بنتِ یاسین
28اکتوبر 2018ء ، مسلمانانِ پاکستان کے لیے ایک سیاہ دن رہا۔ یہ دن اپنے جلو میں ہمارے لیے غم اور دکھ کی سیاہ بدلیوں کو لے کر آیا۔ یا یوں کہہ لیں کہ ہماری دینی شوکت و احتشام کے لبادے پر نکبت کے سیاہ چھینٹے اڑاتا ہوا طلوع ہوا۔ اب اس دن میں ایسی کیا بدشگونی تھی، اس کے لیے ہمیں ماضی کے کچھ اوراق پر نظر ڈالنی ہو گی، جوکہ تھوڑا تفصیل طلب، دل گردے کا کام ہے۔
14جون 2009ء کو فالسے کی فصل میں کام کرنے والی آسیہ مسیح نے نبی آخر الزماں حضرت ختمی مرتبت سیدنا ومولانا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور قرآن پاک کی شان میں گستاخی کی۔ اس غلیظ و ناپاک حرکت کی عینی شاہد خواتین اسماء بی بی و ملفوفہ بی بی اور یاسمین خاتون تھیں، جب اس واقعے کی شہرت عام ہوئی تو یہ معاملہ گاؤں کی پنچائیت میں لایا گیا اور وہاں کے امام مسجد ، قاری محمد سلام صاحب اس معاملے کو تھانے تک لے کر گئے۔
پولیس کی جانب سے چالان پیش کیا گیا اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ننکانہ صاحب نے زیر دفعہ 295-Cتعزیرات پاکستان کے تحت کارروائی کا آغاز کیا۔ سیشن کورٹ نے 8-11-2010کو معلونہ آسیہ کو پھانسی کی سزا مع ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی۔
ملعونہ کے شوہر عاشق مسیح نے ہائی کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل درج کراوئی لیکن یہاں بھی شواہد و گواہیوں کی قوت اور ثبوتوں کی دستیابی کی وجہ سے اسے منہ کی کھانی پڑی، لیکن اسی کیس پر سپریم کورٹ کے جج چیف جسٹس آف پاکستان، ثاقب نثار نے ملعونہ کو ہر جرم سے بری کر دیا۔
28اکتوبر 2018ء کو چیف جسٹس نے فیصلہ سنایا اور اس فیصلے کو انھوں نے عوام الناس کے لیے اردو میں بھی پیش کیا۔ چیف جسٹس نے اس کیس پر 10اعتراضات پیش کیے۔
(1) وقوعہ 14جون 2009ء کو پیش آیا، لیکن رپورٹ 5دن بعد 19جون کو کروائی گئی۔
(2) گواہی صرف تین خواتین نے دی، جبکہ اس موقع پر 25-35لوگ تھے، انھوں گواہی کیوں نہیں دی۔
(3) اسماء بی بی اور ملفوفہ بی بی نے اس بات سے انکار کیا کہ ان کا آسیہ بی بی سے پانی پلانے پر کوئی جھگڑا نہیں ہوا، جبکہ دیگر گواہوں نے یہ بات تسلیم کی ہے۔
(4) سب سے اہم بات یہ کہ مختلف گواہوں کے بیانات میں فرق تھا، جب آسیہ بی بی کا معاملہ پھیلا تو ایک عوامی اجتماع بلایا گیا۔ اس اجتماع میں موجود شرکاء کی تعداد کے بارے میں گواہان کے بیانات میں فرق ہے۔
(5) اس عوامی اجتماع کی جگہ کے بارے میں اختلاف ہے، یعنی یہ اجتماع کس جگہ منعقد ہوا۔
(6) اجتماع میں آسیہ بی بی کے لانے پر بھی اختلاف ہے، ایک نے کہا کہ اسے یاد نہیں، دوسرے نے کہا موٹر سائیکل پر ملزمہ کو لایا گیا، جبکہ تیسرے نے کہا سائیکل پر لایا گیا۔
(7) اس اجتماع کے وقت اور دورانیے کے بارے میں اختلاف ہے۔
(8) ملزمہ کی گرفتاری کے وقت متعلقہ انسپکٹر محمد ارشد کے بیانات میں تضاد ہے۔
(9) ملزمہ کا بیان ایسے مجمع کے سامنے لیا گیا جو اس کو مارنے پر تلے ہوئے تھے، اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
(10) آسیہ بی بی نے قانون کے تحت جو بیان دیا اس میں انھوں نے قرآن پاک کی مکمل تعظیم کا اظہار کیا اور تفتیشی افسر سے بائبل پر ہاتھ رکھ کر اپنی معصومیت ثابت کرنا چاہی، لیکن تفتیشی افسر نے اجازت نہ دی۔
اب ان اعتراضات کے جوابات بھی ملاحظہ فرمائیں۔
(1) پاکستان کے قانون کے مطابق توہین رسالت کا مقدمہ عام F.I.Rکی طرح نہیں درج کروایا جا سکتا، بلکہ اس کے لیے ریاست ایک افسر مقرر کرتی ہے۔ اب اس افسر کی تفتیش میں چار یا پانچ دن کا لگنا ایک منطقی بات ہے۔
(2) پانی پینے سے منع کرنے پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یا قانون کی بے ادبی کرنا جائز ہے؟
(3) اس پنچائیت کا مقصد سزا نافذ کرنا نہیں تھا، بلکہ اس بات کی تصدیق کرنا تھا کہ کیا واقعی یہ بات ہوئی ہے۔
(4) اس سزا کو نہ صرف سیشن کورٹ بلکہ ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔
(5) گواہی کے لیے یاسمین بی بی پیش نہ ہوئی، گواہی کے لیے پیش نہ ہونا اور گواہی سے منکر ہو جانا دو مختلف باتیں ہیں۔
(6) واقعہ فالسے کے باغ میں ہوا، باغ میں لوگ ٹولیوں کی صورت میں کام کر رہے ہوتے ہیں، لہٰذا وقوعہ پر ہونے کی وجہ سے وہ جھگڑے کے تو گواہ ہیں، لیکن اس غلیظ حرکت کا ارتکاب ان کے آنے سے قبل ہو چکا تھا۔ یہ بات F.I.Rمیں موجود ہے۔
(7) یہ وقوعہ باغ میں ہوا، جہاں لوگ کام کر رہے تھے، خلقتِ خدا ہاتھ میں گھڑیاں نہیں لے کر گھوم رہی تھی۔
(8) اس کی تفتیش S.Pرینک کے افسر نے کی ہے، اس کا ذکر خود سپریم کورٹ کے فیصلے میں ہے۔
(9) سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ کے وکلاء نے مکمل طور پر لڑا ہے، یہ الزام لغو ہے۔
(10) گواہ پیش نہ ہوا، جبکہ آسیہ ملعونہ اپنے حق میں گواہ پیش کرنا تو دور اس کے شوہر نے بھی بائبل پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے سے انکار کر دیا۔
معاملہ صرف آسیہ ملعونہ کو پھانسی دینے یا نہ دینے تک محدود نہیں، یہ معاملہ ہے دین اور شعائرِ دین کے تحفظ کا۔ اگر آج یہ معاملہ اﷲ کے حوالے کر کے چھوڑ دیا گیا تو کل کو کوئی اور ملعون ایسی غلیظ حرکت کا ارتکاب کر سکتا ہے۔ کیا دینِ اسلام ایسی گری پڑی چیز ہے کہ جس ملعون دماغ میں جو بات آئے کہتا پھرے اور آخر میں معافی مانگ لے۔
اس کیس کی شروعات میں ہی سلمان تاثیر نے خلافِ قانون و آئین مجرمہ کو تحفظ پہنچانے کی کوشش کی اور اس کے اپنے باڈی گارڈ ممتاز قادری (شہید) نے اس کو جہنم واصل کیا، اسی کیس کے سلسلے میں اقلیتی برادری کے وزیر کو بھی قتل کیا گیا۔ سرکاری عہدوں پر فائز دو اہم افراد کا قتل ہوا، ممتاز قادری کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ کیا اسی سے حکمران واقعے کی سنگینی کا اندازہ نہیں لگا سکے؟ کیا یہ واقعہ اتنی چھوٹی حیثیت رکھتا ہے کہ معافی مانگ لینے پر ختم ہو جائے؟
ہارون الرشید نے امام مالک رحمہ اﷲ سے پوچھا:
’’کسی جگہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہو جائے، تو اُمّت محمدیہ کیا کرے؟‘‘
امام مالک رحمہ اﷲ نے فرمایا:
’’اُمّت فوراً بدلہ لے‘‘
ہارون رشید نے پوچھا اگر امت ایسا نہ کر سکے تو امام مالک رحمہ اﷲ نے تاریخی الفاظ فرمائے:
’’پھر اُمّت کو مر جانا چاہیے‘‘
اس فیصلے پر علماء حضرات نے جمعرات ، جمعہ اور ہفتہ پرامن احتجاج کیا۔ سوشل میڈیا نے اسی احتجاج کی ایک خوفناک شکل دکھائی کہ عاشقانِ رسول،کیلے کی ریڑھی کو اور بیکری کو لوٹ رہے ہیں۔ سڑکوں پر توڑ پھور، عمارتوں کا جلاؤ گھیراؤ کر رہے ہیں، اس طرح کی کئی تصاویر اور ویڈیوز نظروں سے گزریں، جس کے نتیجے میں کچھ رضا کار حرکت میں آئے اور باقاعدہ اس کیلے والے، بیکری والے اور جوجگہیں جلتی ہوئی دکھائی جا رہی تھیں، وہاں جا کر تفتیش کی تو ایسی کوئی صورتحال نظر نہ آئی۔ ہاں البتہ کچھ تصاویر کا تعلق پچھلے عرصے میں پیش آنے والے تحریک انصاف کے دھرنوں سے ضرور جا ملا۔
بہرحال اس احتجاج کا اختتام مولانا سمیع الحق کی شہادت پر ہوا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس پہیہ جام ہڑتال کا اختتام مولانا کی شہادت پر ہوا، کیونکہ یہ احتجاج تو تب تک چلے گا جب تک معلونہ کو پھانسی کی سزا نہ دے دی جائے ۔
کچھ خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ آسیہ ملعونہ کو باحفاظت بیرون ملک منتقل کر دیا گیا ہے، یعنی وہ بین الاقوامی دین دشمن آسیہ کو ریمنڈ ڈیوس کی طرح نکال کر لے گئے ۔ جی ہاں! وہی ریمنڈ ڈیوس جس نے یہاں ایک کار حادثے میں دو جانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، لیکن اس پر کوئی کارروائی ہونے سے قبل ہی اسے بیرون ملک بھجوا دیا گیا۔
جب عدالتیں اس طرح کے سیاہ فیصلے کرنے لگیں، جب حق گوئی اور انصاف کے معاملے میں بانجھ ہو جائیں تو ’’غازی علم دین‘‘ جیسے گوہر نایاب منظر عام پر آتے ہیں، جو عدالتوں کے بجائے اپنی تلوار کی نوک پر فیصلے کرتے ہیں۔ اب یا تو حکومت پھر سے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے یا پھر اس بات کو یاد رکھے کہ ہم وہ ’’چھوٹا طبقہ ‘‘ ہیں جو دین کے نام مرنے اور مارے جانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔