سید محمد کفیل بخاری
نیب کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید، اڑھائی کروڑ ڈالر، پندرہ لاکھ پاؤنڈ (تقریباً پونے چار ارب روپے) جرمانہ، العزیزیہ اور ہل میٹل جائیدادیں ضبط کرنے کی سزا سنادی۔ نواز شریف کو عدالت سے گرفتار کر کے اڈیالہ جیل راولپنڈی اور بعد ازاں کیمپ جیل لاہورپہنچا دیا گیا۔ جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کردیا۔ دلچسپ اور معنی خیز امر یہ ہے کہ فلیگ شپ ریفرنس میں سپریم کورٹ نے انہیں نا اہل کر کے وزارت عظمی سے فارغ کیا تھا اور ریفرنس تحقیقات کے لیے نیب کو بھیج دیا تھا، نیب نے اس کیس میں انہیں بری کردیا۔
نواز شریف کے سیاسی مخالفین اس سزا کو جو بھی رنگ دیں لیکن ہمارے نزدیک یہ مکافات عمل ہے۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے تینوں ادوار میں اسلام کے نام پر عوام سے ووٹ لیا لیکن اسلام پسندوں اور مذہبی جماعتوں کے کارکنوں پر بے انتہا ظلم کیا۔ انہیں جیلوں میں پابند سلاسل کیا اور جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کیا۔ اسلام کے نام پر جتنا دھوکہ اور ظلم شریف برادران اور اُن کی مسلم لیگ نے کیا وہ تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ پیلپز پارٹی کا معاملہ مختلف ہے۔ اس نے کبھی اسلام کے نام پر ووٹ نہیں مانگے۔ ایک سیکولر پارٹی کی حیثیت سے سیکولر ایجنڈے پر ووٹ لیے گوکہ مقاصد دونوں کے ایک ہی رہے اور اب تک ہیں لیکن مسلم لیگ کی نسبت مذہبی قوتوں کو کم نقصان پہنچایا۔ البتہ ملکی وقومی دولت لوٹنے میں دونوں نے ریکارڈ قائم کیے۔ نواز شریف کو سزا سنادی گئی اور آصف زرداری سننے کے منتظر ہیں
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے چار ماہ ہوچکے ہیں۔ انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد مسلسل اپنے مؤقف کو دہرایا کہ وہ ریاست مدینہ کی طرز پر نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ یہ ایک نہایت خوبصورت اور دلکش نعرہ ہے جس کی کوئی بھی مخالفت نہیں کرسکتا۔ وزیر اعظم نے احتساب اور انصاف کا نعرہ بھی لگایا اور کرپشن (بد عنوانی وبد دیانتی) کے خاتمے کا اعلان بھی کیا۔ پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم کرنے اور قرضوں سے نجات دلانے کی نوید مسرت بھی سنائی۔ اس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے انہوں نے سو دنوں کا ہدف بھی دیا لیکن افسوس کہ انہوں نے اور اُن کی نالائق ٹیم نے ایک سو بیس دنوں میں تمام اقدامات اپنے منشور اور نعروں کے برعکس کیے:
(۱) عاطف میاں جیسے علانیہ قادیانی کی اقتصادی کونسل میں نامزدگی اور عوامی مطالبے پر اخراج
(۲) مذہبی آزادیوں کے حوالے سے امریکی دباؤ پر قانون توہین رسالت میں تبدیلی کی مسلسل کوششیں
(۳) قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی آئینی شق کو ختم کرنے یا کم از کم غیر مؤثر کرنے کی کوشش اور مذہبی آزادیوں کے نام پر قادیانیوں کو اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کی غیر اعلانیہ آزادی
(۴) شراب پر پابندی کا بل مسترد
(۵) بسنت جیسے ہندو تہوار پر پابندی کا خاتمہ اور سرکاری سرپرستی میں منانے کا فیصلہ
(۶) 1100نئے سینما گھر بنانے اور آباد کرنے کے لیے 1400ارب روپے دینے کا فیصلہ
(۷) گستاخ رسول آسیہ مسیح کی بریت ورہائی اور علماء جیلوں میں قید
(۸) اسلامیات کا مضمون پڑھانے کے لیے غیر مسلم اساتذہ کے لیے 5فیصد کوٹہ مختص
(۹) دینی مدارس کے گرد گھیرا تنگ کرنے، مدارس بند کرنے، رجسٹریشن نہ کرنے اور نصاب میں تبدیلی کے ظالمانہ اقدامات
یہ سلیکٹڈ حکمرانوں کی نام نہاد ریاست مدینہ کی ایک بھیانک جھلک ہے پاکستان کا آئین ایک اسلامی آئین ہے۔ جس کے مطابق ریاست کا مذہب اسلام ہے اور اسلام کے خلاف کوئی آئین سازی نہیں ہوسکتی لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ بقول شاہ نواز فاروقی
’’آئین سے اسلام کو نکلنے ہی نہیں دیا گیا بلکہ اسلام کو آئین میں قید کر دیا گیا ہے‘‘
آئین سازی کی تاریخ میں قراردادِ مقاصد سے لے کر 1973ء کے متفقہ آئین تک ایک طویل جدوجہد ہے جسے پاکستان کی پارلیمنٹ اور حکومت وحزبِ اختلاف میں بیٹھے سیکولر انتہا پسند اور لبرل فاشسٹ نے پینتالیس سال سے تباہ کرنے کے مذموم سعی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسلام کو ریاست کے سرکاری مذہب کے طور پر پہلے قبول کیا نہ اب اور آئندہ بھی قبول نہیں کریں گے۔ ان کے نزدیک آئین میں موجود تمام اسلامی دفعات ریاست کے لیے مضر ہیں وہ ستر برسوں سے پاکستان کو ایک لبرل اور سیکولر ریاست، جناح اور اقبال کے نظریہ وفکر کے علی الرغم کے طور پر متعارف کرانے میں مصروف ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ایک دوسرے کے شدید مخالف اور دشمن ہونے کے باوجود اسلام کے خلاف متحد ہیں۔ تازہ ترین مثال حکمران پارٹی تحریک انصاف کے ہندو اقلیتی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار کی طرف سے شراب پر پابندی کا بل ہے۔ جسے تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے متفقہ طور پر مسترد کردیا۔ صرف متحدہ مجلس عمل نے بل کی حمایت کی۔
نام نہاد ریاست مدینہ کے دوجری ترجمان، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اور پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض چوہان جو ’’عمرانی‘‘ ریاستی بیانیہ جاری کررہے ہیں وہ ’’دیسی منہ ولایتی چیخوں‘‘ کا منظر پیش کررہا ہے۔
فواد چودھری نے کہا کہ:
’’رمیش کمار نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے شراب پر پابندی کا بل پیش کیا ہے۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ جس نے پینی ہے وہ پیے اور جس نے نہیں پینی وہ نہ پیے‘‘
فیاض چودھری نے بسنت کے جواز میں:
’’عید قربان پر بھی کئی لوگ زخمی ہوتے ہیں اور کئی مرتے ہیں تو پھر قربانی پر پابندی لگا دی جائے؟ بسنت ایک ثقافتی تہوار ہے ہم ضرور منائیں گے۔‘‘
کمال منطق اور بیانیہ ہے۔ دونوں شراب اور بسنت کو بہر صورت وبہر قیمت جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
وزیر اعظم کے ریاست مدینہ کے نعرے اور خواہش سے کون اختلاف کرسکتا ہے لیکن اس مقدس نعرے کی آڑ میں خلاف اسلام اور خلاف آئین اقدامات پر اعتراض واختلاف ہے۔ جس کے اظہار اور احتجاج کا حق ہمیں ریاست کے شہری ہونے کی حیثیت سے حاصل ہے۔
عمران خان نے کہا ہے کہ انہیں اپوزیشن کی ہر بات منظور ہے لیکن احتساب سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ خان صاحب! احتساب ضرور کریں اور بلا استثنا کریں۔ انصاف سب کو ملے اور کسی سے ناانصافی نہ ہو۔ لیکن ملکی آئین اور حلف کی پاس داری کریں، مذاق نہ اڑائیں۔ آپ ریات مدینہ تو کیا بنائیں گے، آئین میں طے ریاستی شناخت اور اسلامی دفعات کو ہی بچالیں تو بڑی بات ہوگی۔ فتح وکامرانی کے نشے میں سب کو لتاڑنے چتھاڑنے کی آرزو اور امنگ کے ساتھ ساتھ وہ اس حقیقت کو بھی یاد رکھیں کہ عارضی فتح پر تکبر کا نتیجہ دائمی شکست ہے۔ نواز شریف اور زرداری کا انجام تو وہ دیکھ ہی رہے ہیں اپنے انجام کی بھی فکر کریں۔ ایک دن احتساب اُن کا بھی ہونا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ایسے اقدامات سے بچیں جن سے اﷲ اور اس کی مخلوق ناراض ہو، اﷲ کے آخری رسول سیدنا محمد کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ناراض ہوں۔ اس کا انجام اﷲ کے غضب کے سوا کچھ نہیں۔ ذرا سپر پاور امریکہ کا انجام بھی سامنے رکھیں جو شام اور افغانستان میں بارود کی بارش کر کے، لاکھوں بے گناہوں کا قتل عام کر کے آج اپنی فوجیں واپس بلا رہا ہے۔
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے