرتکب تھے، اس سے حافظ ابن تیمیہ رحمہ اﷲ کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ وہ معاذ اﷲ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کو (مصنف ’’نام و نسب‘‘ کی طرح) باطل پر اور خطائے منکر کا مرتکب گردانتے تھے۔ وہ جہاں سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے مخصوص فضائل اور ان کے ’’احق بالخلافۃ‘‘ اور ’’مشاجرات میں ’’اقرب الی الحق‘‘ ہونے کے قائل ہیں، وہیں وہ حضراتِ علی و معاویہ رضی اﷲ عنہما کے باہمی اختلاف کو ’’اجتہادی‘‘ مانتے ہیں…… ہاں! ابنِ تیمیہؒ نے ایک نصیحت ضرور کی ہے جسے بطورِ عبرت نقل کر دیتا ہوں
ترجمہ: ’’اسی لیے مشاجراتِ صحابہ رضی اﷲ عنہم کے بارے میں خاموشی اہلِ سنت والجماعت کا مذہب ہے، کیونکہ ان کے فضائل ثابت اور ان سے محبت واجب ہے اور ان کے ذریعہ سے جو واقعات وقوع پذیر ہوئے، ان کے بارے میں ان کے نزدیک ایسے عذر ہوں گے جن تک ہر انسان کی رسائی نہیں، اکثر لوگوں سے وہ مخفی ہیں، نیز ان میں سے بعض تائب ہو گئے ہوں اور بعض مغفور ہوں گے، ان کے باہمی جھگڑوں میں بحث کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بہت سے لوگوں کے دلوں میں ان کے خلاف بغض اور مذمت کے جذبات پیدا ہو جائیں گے، اسی طرح وہ شخص خطا کار اور گناہ گار ہو گا اور اپنے ساتھ اس شخص کو بھی نقصان میں ڈال دے گا جو اس کے ساتھ بحث اس بارے میں بحث کرے گا، جس طرح اکثر کلام کرنے والوں میں مشاہدہ کیا گیا ہے، وہ عموماً ایسی باتیں کرتے ہیں جو اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے نزدیک ناپسندیدہ ہوتی ہیں جو فی الواقع مستحق ذم نہیں ہوتے اور ان کی مذمت اور جو چیزیں قابل مدح نہیں ہوتی، ان کی مدح کر جاتے ہیں۔ اسی لیے افاضلِ سلف کا طریقہ یہ رہا کہ اس بارے میں خاموشی اختیار کی جائے‘‘۔
(منہاج السنۃ، ج: ۲، ص: ۲۱۹۔۲۲۰، فصل قال الرافضی وکان بالیمن یوم الفتح الخ)
مصنف نام و نسب حافظ ابن تیمیہ رحمہ اﷲ کی اس بات کا جسے وہ ’’افاضل سلف کا طریقہ‘‘ فرما رہے ہیں کتنا پاس و لحاظ رکھا ؟
(۲) حافظ ابن تیمیہ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ:
’’ایک گروہ نے تو حضرت معاویہ رضی اﷲ کے فضائل میں من گھڑت روایات اور احادیث رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کیں لیکن وہ سب کی سب جھوٹی ہیں‘‘۔
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اﷲ کی ان عبارات سے مصنف ’’نام و نسب‘‘ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے مناقب و فضائل میں رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم سے جتنی احادیث مروی ہیں، ابن تیمیہ رحمہ اﷲ کے نزدیک کل کذب، وہ سب کی سب جھوٹی ہیں…… حالانکہ ایسا نہیں ہے حضرت شیخ الاسلام رحمہ اﷲ تو ان روایات کی نفی فرما رہے ہیں جو ’’ایک گروہ‘‘ نے حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کے فضائل کو ثابت کرنے کے لیے گھڑی ہیں، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ فضائلِ معاویہ میں وارد شدہ احادیث ’’سب کی سب‘‘ کی جھوٹی ہیں۔
خود فتاویٰ ابن تیمیہؒ میں حضرت شیخ الاسلام رحمہ اﷲ نے سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے فضائل پر بڑا جید کلام فرمایا ہے اور فضائلِ معاویہ رضی اﷲ عنہ میں ہماری نقل کردہ احادیث میں سے ایک حدیث کو بطورِ استدلال پیش کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
’’حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اﷲ عنہ کو اپنا کاتب بنایا اور ان کے بارے میں فرمایا: اے اﷲ! معاویہ کو کتاب و حساب کا علم دے اور عذاب سے محفوظ فرما‘‘۔
کیا حافظ ابن تیمیہؒ نے اس حدیث کو موضوع و من گھڑت جانتے ہوئے بھی اسے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے؟ اور کیا اب مصنف نام و نسب‘‘ کے نزدیک حافظ ابن تیمیہ رحمہ اﷲ پر من کذب علیَّ متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النا ر کی وعیدِ شدید صادق نہیں آئے گی
(۳) مصنف ’’نام و نسب‘‘ لکھتے ہیں کہ ’’شیخ ابنِ تیمیہؒ نے شیعہ سے شدید ’’مخالفت‘‘ کے باوجود حق بات کہہ دی‘‘
عزیزِ من شیخ ابنِ تیمیہ رحمہ اﷲ کو شیعہ سے شدید ’’اختلاف‘‘ ہے نہ کہ ’’مخالفت اختلاف اور مخالفت میں فرق ہوتا ہے، جس سے اہلِ علم بخوبی واقف ہیں، آپ کو تو سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ سے اختلاف کا حق بھی نہیں، مگر آپ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کی ’’مخالفت‘‘ پر کمر بستہ ہیں
اے طفلِ خود معاملہ قد سے عصا بلند
(ماخوذ:سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ’’ گمراہ کن غلط فہمیوں کا ازالہ‘‘)
صحابہ رضی اﷲ عنہ کی باہمی مشاجرات کی عجیب توجیہ
ملفوظ: قطب الارشاد حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری قدس سرّہٗ
مولانا عاشق الٰہی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ بعد عصر حسب معمول آپ صحن باغ میں چارپائی پر بیٹھے ہوئے اور چاروں طرف مونڈھوں پر خدام و حاضرین کا ایک کثیر مجمع چاند کا ہالہ بنا بیٹھا تھاکہ راؤ مراد علی خان صاحب نے حضرات صحابہ رضی اﷲ عنہم کی باہمی جنگ و رنجش کا تذکرہ کرنا شروع کر دیا۔ اور اس پر رائے زنی ہونے لگی کہ فلاں نے غلطی کی اور فلاں کو ایسا نہ کرنا چاہیے تھا، یہاں تک نوبت پہنچی تو دفعتہ حضرت کو جوش آ گیا اور مہر سکوت ٹوٹ گئی، کہ جھرجھری لے کر حضرت سنبھلے اور فرمایا کہ راؤ صاحب! ایک مختصر سی بات میری سن لیجیے۔
بات یہ ہے کہ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا میں مخلوق کو قیامت تک پیش آنے والی تمامی ضروریات دین و دنیا سے باخبر کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ اور ظاہر ہے کہ وقت اتنی بڑی تعلیم کے لیے آپ کو بہت ہی تھوڑا دیا گیا تھا، اس تعلیم و تکمیل کے لیے ہر قسم کے حوادثات و واقعات پیش آنے کی ضرورت تھی کہ ان پر حکم اور عمل مرتب ہو، تو دنیا سیکھے کہ فلاں واقعہ میں یوں ہونا چاہیے۔ پس اصول کے درجہ میں کوئی واقعہ بھی ایسا نہیں رہا جو حضرت روحی فداہ کے زمانۂ بابرکت میں حادث نہ ہو چکا ہو۔ اب واقعات تھے دو قسم کے، ایک وہ جو منصب نبوت کے خلاف نہیں اور دوسرے وہ جو عظمت شانِ نبوت کے منافی ہیں، پس جو واقعات منصب نبوت کے خلاف نہ تھے وہ تو حضرت پر پیش آئے، مثلاً تزویج اور اولاد کا پیدا ہونا، ان کا مرنا دفنانا، کفنانا وغیرہ وغیرہ۔ تمامی خوشی و غمی کے واقعات حضرت کو پیش آ گئے اور دنیا کو عملاً یہ سبق مل گیا کہ عزیز کے مرنے پر ہم کو فلاں فلاں کام کرنا مناسب ہے اور فلاں نامناسب۔ اور کسی کی ولادت و ختنہ و نکاح وغیرہ کی خوشی کے موقع پر یہ بات جائز ہے اور یہ خلاف سنت۔
مگر وہ واقعات باقی رہے جو رسول پر پیش آویں تو عظمت رسالت کے خلاف ہو اور نہ پیش آویں تو تعلیم محمدی ناتمام رہے، مثلاً زنا و چوری وغیرہ ہو، تو اس طرح حد و تعزیر ہونا چاہیے، اور باہم جنگ و قتال، نفسانی اغراض پر دنیوی امور میں نزاع و رنجش ہو، تو اس طرح اصلاح ہونی چاہیے، یہ امور ذات محمدی پر پیش آنا کسی طرح مناسب نہ تھے اور ضرورت تھی پیش آنے کی۔
لہٰذا حضرات صحابہ نے اپنے نفوس کو پیش کیا کہ ہم خدام و غلام آخر کس مصرف کے ہیں، جو امور حضرت کی شان کے خلاف ہیں وہ ہم پر پیش آویں اور حکم و نتیجہ مرتب کیا جاوے تاکہ تکمیل ہو جائے۔ چنانچہ حضرات صحابہ رضی اﷲ عنہم پر وہ سب ہی کچھ پیش آ لیا، جو آئندہ قیامت تک آنے والی مخلوق کے لیے رشد و ہدایت بنا اور دنیا کے ہر بھلے برے کو معلوم ہو گیا کہ فلاں واقعہ میں یہ کرنا اور اس طرح کرنا مناسب ہے، اور یہ کرنا اور اس طرح کرنا نامناسب۔ پر کوئی ہو تو ایسا باہمت جاں نثار جو تکمیل دین محمد کی خاطر ہر ذلت کو عزت اور عیب کو ہنر سمجھ کر نشانۂ ملامت بننے پر فخر کرے اور بزبان حال کہے کہ:
نشود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت
سر دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی
(دشمن کو میسر نہیں کہ وہ آپ کی مبارک تلوار کا شہید بن سکے، دوستوں کے سر اسی لیے سلامت ہیں کہ آپ خنجر آزمائیں)
شہرت و نیک نامی اور عزت و نام آوری سب چاہا کرتے ہیں،مگر اس کا مزہ کسی عاشق سے پوچھو کہ جاں نثاری میں کیا لطف ہے اور کوچۂ معشوق کی ننگ و عار کیا لذیذ شے ہے۔
از ننگ چہ گوئی مرا نام ز ننگ ست
وز نام چہ پرسی کہ مرا ننگ ز نام است
سچے عاشق تو اس طرح ہماری تمھاری اصلاح و تعلیم کی خاطر اپنی عزت و آبرو و نثار کریں اور ہم ان کے منصف وڈپٹی بن کر تیرہ سو برس بعد ان کے مقدمات کا فیصلہ دینے کے لیے بیٹھیں اور نکتہ چینیاں کر کے اپنی عاقبت گندی کریں، اس سے کیا حاصل، اگر ان جواہرات سنیہ کے قدر داں نہیں بن سکے تو کم سے کم بد زبانی و طعن ہی سے اپنا منہ بند رکھیں کہ ’’ اللّٰہ اللّٰہ فی اصحابی لا تتخذوہم من بعدی غرضا ‘‘۔ دیر تک آپ نے یہ تقریر فرمائی کہ دہن مبارک سے پھول جھڑتے اور سامعین کے مشام جان میں جگہ پکڑتے رہے۔ (تذکرۃ الخلیل)
(مطبوعہ: ’’تذکرہ حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم صاحب رائے پوری‘‘)