تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

میرا افسانہ

مفکر احرار چودھری افضل حق رحمۃ اﷲ علیہ

قسط: ۵

ایک دن گاؤں کا ایک سکھ لیکچر سن گیا اور مجھے اپنے گاؤں آنے کی دعوت دے گیا۔ دوسرے دن ان کے گاؤں گیا، سکھوں میں عجب زندگی دیکھی۔ ہر طرف لوگ دوڑے بھاگے پھرنے لگے کہ جس نے تھانے داری چھوڑی تھی، وہ آ گیا ہے۔ آدھ گھنٹہ کے اندر اندر تمام سکھ مرد و زن جمع ہو گئے۔ گاؤں کے مسلمان ہاتھوں میں حقے لیے ارد گرد کی مردانہ حویلیوں کی آدم قد چار دیواری سے اونٹ کی طرح گردن اٹھا کر دیکھنے لگے۔ میں نے تقریر شروع کی، مجھے یوں معلوم ہوا کہ سامعین کے جسم میں جوش کی لہر دوڑ رہی ہے۔ تقریر ختم کی تو سب نے واہ جی واہ کہی اور دور تک چھوڑنے آئے۔ اس روز سے کوئی دن ایسا نہ تھا جب سکھوں کے گاؤں سے لیکچر کا بلاوا نہ آتا تھا۔ مجھے سکھوں کی سیاسی استعداد پر تعجب ہوا اور مسلمانوں کی بے حسی کو دیکھ کر طبیعت پریشان ہوئی۔ ایسی بے حس اکثریت ملک کے فوری مقاصد کے لیے تباہ کن ہے، اس لیے میں نے ساری توجہ مسلمانوں کی طرف دی۔ اس کے بعد گڑھ شنکر سے آبادی میں دوسرے درجہ پر ایک گاؤں ہے۔ وہاں تقریر کرنے کے لیے چل دیا، وہاں بھی میں گورنمنٹ کا باغی قرار دیا گیا، بڑا مایوس لوٹا۔ پھر خدا نے ایک ساتھی ملا دیا۔ یہ شخص اپنی انتہائی سادگی کے باعث ایک زن بازاری پر اپنی متاع قربان کر چکا تھا اور تنگ دستی کے باعث عشق سے مستعفی ہو گیا تھا۔ دو دیوانوں کی خوب گزرنے لگی، بعض متدین لوگوں نے اس کی ہمراہی پر اعتراض کیا۔ میں نے کہا نیک لوگ نیکی کے کام میں شرکت نہ کریں تو ایسے لوگوں کی شمولیت کیوں نہ غنیمت سمجھوں۔ جیسا نکما میں گرو ہوں، ویسا مجھے چیلا مل گیا۔ جب آپ جیسے نیک لوگ خدمتِ خلق کے عزم سے اٹھیں گے تو ہم جیسے لوگ اصلاح کر لیں گے یا میدان چھوڑ جائیں گے۔
گڑھ شنکر سے دس میل کے فاصلہ پر ایک اور مسلمانوں کے گاؤں میں گئے۔ میرے نام کی شہرت وہاں پہنچی ہوئی تھی، جو ملا اس نے عزت کی اور سب نے مشورہ دیا کہ مسجد خدا کا گھر ہے، وہاں آپ چل کر نماز ادا کریں۔ ہم کھانا بھی وہیں پہنچاتے ہیں اور لوگ بھی جمع کر کے لاتے ہیں۔ میں اور میرا یہ ہمراہی، دونوں نے مسجد میں ڈیرا لگایا۔ یہ مسجد شہر سے باہر تھی، ہم متعجب تھے کہ شہر کے باہر اس اجڑی مسجد میں جلسہ کا انتظام لوگوں نے کیوں پسند کیا۔ نمازِ عشاء پڑھ کر گاؤں کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے۔ مشرق کے روایتی عاشق کی طرح لوگوں کے انتظار میں قیامت کر کے گھڑیاں کاٹنے لگے۔ بھوک نے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد دلانا شروع کی مگر نہ کوئی کھانا لایا اور نہ خود ہی آیا۔ رات بارہ بجے عقل نے عقدہ کشائی کی کہ لوگوں نے اپنے مکان پر ٹھیرانے کی ذمہ داری سے بچنے کے لیے ناگہانی آفت کو خدا کے گھر کی راہنمائی کی تھی۔ اب ہم صبر کا گھونٹ پی کر اٹھے اور گھر کا راستہ لیا۔ ساری راہ ساتھی اصرار کرتا رہا کہ مجھے بھی تقریر کا موقع دو۔ میں نے کہا اس میں تکلف کیا ہے، صبح محرم کی دسویں ہے، کربلا میں صف بچھا کر بیٹھ جایں گے۔ جو دو چار راہ گیر ہتھے چڑھ جائیں، انھیں لیکچر سنا دینا۔ چنانچہ ہم بھی دوسرے روز تعزیہ داروں کے پاس ہی اڈا جما کر بیٹھ گئے۔ خالی صف دیکھ کر دس بیس تھکے ہوئے آدمی آ بیٹھے۔ میں نے اشارہ کیا کہ اس موقع کو غنیمت جانو۔ بس اٹھ کر تقریر شروع کر دو۔ وہ جھٹ کھڑا ہو گیا اور پکار کر کہا:
بھائیو! سنو! کچھ اور لوگ متوجہ ہو گئے۔ پھر بولا، بھائیو! سنو! اور دیہاتی بھی کھڑے ہو گئے کہ شاید مداری ہے، تماشا کرے گا۔ پھر اس نے کہا، بھائیو! سنو۔ میں نے جھنجھلا کر کہا۔کچھ آگے بھی بکو۔ اس نے پھر کہا، بھائیو! سنو! میں نے اس کی طرف تعجب سے دیکھا، وہ اس مختصر سے مجمع کے رعب سے پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔ کچھ سوچتا تھا مگر کہہ نہ سکتا تھا۔ اب معاملہ سمجھ کر میں نے دل بڑھایا کہ شاباش شروع کرو، اس نے تھوڑی دیر حواس درست کر کے کہا:
بھائیو! امام حسین کربلا کے میدان میں لیٹے ہوئے تھے، وہ یہ کہہ کر پھر خاموش ہو گیا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا، اس نے مجھے مخاطب کیا اور کہا:’’پھر اودھی چھاتی تے کون چڑھیا ہویا سی اوئے‘‘(ابے اس کی چھاتی پر کون چڑھا ہوا تھا)
میرے منہ سے نکلا، شمر۔ اس نے کہا ’’ہاں ہاں شمر‘‘۔ ایسا آنے بھائیو۔ اس کی چھاتی پر سوار تھا۔ مقرر کا رنگ زرد تھا۔ اپنی طرف سے دریا بہانے کی سعی کرتا تھا۔ لیکن ’ایسا کر کے بھائیو‘ سے زیادہ جو اس کا تکیہ کلام تھا۔ کچھ نہ کہہ سکتا تھا۔ آخراس نے پلٹ کر کہا: ’’لے بھئی افضلا، میرا زور لگ چکا، اب تو اٹھ‘‘۔
مجمع نے بے ساختہ قہقہہ لگایا، جس کو سن کر لوگوں کا اور ہجوم ارد گرد جمع ہو گیا۔ ساتھی تو زور آزمائی کر کے شرمندہ سا ہو کر بیٹھ گیا۔ میری موقع شناس عقل نے کہا کہ ایسا مجمع کہاں سے لائے گا۔ میں فوراً اٹھ کھڑا ہوا، سب کو بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ وہ لوگ غالباً اس امید پر بیٹھ گئے کہ میں پہلے مقرر سے بہتر دل لگی کا سامنا بہم پہنچاؤں گا، سب انسپکٹر پولیس اور تحصیلدار جو میلہ میں پھرتے تھے، زیادہ مجمع دیکھ کر ادھر آ گئے۔ میں نے تقریر شروع کر دی، واقعات کو درد انگیزی لفظوں میں دہرایا۔ یہ واقعہ جذبات کی دنیا میں تلاطم پیدا کر دیتا ہے۔ لوگ دھاڑیں مار کر رونے لگے، تحصیلدار اور تھانیدار کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
طبیعت نے کہا کہ لوگوں کے دل سے حکام کا خوف دور کرنے کا یہ بہترین موقع ہے، اس لیے میں نے تقریر کا پہلو بدل کر کہا کہ جس طرح ظالموں نے امام مظلوم کو شہید کیا، اس طرح حکومت کے موجودہ و زرانیکی کو ذبح کر رہے ہیں۔ اس مختصر کلام کو میں نے بہت طول دیا، طبیعت روانی پر تھی، لفظ دماغ سے چھن چھن کر آتے تھے، مجمع مسحور تھا۔ لوگوں کو ڈر تھا کہ میں ابھی باندھ لیا جاؤں گا، میں نے جلسہ برخاست کرا دیا تھا،حوالدار، تحصیلدار کھسیانے سے ہو کر چلے گئے اور لوگوں نے میری جرأت کی داد دی۔ جرأت کی داد سے انسان خود ہی جری ہو جاتا ہے۔ مجھے امید ہو گئی کہ اب میری بات سنی جایا کرے گی۔ اس تقریر نے نہ صرف لوگوں پر جادو کیا بلکہ میری حوصلہ مندی کی ڈھاک بٹھا دی۔ بہادری وہ جوہر ہے جس کا اقرار دشمن کو بھی کرنا پڑتا ہے۔ ہر کہ و مہ کی زبان پر یہ فقرہ جاری ہو گیا کہ آدمی نڈر ہے۔ غلام ملک میں یہ خصوصیت پیدا کرنا ہی آزادی حاصل کرنا ہے۔ ڈرپوک لوگ ہی غلام رہ سکتے ہیں۔ خوف و ہراس کا علاج بھی جرأت کا کارنامہ اور رجز خوانی ہے۔ ایک جرأت دلانے اور ابھارنے والا فقرہ کام کر جاتا ہے۔ فوج کے اکھڑے ہوئے قدم جم جاتے ہیں۔ قوموں کی قسمت پلٹ جاتی ہے اور ملکوں کی تاریخ تبدیل ہو جاتی ہے۔
ان دنوں تھانیدار اور تحصیل دار، دیہاتی علاقہ کے مسولینی اور ہٹلر تھے۔ ان کی سامنے میری بے باک تقریر پرِ پرواز پیدا کر کے گھر گھر پہنچی اور میں آہستہ آہستہ لوگوں کی عزت کا مرکز بننے لگا۔ باوجود یکہ خالص اسلامی نکتہ نگاہ پیش کرتا تھا، تاہم ہندوؤں اور سکھوں نے زیادہ اثر قبول کیا اور مسلمان خائف اور لرزاں رہے۔ اتنا ضرور ہوا کہ ان کا بھی کچھ نہ کچھ مجھ سے قلبی تعلق پیدا ہو گیا۔ حکام ضلع میرے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ سے خائف ہونے لگے۔ گڑھ شنکر حکام کے نزدیک ایجی ٹیشن کا بدترین مرکز بن گیا۔ خود کمشنر حالات کا جائزہ لینے آیا اور مجھے ملاقات کے لیے بلایا۔ میں نے کہلا بھیجا کہ بغیر وارنٹ کے کسی افسر کی ملاقات منظور نہیں کر سکتا۔ پیغامبر میرے گاؤں کے تین ذیلدار تھے۔ کمشنر بلائے اور کوئی نہ جائے، یہاں کے نزدیک ناممکن الفہم بات تھی۔ کمشنر نے ذیلداروں سے کہا، تم اس کے عزیز ہو۔ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرو۔ میں نے جواب دیا کہ آپ کی خاطر کمشنر کے ساتھ اپنے مکان پر ملاقات منظور کرتا ہوں، اس زمانے میں کمشنر تکبر کا مجسمہ تھے۔ انھیں یہ بات کب گوارا تھی، ملاقات نہ ہو سکی اور وہ چلے گئے۔ ان کا ملاقات سے محروم جانا میری گرفتاری کا پیش خیمہ تھا۔ اس حقیقت کو لوگوں سے زیادہ میں خود سمجھتا تھا۔
اس زمانہ میں مسلمانوں پر سب سے زیادہ صوفیا کا اثر تھا۔ میں اپنے علاقہ کے گدی نشینوں کی خدمت میں حاضر ہوا کہ اسلام مظلوم ہو گیا ہے۔ مظلوم کی دم قدم سے مدد آپ پر لازمی ہے۔ اوّل تو میری حاضری سے انگریز کے خوف کے باعث کسی پر سکرات کا عالم اور کسی پر حبس دم کی کیفیت طاری ہو گئی۔ کسی کی زبان جاری ہوئی، قلب کی حرکت بند ہو گئی۔ بڑی بد دلی سے کہا کہ ہم دعا گو ہیں۔ آپ کے لیے دعا کریں گے، میں نے ہزار عرض کیا کہ دعا کے ساتھ دوا بھی فرمائیں کہ مریض اچھا ہو۔ بعض نے بڑی رازداری سے یقین دلایا کہ انگریز کی تباہی کے مسودہ پر سب ولیوں، نبیوں کے دستخط ہو چکے ہیں، اب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دستخط باقی ہیں، تم جان کو تکلیف میں نہ ڈالو، صبح و شام یہ کام ہوا ہی چاہتا ہے۔ میں نے ہر چند سرکارِ مدینہ کی تمام زندگی کے روشن ورق پیش کیے کہ میدان میں اترے بغیر کامرانی کا تاج پہنایا نہ جائے گا۔ جواب ملا میاں تم شریعت کی باتیں کرتے ہو، طریقت کے نور کو نہیں سمجھتے۔
تعویذ 
کسی ایک پر کیا موقوف ہے، مسلمانوں کا سارا کاروبار تعویذوں اور دعاؤں پر ہی منحصر رہ گیا ہے۔ مشکلات کے حل کے لیے جدوجہد کا میدان تلاش نہیں کرے گے، بلکہ مستجاب الدعوات کی تلاش میں اوقاتِ عزیز کو ضائع کریں گے۔ اگر اس بیکار سرگرمی میں وقت ضائع کرنے کے بجائے حصولِ مقصد کے ذرائع سوچنے اور اسباب مہیا کرنے کی کوشش میں اوقات صرف کریں تو کامیابی قدم چومے، مگر جان پر آفت کون اٹھائے۔ زبان ہلا کر کون و مکان میں انقلاب پیدا کرنے والا شخص میسر آ جائے تو کیا بات ہے، لیکن ایسی آرزوؤں کی پرورش کرنے والے مسلمانوں کی عقل کا ماتم کن لفظوں میں کیا جائے کہ جب سرورِ دو عالم کو کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنا پڑی اور اصحابِ رسول ﷺ کو شہادت کا جام نوش کرنا پڑا تو اور کون ہے۔ جو محض زبان سے نظامِ عالم میں انقلاب پیدا کر دے گا؟
ایک عزیز کا ذکر ہے کہ مکان کے دروازے بند کر کے کان پکڑے ہوئے تھا۔ خاندان کے کسی بزرگ نے دروازے کے دراڑ میں سے اچانک دیکھ لیا، پوچھا یہ کیا حال ہے۔ اس عزیز نے سچ مچ کہہ دیا کہ استاد سبق نہ یاد کرنے پر کان پکڑوا دیتا تھا تو تکلیف ہوتی تھی۔ میں کان پکڑنے کی پریکٹس کر رہا ہوں، تاکہ سکول میں کان پکڑنے پڑیں تو تکلف نہ ہو۔ اس بزرگ نے فرمایا کہ برخوردار اتنے میں سبق ہی یاد کر لیا کرو کہ کان پکڑنے کی نوبت ہی نہ آئے۔
مسلمان جس قدر تعویذوں کے حصول کے لیے اور مستجاب الدعوات لوگوں کی جستجو میں جو محنت صرف کرتے ہیں اور تکلیف اٹھاتے ہیں، وہی اگر حصول مقصد کے لیے محنت کریں، تو گھر میں بیٹھے مطالب حاصل ہو سکتے ہیں، مگر ہماری طاقت کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ اس لیے حسبِ منشا نتیجہ پیدا نہیں ہو سکتا۔
دو اور دوستوں کا حال معلوم ہے کہ گھر میں خدا کا دیا بہت کچھ تھا، مگر چشم دنیا دار گھر میں شاہانہ ٹھاٹھ دیکھنے کی متمنی تھی۔ کسی صاحب ضرورت نے انھیں تسخیرِ ہمزاد کا چکمہ دے کر ان سے مالی امداد حاصل کی اور ایسے سبز باغ دکھائے کہ باوجود اہل حدیث ہونے کے دونوں الگ الگ قبرستان میں ۴۰ رات چلہ کاٹنے پر آمادہ ہو گئے۔ رات کے آدھے بجے بستر سے اٹھ کر قبرستان کی سنسان اور ویران جگہ پر جانا جنون سے کم نہیں، لیکن ضرورت مند دیوانہ ہو جاتا ہے۔ نامناسب موسم کے باعث کئی راتیں بارش میں کاٹیں اور مینہ سے بھیگے ہوئے پرندے کی طرح سکڑ سمٹ کر وقت کاٹا۔ مصیبت کے پہاڑ اٹھا کر ۴۰ راتیں پوری کیں۔ اب ان کے خیال میں صبح امید طلوع ہونے والی تھی، انھیں بتایا گیا تھا کہ چالیسویں رات کے بعد وظیفہ ختم کر کے منہ اندھیرے قبرستان سے نکلنا اور جو پہلا شخص تمھیں ملے گا، وہ تمھارا مؤکل جن ہو گا۔ وہ تمھارے تابع فرمان ہو کر تمھاری حسب منشا بادشاہوں کے کسی محلات میں داخل ہو کر خوبصورت شہزادیوں کو اٹھا لایا کرے گا۔ وہ رات بھر میں تمھارے لیے عالیشان قصر تیار کر دے گا۔ دنیاکے سارے خزانے سمیٹ لائے گا۔
ان میں سے ایک وظیفہ کو ختم کر کے خوشی خوشی قبرستان سے نکلے، دیکھا کہ ایک دھوبی کپڑوں کی گٹھڑی لے کر نہر پر جا رہا ہے معاً خیال آیا کہ یہی میرا جن ہے جو دھوبی کے بھیس میں ہے، لپک کر اس کے پیچھے ہو لیا۔ بے وقت قبرستان سے برآمد ہونے پر اس سے دھوبی ڈرا اور گٹھڑی جوتا وہیں چھوڑ کر بھاگا۔ ٹھہرنا ٹھہرنا کہتے یہ پیچھے پیچھے، بچانا بچانا پکارتا دھوبی آگے آگے۔ دونوں کی سانس پھول ہوئی تھی، دھوبی بیچارا قبرستان کے اس جن سے پناہ پانے کے لیے پاس کے گاؤں میں پہنچا۔ جہاں اس کی بہن بیاہی ہوئی تھی۔ وہ گاؤں میں داخل ہوتے ہی پکارا، بہن جنت دروازہ جلدی کھولو۔
لوگو! مجھے بچاؤ۔ تمام گھروں کے مرد لینا لینا کر کے گھروں سے نکل آئے۔ عورتوں نے ڈر کے مارے بچوں کو چھاتیوں سے لگا لیا کہ کیا جانے کیا آفت آئی ہے۔
لوگوں نے دونوں کو پکڑ لیا، وہ اس دھوبی کو جن بتاتا تھا اور دھوبی اسے قبرستان کا بھوت کہتا تھا۔ بڑا معرکہ آن پڑا تھا، دھوبی کو سب جانتے تھے، اس کی بہن جنت اپنے بھائی سے لپٹ کر میرا بھائی، میرا بھائی کہہ کر دھوبی کی کہانی تصدیق کرتی تھی۔ ادھر یہ شکل اور لباس سے بڑے معزز تھے، ان کو جھٹلانا بھی آسان کام نہ تھا، گاؤں کے داناؤں نے آخر فیصلہ دیا کہ دونوں ڈر گئے ہیں اور ایک دوسرے کے متعلق انھیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ ہمارے عزیز دوست نے جلدی سے وہاں رخصت لی۔ مبادا کوئی پوچھ بیٹھے کہ تمھاری کہانی ہے۔
اب دوسرے دوست کی سرگزشت سنیے، وہ قبرستان سے نکلے تو ان کو ایک آوارہ مزاج نوجوان سے مڈبھیڑ ہوئی۔ یہ صبح سویرے انھیں اپنا جن سمجھ کر آواز دینے لگے کہ ٹھہر جا۔ وہ سمجھا کہ پولیس افسر مجھے للکار رہا ہے۔ وہ گھر سے ناراض ہو کر نکلا تھا، پولیس کے ہتھے چڑھ جانے کے خوف سے وہ بھاگا۔ جن کے متلاشی نے کہا، میں نے تیرے لیے اتنی تکلیف اٹھائی ہے۔ تو بھاگ رہا ہے، نوجوان رکا اور پلٹ کر کہنے لگا۔ تھانیدار صاحب میں نے کوئی چوری تو نہیں کی۔ میں باپ سے ضرور ناراض ہو کر نکلا ہوں، لیکن بھائی کے پاس جا رہا ہوں۔ وہ لاہور سیکرٹریٹ میں ملازم ہے۔ تاہم انھیں یقین تھا کہ یہ ضرور جن ہے اور لڑکے کو یقین تھا کہ تھانیدار ہے، دونوں لاہور سیکرٹریٹ میں پہنچے،مزدور کے بھائی نے اسے خوش آمدید کہا، فرضی پولیس افسرکا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے زحمت اٹھائی۔ یہ ناکام و نامراد گھر آئے، اسی روز دونوں ناکام دوست اس امید پر ایک دوسرے سے ملے کہ شاید دوسرے کا چلہ کامیاب رہا ہو۔ جب دونوں ایک دوسرے کے حال سے آگاہ ہوئے تو خفت مٹانے کے لیے ہنسنے لگے۔ (جاری ہے )

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.