تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

احرار اور سرکار کی خط و کتابت ……بسلسلۂ تحریکِ کشمیر

امام اہل سنت، جانشین امیرِ شریعت، مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ 

قسط:۱

تحریک کشمیر، تاریخِ احرار کا ایک عظیم اور قابلِ فخر باب ہے، اس کی بنیادی معلومات تاریخِ احرار کے اوراق میں اور مزید ضروری تفصیلات بزرگ رہنما، محترم تاج الدین انصاری کی نئی تالیف ’’تحریکِ کشمیر اور احرار‘‘ کے صفحات میں موجود ہیں۔ زیرِ نظر رسالہ اسی تحریک کے دوران میں پیش آنے والے ایک خاص مرحلہ کی نقشہ کشی پر مشتمل ہے۔
تقسیم ملک سے پہلے برصغیر ہند و پاک میں نوابیاں اور رجواڑے تعلق داریاں اور ریاستیں انگریزیں فرمانروائی میں ایک مستقل نظام اور حکومت اندر حکومت کا صحیح نمونہ تھیں۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ ملک کی چھوٹی سے چھوٹی مذہبی اور سیاسی گروہ بندیوں سے لے کر کانگریس اور مسلم لیگ جیسی سب سے قدیم اور بڑی پارٹیوں تک نے بھی ایک طویل عرصہ تک اس دوہری غلامی کے سدّباب کے لیے کسی عزم اور کوشش کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مجلس احرار کو اﷲ تعالیٰ نے جہاں تحریک آزادی کے تمام مراحل پر ہمیشہ سبقت و قیادت کے شرف سے نوازا…… وہیں اُسے یہ امتیاز و خصوصیت بھی عطا فرمائی کہ اس نے ملک کے لیے براہِ راست جدجہد آزادی کی زہرہ گداز اور جاں توڑ مہم کے ساتھ ساتھ انگریز کی ’’دوسری سیاسی دفاعی لائن‘‘ یعنی ریاستی نظام کو بھی للکارا اور اپنے عزم و قوت کا نشانہ بنایا، اپنی عمر اور وسائل کی حیثیت سے سینکڑوں گنا بڑھ چڑھ کر اقدامات کیے اور ’’ہل مِنْ مُّبَارِزْ‘‘ (کیا ہے کوئی سامنے آنے والا) کا نعرہ لگاتے ہوئے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔
احرار کی محنت و جانفشانی اور عوام کی اثر پذیری و جاں سپاری کے سبب سے جب پون لاکھ سرفروشوں کی یلغار نے کشمیر اور پنجاب کی جیلوں کے نظام کا انجر پنجر ڈھیلا کر کے رکھ دیا، ریاستی حکومت بے بس ہو گئی۔ کشمیری مسلمان بیدار ہو کر اس مہم کے حامی بن گئے، رنگون( برما) سے دکن اور کراچی سے پشاور تک، ملک کے گوشہ گوشہ سے رضاکار لشکروں کا تانتا بندھ گیا، تحریک کی عظمت و اہمیت اور اس کے دور رس سیاسی و اقتصادی اثرات نے عوام و خواص سب کو جھنجھوڑ کر احرار سے ہم آہنگ ہونے پر مجبور کر دیا، تو پھر انگریز نے بھی اپنے مشہور عیّاری و فن کاری کے سنگھاسن سے نیچے قدم رکھ کر اکابر احرار سے مصالحت کا ڈول ڈالا۔ بظاہر غیر اہم لیکن فی الحقیقت احرار کی فطرت اور اجتماعی مزاج کے موافق عنصریعنی جمعیت علماء ہند کے بزرگوں کو واسطہ بنانے پر آمادگی ظاہر کر دی، چنانچہ ریاست کی طرف سے وزیر اعظم کشمیر سر ہری کشن کول اور نمائندگانِ احرار کے طور پر حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اﷲ اور مولانا احمد سعید دہلوی رحمہ اﷲ علیہما کے مابین اس مسئلہ پر بڑی متین، مدلل اور اصولی خط و کتابت ہوئی، لیکن انجام کار سر فضل حسین، قادیانیوں اور دوسرے انگریز پرستوں کی دسیسہ کاری نے رکاوٹ ڈالی اور مستقبل میں احرار کے سیاسی عروج و اقتدار کا تصور کر کے برطانیہ اور ریاستی حکومت نے بات چیت ختم کر دی۔ گلینسی کمیشن بیکار ہو گیا، البتہ تحریک کا بنیادی مقصد اس حد تک پورا ہوا کہ کشمیری مسلمان ہندوؤں کے مقابلہ میں زیادہ ولولہ، جوش و خروش، ہمت و استقلال اور شعور و بصیرت کے ساتھ آزادیٔ کشمیر اور آزادیٔ ملک کی جدوجہد میں باقاعدہ شریک ہو گئے۔ آئندہ سطور میں احرار اور سرکار کی مذکورہ خط و کتابت ملاحظہ کریں، کیونکہ بظاہر یہ چند صفحات کا حقیر تحریری مجموعہ تحریک و سیاست کشمیر کی تاریخ کے صحیح فہم اور اس کے متعلق عادلانہ غور و فیصلہ کے ضمن میں منطقی واسطہ اور اکابر احرار کے قول و عمل کے لیے میزان کا کام دے گا۔
( حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری: ۱۳۸۸ھ/۱۹۶۸ء)
نومبر ۱۹۳۱ء کی آخری تاریخوں میں شیخ محمد صادق صاحب کی سعی مفاہمت کی ناکامی اور مولوی انیس احمد اور نواب بھیا فرید الدین کی اپنے اس خیال میں مایوسی کے بعد کہ وہ حکومت ہند کے کسی ذمہ دار افسر سے کوئی دعوتی خط لا سکیں گے، مولوی انیس احمد اور نواب بھیا فرید الدین نے حضرت مفتی کفایت اﷲ صاحب اور مولانا احمد سعید صاحب سے دریافت کیا کہ اگر ہزہائی نس مہاراجہ کشمیر آپ کو گفتگوئے مصالحت کے لیے دعوت دیں تو آپ احرار اور حکومت کشمیر کے درمیان مفاہمت کرانے پر آمادہ ہوں گے یا نہیں؟
حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ باعزت مفاہمت کے لیے ہر دانش مند اور خود دار شخص تیار ہوتا ہے اور مجلس احرار بھی تیار ہو گی اور اس سلسلے میں اگر ہم کوئی خدمت کر سکتے ہیں تو ہمیں عذر نہیں ہے۔ دوسری ملاقات میں وہ آ کر یہ کہہ گئے کہ ہزہائی نس کی طرف سے آپ کے اور مولانا احمد سعید صاحب کے نام دعوت نامہ آئے گا اور پھر تیسری ملاقات میں انھوں نے یہ کہا کہ وزیر اعظم یہ چاہتے ہیں کہ دعوت نامہ کی اشاعت نہ کی جائے۔ مفتی صاحب نے کہا کہ ہم دورانِ گفتگوئے مصالحت اسے شائع نہ کرنے کا وعدہ کر سکتے ہیں، لیکن جب گفتگو کا سلسلہ کامیابی یا ناکامی پر ختم ہو جائے تو پھر تمام خط و کتابت ضرور شائع کی جائے گی، اس کو وزیر اعظم نے منظور کر لیا۔ چنانچہ یکم دسمبر کو مولوی انیس احمد اور نواب فرید الدین صاحبان نے ہزہائی نس مہاراجہ کشمیر کا یہ دعوت نامہ جو نمبر ایک پر درج ہے لا کر دیا۔
یہاں پر یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ مولوی انیس احمد اور نواب فرید الدین صاحبان کا اس معاملہ سے بس اس قدر تعلق ہے، چنانچہ وزیر اعظم کا تار جب مفتی صاحب کو ملا جو نمبر ۱۳ پر درج ہے اور جس میں لاہور کے بورسٹل جیل میں احرار لیڈرز سے ملاقات اور گفتگو کرنے کے لیے مفتی صاحب اور مولانا احمد سعید صاحب کو دعوت دی گئی تھی تو لاہور جانے سے قبل دہلی میں ہی حضرت مفتی صاحب نے ان دونوں صاحبوں سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ احرار لیڈرز کے ساتھ ملاقات اور گفتگو میں آپ کو شریک نہیں کیا جائے اور نہ کوئی سرکاری آدمی یا جیل آفیسر شریک ہو سکے گا۔
اب چونکہ بظاہر گفتگوئے مفاہمت کا یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے، اس لیے حضرت مفتی صاحب کی اجازت سے میں تمام خط کتابت شائع کر رہا ہوں، تمام مراسلات کی اصلیں محفوظ ہیں اور اس اشاعت میں کسی قسم کی رائے کے اظہار سے احتراز کیا گیاہے۔ صرف تمام دستاویزات کو پبلک کے سامنے پیش کر دینا مقصود ہے تاکہ لوگوں کو دیکھنے اور رائے قائم کرنے میں آزادی رہے۔ (سید محمد شفیع سر، دفتر جمعیت علماءِ ہند، دہلی)
ہزہائی نس مہاراجہ کشمیر کی طرف سے دعوتی خط
مولانا مفتی محمد کفایت اﷲ صاحب کے نام
کشمیر ہاؤس (دہلی)
۲؍ دسمبر ۱۹۳۱ء
جناب محترم!
میں نہایت خوشی کے ساتھ یہ بات جناب کے علم میں لاتا ہوں کہ آج سہ پہر کے وقت ۵ اور ۶ بجے کے درمیان ہزہائی نس مہاراجہ بہادر آف کشمیر آپ سے اور مولانا احمد سعید صاحب سے ملاقات کی مسرت حاصل کرنا چاہتے ہیں، بالکل صحیح ٹائم بعد میں ٹیلی فون پر عرض کر دیا جائے گا۔
آپ کا نیاز مند:
ہری کشن کول
وزیر اعظم جموں و کشمیر
بخدمت مفتی کفایت اﷲ صاحب
( پریذیڈنٹ جمعیت علمائے ہند، دہلی)
حضرت مفتی صاحب اور مولانا احمد سعید صاحب کی ہزہائی نس مہاراجہ کشمیر سے ملاقات
ہزہائی نس کے مکتوب (۱) کی بناء پر دسمبر ۲؍ ۱۹۳۱ء کو حضرت مفتی صاحب اور مولانا احمد سعید صاحب نے کشمیر ہاؤس دہلی میں ہزہائی نس سے ملاقات کی۔
ہزہائی نس اخلاق و احترام سے پیش آئے اور فرمایا کہ ’’میں آپ کی تکلیف فرمائی کا ممنون ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آپ کی بزرگانہ کوششیں اس تلخی کو جو کشمیر اور احرار میں پیدا ہو کر دونوں کے لیے پریشانی اور تکالیف کا سبب بن رہی ہے، دور کرنے میں کامیاب ہوں گی‘‘۔
مفتی صاحب نے فرمایا کہ ’’میں آپ کی اس مہربانی کا کہ آپ نے ہمیں یاد فرمایا، ممنون ہوں اور جس امر کا آپ نے ذکر فرمایا، میں اس کو انسانی خدمت کے لحاظ سے ادا کرنے کے لیے تیار ہوں، لیکن ہزہائی نس کو معلوم ہے کہ معاملہ کی باگ ڈور مجلس احرار کے ہاتھ میں ہے۔ مجلس احرار کے کئی رہنما قید ہو چکے ہیں، اگر ہزہائی نس احرار لیڈروں کو جو مختلف جیلوں میں قید ہیں، ایک جیل میں جمع کرادینے کا انتظام کرا دیں اور ہم دونوں کو اس کا موقع دیں کہ ہم ان احرار رہنماؤں کو ساتھ لے کر جو ابھی قید نہیں ہوئے ہیں،اسیر رہنماؤں سے ملاقات اور گفتگو کریں، اگر ایسا موقع بہم پہنچایا گیا تو ہمیں امید ہے کہ ایک باعزت مفاہمت کر ا دینے میں ہم کامیاب ہو جائیں گے۔
وزیر اعظم نے مہاراجہ کشمیر کے کے مواجہہ میں دریافت کیا کہ باہر سے کن اصحاب کو اندر لے جانا آپ مناسب سمجھتے ہیں؟ مفتی صاحب نے چودھری افضل حق، خواجہ عبدالرحمن غازی، مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری( یہ اس وقت تک گرفتار نہ ہوئے تھے) کے اسماء گرامی بتائے اور ساتھ ہی یہ تصریح بھی کر دی کہ یہ حضرات اگر کسی اور شخص کو بھی اندر لے جانا ضروری سمجھیں تو اس کو لے جانے کی اجازت ہونے چاہیے۔ پھر وزیر اعظم نے دریافت کیا کہ اُن اسیر رہنماؤں کے نام کیا ہیں جن کو آپ ایک جیل میں جمع کرانا چاہتے ہیں؟ مفتی صاحب نے مولانا مظہر علی اظہر، مولانا احمد علی صاحب، مولانا محمد چراغ، مولانا محمد داؤد غزنوی، شیخ حسام الدین، خواجہ غلام محمد، ماسٹر محمد شفیع کے نام لکھوا دیے۔ مفتی صاحب کی اس تجویز کو ہزہائی نس مہاراجہ صاحب نے منظور کر لیا۔
راجہ ہری کشن کول وزیر اعظم نے فرمایا کہ مولوی مظہر علی صاحب تو ہمارے جموں جیل میں ہیں، انھیں تو ہم بلا توقف جہاں چاہیں منتقل کر سکتے ہیں، البتہ احرار لیڈرز جو انگریزی حکومت کے قیدی اور پنجاب کے مختلف جیلوں میں ہیں، ان کو ایک جیل میں جمع کرنے کے لیے حکومت پنجاب سے کہنا ہو گا، مگر یہ کوئی دقت طلب بات نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا انتظام آسانی سے اور جلد ہو جائے گا۔ میں آج یا کل یہاں سے لاہور جاؤں گا اور حکومت پنجاب کے ذمہ دار افسروں سے گفتگو کروں گا۔ ۴ یا ۵ دسمبر تک آپ کو اطلاع دوں گا۔ آپ کے خیال میں کس جگہ اجتماع مناسب ہو گا؟
مفتی صاحب نے کہا کہ اجتماع لاہور میں ہو تو بہتر ہو گا، مگر ہمیں اس پر کوئی اصرار نہیں ہے کہ لاہور ہی ہو، جہاں بھی ہو ہم وہیں جا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہاں میرے خیال میں بھی لاہور میں جمع کرنا اچھا ہے۔ پنجاب گورنمنٹ کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ بہرحال اگر اجتماع لاہور میں ہو تو جس وقت آپ لاہور پہنچیں، مجھے اطلاع کر دیں تاکہ (اگر میں خود لاہور میں موجود نہ ہو تو) کوئی ذمہ دار شخص معاملات پر گفتگو کرنے کے لیے لاہورمیں ہی موجود رہے۔
اس گفتگو اور قرار داد کے بعد مفتی صاحب اور مولانا احمد سعید صاحب ہزہائی نس سے رخصت ہو کر چلے آئے اور اس امر کے منتظر رہے کہ وزیر اعظم ہمیں اطلاع دیں تو ہم لاہور جائیں۔ کئی روز کے انتظار کے بعد ۶؍ دسمبر کو وزیر اعظم کا جموں سے یہ تار آیا۔
تار منجانب وزیر اعظم بنام مفتی صاحب
جمّوں
۶ دسمبر ۱۹۳۱ء
مفتی کفایت اﷲ ، پریذیڈنٹ جمعیت علمائے ہند، دہلی
حکومت پنجاب سے ملاقات ہو گئی۔ اراکین کو ایک جگہ مجتمع کرنے میں چند یوم کا عرصہ لگے گا۔ اس مدت میں آپ براہِ کرم حضراتِ لاہور کو اپنی رائے سے مطلع کر دیجیے اور اس کی ایک کاپی میرے پاس بھی بھیج دیجیے، میں آپ کو خط بھیج رہا ہوں۔
وزیر اعظم
اس تار کے جواب میں مفتی صاحب نے وزیر اعظم کو حسب ذیل خط بھیجا۔
مراسلہ مفتی صاحب بنام وزیر اعظم
دہلی
۷دسمبر ۱۹۳۱ء
جناب مکرم وزیر اعظم ریاست جموں و کشمیر
تسلیم! جناب کا تار موصول ہوا۔ شکریہ۔ میرے خیال میں ممبران ورکنگ کمیٹی احرار کے اجتماع میں کوئی دقت نہیں ہے، ان کے اجتماع اور میرے ان سے ملنے اور مشورہ کرنے سے پہلے نہ میں کوئی تجویز مرتب کر سکتا ہوں اور نہ کوئی ایسی تجویز مفید ہو گی، براہِ کرم ان کے اجتماع کا انتظام جلد کر دیجیے۔
محمد کفایت اﷲ، دہلی
مراسلہ وزیر اعظم بنام مفتی صاحب
ہزہائی نس گورنمنٹ جموں و کشمیر وزیر اعظم آفس
از سری نگر کشمیر
۱۱؍ دسمبر ۱۹۳۱ء
کرم فرمائے من مفتی کفایت اﷲ صاحب۔
تسلیم! لاہور میں تذکرہ کے بعد پایا گیا کہ قیدیانِ احرار کو یک جا کرنے میں کسی قدر توقف ہے۔ اس لیے میں نے بذریعہ تار آپ کی خدمت میں التماس کی ہے کہ بالفعل برائے مہربانی بذریعہ خط لیڈران احرار موجودہ لاہور کو تحریک فرما دیں کہ شورش کو جاری رکھنا بلا ضرورت اور غیر مفید ہے، امید ہے کہ آپ نے برائے مہربانی خط تحریر فرما دیا ہو گا۔ اُمید ہے کہ آپ کی توجہ اس کارِ خیر کی طرف مبذول رہے گی۔
آپ کا خیر اندیش
ہری کشن کول
تار وزیر اعظم بنا م مفتی صاحب
سری نگر کشمیر
۱۳؍ دسمبر ۱۹۳۱ء
مفتی کفایت اﷲ ، صدر جمعیت علمائے ہند، دہلی
آپ کا تار ملا۔ خط ابھی تک موصول نہیں ہوا۔ انتظار کر رہا ہوں۔
وزیر اعظم
اس تار کا جواب فوراً بذریعہ تار دیا گیا جو حسب ذیل تھا۔
تار مفتی صاحب بنام وزیر اعظم
دہلی
۱۴؍ دسمبر ۱۹۳۱ء
وزیر اعظم ریاست جموں و کشمیر
۷ دسمبر ۱۹۳۱ء کو رجسٹرڈ خط بھیجا گیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ورکنگ کمیٹی احرار کے اجتماع میں کوئی دشواری نہیں ہے، براہِ کرم ان کے اجتماع کی جلد صورت کیجیے، کیونکہ جو تجویز ان کے مشورہ سے مرتب کی جائے گی، اس کے نتیجہ خیز ہونے کی زیادہ توقع ہے۔
محمد کفایت اﷲ
۱۴؍ دسمبر تک جب یہ تار (۷) دیا گیا تھا، وزیر اعظم کا خط نمبر ۵ مفتی صاحب کو نہیں ملا تھا، وہ ۱۶؍ دسمبر کو موصول ہوا تو پھر ایک تار وزیر اعظم کو حسب ذیل مضمون کا دے دیا گیا۔
تار مفتی صاحب بنا م وزیر اعظم
دہلی
۱۶؍ دسمبر
وزیر اعظم ریاست جموں و کشمیر
آپ کی چٹھی مورخہ۱۱۔ آج ۱۶؍ کو ملی، میں اپنی چٹھی اور ٹیلی گرام کے ذریعہ آپ کو اطلاع دے چکا ہوں کہ لیڈرانِ احرار کو ایک جگہ جمعہ کرنے اور ہم کو ان سے گفتگو کرنے کا موقع دینے سے پہلے کوئی تجویز مفید نہیں ہوسکتی، میں محسوس کر رہا ہوں کہ جس قدر تاخیر ہو رہی رہی مصالحت کی راہ میں مشکلات بڑھ رہی ہیں، میں آپ کے جواب کا انتظار کر رہا ہوں۔
محمد کفایت اﷲ
آنریبل میاں سر فضل حسین کی ملاقات
غالباً ۱۰؍ دسمبر کو خواجہ حسن نظامی نے مولانا احمد سعید صاحب کو اطلاع دی کہ میاں سر فضل حسین صاحب مفتی صاحب اور آپ سے ملاقات کے متمنی ہیں، فرماتے ہیں اگر آپ حضرات آج ۴ بجے ان کی کوٹھی پر تشریف آوری کی تکلیف گوارا فرمائیں تو بڑی عنایت ہو گی۔ مولانا احمد سعید صاحب نے مفتی صاحب سے استصواب کر کے خواجہ صاحب سے کہہ دیا کہ اچھا ہم دونوں میاں صاحب سے ملاقات کے لیے ۴ بجے ان کی کوٹھی پر پہنچ جائیں گے۔
چنانچہ ۴ بجے دونوں حضرات میاں صاحب سے ان کی کوٹھی پر ملاقات کی، ملاقات کے وقت خواجہ حسن نظامی اور سیٹھ حاجی عبداﷲ ہارون بھی موجود تھے۔ دیگر معاملات پر گفتگو کرنے کے بعد میاں صاحب نے مجلس احرار کے اقدام کا بھی تذکرہ کیا۔ تقریباً ایک گھنٹہ تک گفتگو جاری رہی۔ دونوں حضرات نے میاں صاحب سے یہی کہا، مجلس احرار باعزت مفاہمت سے پہلو تہی نہ کرے گی اور ایک باوقار اور باعزت مفاہمت کرانے کے لیے ہم بھی اپنی خدمات پیش کرنے میں تامّل نہیں کریں گے۔ لیکن چونکہ یہ اقدام مجلس احرار کی طرف سے ہوا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ان کے رہنماؤں سے گفتگو اور مشورہ کے بعد ان کی شرائط مرتب کی جائیں، اس لیے ضروری ہے کہ مجلس احرار کے اسیر رہنماؤں کو ایک جیل میں جمع کیا جائے اور ہمیں اور احرار کے آزاد رہنماؤں کو ان سے ملاقات اور مشورہ کا موقع دیا جائے۔
میاں صاحب نے اسیر رہنماؤں کے نام دریافت کیے اور باہر سے جیل میں جانے والوں کے نام پوچھے، ہم نے اسیروں اور باہر سے جانے والوں کی وہی فہرست لکھوا دی جو راجہ ہری کشن کول وزیر اعظم کو لکھوائی تھی اور وہی شرط کر لی کہ دی ہوئی فہرست کے علاوہ بھی کسی اور شخص کو لے جانے یا اور کسی اسیر کو یک جا کرنے کی ضرورت ہوئی تو اس کی بھی اجازت ہونی چاہیے۔ میاں صاحب نے اسے منظور فرما لیا اور فرمایا کہ اچھا میں کل یاپرسوں لاہور جاؤں گا اور چودھری افضل حق وغیرہ سے بات کروں گا، اگر انھوں نے بھی پسند کیا تو میں اس کا انتظام کر کے افریقہ جاؤں گا۔ چنانچہ ۱۲؍ دسمبر کو میاں صاحب دہلی سے لاہور گئے۔ مفتی صاحب کو لاہور کے پتہ سے بغرض یاد دہانی حسب ذیل تار دیا۔
تار مفتی صاحب بنام میاں سر فضل حسین
دہلی
۱۴؍ دسمبر ۱۹۳۱ء
آنریبل میاں سر فضل حسین صاحب
جناب نے متعلقہ اشخاص سے گفتگو کے بعد اجتماع کا انتظام کر دیا ہو گا، مہربانی فرما کر بذریعہ تار مطلع فرمائیں
محمد کفایت اﷲ
اس تار کا جواب میاں صاحب نے خط کے ذریعہ دیا۔ جس کی نقل حسب ذیل ہے۔
مکتوب میاں سر فضل حسین بنام مفتی صاحب
نمبر۶ کنگ ایڈورڈ روڈ نیو دہلی
(بمبئی کو جاتے ہوئے راستہ میں)
۱۴؍ دسمبر ۱۹۳۱ء
محترم مولوی صاحب
آپ کا تار مورخہ ۱۴؍ دسمبر ۱۹۳۱ء کو موصول ہوا، میں چودھری افضل حق اور دیگر اشخاص سے گفتگو کر چکا ہوں، میرا خیال ہے کہ آپ کی تجویز کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔
میں ہوں آپ کا مخلص
فضل حسین
یہ خط بھیج کر میاں صاحب تو لندن روانہ ہوئے، یہ کچھ نہیں بتایا کہ انھیں نے گفتگو کا انتظام کس طرح کیا اور کس کو معین کیا؟
مفتی صاحب نے میاں صاحب کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ راجہ ہری کشن کول سے یہ بات طے ہوئی ہے اور ساری گفتگو جو پہلے درج ہو چکی ہے، ان سے ذکر کر دیا تھا۔ میاں صاحب نے فرمایا تھا کہ کچھ مضائقہ نہیں، مقصد ایک ہی ہے کہ منصفانہ اور معقول طریقہ پر یہ کشمکش ختم ہو۔
اس کے بعد راجہ ہری کشن کول کا یہ تار موصول ہوا۔
بورسٹل جیل میں احرار رہنماؤں سے ۲۲؍ دسمبر ۱۹۳۱ء کو ملاقات
۲۲؍ دسمبر ۱۹۳۱ء کو ایک بجے دن کو بورسٹل جیل میں احرار لیڈروں سے ملاقات ہوئی۔ باہر سے ہم دونوں اور چودھری افضل حق صاحب اور خواجہ عبدالرحمن غازی گئے تھے اور اندر مولوی مظہر علی اظہر، مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری، مولانا احمد علی، مولانا حبیب الرحمن، مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا محمد چراغ، خواجہ غلام محمد، اور شیخ حسام الدین موجود تھے، ماسٹر محمد شفیع بیمار تھے اس لیے وہ گفتگو میں شریک نہ ہوئے، کوئی اور شخص ملاقات اور گفتگو میں شریک نہ تھا۔ ۶ بجے شام تک گفتگو ہوئی، اس کے بعد سب واپس چلے آئے اور نتیجۂ گفتگو و ملاقات کے طور پر حضرت مفتی صاحب نے راجہ ہری کشن کول وزیر اعظم کے نام خط لکھ کر ان کے پرسنل اسسٹنٹ پنڈت جیون لال کو باخذ رسید حوالہ کر دیا، خط یہ تھا۔
مراسلہ مفتی صاحب بنام وزیر اعظم
لاہور
۲۳؍ دسمبر ۱۹۳۱ء
بخدمت جناب پرائم منسٹر صاحب، ریاست جموں و کشمیر
تسلیم!کل ۲۲؍ کو میں اور مولانا احمد سعید صاحب اور چودھری افضل حق صاحب اور غازی عبدالرحمن صاحب بورسٹل جیل میں احرار لیڈرز سے ملے۔ احرار لیڈرز میں مولانا حبیب الرحمن، مولانا مظہر علی اظہر، شیخ حسام الدین، مولانا احمد علی، مولانا سید محمد داؤد صاحب، مولانا عطاء اﷲ شاہ صاحب، خواجہ غلام محمد اور مولانا محمد چراغ موجود تھے۔ سب سے پہلے ہمیں اس ناگوار حقیقت کا علم ہوا کہ احرار لیڈرز کو باوجود اس کے کہ باہم مل کر گفتگو اور تبادلۂ خیالات کرنے کے لیے ہی جمع کیا گیا تھا۔ بورسٹل جیل میں ان کو باہم ملنے اور مشورہ کرنے کا موقع نہیں دیا گیا، سب کو علیحدہ علیحدہ رکھا گیا ہے۔
اور ہمارے ساتھ ملنے سے پہلے ان کو آپس میں ملنے اور مشورہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، یہ طرز عمل ایسا تھا کہ احرار لیڈرز کوئی گفتگو نہ کرتے تو حق بجانب ہوتے، لیکن انھوں نے خالی الذہن ہونے کے باوجود باعزت صلح سے اعراض کرنے سے احتراز کیا اور ابتدائی مراحل پر تبادلۂ خیالات کرتے رہے۔
ان کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کا مقصد مسلمانانِ کشمیر کے لیے انصاف حاصل کرنے میں مدد دینا اور آئندہ ان کے لیے امن و ترقی کی راہ نکالنا ہے اور اس کے لیے وہ ذمہ دار حکومت کے قیام کو ضروری سمجھتے ہیں اور اسی بنیاد پر صلح کی گفتگو کرنے کو تیار ہیں۔ دوسرے یہ کہ گفتگوئے صلح ذمہ دارانہ طریقہ پر یعنی کوئی نمائندہ دربار کی طرف سے ذمہ داری کے ساتھ گفتگو کرے، اس لیے میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان دونوں باتوں کے متعلق مناسب صورت نکالیں اور مجھے مطلع فرمائیں۔
محمد کفایت اﷲ
(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.