شیخ الحدیث، حضرت مولانا محمد زکریا رحمۃ اﷲ علیہ
قسط : ۱
یہ صحیح ہے کہ مسلمان ہر نوع سے پریشان ہیں۔ انفرادی مشکلات مستقل گھیرے ہوئے ہیں اور اجتماعی تفکرات علیحدہ دامن گیر ہیں، لیکن یہ سوال کہ ان کو کیا کرنا چاہیے، ایک عامی سمجھ دار مسلمان کے قلم سے بھی موجب تعجب ہے، چہ جائے کہ کسی ذی علم کے قلم سے۔ اسلام وہ مذہب ہے جس کے متعلق اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں تکمیل کا اعلان فرمایا ہے اور اس احسان اور نعمت کے پورا کر دینے کا تمغہ عطا فرمایا ہے اور کن پیارے الفاظ سے ارشاد فرمایا ہے:
الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمْ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔(سورۂ مائدہ، رکوع: ۱)
ترجمہ: آج میں نے تمھارے لیے دین کامل کر دیا اور (اس تکمیل سے) تم پر اپنا انعام پورا کر دیا اور میں اس بات سے خوش ہوں (اور اس کو پسند کرتا ہوں) کہ تمھارا دین (اور مذہب) اسلام ہو (یعنی مذہب اسلام تمھارے لیے مجھے پسندیدہ ہے اور یہی تمھارا مذہب ہے)۔
کیا ہی مبارک تمغہ ہے، کتنا مسرور بنا دینے والا امتیاز ہے۔ ایسے مکمل دین کے دعوے دار، ایسے کامل مذہب کے پیرو، اس میں پریشان ہوں کہ مسلمان کیا کریں۔ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے اور اس کے سچے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے دین کی یا دنیا کی کوئی بھی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی ضرورت اور بات ایسی باقی نہیں چھوڑی، جس کے متعلق صاف اور کھلے ہوئے الفاظ میں احکام نہ بیان فرما دیے ہوں، ان کے منافع اور نقصانات نہ بتا دیے ہوں اور پھر سب کچھ صرف زبانی تلقین اور کتابی تعلیم نہیں ہے، بلکہ اﷲ کے سچے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی فریفتہ جماعت نے ان سب کو عملی جامہ پہنا کر ان پر عمل کر کے اس کا تجربہ بھی کرا دیا ہے۔
الغرض دین و دنیا کی بہبود بھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع ہی مضمر و منحصر ہے، مگر جب ہم لوگ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اتباع کو دقیانوسیت اور اس کی سنتوں پر مرمٹنے کو تنگ نظر سمجھیں تو آخرت کا جو حشر ہونے والا وہ ظاہر ہے اور دنیا کا جو ہو رہا ہے، وہ آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک ایک حرکت و سکون صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اور محدثین عظام رحمھم اﷲ کے طفیل آج کتابوں میں محفوظ ہے، ایک طرف اس کو سامنے رکھو اور دوسری طرف اُمّت کے حالات کو سامنے رکھو، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک سنت دیدۂ و دانستہ دلیری اور جرأت سے چھوڑی جا رہی ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کا مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ اس کی طرف متوجہ کرنے والوں کو احمق اور دین کا ناسمجھ بتایا جا رہا ہے، کیا اس ظلم عظیم کی کوئی حد ہے اور ایسی صورت میں مسلمانوں کو پریشانی کی شکایت کرنے کا کیا منہ ہے اور تقریروں، تحریروں میں اس پر شور مچانے کا کیا حق ہے مسلمان تباہ ہو گئے
آنچہ برما است از ما است
خود کردہ را علاجے نیست
اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے صاف اور کھلے الفاظ میں ارشاد فرما دیا:
وَمَا اَصَابَکُمْ منْ مُّصِیْبۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْ عَنْ کَثِیْرٍ وَمَا اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الاَرْضِ وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہ مِنْ وَّلّیٍ وَّلَا نَصِیْرٍ (سورۂ شوریٰ، رکوع: ۴)
ترجمہ: اور جو کچھ مصیبت تم کو حقیقتاً پہنچتی ہے، وہ تمھارے ہی اعمال کی بدولت پہنچتی ہے (اور اگر ہر گناہ پر نہیں پہنچتی بلکہ) بہت سے گناہ تو اﷲ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں (اور اگر وہ ہر گناہ پر دنیا میں پکڑ کرنے لگے تو) تم زمین میں (کسی جگہ بھی پناہ لے کر) اﷲ تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتے اور اﷲ کے سوا کوئی حامی اور مددگار نہیں۔
دوسری جگہ ارشاد پاک ہے:
ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ۔ (سورۂ روم، رکوع: ۵)
ترجمہ: بر و بحر (یعنی خشکی اور تری، غرض ساری دنیا) میں لوگوں کے اعمال کی بدولت فساد پھیل رہا ہے (اور بلائیں قحط زلزلے وغیرہ نازل ہو رہے ہیں) تاکہ اﷲ تعالیٰ ان کے بعض اعمال کی سزا کا مزا ان کو چکھا دے۔ شاید کہ وہ اپنے ان اعمال سے باز آجائیں۔
اس قسم کے مضامین کلام پاک میں دو چار جگہ نہیں، سیکڑوں جگہ وارد ہیں۔ پہلی آیت کے متعلق حضرت علی رضی اﷲ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھ سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس آیت کی تفسیر تجھے بتاتا ہوں۔ اے علی! جو کچھ بھی تجھے پہنچے مرض ہو یا کسی قسم کا عذاب ہو، یا دنیا کی کوئی مصیبت ہو، وہ اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی ہے۔ حضرت حسن رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، کسی لکڑی کی خراش یا کسی رگ کی حرکت کرنا، یا قدم کی لغزش (ٹھوکر کھا جانا) یا پتھر کہیں سے آکر لگ جانا، جو کچھ بھی ہوتا ہے کسی گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے۔
حضرت ابو موسی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ کسی بندہ کو کوئی زخم یا اس سے بھی کم درجہ کی کوئی چیز پہنچتی ہے، وہ کسی اپنی ہی کی ہوئی حرکت سے پہنچتی ہے۔ حضرت عمران بن حُصین رضی اﷲ عنہ کے بدن میں کوئی تکلیف تھی۔ لوگ عیادت کے لیے آئے اور افسوس کرنے لگے۔ فرمایا: ’’افسوس کی کیا بات ہے، کسی گناہ کی وجہ سے یہ بات پیش آئی ہے‘‘۔ حضرت ضحاک رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ جو شخص قرآن پاک پڑھ کر بھول جاتا ہے، وہ کسی گناہ کی بدولت ہوتا ہے۔ پھر یہی آیت تلاوت فرمائی اور فرمانے لگے کہ قرآن شریف کو بھول جانے سے بڑھ کر مصیبت اور کیا ہو سکتی ہے۔ حضرت اسماء رضی اﷲ عنہا، حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی صاحبزادی کے سر میں درد ہوا تو سر پر ہاتھ رکھ کر فرمانے لگیں کہ میرے گناہوں کی وجہ سے ہے۔ (در منثور، ابن کثیر)
اگرچہ بعض اوقات مصائب اور حوادث کے اسباب کچھ اور بھی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اور معصوم بچوں کو بھی ابتلا ہوتا ہے، جو اپنے مواقع پر مذکور ہیں۔ مجھے اس جگہ ان آیات و احادیث کی شرح کرنا مقصود نہیں ہے کہ جملہ احتمالات اور اشکالات کو ذکر کروں۔ میرا مقصود صرف یہ ہے کہ ان آیات اور احادیث میں ایک ضابطہ ارشاد فرمایا گیا ہے اور ان حوادث اور آفات کا ایک خاص سبب بیان کیا گیا ہے اور وہ سبب اس قدر قوی ہے کہ اس کے زہریلے اثرات میں بسا اوقات وہ لوگ بھی گرفتار ہو جاتے ہیں جو ان معاصی میں مبتلا نہیں ہیں۔ چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد ہے، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، اس اُمّت کے آخر زمانہ میں خسف ہوگا (زمین میں آدمیوں اور مکانوں کا دھنس جانا) اور مسخ ہو گا (کہ آدمی کتے اور بندر وغیرہ کی صورتوں میں ہو جائیں گے) اور قذف ہو گا (کہ آسمان سے پتھر برسنے لگیں گے)، کسی نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہم اس حالت میں بھی ہلاک ہو سکتے ہیں کہ ہم میں صلحاء موجود ہوں۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں جب خباثت کی کثرت ہو جائے (اشاعت بروایت ترمذی وغیرہ)
خباثت کی کثرت کے وقت صلحاء کی موجودگی میں بھی عذاب ہو سکتا ہے اور یہ ارشاد تو متعدد احادیث میں مختلف عنوانات سے وارد ہوا ہے کہ نیک کاموں کا آپس میں ایک دوسرے کو حکم کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو، ورنہ حق تعالیٰ شانہ تم پر اپنا عذاب مسلط کر دیں گے۔ بعض احادیث میں ہے کہ جس جماعت میں کوئی ناجائز بات جاری ہو اور وہ جماعت اس کے روکنے پر قادر ہو اور نہ روکے تو مرنے سے پہلے حق تعالیٰ شانہ اس جماعت کو کسی عذاب میں مبتلا فرما دیں گے۔ ایک حدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ شانہ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ایک مرتبہ کسی آبادی کے الٹ دینے کا حکم فرمایا، انھوں نے عرض کیا کہ اس آبادی میں فلاں بندہ ایسا ہے جس نے کسی وقت بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔ ارشاد ہوا کہ یہ صحیح ہے مگر میری وجہ سے کبھی بھی اس کی پیشانی پر بل نہیں پڑا۔ مطلب یہ ہے کہ میری نافرمانیاں ہوتے ہوئے دیکھ کر رنج اور غصہ بھی نہیں آیا کہ یہ ادنیٰ درجہ ہے۔ (مشکوٰۃ، باب الامر بالعروف)
اس قسم اورسیکڑوں احادیث نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے منقول ہیں، جن کا احاطہ دشوار ہے کہ ان میں ناجائز کاموں کو دیکھ کر کم از کم غصہ اور رنج نہ ہونے پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ یعنی ان کے روکنے پر اگر قدرت نہ ہو تو کم سے کم درجہ ان کو دیکھ کر رنج ہونا ضروری ہے، اب ہم لوگ اپنے حالات کو دونوں قسم کے ارشادات پر جانچ لیں کہ کس قدر معاصی اور گناہوں میں ہر وقت خود مبتلا رہتے ہیں اور سابقہ آیات و احادیث کی بنا پر کتنے حوادث اور عذاب ہم پر مسلط ہونا چاہیےں اور اس کے ساتھ ہی اپنے اعمال کو چھوڑ کر اﷲ کی کتنی نافرمانیاں ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور پھر کتنا اضطراب اور بے چینی ہم کو ان کے دیکھنے سے ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں کیا تو ہم لوگوں کی دعائیں قبول ہوں اور کیا ہماری پریشانیاں دور ہوں، یہ تو اﷲ کی رحمت اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف نسبت اور ان کی مقبول دعاؤں کی برکت ہے کہ سب کے سب ہلاک نہیں ہو جاتے۔ ہمارے حالات یہ ہیں کہ ہر معصیت ہمارے یہاں قابلِ فخر ہے اور بر بددینی ترقی کا راستہ ہے اور ہر کفریات بکنے والا روشن خیال ہے اور اس پر کوئی شخص نکیر کر دے یا کرنا چاہے وہ گردن زدنی ہے، کٹ ملا ہے۔ دنیا کے حالات سے اور ضروریات زمانہ سے بے خبر ہے۔ جاہل ہے، ترقی کا دشمن ہے، ترقی کے راستہ میں روڑے اٹکانے والا ہے۔ ببیں تفاوت رہ از کجا اشب تا بکجا۔ یہ تو کلی ارشادات تھے، اب مثال کے طور پر چند جزئیات کو بھی دیکھتے جاؤ۔
مذہب اسلام میں ایمان کے بعد سب سے اہم درجہ نماز کا ہے۔ بہت سی احادیث میں نماز کے چھوڑنے کو کفر تک پہنچانے والا بتایا ہے۔ اسلام اور کفر کا امتیاز ہی، نماز کو بتایا گیا ہے۔ نماز کے چھوڑنے میں کتنے دینی اور دنیوی نقصانات ہیں، ان کو مختصر طور پر میں اپنے رسالہ فضائل نماز میں ذکر کر چکا ہوں، یہاں اعادہ کی ضرورت نہیں۔ لیکن کتنے مسلمان ہیں جو اس اہم فریضہ کا اہتمام کرتے ہیں اور اس سے بڑھ کریہ کہ نہ پڑھنے والوں کو ٹوکنے کی بھی کسی کی مجال نہیں ہے کسی غریب مسلمان کو ٹوکا جا سکتا ہے لیکن کسی اعلیٰ طبقہ کے مسلمان کو بھی کہا جا سکتا ہے؟ جن لوگوں کی جیب میں چار پیسے ہیں، یا کوئی معمولی سی حکومت یا ریاست ان کو ملی ہوئی ہے، کسی کی مجال ہے کہ ان کو تنبیہ کر سکے؟ کیا ممکن ہے کہ ان کی عالی بارگاہ تک اس اہم فریضہ کو چھوڑنے پر کوئی نکیر پہنچ سکے۔ کوئی بھی علی الاعلان کہتا ہے کہ نماز کوئی عبادت ہی نہیں، اس کو ٹوکنا درکنا، اس کی مدح سرائی کی جاتی ہے۔ وہ علامہ ہے، مسلمانوں کے درد کا درمان ہے۔ وقت کی ضرورت کو سمجھنے والا ہے۔ اس کے خلاف جو آواز اٹھائے، وہ جاہل ہے۔ دو رکعت کا امام ہے، جو نہ مصلحت وقت کو سمجھتا ہے اور نہ مسلمانوں کی ضرورت سے واقف ہے۔ نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے، مگر ان کے اتباع کا دعویٰ کرنے والا شخص کہتا ہے کہ یہ ایک فالتو چیز ہے، اس پر اس کو دقیق نظری، باریک بینی کا تمغہ ملتا ہے۔ یہ واقعات ہوں اور پھر مسلمان اپنے مصائب اور حوادث کی شکایت کریں۔ ایسے حالات میں ہم پر جو بلائیں نازل ہوں، وہ سب اس سے کم ہیں، جس کے ہم اپنے اعمال سے مستحق ہیں اور صرف اﷲ کا رحم و کرم ہے، اس کی رحمت و علم کی وسعت ہے کہ ہم صفحۂ ہستی پر موجود ہیں۔
(جاری ہے)